WebHutt

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا، کیا یہ درست ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا اگرچہ دس بار کہے کہ طلاق طلاق طلاق،جب تک کہ اسکی بیوی کے پاس جتنے طلاق ہے وہ خود نہ دے دے پھر آگے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اسی طرح ایک بیوی طلاق لے لے اور ایک شوہر اور ایک قاضی امام پڑھانے والے کو شوہر دے دے اب کبھی طلاق اگر دینا ہوا تو ایک بیوی دیگی ایک شوہر اور جو ایک امام صاحب کے پاس ہے جب تک وہ نہیں دیں گے طلاق نہیں ہوگا، یہ بات کہاں تک درست ہے قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔ علما کرام مدلل و تفصیلی جواب سے نوازیں

شہر عالم گجرات
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
نکاح کے وقت شوہر اپنی بیوی کو مشروط و غیر مشروط ،مؤقت و غیر مؤقت طلاق واقع کرنے کا حق دے دسکتا ہے ۔
ایسی صورت میں بیوی اپنے اوپر ایک طلاق ِرجعی واقع کرسکے گی ۔ مثال کے طور پر کسی اسٹامپ پیپر پر شرائط تحریر کردی جائیں اور پھر عقد ِ نکاح کے وقت اسکا تذکرہ کردیا جائے کہ مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں یا مطلقاً بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق ہوگا البتہ بیوی کو طلاق کا حق دینے سے شوہر کا حق ِطلاق بدستور برقرار رہتا ہے اگر اسنے طلاق دیدی تو وہ واقع ہوجائیگی ۔
چنانچہ ہدایہ میں ہے :
الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 240)
” ومن قال لامرأته طلقي نفسك ولا نية له أو نوى واحدة فقالت طلقت نفسي فهي واحدة رجعية…… ولو قامت عن مجلسها بطل…… وإن قال لها طلقي نفسك متى شئت فلها أن تطلق نفسها في المجلس وبعده (ص:۳۸۰ ج:۲)۔۔
التخريج
الدر المختار – (3 / 315)
قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي تفويض الطلاق لأنها كناية فلا يعملان بلا نية أو طلقي نفسك فلها أن تطلق في مجلس علمها به مشافهة أو إخبارا.
الدر المختار – (3 / 331)
قال لها طلقي نفسك ولم ينو أو نوى واحدةأو اثنتين في الحرة فطلقت وقعت رجعية اھ۔اور فتاوی امجدیہ جلد دوم ص ٢٤٢۔پر ہے کہ معاہدہ تو معاہدہ اگر قسم بھی کھالیتا کہ طلاق نہ دونگا پھر طلاق دے دی تو واقع ہوگی۔اھ لہذا زید کی بات درست نہی بلکہ زید پر فرض ہے کہ اپنی بات سے رجوع و توبہ کرے۔۔واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ۔احمدرضامنظری۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔شریف۔١۔١۔١٩۔

Exit mobile version