شہ مدینہ کے ہاتھ پر جب
غلام ان کا بکا ہوا ہے
لگائے کیا کوئی مول اس کا
وہ گوہر بے بہا ہوا ہے
ہے تو ہی وجہ وجودِعالم
ہیں تجھ سے حوا تجھی سے آدم
تری ہی نورانیت سے آقا
یہ سارا عالم سجا ہوا ہے
نہ کیسے ہو اس کے غم کا ساماں
غریب کیسے رہے وہ انساں
تمہارے در سے شہِ مدینہ
جسے بھی صدقہ عطا ہوا ہے
اسی کی خاطر ہے میزبانی
برائے موسیٰ ہے لن ترانی
وہ آمنہ کے جگر کا ٹکڑا
خدا کا مہماں بنا ہوا ہے
نگاہِ لطف و کرم ہو آقا
تمہی ہو دونوں جہاں کے ملجا
تمہارے در پر تمہارا منگتا
پسارے دامن کھڑا ہوا ہے
امیہ سے یہ بلال بولے
تو چاہے جتنا بھی ظلم کرلے
نہ چھوٹے گا مجھ سے ان کا دامن
یہ دل نبی پر فدا ہوا ہے
نصیب والوں میں نام آئے
صبا خدارا پیام لائے
شکیلِ خستہ چلو مدینہ
کہ اذنِ آقا ملا ہوا ہے
ازقلم محمد شکیل قادری بلرام پوری