ہجر کی رات ہے اور عشق کا مارا تیرا
وصل کی چاہ لئے پھرتا ہے شیدا تیرا
میکدے میں اسے آنے کی اجازت دے دے
مر ہی جاۓ نہ یہ میکش کہیں پیاسا تیرا
وقت کے شاہوں کو وہ بھیک دیا کرتا ہے
جس کو سب لوگ کہا کرتے ہیں منگتا تیرا
چاہے جو ہو وہ، نہیں لاتا ہے خاطر میں کبھی
شیر کو پھاڑ کے رکھ دیتا ہے کتا تیرا
جب جہاں جس نے پکارا ہے اسے پہنچی مدد
مشکلوں میں کبھی منگتا نہیں پھنستا تیرا
حکم سن کر ترا ہو جاتے ہیں مردے زندے
رب کو منظور ہوا کرتا ہے چاہا تیرا
دینے آتے ہیں فرشتے بھی سلامی تجھ کو
مرتبہ ولیوں میں ہے غوث انوکھا تیرا
قسمیں رب دے کے کھلاۓ بھی پلاۓ بھی تجھے
ان کی سرکار میں رتبہ ہے نرالا تیرا
تو نہ چاہے تو نہ دن نکلے نہ ہو رات کبھی
مہر و مہ پر بھی چلے حکم اے آقا تیرا
قادری لکھتا ہے اختر تو اسی نسبت سے
کام آۓ گا سر حشر یہ لکھنا تیرا
از قلم محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875