WebHutt

مزارات اولیا اور تعلیمات اعلی حضرت، از: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال


اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی ہمہ گیر،نابغئہ روزگار اور عبقری شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی 65 سالہ مختصر سی زندگی میں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے تقریبا 65 علوم و فون پر مشتمل ایک ہزار کتب و رسائل تصنیف فرمائی ،جس وقت چند ایمان فروش مولوی اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی شان و عظمت میں گستاخیاں کر کے طرح طرح کے فتنے برپا کرنے لگے اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دلائل و براہین کی روشنی میں درست عقائد و نظریات کی رہنمائی بھی فرمائی اور عشق رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی کہ جس کی لو قیامت تک نہیں بجھے گی،
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کنزالایمان اور فتاویٰ رضویہ جیسی عظیم الشان نعمت سے نواز کر امت پر احسان عظیم فرمایا، علاوہ ازیں آپ نے امت کو ایسے ایسے نایاب تحفے عطا کیے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جاۓ گا
جب لوگ سنتوں کی روشنی سے دور اور بدعتوں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام بدعتوں کو جڑ سے ختم کیا اور ترک شدہ سنتوں کو زندہ کیا یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمة کو ماحئ بدعت (بدعت کو مٹانے والا ) حامئ سنت (سنت کی حمایت کرنے والا )کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے
جب لوگ اپنی جہالت کی بنا پر مزارات اولیا پرخرافات و منکرات کا بازار گرم کرنے لگے تو اعلی حضرت علیہ الرحمة نے ایسے لوگوں کی انتہائی تردید فرمائی اور تمام تر خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا
مزارات اولیا اور اعراس کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی چند گراں قدر تحقیقات ہم قارئین کی نظر نواز کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں
مزارات کے آگے سجدہ کرنا
بعض نادان قسم کے لوگ مزارات اولیا کو چومنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ سجدے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ایسے لوگ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمة کی تعلیمات سے آشنا ہوتے تو ہرگز یہ قبیح عمل انجام نہ دیتے ، اعلی حضرت علیہ الرحمة نے اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی

اس میں فرماتے ہیں:
” مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفویﷺ کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزّ جلالہ کے سوا کسی کے لئے نہیں- اس کے غیر کو سجدۀ عبادت یقیناً اجماعاً شرک مبین اور کفر مبین اور سجدہ تحیت (ادب کے لئے سجدہ کرنا )حرام و گناہ کبیرہ بالیقین”
(الزبدة الزکیہ لتحریم سجود التحیة ص 5 مجلس آئ ٹی ،دعوت اسلامی)
مزارات پر عورتوں کا جانا
آج کل مزاروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دگنی رہتی ہے، بعض عورتیں تو بےپردہ ہو کر چلی جاتی ہیں،مرد و عور ت کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر وہاں کے خدام عورتوں کے سر اور بدن پر ہاتھ اور جھاڑو پھیر تے ہیں ،اور بھی طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں ،
جب اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے فرمایا: “عنیہ میں ہے” کہ یہ نہ پوچھ کہ عورتوں کا مزار میں جانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ عزو جل کی طرف سے اور صاحب قبر کی جانب سے -جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک وہ واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ” سواۓ روضہ انورﷺکے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں “(ملفوظات اعلیٰ حضرت2 /315 مکتبة المدینہ)
مزارات میں چراغ وغیرہ جلانا کیسا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” کہ خاص قبر پر چراغ رکھنا تو مطلقاً ممنوع ہے اور اولیاۓ کرام کے مزارات میں اور زیادہ ناجائز ہے اس میں بے ادبی اور گستاخی اور حق میت میں تصرف و دست اندازی ہے “(احکام شریعت ۶۸/۱ جسیم بکڈپو جامع مسجد دھلی) اور اگر اس ارادے سے چراغ جلاتے ہیں کہ اس سے میت کو روشنی پہونچے گی ورنہ اندھیرے میں رہے گا تو فرماتے ہیں کہ “اب اسراف کے ساتھ اعتقاد بھی فاسد ہوا” (ایضاً ۶۹)
ایک جائز ہونے کی صورت یوں بیان کرتے ہیں کہ:” تالیان قرآن یا ذاکران رحمٰن کے لئے روشن کریں ،قبر سر راہ ہو اور نیت یہ کی جاۓ کہ گزرنے والے دیکھیں اور سلام و ایصال ثواب سے خود بھی نفع پائیں اور میت کو بھی فائیدہ پہونچائیں -یا وہ مزار ولی یا عالم دین کا ہے روشنی سے نگاہ عوام میں اس کا ادب و اجلال پیدا کرنا مقصود ہے تو ہرگز ممنوع نہیں
نوٹ:چونکہ آج کل مزارات میں روشنی اور لائٹ وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہے تو اب چراغ وغیرہ جلانا بے سود ،اسراف اور فضول خرچی ہے
فرضی مزار کے بارے میں حکم
کچھ لوگ محض ایک خواب کی بنیاد پر فرضی اور مصنوعی مزار بنا لیتے ہیں اور دھوم دھام کے ساتھ اس میں عرس،فاتحہ، نیاز اور چادروغیرہ چڑھانے لگتے ہیں،اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ ایسے مزار کے بارے میں حکم ارشاد فرماتے ہیں:”قبر بلا مقبور(فرضی قبر)کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال( چادریں چڑھانا، نیاز فاتحہ اور عرس وغیرہ )کرنا گناہ ہے، فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع (سننے کے لائق )نہیں ہو سکتی، (امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات ص 23)
طواف اور بوسئہ قبر
اس بارے میں جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا تو جواب میں ارشاد فرمایا :” بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور بوسئہ قبر میں علما کا اختلاف ہے اور احوط (زیادہ احتیاط)منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیائے کرام کے ہمارے علماءنے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو یہی ادب ہے”(احکام شریعت ۳/ ۲۳۴)
عرس وغیرہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی گانا
آج بہت سے مزاروں میں سالانہ عرس وغیرہ کے موقع پر تلاوت قرآن،نعت خوانی اور علمائے کرام کے بیانات کے بجائے ڈھول اور سارنگی کے ساتھ قوالی کا اہتمام کرتے ہیں جس میں حمد، نعت و منقبت براہ نام،گانے کے طرز پر قوالی گاۓ جاتے ہیں بعض جگہوں پر تو لڑکیوں کو بھی قوالی گانے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر دونوں فریقین کے درمیان گناہوں بھرا مقابلہ ہوتا ہے،
جب اعلی حضرت علیہ الرحمة سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کی مذمت کرتے یوۓ فرماتے ہیں کہ:”کہ ایسی قوالی حرام ہے -حاضرین سب گنہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے -اور قوالوں کا بھی گناہ عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے، یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو-نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ ،اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ،اور سب حاضرین کے برابر جدا ،اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا ،اور سب حاضرین کے برابرعلٰحیدہ،وجہ یہ ہی کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا،ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا،اگر وہ سامان نہ کرتا ،یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑھتے-اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا -پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا- وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیوں کرآتے بجاتے- لہذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا :”(احکام شریعت ۱ / ۲۳۴)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
فی زمانہ لوگ تو مزرات میں ڈھیر ساری امیدیں لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان کو حاضری کا طریقہ اور آداب معلوم نہیں ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ صاحب مزار کا روحانی فیضان سے محروم رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مسنون طریقہ اور آداب یوں فرماتے ہیں کہ :”مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چارہاتھ کے فاصلہ پر مُواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسّط آواز بادب سلام عرض کرے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیّدِی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ پھر درودِ غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار ، آیۃُ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار ، پھر درودِ غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرے کہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اس قراءت پر مجھے اتناثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اُتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اُسے میری طرف سے اس بندۂ خدامقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دعاکرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔‘‘ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت۱۰۶تا۱۰۸ مکتبة المدینہ)
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئ کہ اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ مزارات اولیا میں ہونے والے خرافات کے سخت مخالف تھے،اس کے باوجود بھی اگر نادان عوام مزارات میں جاکر ایسے خرافات انجام دیں تو ان کا اعلی حضرت علیہ الرحمةاور ہمارے اکابرین سے کوئی تعلق نہیں ، افسوس صد افسوس !کہ آج کچھ دریدہ دہن اعلی حضرت کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر ان کے خلاف بلا کسی تحقیق کے اپنی کتابوں اور جلسوں میں یہ جملہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ نے بدعات اور خرافات و منکرات کو فروغ دیا ،،حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی ان خرافات کو ختم کرنے میں صرف کردی ،یا تو یہ لوگ اعلی حضرت کے فتاویٰ کا علم نہ ہونے یا معاذ اللہ جھوٹ یا بغض و حسد کی وجہ سے یہ جملہ بول کر اعلی حضرت پر الزام عائد کرتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں،
مذکورہ تعلیمات ان لوگوں کے لئے بھی درس عبرت ہے جو کہ اعلی حضرت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کا نعرہ زور و شور سے لگاتے ہیں اور میدان عمل میں بہت پیچھے ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمات اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

Exit mobile version