WebHutt

“چشم دید” از قلم: محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

8/صفر المظفر 1444ھ مطابق 6/ ستمبر 2022 کی صبح “النقش کالحجر ” کی طرح میرے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ تقریباً صبح 7 بج کر 45 منٹ پر جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ) کی اسمبلی میں قبلہ پرنسپل صاحب نے اعلان کیا کہ” آج اہل سنت کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المبین صاحب نعمانی تشریف لا رہے ہیں۔ ” یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اب سے پہلے حضرت کی چند کتابیں اور مضامین پڑھ چکا تھا ۔(حضرت کی چالیس سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں)
آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ کہ بڑے بڑے بزرگوں سے فیض حاصل کرنے والا مرد قلندر، اپنے قیمتی نصائح سے سے ہماری جھولیاں بھرنے کے لیئے ،ہمارے درمیان تشریف لے آئے ۔ حضرت نے تقریباً 1 گھنٹہ 10 منٹ تک ہماری تشنگی کو دور کیا ، لیکن یہ تشنگی تو وعظ کے بعد اور زیادہ بڑھ گئی ۔ حضرت نے جو واقعات بیان فرمائے ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے یاد آتا ہے، کہ آپ نے پورے بیان میں کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں فرمایا جس کے آپ “چشم دید” گواہ نہ ہوں ۔سوائے ایک دو کے۔حضرت نعمانی صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ “میرا تجربہ ہے کہ طلبہ جمعرات کے دن خوب مستی کرتے ہیں ۔ پورا پورا دن کرکٹ کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ بلکہ چاہیے تو یہ تھا، کہ جمعرات کو خوب مطالعہ کرتے، درسی کتب یاد کرتے وغیرہ ۔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔” الحمدللہ! زمانۂ طالب علمی میں میرا طریقہ یہ تھا کہ ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ایک بات کہوں تو آپ لوگوں کو خراب لگے گی ، کہ “سب طلبہ سوتے تو میں پڑھتا”!۔ آج جو کچھ ہے اپنی محنت ہے ، بزرگوں کا فیض ہے، اساتذہ کا فیص ہے۔”
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ “جتنا زیادہ غور کرو گے اتنے زیادہ موتی پاؤ گے ” اگر آپ ان (مفتی صاحب کے) جملوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کامیابی کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں ۔ نمبر ایک ، محنت ، کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ، اگر کامیاب ہونا ہے تو راتوں کو جاگنا ہوگا۔ صرف اور صرف مطالعہ کے لیے نہ کہ موبائل کے لیے۔ شاعر کہتا ہے۔
بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالی”
یعنی کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔
اور دوسری چیز ہے۔ اساتذہ کا ادب، آپ کتنے ہی بڑے عالم ہو جائیں اگر اساتذہ کا ادب نہیں کرتے، تو وہ علم آپ کو کوئی نفع نہ دےگا۔ بقول شاعر۔
ما وصلَ مِن وصلٍ الا بالحُرمة
وما سقَط مِن سقطٍ الا بترك الحرمة
يعنی۔ جس نے جو کچھ بھی پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
حضور حافظ ملت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ۔ “حضرت جب سفر سے واپس آتے تو آرام گاہ نہ جاتے راستے میں جو طالب علم ملتا،فرماتے،جلد فلاں کلاس کے طلبہ کو بھیج دو !” آپ نے حضور حافظ ملت ، حضور مجاہد ملت ، حضور مفتی اعظم ہند اور علامہ ارشد القادری وغیرہ ، کے آنکھوں دیکھے واقعات بیان فرمائے۔
اگر موقع ملا تو ضرور سب کو ضبط تحریر کرنے کی سعی کروں گا (ان شاءاللہ)
آخر میں آپ نے خصوصی طور پر بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی، فرمایا۔ آپ ہر جمعرات کو ایک صفحہ ضرور لکھیں اور اپنے اساتذہ سے اس کی اصلاح کروائیں ۔ اس طرح آپ کی ایک کاپی تیار ہو جائے گی۔ “اور جتنا قلم گھسے گا اتنا ہی مضبوط اور بہتر ہوگا”۔۔

Exit mobile version