حضرت محدث اعظم ہند وپاک مکمل تیس سال سے زائد عرصہ تک درس حدیث کی خدمت انجام دی اور مسند حدیث کو اپنی خدمت سے زینت بخشتے رہیں ، آپ محض محدث نہ تھے بلکہ آپ بیک وقت علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم کلام ، علم اصول ، علم معانی ، علم منطق و فلسفہ کے متبحر عالم دین تھے اور تمام علوم و فنون پر آپ کو ملکہ حاصل تھا ، آپ کی ذات اخلاص کا سراپا مجسم تھی جس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔
ایک مرتبہ حضرت علیہ الرحمہ فیصل آباد ہی میں تقریر کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے ، انتظامیہ کے افراد جلسہ کے اختتام پر سامان و غیرہ محفوظ کر نے میں مصروف ہوگئے حضرت ان کا انتظار کیے بغیر پیدل ہی جامعہ رضویہ کی طرف چلنے لگے ۔ راستہ میں کسی نے کہہ دیا حضرت ! یہ کیسے لوگ ہیں ، تانگے کا بھی انہوں نے انتظام نہیں کیا ۔ حضرت نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا ، بندۂ خدا کیا کہا ؟ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے کا انتظام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کے لئے اس فقیر کو بلایا ۔ یہ ان کا تھوڑا احسان ہے ؟ اگر وہ چاہتے تو آپ کے ذکر خیر کے لئے کسی اور کو بلالیتے ۔‘‘
(حیات محدث اعظم پا کستان ، ص۵۲۲ بحوالہ : قلمی یاداشت مولانا علی احمد سندیلوی ، لا ہور محررہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ء )
پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ اسلامیہ ہائی اسکول بٹالہ ضلع گورداسپوری میں داخل ہوئے بٹالہ ہائی اسکول کے صدر معلم جناب پیر محمد تھے ۔ حاجی صاحب کا بیان ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سردار احمد کو بچپن ہی سے بزرگان کرام اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد عقیدت و محبت تھی ، چنا نچہ آپ فرمایا کرتے تھے ۔” ماسٹرجی ! ہمیں بزرگوں کی باتیں سنائیے اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تو ضرور روشنی ڈالا کیجیے ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۸ بحوالہ : مضمون ’’ایک عالم ایک عارف ‘‘مرتبہ رانا محمد کرام چشتی مشمولہ ماہنامہ معارف رضا ، لاہور ، فروری ۱۹۶۳ء بحوالہ ہفت روزہ محبوب حق ۔ لائل پور ، ۳۱ جنوری ۱۹۶۴ء ، ص ۶ )
دوران درس حدیث پاک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ضحک مبارک ‘‘یعنی تبسم فرمانے کا ذکر آتا تو آپ بھی محض حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسم کی ادا کو اپنانے کے لئے تبسم فرماتے اور طلبا کو بھی تبسم کی ہدایت فرماتے ، اور اس کے باوجود جن حضرات کے لبوں پر تبسم نہ دیکھتے تو انہیں آپ شخصی طور پر مخاطب کرکے فرماتے مولانا ! شاہ صاحب ! آپ کے لبوں پر تبسم کیوں نہیں ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم فرمانے پر اگر آپ نے تبسم نہیں فرمایا تو تبسم کا اور کون سا موقع ہوگا؟۔
( ابوداؤد محمد صادق ، مولانا محدث اعظم پاکستان کی مختصر سوانح حیات ، ص ۱۰ )
سوز و ساز عشق
جن احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم فرمانے کا ذکر ہے ان کا درس دیتے ہوئے آپ اتباع سنت کی نیت سے مسکراتے یونہی جن احادیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گریہ فرمانے کا ذکر ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا بیان ہے ۔ تو آپ بھی روتے ۔
۱۳۷۴ھ ؍۱۹۵۵ء میں دوران تدریس مشکوٰۃ شریف کی وہ حدیث پاک پڑھی گئی جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سر انور میں درد اور کپڑا با ندھنے کا ذکر ہے ، آپ نے اس حدیث پاک پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :’’جب سرکار کے سر انور میں درد تھا اور آپ نے کپڑے سے سر مبارک کو باندھا ہوا تھا آپ اس وقت منبر پر تشریف فرما تھے ۔ سر انور میں درد کی شدت کی بناء پر آپ کا کپڑے سے باندھنا جب یار غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دیکھا ہوگا تو ان کا کیا حال ہواہوگا ؟جس سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ملاحظہ کیا ہوگا تو ان پر کیا گزری ہوگی ، سیدنا بلال ر مضی اللہ عنہ نے بھی جب یہ منظر دیکھا ہوگا تو انہوں نے کیا محسوس کیا ہوگا ۔۔؟
اسی طرح شدت درد میں صحابۂ کرام پر وارد ہونے والے احوال بیان فرمارہے تھے محسوس ہوتا تھا کہ سرکار کے سر انور میں درد کی کلفت آپ بھی محسوس فرمارہے ہیں ۔ دوران بیان آپ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپ حلقۂ درس سے اٹھ کر اندر تشریف لےگئے ، اس کے بعد نہ معلوم یہ کیفیت کتنی دیر آپ پرطاری رہی ۔
اسی نوعیت کا ایک واقعہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی شریف میں پیش آیا حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی سالوں کا بیان فرما رہے تھے کہ خا ندان کے افراد کو جب تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کو جمع کرنے کے لئے بلند آواز سے پکارا ۔ حدیث شریف کا جملہ یاصباحاہ !آپ کے بلانے کی کیفیت کا بیان ہے یعنی حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے قریش کو بلند آواز سے پکارا جسے پنجابی محارہ میں ’’کو ک ‘‘مارنا کہتے ہیں ۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ نے طلبا سے فرمایا ‘‘بھلا کوک کیسے مارتے ہیں ؟‘‘آپ نے بھی آواز بلند فرمائی اور طلبا سے بھی ایسا کروایا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۱۳)
حدیث پر عمل کی نادر مثال حافظ ملت مولانا عبد العزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمتہ کا بیان ہے کہ ’’ترمذی شریف کی حدیث ہے :
طعام الواحد یکفی الا ثنین و طعام الا ثنین یکفی الثلثۃ۔
ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوسکتا ہے اور دو کا تین کےلئے کافی ہوسکتا ہے ۔ اس حدیث پر حضرت علامہ مو صوف نے پورا عمل کیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے شیخ الحدیث تھے تو میں نے آپ کی خدمت میں ایک طالب علم حافظ محمد صدیق مرادآبادی کو تحصیل علم کے لئے روانہ کیا ۔ حضرت موصوف نے اسے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرلیا ۔ مگر اس کےکھانے کا انتظام نہ ہوسکا ۔ حضرت کو جو کھانا معمولا آیا کرتا تھا اسی کھانے میں اپنے ساتھ کھلانا شروع کردیا ۔ دو چار ، دس ، بیس روز نہیں بلکہ جب تک حافظ صدیق بر یلی شریف رہے برابر ان کو اپنے ساتھ اسی ایک کھانے میں شریک رکھا ، ان سے فرمایا کرتے تھے ۔’’کھاؤ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ان شاءاللہ دونوں کو کافی ہوگا ۔‘‘حا فظ صدیق کا بیان ہے کہ میرا پیٹ تو بھرجاتا تھا حضرت مولانا کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ حضرت موصوف علیہ الرحمہ کا یہ وہ عمل ہے جو فی زمانہ اپنی نظیر آپ ہے ۔ حدیث پر اسی بے مثال عمل کی برکت سے آپ کے درس حدیث میں غیر معمولی تاثیر تھی ۔
(حادثہ جانکاہ مشمولہ نوری کرن محدث اعظم پاکستان نمبر ، ص ۲۷، حافظ عبد العزیز مبارک پوری )
حلقۂ درس میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیزی صرف درس حدیث پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ دیگر فنون کی تدریس میں جب بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان جاری ہوجاتا ۔
۱۳۶۹ھ؍۱۹۴۹ء میں اولین دارالحدیث میں میراث کی مشہور کتاب ’’سراجی ‘‘کاسبق پڑھارہے تھے ۔ میراث کے ایک مسئلہ پر تقریر کے دوران سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اقدس آیا ۔ اس پر آپ حضور کے فضائل و محامد بیان فرمانے لگے اور جو مسئلہ میراث شروع تھا اس سے توجہ ہٹ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب احساس ہوا ، تو فرمایا :
’’مسئلہ تو میراث کا بیان ہورہا تھا ، لیکن توجہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی طرف ہوگئی ۔ الحمد للہ ! ‘‘
یہ کہنا تھا کہ آنکھوں میں آنسو آگئے ، رقت طاری ہوگئی اور حسب معمول طلبا سے فرمایا ‘‘پڑھو ؎
بو درد جہاں ہر کسے راخیالے مزار ہمہ خوش خیال محمد
آپ کے چشمان اقدس سے آنسو جاری تھے اور دارالحدیث عارف جامی علیہ الرحمہ کے اس نعتیہ کلام سے گونج رہاتھا ۔
بارگاہ رسالت میں درس حدیث کی مقبولیت
یہ نورانی واقعہ مولانا معین الدین شافعی کا بیان کردہ ہے ۔ فرماتے ہیں :
’’مولانا حامد بخاری ، بخارا شہر کے فاضل اور مدرس تھے ان کو مشکوٰۃ شریف پڑھانے میں ایک مقام پر کچھ وقت محسوس ہوئی ۔ ان کو خواب میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، آپ کی مجلس میں تشریف فرما حضرات میں مولانا سردار احمد صاحب بھی شامل تھے ۔ مولانا حامد بخاری نے حدیث کی وہ مشکل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولانا سردار احمد صاحب کی طرف اشارہ کیا چنانچہ انہوں نے حدیث پاک کی وہ علمی مشکل حل فرمائی اور انہیں اطمینان نصیب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو مولانا حامدنے بخارا سے بریلی کا قصد کیا اور آپ کی خدمت میں آکر فیض حاصل کیا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۶۳)
صدرالعلما علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں بریلوی اپنے مشفق استاذ محدث اعظم پاک و ہند کی سیرت و کردار اور عشق مصطفیٰ کو یوں بیان فرماتے ہیں : حدیث کا احترام اس درجہ تھا کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز و محترم ہو ، آتا سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کےلئے اشارہ فرماتے مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک کہ سبق پورانہ ہوجائے ۔ پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو وہ بیٹھا رہے ، ورنہ اٹھ کر چلاجائے ۔ آپ ملطقاً پرواہ نہ فرماتے ، دوسرے وقت ملاقات ہوتی ، تو فرما دیتے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے ، میں حدیث شریف پڑھارہا تھا ، اس لئے بات نہ کرسکا ۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضور کے نام نامی کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ضرورکہے اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے ، جیسے ہی نام نامی سنتے بآواز بلند صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کہتے تاکہ دوسرے طلبہ جو غافل ہوں ، انہیں سن کر یاد ہوجائے ۔اگر کہیں حدیث میں آجاتا کہ ضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خو دبھی مسکراتے اور طلبہ سے بھی کہتے کہ ہنسو ۔ ہسنا بھی ہمارے نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ضرورت زمانہ کے لحاظ سے رد وہابیہ پر زیادہ زور دیتے تھے ورنہ عام طور پر سب ہی باطل فرقوں کا رد فرماتے تھے ۔ (سالنامہ تجلیات رضا ، شمارہ ۶ ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص ۹۱؍۹۲)
مسرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور پر صرف تبسم اور مسکراہٹ آجاتی تھی ، آپ کا تبسم کھلکھلاکر ہنسنے کی طرح نہ ہوتا تھا صرف دندان مبارک کی چمک ظاہر ہوتی تھی۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی اسی موقع پر صرف تبسم اور مسکراہٹ کی تاکید فرماتے تھے ۔
(ایضاً ، ص۹۷)
ع
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار گھڑی کی بات نہیں الارواح جنود مجندہ کے حدیث ارشاد کے مطابق اس جہان میں تو اس کا مشاہدہ ہورہا ہے اور رفیق مذکور کی اتباع یک گیر محکم گیر سے یہی امید ہے کہ دوسرے جہاں میں بھی ایساہی ہو گا ۔
یہ کیفیت اسے ملتی ہے ، ہو جس کے مقدر میں
مئے الفت نہ خم میں ہے ، نہ شیشے میں نہ ساغر میں
(ایضاً ، ص ۹۳)
ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
23/ جمادی الاول 1444ھ
18/ دسمبر 2022 ء