خالق کائنات (جل جلالہ) نے جن اشیا کونیست سے زیست بخشی ان کی ہست میں قلم کو اولیت کا درجہ عطا فرمایا،اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ماسوا کے عدم و وجود،امکان و امتناع،زمان
ومکان،حرکت و سکون،عیش و انتقال اور ما کان
وما یکون کے لکھنے کا حکم اسی کو فرمایا، پھر اس
قلم نے لوح محفوظ پر جو نقوش چھوڑے انہیں کو زمانے نے تقدیر سے تعبیر کیا،حیوانات و جمادات
ونباتات اور تمام مشاہد و غیر مشاہد چیزیں انہیں
نقوش کے عکوس قرار پاۓ جن کے خالق (جل جلالہ)
اورمخبر (علیہ الصلوٰۃ والسلام) پر حاملینِ تاجِ کرامت کو”آمنا”کا اظہار باللسان اور تصدیق بالجَنان ضروری ٹھہرا،
قلم کا شرف و فضل اسی پر بس نہیں بلکہ خالقِ لوح و قلم نے اپنے خیر کلام(قرآن) میں اس کی قسم یاد فرما کر اس کی شان کو اَوج کی معراج عطا فرما دی، اس پر طرہ یہ کہ جس نوری و خالص روحانی مخلوق نے اس کا استعمال فرمایا ان کی بھی قسم اٹھائی، اور مالک کائنات ﷺ نےحربی مقیدین کو قلم کی خدمت کے عوض پروانۂ حریت عطا فرما کر اس کی علّوِشان کا عملی نمونہ پیش فرمایا، اور جن اصحاب و اخیار نے "حدیثِ" قلم میں مضمر افادیت کا فقہ جان لیا پھر تو انہوں نے اس کی تفسیر سے ایسے گراں قدر علمی احکام کا استنباط کیا کہ وہ حضرات خلق کثیر کے ما بین موجد "اصول" و "کلام" کا درجہ حاصل کر لئے،جہالت کو نوکِ قلم سے حیاتِ "منطق" کا ایسا فلسفہ سمجھایا کہ مارے شرم کے اب تک "نحوِ" حیا "صرفِ" نظر رہی ہے،جلالتِ قلم سے "بلاغت" "فصاحت" کے ساتھ جامۂ "تصوف" میں ناز کر رہی ہے،
آج کے اس مادہ پرست تمثال پسند دور میں بھی اصحاب علم و فضل کے لیۓ جو مراجع و مصادر کی حیثیت کی حامل ہستیاں ہیں، جن کے ڈنکے کی گونج اکناف عالم میں سنائی دے رہی ہے ان مقدس نفوس کے نقوش قلم ہی سے دل قرطاس میں محفوظ ہیں، اور علم دوست حضرات کے قلوب و اذہان ان ذوات مقدسہ کے بیش بہا قلمی کارناموں سے بہجت و سرور میں مخمور ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہ، جہاں سیف و سلاح کے ذریعے شجرِ اسلام کی افزائش میں حاجز، مذاھب باطلہ کے خاردار، غیر سودمند نباتات کی بیخ کنی کی گئی وہیں قرطاس و قلم کے ذریعے اس کے حدود کی پاسداری بھی کی گئی ،جہاں اس کی آبیاری میں شہداء اسلام کا خون شامل ہے وہیں اس کی رعنائی میں اصحاب قرطاس و قلم کی روشنائی کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،جہاں نہر فرات میں قتیلان شیوۂ صبر و رضا کے خون کی سرخی دوڑی وہیں عاشقان مداد و قلم کی روشنائی نے دریائے دجلہ کی شفافیت کا غرور توڑا ،ذرا غور و فکر کو زحمتِ توجہ تو دی جاۓ!کہ جہاں ہمیں اصحاب سیف و سلاح میں أسد اللہ ،صیف اللہ ،سید الشہدا،فاتحین قیصر و کسریٰ اور مسخرین یوروپ و ایشیا ملے، وہیں علم و قلم نے ہمیں رأس المفسرین ،حبر الامة،حدیث میں أمیر المؤمنین ،صدر المعلمین ،سید المتکلمین اور خاتم المحققین جیسے بے شمار علوم و فنون کے سمندروں سے روشناس کروایا کہ اکابر زمانہ آج بھی ان سے سیرابی حاصل کر رہے ہیں ،
کانپ تے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرماں رواؤں پہ بٹھاتا ہے قلم
صفحۂ قرطاس پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت و افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میدان سیف و فرس
سمٹ گیا اور بساط علم و قلم کو باقی رکھا گیا
اور آج بھی باقی ہے ،تو پھر مجاہدین نے اپنےقلم
ہی سے سیف کا کام لیا اور اپنے وقت کے طاغوت و فرعون کی سرکوبی کی،قسطنطینی اور یزیدی
قوتوں کے مجسموں کو پاش پاش کر کے رکھ دیا،
حق کے خاطر اٹھے اس قلم نےناجانے کتنے باطل
ایوانوں میں زلزلہ لا دیا،اور اصحاب خیر نے اس سے ایسے کارہائے خیر انجام دۓ جن کو سلاطین زمن اپنی
بے شمار افواج و سیوف سے بھی نہ دے سکے،
تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو
ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہےقلم سے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر بسنے والا ذی عقل و شعور اجناس و انواع،الوان و اقوام،ممالک و ادیان، مذاھب و مسالک کی بنیاد پر منقسم انسان،نا جانے کتنے بدیہی و غیر بدیہی افکار و نظریات میں آپس میں مختلف ہے، لیکن قلم کی عظمت شان کے اعتراف میں متحد ہے،
اسی لئے تو ارباب علم و معرفت اپنی توجہ وادئ قرطاس و قلم کی طرف مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے اصاغر کو اس وادی میں اترنے کا تاکیدی حکم فرماتے رہتے ہیں ،
خوشا نصیب ہیں وہ ذی علم حضرات جو خلوص و پاک نیت سے میدان قلم کی جانب اس جزبہ کے ساتھ سبقت کرتے ہیں،
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
*ہدیۂ تبریک*
ہندوستان کا ایک عظیم الشان مشرب علم و معرفت،
خانقاہ قادریہ برکاتیہ (مارہرہ شریف)کے زیر سایہ رواں دواں روز افزوں ادارے جامعہ احسن البرکات کے فیروز بخت، شاہیں مزاج، فرزندگان کی مجالِ تحریر کی طرف رغبت بھی ایک روشن مستقبل کی جانب غمازی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے، کیونکہ تحریر و کتابت کی یہ حس
و حرکت وہ بھی طالبان نو خیز سے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خزاں میں بادلوں کی بہار سے سرگوشی ہے،
خاک کے ڈھیر میں شراروں کی رمق ہے ،
خشک چمن میں خوشبوؤں کی مہک ہے،
ایام تیرگی میں روشنی کی دمک ہے ،
بوستانِ ویراں میں بلبل کی چہک ہے،
بلکہ یوں کہا جائے کہ خواب حسن کی
تعبیر میں تاروں کی چمک ہے،
اور یہ سلسلہ انہیں جزبات کے ساتھ یوں ہی چلتا رہا تو یقیناً آنے والے وقت میں خدمت دین کے حوالے سے ان شاء اللہ بہترین نتائج برآمد ہوں گے،
قابلِ تبریک و تحسین ہیں عزیزان گرامی مرتبت!
محمد حسن رضا احسنی (جماعت ثانیہ) عبدالقادر احسنی نانپاروی،شعیب رضا احسنی (ثانیہ) مولاناہلال رضا احسنی،محمد سلطان رضا احسنی،مولانا منتصر احسنی جن کی ابتدائی معلوماتی و تبصراتی اور تہنیاتی تحریروں سے آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی،
مولوی محمد ارقم رضا احسنی کے حضور تاج العلما
(علیہ الرحمہ) کی سوانح کے متعلق مقالہ کو پڑھ کر
بڑی شادمانی ہوئی،اور برادر صغیر مولانا توحید رضا احسنی، کے کتب بینی کے فوائد پر مشتمل عمدہ مضمون سےدل کو بڑی ٹھنڈک پہنچی،خصوصاً محب گرامی عزیزم مولانا محمد ہاشم رضا احسنی،جنہوں نے
مجاہدین جنگ آزادی کے بارے میں سادہ و شستہ،
پر مغز تحریر سے میرے ہی نہیں بلکہ اہل خیر کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنائی بعد ازاں جامعہ میناںٔیہ (گونڈہ) کے زیر اہتمام “آل انڈیا مسابقۂ خطابت” میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے بہتوں کو حیران و ششدر کر دیا،
اور ناقابل فراموش ہیں وہ حضرات بھی جنہوں نے بڑی جاں فشانی سے پے در پے جدارۓ چسپاں کۓ اور تحریر کی اس تازہ مہم میں اپنا حصہ ڈالا،لہذا درونِ خانہ نے اس پر راحت و فرحت،مسرت و شادمانی کے اظہار کو الفاظ کا لباس پہنانے پر ابھارا،
بلاشبہ آپ حضرات کی یہ کو ششیں اور کاوشیں تمام اساتذہ کی محنت اور رئیس الجامعہ حضور رفیق ملت”اب٘ا حضور”(دام ظلہ)کے خلوص و شفقت اور بزرگانِ مارہرہ کے فیضان و محبت کی مرہون منت ہیں،
قادر مطلق کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے بزرگوں اور
اساتذہ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائے،
ہمارے جامعہ احسن البرکات کو ہر آن ترقی عطا فرمائے،
ہمارےعلم و قلم میں راستبازی و زور اور عمل میں ثابت
قدمی عطا فرمائے،
مسلک اعلی حضرت پر گامزن قلم کا سچا سپاہی بناۓ،
اور ہم سے وہ کام لے جس سے تو اور تیرا محبوب راضی ہو جائے،
ارادہ تھامنےکاہےاب بازوۓ قلم
۔ قلم سے بہارِ دین کی رعنائی ہے
انوارِ نوری سے شمعِ شبستاں بنو
تمہارے قلم سے امید روشنائی ہے
*قلم کو اب تم بھی تھام لو رہبر *اس کی قسم تو رب نے اٹھائ ہے