………..75/ویں یوم آزادی کا سورج اپنی پوری آب و تاب کیساتھ افق ہند پر جلوہ پاشی کررہاہےـ
ہر سال ہم 15/ اگست کو یوم آزادی اور 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں ـ اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھاـ آزادی حاصل ھوۓ 75/ برس ھوگئے جسے ہم بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں یہ ہمارا فریضہ ہے اور نصب العین بھی.
74/سال قبل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- جب ساون اور بھادوں کے مہینے میں آسمان پر بدلیاں چھائی تھیں۔
- جب گھٹائیں ہندوستان کے دامن سے غلامی کی نجاستوں کو پاک کررہی تھیں۔
- جب ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر ہماری آزادی کا سورج جلوہ فگن ہورہاتھا۔
- جب غلامی کی بیڑیاں کٹ رہی تھیں۔ اس وقت ملک کے لوگ یہ فیصلہ کررہے تھے کہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا نہ ہوگا، یہاں ہر مذہب و ملت کا احترام ہوگا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
آج پھر گھنگور گھٹائیں چھائی ہیں اور پانی کی بوندیں تازہ ترانا گنگنارہی ہیں اور ہم اس ملک کی یوم آزادی کی 75/ ویں سال گرہ منارہے ہیں۔
لیکن یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان کو نظر انداز کردیاگیا تاریخ کی کتابوں سے لے کر عجائب خانوں تک ان کے نام و نشاں مٹا دیئے گئے…..
اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے اس سے مسلم اور غیر مسلم نوجوان طلباء یہی تأثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں “مولانا عبد الکلام آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں” کے علاوہ بس ایک دو مسلم اورتھے۔ ایسے تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جد و جہد کی ہے۔ مصیبتیں جھیلیں ہیں اور جان کی بازیاں لگائی ہیں پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف جنگ چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان ، قید کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیلے جانے والے مسلمان رہے ہیں۔
بھارت کے بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کونہیں تھا۔ ہمیں حق تھا، لیکن ہمارے اسلاف نے یہ طے کیا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں۔ جامع مسجد ہے دلی کی، تاج محل ہے، قلعیں ہیں بزرگوں کی یادیں ہیں یہاں اور یہ سب بھارت کی شان ہیں آج انہیں مسلمانوں کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ انہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جارہا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا، جو اپنی مرضی سے رکے ان کے لیے آج یہ کہا جارہاہے کہ جو “وندے ماترم” نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ حالانکہ سپرم کورٹ کہہ رہا ہے کہ “وندے ماترم” کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا سب سے بڑی عدالت تو وہ بھی ہے ۔
بھارت کو آزاد کرانے کےلیے ”ریشمی رومال تحریک“ میں لاتعداد علماۓ کرام نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا آج بھی اس بھارت ملک کی مٹی میں نہ جانے کتنے آزادی کے متوالے مسلم شہداء کی لاشیں دفن ہیں ۔
حضرت مولانا ہدایت رسول قادری برکاتی رحمتہ اللہ لکھنوی متوفی 1915ع نے لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی اور “لکھنؤ بند” کا اعلان عام کیا تھا۔ لکھنؤ بند کے دن ساری دکانیں بند تھیں پورے شہر میں کسی طرح کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی ۔ کسی انگریز نے ایک بوڑھیا خاتون سے (جو سبزی بیچا کرتی تھی) کہا کہ مجھے سبزی کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بوڑھیا نے برجستہ اور بلاخوف و خطر انگریز کو جواب دیا ”نہیں! آج کچھ نہیں مل سکتا ہے“ ہمارے مولانا نے آج لکھنؤ والوں کو منع کیا ہے کہ کوئی بھی دوکان نہیں کھول سکتا ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکتا ہے؎
شیر میسور ٹیپو سلطان (شہادت 1799ع) پورے متحدہ ہندوستان کا یکلوتا بادشاہ جنھوں نے انگریزوں سے لڑتے ہوۓ میدان جنگ کے اندر عین حالت جنگ میں شہادت پائی۔ اور انگریز کمانڈر نے سلطان ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا “آج سے ہندوستان ہمارا ہے” اسی شیرِ دل نے للکار کر دہاڑا تھا کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“
16/رمضان المبارک 1274ھ مطابق 30/ اپریل 1858ع کو مفتی کفایت اللہ کافی رحمتہ اللہ علیہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا 4/مئ
1858ٕٕع کو آپ کا مقدمہ پیش ہوا اور سر سری سماعت کے بعد 5….6/مئ کو آپ کے پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا۔
نہایت صبر و استقلال اور خندہ پیشانی کے ساتھ آپ نے یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ مفتی کفایت اللہ کافی جب پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
؏ ۔۔۔۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جاۓ گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاۓ گا۔
سن 1942ء میں جب ہندو مسلم نے ایک برتن میں کھانا کھایا تھا تب انگریزوں کو لگا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں راج نہیں کرپائیں گے۔اور سن 1942ء سے ہی انگریز اپنا بستر باندھنا شروع کردیئے تھے ۔
سن 1947ء میں ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔
(ناچیز زخمی قلب و جگر کیساتھ آگے کی منظر کشی کررہا ہے۔)
سن 1870ع کی تحریک میں تنہا مسلمان انگریزوں سے آزادی کیلئے لڑتے رہے ـ جس میں علمائے اہلِ سنت کی مقدس جماعت پیش پیش تھی.
(1) جلیاں والا باغ میں مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھاکر یہ بتایا کہ مسلمان ملک کا کیسا وفادرا ہے۔
(2) نمک تحریک میں 78 ہزار مسلمان گرفتار ہوۓ، گرفتاری بھی مسلمانوں کی وفاداری کی عکاسی ہے۔
(3) سن1920 سے 1922ع تک کی تحریک آزادی میں 20ہزار مسلمان گرفتار ھوئے۔
ان گنت مسلمانوں کو کالا پانی کی قید میں ڈالا گیا. بے شمار علما کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا.
اس طرح بے شمار قربانیاں جو مسلمانوں نے انجام دیں وہ سب مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں.
ہماری یہ قربانیاں شاید آج لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں یا پھر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے.
دہلی میں چار ہزار دینی مدرسےقائم تھے۔
تحریک آزادئِ ھند 1857ء کی لہر اٹھی تو نہ صرف یہ سارے مدرسے گرا دیئے گئے بلکہ پورے دلی شہر میں ایک بھی طالب علم زندہ نہ بچ سکا
انگریز مورخ لکھتاہےکہ
میں نے دلی شہر اور مضافات میں 50 کلومٹر فاصلے کا چکر لگایا ایسا کوٸی درخت اور شاخ نظر نہ آیا جس پر ایک عالم دین اور تحریک آزادی کے جانثار کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو۔
نادان! پوچھتے ہیں تحریک آزادی میں علما کا کیا کردار رہا۔
مسلمانو! اٹھو اور اپنی قربانیوں کی داستانیں بچے بچے تک پہنچادو تاکہ دوبارہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس ملک کے لیے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. نسل نو پھر سے محبت کا پیغام لیکر اٹھے, جو ہمارے ملک کو عظمت کی بلندیوں تک لے جائے۔
{مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
9161943293/6306397662