حضور کی بارگاہ میں ایک سوال
تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟
صرف نکاح اول کا دینا ہے یا دونوں کا؟
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔تجدید نکاح اگر بغیر کسی علت (طلا ق یا ردّت )کے ہو تو چو نکہ اس صورت میں حرمت پہلے سے نہیں(کیو نکہ بیوی تو پہلے سےحلال ہے) لہذا اس صورت میں مہر لازم نہیں آئے گا لیکن اگر اضافہ کی غرض سے ہی نکا ح کرے اور پچھلے دس ہزار مہر پر یہ دس ہزار اضا فہ کرنا مقصود ہو تو پھر اس اضا فے کا اعتبار ہے اور بیس ہزار مہر دینا ہو گا۔ اگر اضافہ نہ ہو تو صرف احتیا طا تجدید میں کوئی مہر لا زم نہیں آتاالبتہ تجدید نکاح میں گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے کیو نکہ نکاح میں گوا ہو ں کا ہو نا شرط ہے۔ بغیر گوا ہو ں کے نکاح منعقد نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی تجدید نکا ح احتیا طا کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں نیا مہر لا زم نہیں ہو گا بلکہ پہلے والا مہر ہی وا جب ہو گا البتہ گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے ۔
لمافی الدر المختار(۱۱۲/۳) وفي الكافي جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر۔
وفی الردّ تحتہ: ثم ذكر أن قاضيخان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر۔۔۔أقول بقي ما إذا جدد بمثل المهر الأول ومقتضى ما مر من القول باعتبار تغيير الأول إلى الثاني أنه لا يجب بالثاني شيء هنا إذ لا زيادة فيه وعلى القول الثاني يجب المهران ۔
(تنبيه) في القنية جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اھ أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔
وفی الشا میہ (۲۱/۳):قوله ( وشرط حضور شاهدين ) أي يشهدان على العقد۔)۵۶۲)
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف