تیرا مقصد ہے اگر زیست کو ذیشاں کرنا
خود کو سرکار کی ناموس پہ قرباں کرنا
صرف دنیا پہ نہیں جان کو قرباں کرنا
عاقبت کا بھی تمھیں چاہیے ساماں کرنا
بو ہریرہ ہو مبارک کرم دست حضور
شاہ کونین کا دور آپ کا نسیاں کرنا
ڈال دو آب دہن، دل کا کنواں ہو شفاف
صاحب معجزہ سرکار یہ احساں کرنا
عشق سرکار دوعالم کی ضیاپاشی سے
صاف و شفاف سدا قلب کا میداں کرنا
جسم کا سارا محل نور سے تابندہ رہے
دل کی دیوار پہ نام ان کا تو چسپاں کرنا
ان کی رنگت سے ہیں رنگین گل باغ سبھی
اس نزاکت کو بھی لازم ہے نمایاں کرنا
ورفعنا لک ذکرک سے ہے ثابت، ان کا
ذکر اونچا ہے بہت یاد تو قرآں کر ، نا
بعد عسر کا تصدق ہو عطا مجھ کو بھی
میری دشواری کو اللہ تو آساں کرنا
شاید آمد ہوئی ہے اس میں شہ خوباں کی
دل کے خانو ، ذرا مل جل کے چراغاں کرنا
ہاتھ وہ پھیر دیں تو چہرہ منور ہوجائے
واہ اس دست مقدس کا چراغاں کرنا
آزو بازو میں کوئی ہے تو رکھو اس کا خیال
سنت سرور کونین ہے احساں کرنا
سنت حضرت حسان و رضا ہے تاباں
اپنے اشعار میں سرکار کو عنواں کرنا
زیست کے چرخ میں ہر رات ہی کیا دن میں بھی
عشق سرکار کے تاروں کو نمایاں کرنا
مسلک حق پہ رضا کے ہوں میں قائم ہر دم
جسم باطل کو مرا کام ہے عریاں کرنا
محور عشق رہے ذات پیمبر ہی فقط
میرے اللہ مجھے ایسا مسلماں کرنا
ہم ہیں اسلام کے داعی کہ جہاں بھی جائیں
کام اپنا ہے بیاباں کو گلستاں کرنا
دونوں عالم میں اگر چاہتے ہو بہبودی
چاہئے تم کو خیال مہ جاناں کرنا
وہم کے خانوں میں لگ جائے تیقن کی آگ
قلب کو آپ سدا خانہء ایقاں کرنا
اس وسیلے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں
کرب کی آنکھ کو اک لمحے میں حیراں کرنا
سیرت سرور کونین پہ کہنا اشعار
اس طرح اپنے لیے خلد کا ساماں کرنا
آیت نصر کے صدقے اے مرے رب کریم
زندگی کو تو مری فتح کا ساماں کرنا
دست اقدس وہ لگادیں تو شجر پھل دے دے
ہم پہ لازم ہے یہ برکت کو نمایاں کرنا
نور کے گچھے نکلتے تھے اثر سے جس کے
وہ کشادہ مرے سرکار کا دنداں کرنا
اپنی دھرتی پہ شہ دین جو مبعوث ہوئے
ہم پہ اللہ کا ہے خاص یہ احساں کرنا
فتح خیبر کی خبر وقت سے پہلے دے دی
واہ سرکار کا اصحاب کو شاداں کرنا
فتح مکہ کی معافی یہ سکھاتی ہے سبق
در گزر کرنا ، ادا سنت ذیشاں کرنا
طائر قلب کی تسکین کی خاطر اے نفس
ذکر سرکار دوعالم تو ہر اک آں کرنا
خلد کی نہر شراب آپ ہی مجھ پر کرے رشک
میرے ساقی مجھے مست مءے عرفاں کرنا
عظمت حضرت عثمان ہے اس سے ظاہر
از طرف ان کے شہ دین کا پیماں کرنا
اپنے آقا ہیں کریم اور جواد اے “عینی “
کرنا ہے گر تو ربیعہ سا تم ارماں کرنا
۔۔۔۔
از قلم: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی