(پہلی قسط)
۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں 22/ ذی الحجہ 1310 ھ / 7 / جولائی 1893ع میں بریلی شریف کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ آپ کا نام ”محمد“ رکھا گیا اور عرفی نام’’مصطفی رضا“ تجویز کیا گیا ۔ نوری تخلص تھا اور آپ ”مفتٸ اعظم ہند“ کے لقب سے مشہور ہوۓ۔ سلسلۂ نسب یوں ہے ۔محمد مصطفی رضا ابن امام احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی بن محمد اعظم بن سعادت یارخاں بن سعید اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
مفتی اعظم مولا نامصطفی رضا خاں کی تقریب بسم اللہ خوانی چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں ہوٸی۔ برادرا کبر مولانا حامد رضاخاں نے ناظرہ مکمل کرایا۔ مولانا شاہ رحم الہی صاحب، مولانا بشیراحمدعلی گڑھی ومولانا ظہور الحسین رامپوری وغیرہم سے درسیات کی تکمیل فرمائی ۔ اس کے بعد جملہ علوم وفنون والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی کی آغوش تربیت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ صرف ونحو ، تجوید ، ادب ، فلسفه ، این طریق منطق ، ریاضی علم جفر وتکسیر، علم توقیت وغیرہ جملہ علوم معقولات ومنقولات میں آپ یکتاے روز گار تھے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں کی عمرابھی چھ ماہ کی تھی کہ مرشد کامل حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی سے والد ماجد نے بیعت کرادیا ۔ مرشد کامل نے بیعت کرنے کے بعد جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
آپ نے ایک طویل عرصے تک بیت وارادت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہندو پاک کے علاوہ حجاز مقدس ، مصر ، عراق ، برطانیہ ، افریقہ ، امریکہ ، ترکستان ، افغانستان وغیرہ کے بڑے بڑے علما مشاٸخ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے مریدوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی متجاوز تھی۔
درسیات سے فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں مند درس و تدریس کو آپ نے رونق بخشی اور تقریبا 30/سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے۔ برصغیر ہند و پاک کی درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالامال ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں نے 1365 ھ / 1946ء میں پہلا اور 1367ھ / 1948ء میں دوسرا ج کیا۔ 1391ھ / 1971 ء میں آپ نے تیسراحج کیا۔اس وقت حج کے لیے فوٹولازمی قرار پا چکا تھا ۔ آپ نے فوٹونہیں بنوایا ۔ حکومت ہند نے ان کے پاسپورٹ کو بغیر فوٹو کے جاری کردیا۔ اور یہ حج آپ نے بغیر فوٹو کے ادا کیا جو ایک تاریخی حج ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علم ظاہر و باطن کے دریاے ذخار تھے۔ آپ شریعت وطریقت کی روشن کتاب تھے۔ ولایت و کرامت کے ماہتاب اور علم وفضلیت ، طریقت و معرفت کا نیر درخشاں تھے۔ ان کے تبحر علمی اور فقہی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوۓ حضرت علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری رقم طراز ہیں:
”مفتی اعظم علم وفضل کے دریاے ذخار تھے۔ جزیات حافظے سے بتا دیتے تھے ۔ فتاوی قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے ۔ ان کا عمل ان کے علم کا آئینہ دارتھا ۔ ان کے عمل کو دیکھنے کے بعد اگر کتاب دیکھی جاتی تو اس میں وہی ملتا جو حضرت کا عمل ہوتا ۔ ہر معاملے میں حضرت کی راۓ اول اور مقدم ہوتی تھی اور جس علمی اشکال میں لوگ الجھ کر رہ جایا کرتے تھے وہ حضرت چٹکیوں میں حل فرمایا کرتے تھے۔“
حضرت مولانا عبدالحکیم شرف قادری کے یہ تاثرات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
” علم وفضل ، زہد وتقوی حق گوئی و بےبا کی ، فقاہت وعلمیت اور معرفت و کرامت میں اس وقت پوری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اہل سنت کے لیے مفتی اعظم کی ذات مقدسہ سایۂ رحمت تھی ۔۔۔ مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ کے علم وفضل زہد وتقوی اورفقہی بصیرت کا کوئی ثانی نہیں۔“
حضور مفتی اعظم ہند جہاں درس نظامی کے ماہر تھے ۔ وہیں قراءت وتجوید ، ادب وفلسفہ منطق و ریاضی اور دیگر علوم وفنون میں بھی یدطولی رکھتے تھے ۔ علم جفر و تکسیر، علم توقیت اور فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔
1328ھ/ 1910 ء میں جب حضرت مولا نا مصطفی رضا خاں کی عمر مبارک 18/سال تھی آپ کسی کام سے رضوی دارالافتاء میں پہنچے تو وہاں ملک العلما مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اور مولانا سید عبدالرشید عظیم آبادی فتوی لکھنے کے لیے رضاعت کے کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ بات کچھ الجھی تو ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری اٹھے تا کہ الماری سے فتاوی رضویہ نکال کر اس سے روشنی حاصل کریں ۔ حضرت مفتی اعظم نےفرمایا:
”نوعمری کا زمانہ تھا ۔ میں نے کہا ! فتاوی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ؟ مولانا نے فرمایا ! ”اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دوتو جانوں“ میں نے فوراً لکھ دیا ۔ وہ رضاعت کا مسئلہ تھا۔“(حوالہ علماۓ اہل سنت کی علمٕ و ادبی خدمات)۔
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
6306397662