WebHutt

مسجد میں اگر ممبر کی وجہ سے اگلی صف میں جگہ خالی رہ جائے تو نماز باجماعت کا کیا حکم ہے؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

حضور مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں بعض ایسی مسجدیں جہاں ممبر تھوڑا آگے ہونے کی وجہ سے پہلی صف میں ممبر کے سامنے 2/ لوگوں کی جگہ رہ جاتی ہے اسی وجہ سے پہلی صف کے بیچ میں 2 لوگوں کی جگہ چھوڑ کر پہلی صف کی تکمیل ہوتی ہے
1 تو کیا ایسی صورت میں صف منقطع ہو جاتی ہے ؟
2 اوراس صورت میں ان لوگوں کی نماز کا حکم کیا ہے ؟اور كس طرح نماز ادا كريں
بيينوا توجروا

محمد صائم رضا
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔     صفوں کے بارے میں تین باتوں کی بڑی تاکید ہے، پہلی بات:    تَسوِيه: کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے، پیچھے نہ ہوں. دوسری بات:   إتمام: کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ لگائیں. تیسری بات:    تراصّ: یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ شانہ سے چھلے. یہ تینوں امر شرعاً واجب ہیں.
     (فتاوی رضویہ- التقاط و تسہیل کے ساتھ- ج:3،ص:387،386،385، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) لہذا  صفوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑنا جائز نہیں، جو نمازی خالی جگہ بھرنے پر قادر ہوں اور نہ بھریں تو گنہ گار ہوں گے.
     ہاں کسی وجہ سے انھیں وہ خالی جگہ بھرنے پر قدرت نہ ہو تو معذور ہوں گے، انھیں بقدر میسور پر عمل چاہیے واضح ہو کہ صفوں کے اتمام اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے احکام واجباتِ نماز سے نہیں، بلکہ واجباتِ صفوف سے ہیں، چناں چہ عمدۃ القاری میں ہے:
“التسوية وَاجبَة بمقْتضى الْأَمر، ولكنها ليست من واجبات الصَّلاَة بِحَيث أَنه إِذا تركهَا فسدتْ صلَاته أَو نقصتها.” (عمدۃ القاری، ج:5، ص:371، دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: فرمان رسالت کے مطابق صفوں کو سیدھی رکھنا واجب ہے، لیکن یہ واجباتِ نماز سے نہیں کہ چھوڑ دے تو نماز فاسد یا ناقص ہو جائے.
یوں بھی کتبِ فقہ میں فرائض اور واجباتِ نماز میں کہیں اس کا ذکر نہیں جو اس کے واجباتِ نماز سے نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے، یہی حال اِتمام اور تراصّ کا بھی ہے کہ یہ بھی واجباتِ نماز سے نہیں، نہ ہی کتب فقہ میں واجباتِ نماز میں کہیں ان کا ذکر ہے.
ایسے واجبات کا ترک قصداً، بلا عذر ہو تو گناہ ہوتا ہے مگر نماز بلا کراہت صحیح ہوتی ہے اور اگر ترک، عذر کی وجہ سے ہو تو قطعِ صف کا گناہ بھی نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہوتی ہے. اس کی دلیل حضرت ابو بکرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رکوع میں پایا تو صف کے پیچھے ہی تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلے گئے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: “زادك اللّٰه حرصا ولا تعد” اللّٰہ تجھے اور زیادہ نماز کا شوق بخشے، دوبارہ ایسا نہ کرنا. (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ باب إذا رکع دون الصّف) ظاہر یہ ہے کہ اگلی صف میں گنجائش تھی تو ان پر اتمام واجب تھا اس لیے سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے لازمی طور پر انھیں دوبارہ ایسا کرنے سے ممانعت فرمادی مگر نماز کے اعادہ کا حکم نہ دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتمام صف واجبات نماز سے نہیں. فتاوی رضویہ میں ہے کہ:
“زید نے در میں نماز ناجائز بتائی، یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے.” (ج:3، ص:43، باب اماکن الصلاۃ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) “نماز ناجائز نہیں” یعنی مکروہ تحریمی نہیں، ہاں امام کا فعل مکروہ ہے.خلاصہ کلام یہ کہ مسجد میں ممبر اس طرح بنانا چاہیے کہ پہلی صف کا کچھ بھی حصہ منبر کی زد میں نہ آئے؛ منبر قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھاکر پہلی صف خالی کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز کے دوران پہلی صف میں منبر کے سامنے جگہ خالی نہ رکھنی پڑی یا اس جگہ جو شخص نماز پڑھے، اسے سجدہ میں زحمت نہ ہو۔ اور اگر منبر کو قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھانا ممکن ہو تو بڑھا دیئں ورنہ لکڑی کا منبر بنالیا جائے جو خطبہ کے وقت رکھا جائے اور اس کے بعد ہٹادیا جائے۔ اور جب تک نظم نہ ہوتو مجبوری میں منبر کے سامنے کی جگہ خالی چھوڑکر نماز پڑھتے رہیں ۔ نماز ہوجاۓ گی جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

Exit mobile version