ہندوستان میں سب سے زیادہ پھیلنے والی لعنت جہیز ہے جو کہ غریب باپ کے لئے سب سے زیادہ مشکلیں کھڑی کر رہی ہے،
شمالی ہند میں یہ چلن کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے، چھوٹی سی چھوٹی شادیوں میں بھی موٹر سائیکل،فرج،واشنگ مشین،کولر،ڈبل بیڈ،سلائ مشین،سونے کی انگھوٹھی، کچھ نقد روپے، یہ امر لازم کی طرح مسلم کمیونٹی میں رائج ہے، اس پر ستم یہ کہ لڑکے والے اپنے تمام رشتے داروں کو باراتی بناکر چار پانچ سو افراد پر مشتمل لڑکی والوں کے سروں پہ عذاب کی طرح مسلط ہو جاتے ہیں،
اور وہاں پہنچ کر مغلیہ سلطنت کے وارثین کی طرح فرمائشیں کرتے ہیں، مرغے کی صحت مند ٹانگیں کہاں ہیں؟ مجھلی فرائ تو نظر نہیں آ رہی ہے، نل کا پانی کون پئے گا گلا خراب ہو جاے گا منرل واٹر کا بوٹل لائیے ، کولڈرنکس نظر نہیں آ رہی ہے کدھر ہے، بکرے کا سالن فرائ و بھنا ایک ساتھ لائیے ، کباب والا نظر نہیں آ رہا ہے، سلاد میں چکندر کم کیوں ہے؟
یا اللہ ان مفت خوروں پہ عذاب کیوں نہیں بھیج دیتا جو غریب بیٹی کے دروازے پر اپنے سارے شوق پورے کر رہے ہیں،
اب ذرا اس غریب بیچارے باپ کے بارے میں بھی غور کر لیں جو سالوں محنت کرکے ایک ایک پیسہ جمع کیا اور کسی طرح اپنی بیٹی کی شادی کا انتظام کیا اس کے دل سے پوچھئے کیا اس نے کبھی سوچا ہوگا کہ یہ سماج بیٹی کرنے کی اتنی بڑی سزا دیگا،غریب باپ رات رات صرف اس لئے نہیں سو پاتا کہ اسکی بیٹی جوان ہو چکی ہے، لوگ طعنے دے رہے ہیں، کتنی جلدی اسکی رخصتی کر دی جاے ، لڑکی کو دیکھنے کے لئے لڑکے والے آٹھ دس لوگ جاتے ہیں اس میں اسکی بہن،بھابھی، اسکی بوا، اور چند رشتوں کے اسپیشلسٹ ہوتے ہیں جو صرف وہاں کھانے اور لڑکی میں عیب تلاشے جاتے ہیں،
کھانا لگا دیا جاتا ہے ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں اسکے بعد ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں لڑکی ایسی ہے لڑکی ویسی ہے رنگ گاڑھا ہے، پاؤں تیڑھے ہیں، ناک لمبی ہے، انگلی پتلی ہے، آنکھ کتھئ نہیں ہے، صحت ٹھیک نہیں ہے،
ہزار عیب نکال کر آپس میں فیصلہ کرتے ہیں کہ انکو گھر جاکر جواب دیا جائے ، لڑکی کے باپ سے یہ کہتے ہوے وہاں سے نکل جاتے ہیں کہ گھر پر مشورہ کرکے فون کروں گا،
جب کہ سارا خاندان ساتھ میں لیکر آتے ہیں گھر میں کوئ بچا بھی نہیں ہوتا ہے،
اسکے بعد پھر کہیں جاکر دس بیس جگہوں پر ایسے ہی ٹھونس ٹھونس کر کھائنگے تب جاکر کہیں ایک جگہ رشتہ سمجھ میں آئے گا،
پھر یہاں سے پورے خاندان کی اصلیت سامنے آنا شروع ہو جاے گی،
لڑکے کو سونے کی انگوٹھی،بلٹ موٹر سائیکل،سونے کا چین، بوا کو ایک جوڑی کپڑا، لڑے کے بھائیوں کے لئے کوٹ پینٹ، لڑکے کے ماں اور باپ کے لئے انکی پسند کا کپڑا، دو تین شہ بالا کے لئے بھی کپڑے، لڑکی کی پھوپھی،بہن،پھوپھا،خالو، سب کے عمدہ جامہ اسکے کے علاؤہ ہمارے پانچ سو باراتیوں کے لئے عمدہ لذیز کھانے انکے چاے ناشتہ کا انتظام ہونا چاہیے،
منگنی میں ہمارے 100 رشتے دار آئینگے انکے لئے بہترین بند و بست ہونا چاہئے کیونکہ رشتے داروں میں ہماری ناک کٹ گئ تو ہم منھ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے،
زمانے کے اعتبار سے ٹی،وی،فرج،کولر،واشنگ مشین،سلائ مشین، دو درجن بڑے اور دو درجن چھوٹے برتن، تو دینا ہی پڑے گا،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،
ذرا سوچیں وہ قوم جس کے لئے بیٹاں رحمت ہیں کس قدر ان بیٹوں کی شادی میں سودے بازیاں ہو رہی ہیں، اس پر ملی تنظیموں،خانقاہوں، کی خاموشیاں کہیں نہ کہیں بھیانک مستقبل کا اندیشہ پیدا کر رہی ہیں،
اگر تمام خانقاہیں اس بات کر متحد ہو جائیں کہ ہمارا کوئ بھی مرید جہیز نہیں لیگا تو انشاء اللہ اسکے بہت بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں،
ایسے ہی تمام مرکز اپنے اپنے کارکنان کو سخت تنبیہ کر دیں کہ کوئ بھی جہیز والی شادی میں شرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی نکاح پڑھانے جاے گا ، یقین کیجئے بہت حد تک اس لعنت سے غریبوں کو چھٹکارا مل جاے گا،
ناموس رسالت کے نام پر مرنے مٹنے کا کھوکھلا دعوی کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کب عمل کرینگے کہ جسکی بیٹی ہو وہ اسے اچھی پرورش کرکے رخصت کر دے اسکے لئے جنت ہے،
غریب چاہے جتنی اچھی پرورش کر دے لیکن اس بیٹی کی رخصتی آخر انہیں بھیڑیوں کے یہاں ہونی ہے جو اس غریب بیٹی کے باپ کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے کے لئے اپنے بیٹوں کو پیدا کئے ہیں،
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،
افسوس تو تب ہوتا ہے جہاں یہ سارے خرافات ہوتے ہیں انہیں میں کوئ نہ کوئ شیخ، پیر، قاید اعظم کی بھی شرکت ہوتی ہے،
اور وہ تماشبین بنے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں،
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے اور درویشی بھی عیاری ہے،