ہندوستان کی مشہور و معروف خانقاہ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ میں 26 اگست بروز جمعہ کی شام حضور احسن العلماء حضرت سید مصطفی حیدر حسن رحمہ اللہ تعالی علیہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی یاد میں ایک پر کیف اور روح پرور محفل کا انعقاد کیا گیا جس کی سرپرستی حضور رفیق ملت دامت برکاتہم القدسیہ نے فرمائی اور صدارت ان کے برادر مکرم حضور شرف ملت حضرت سید اشرف میاں قادری برکاتی دام ظلہ العالی نے فرمائی۔ یہ نورانی و عرفانی محفل جامعہ احسن البرکات کے صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد عرفان ازہری کی زیر نگرانی ہوئی۔
محفل پاک کی ابتداء اسلاف کے طور طریقے کو اپناتے ہوئے تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔جس کے لیے حافظ و قاری نعمان برکاتی (جماعت اولیٰ) کو بلایا گیا اور انہوں نے بہترین انداز میں تلاوت قرآن پاک کرکے حاضرین کے دلوں کو محظوظ فرما یا پھر اس کے بعد جماعت ثالثہ کے طالب علم محمد رفیع نے کلام اعلی حضرت” ہے کلام الہی میں شمس الضحیٰ تیرے چہرئےنور فزا کی قسم”کو پرکشش انداز میں پڑھا اس کے بعد پھر نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لیے محمد اکرم (جماعت اعدادیہ) تشریف لائے بعدہ جماعت کی فضیلت کے ایک ہونہار طالب علم فخر عالم نے حضور شرف ملت کی ایک بہترین منقبت “اس سخی کے ہاتھوں نے خوب خوب بانٹا تھا” جوانہونے اپنی والدہ ماجدہ کی یاد میں رقم فرمائی تھی ۔جس کو سن کر محفل پر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔فری وی نعت و منقبت کا سلسلہ چلتا رہا اور ناظم بزم حضرت قاری عرفان صاحب برکاتی نے جامعہ کے ایک بہترین عالم و فاضل حضرت علامہ مولانا محمداسلم نبیل ازہری صاحب کو نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت سخن دی حضرت اسلم نبیل ازہری صاحب حضرت نظمی علیہ الرحمہ کا مشہور زمانہ کلام”بسی ہے جب سے وہ تصویر یار آنکھوں میں”کو اپنی بہترین لب و لہجہ میں پیش فرما کر محفل کو لطف اندوز فرمایا، پھر اس کے بعد محفل کا رخ نظم سے نثر کی طرف منتقل ہوا اور خطاب نایاب کے لیے جامعہ کی ایک نہایت قابل عالم دین حضرت مولانا مفتی انیس القمر صاحب امجدی حفظہ اللہ ورعاہ کو دعوت دی گئی جنہوں نے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی زندگی کے انمول لمحات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، اور انہونے حضرت سیدہ محبوب فاطمہ نقوی رحمۃ اللہ علیہا کی وہ عادات کریمہ بیان فرمائی جن کا اب کسی عورت میں پایا جانا نا ممکن نظر آتا ہے اور موصوف کی خطاب سے مجلس پر کیف وسرور فرحت وانبساط کی لہر دوڑ پڑی بعدہ ابا حضور نے اپنی والدہ محترمہ کے اوصاف کریمانہ بیان فرمائے اور تمام حاضرین کو یہ درس دیا کہ جس طرح اپنے استاد، پیر اور دیگر علماء کرام کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیتے ہو یونہی اپنے والدہ کے ہاتھ پیر کو بوسہ دیا کرو پھر اباحضور نے حضرت قاری عرفان صاحب کو نعت پڑھنے کے لئے مدعو فرمایا اس کے بعد حضور شرف ملت نے اپنے مشفقہ سیدہ عابدہ زاہدہ والدہ ماجدہ کے کچھ قصائص بیان فرمائے اور انہوں نے اپنی گفتگو ایک مشہور شاعر نور کے اس شعر “میں تو غزل سناکے اکیلا کھڑا رہا_ سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے”پر مکمل فرمائی،اس کے بعد صلاۃوسلام و فاتحہ خوانی پر محفل اختتام پزیر ہوئ اور چلتے چلتے ابا حضور نے حیدر آباد کے ایک بی جے پی لیڈر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہنے کی بنا پر پر زور مذمت فرمائی ۔
رپورٹ:
محمد ہلال احمد احسنی (درجہ فضیلت)
متعلم جامعہ أحسن البرکات، مارہرہ شریف.