بزم حسان
ہے منظر آستاں کا کیف آور شاہ سمنانی
بجا ہوگا کہوں رشکِ جناں گر شاہ سمنانی
خوشا دوہری نجابت کا شرف تم کو میسر ہے
“گلستانِ سیادت کے گلِ تر شاہ سمنانی!”
جو دیکھی شانِ استغنا لبِ اظہار پر آیا
ہو بے شک پرتوِ فقرِ ابو ذر شاہ سمنانی
زمامِ اسپِ رفتارِ جہاں ہے تیری مٹھی میں
تو اقلیمِ تصرف کا سکندر، شاہ سمنانی
ترے سروِ تصوف کے علو و حسن کے آگے
نظر آتا ہے شرمندہ صنوبر شاہ سمنانی
بہارِ زندگانی مل گئی معشوقہ مورت کو
لگی جب آپ کے لفظوں کی ٹھوکر شاہ سمنانی
عجب کیا ہے ولی بن کر اٹھے انسان چوکھٹ سے
ولیہ بن گئی جب گربۂ در شاہ سمنانی
کرم فرمائیے جلدی منارِ حاضری پائے
دلِ نوری کا سرگرداں کبوتر شاہ سمنانی
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مدحت نگار
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی
۱/ صفر المظفر ۱۴۴۴ ہجری
۳۰/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی
بروز: منگل