فلسفہ اور منطق کے امام ،عربی اور فارسی کے جید عالم، بلند مرتبت شاعر و ادیب اور آزادی کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادی کی عظیم شخصیت سے کون واقف نہیں ہوگا۔ ان کا تعلق خیر آباد ضلع سیتا پور کے گہوارہ علم وادب کے خاندان سے تھا۔ جن کا نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔
ولادتِ باسعادت ۔۔ علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔،
تحریک آزادی کو فتویٰ “جہاد” سے ملا نیا رخ
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی
فتویٰ “جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا- دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی.الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتد و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ علم و فضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
وصال: جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر “آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔