“اسم مبارک”: حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری قدس سرہُ العزیز ہے۔ اور تاریخی نام ” مظہر علی” اور لقب “میاں صاحب” ہے، جو آپ کے دادا اور مرشد خاتم الاکابر نے عطا فرمایا تھا۔ (تذکرہ نوری،ص، 146)
“ولادت با سعادت”: 19/ شوال المکرم 1255ھ مطابق 26/ دسمبر 1839ء بروز پنجشنبہ( جمعرات) مارہرہ شریف میں ہوئی۔(تذکرہ نوری،ص، 146)
“والد ماجد”: سرکار نور قدس سرہ کے والد ماجد، حضرت سید شاہ ظہور حسن صاحب علیہ الرحمہ، خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ کے بڑے صاحب زادے تھے، ابھی سرکار نور کی عمر شریف کل گیارہ برس کی تھی ، کہ آپ کے والد ماجد کا (26/جمادی الاولی 1266ھ کاٹھیاواڑ میں) وصال ہو گیا۔ [انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] ( سراج العوارف ، مقدمہ: حضرت سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی، ص، 8)
“والدہ ماجدہ”: آپ ( علیہ الرحمہ) کی والدہ ماجدہ سیّدہ اکرام فاطمہ ، حضرت سید شاہ دلدار صاحب کی صاحب زادی اور حضرت سید شاہ آل برکات ستھرے میاں صاحب قدس سرہ کی نواسی اور سید محمد صغریٰ بلگرامی قدس سرہ کی بیسوی پشت سے تھیں۔ ابھی سرکار نور قدس سرہ کی عمر شریف کل ڈھائی سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔ [ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون] اسی وقت سے آپ کی جدۂ ماجدہ ( دادی جان) قدست اسرارہا نے تمام کفالات حضور اپنے ذمہ لے لیں۔ ( تذکرہ نوری، ص، 146)
“تعلیم و تربیت”: حضور نوری میاں صاحب قدس سرہ کی تعلیم کے ابتدائی مراحل میاں جی رحمت اللہ صاحب و میاں جی الہی خیر ، میاں جی اشرف علی صاحب وغیرہم نے طے کراۓ ۔ قران کریم قاری محمد فیاض صاحب رام پوری سے پڑھا ۔ صرف ونحو کی تعلیم مولانا محمد سعید بدایونی اورمولانا فضل احمد جالیسری ( تلمیذ حضرت تاج الفحول) سے حاصل کی ۔ مولانا نور احمد عثمانی بدایونی ( تلمیذ علامہ فضل حق خیر آبادی) سے معقولات کی تکمیل فرمائی ۔ علم تصوف وسلوک کی تعلیم اپنے جد کریم حضور خاتم الاکابر قدس سرہ کے ساتھ ساتھ مولانا احمد حسن صوفی مراد آبادی اور مفتی عین الحسن بلگرامی سے حاصل فرمائی ، اصولِ فقہ و حدیث مولانا تراب علی امروہوی، مولانا محمد حسین بخاری کشمیری اور مولانا حسین شاہ محدث ولایتی سے تحصیل فرمائے، علوم دعوت و تکسیر حضرت شاہ شمس الحق قادری عرف تنکا شاہ تعلیم فرماتے تھے۔( عقائد نوری، ص،4-5)
” بیعت و خلافت”: نور العارفین حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت اپنے جد کریم ( مرشدِ اعلیٰ حضرت) حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قدس سرہ سے حاصل تھی۔ بوقت بیعت و خلافت حضور سرکار نور کی عمر شریف صرف 12 برس کی تھی ، جس کا تفصیلی ذکر آپ نے اپنی کتاب “سراج العوارف فی الوصایا والمعارف” میں تحریر فرمایا ہے۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 31)
“عقد مسنون و اولاد و امجاد” سرکار نور کا پہلا عقد دخترِ حضرت سید شاہ ظہور حسین عرف چھٹو میاں صاحب سے ہوا ، ان بی بی صاحبہ کا وصال 17/ جمادی الاخری 1286ء میں بمقام مارہرہ ہوا۔ اور دوسرا عقد حضرت سید شاہ حسین حیدرحسینی میاں رحمۃ اللہ علیہ(حقیقی نواسہ حضور خاتم الا اکا بر قدس سرہ) کی حقیقی بہن یعنی دختر سید محمد حیدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے 1287ء میں ہوا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے سید محی الدین جیلانی 1288ء میں تولد ہوۓ لیکن ان صاحبزادے کا وصال 1سال7 ماہ کی عمر میں بمقام مارہرہ شریف ہوا۔ تب آپ نے اپنا جانشین اپنے عم زاد بھائی کے صاحب زادے سید علی حسن عرف اقبال کو مقرر کیا لیکن ان صاحب زادے کا وصال بھی حضور میاں صاحب کے سامنے ہو گیا۔(اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء، ص، 57-58)
“تیری خوبیوں کا شمار کیا”: یقیناً آپ (سرکار نور) کی خوبیاں بے شمار ہیں جن کی تفصیل صاحب تذکرۂ نوری نے کی ہے، اس ہی عظیم خزانے سے چند موتی ہدیۂ ناظرین ہیں ، ملاحظہ ہوں!
“التزام ظاہر شریعت”: عبادات و عادات میں مستحبات تک کبھی حضور سے ترک نہ ہوتے ، وقت بیعت کبھی مریدہ کا ہاتھ نہ چھوتے ، اور نہ ہی روبرو آنے کی اجازت دیتے۔(تذکرہ نوری،ص،153)
“صبر”: ایک مرتبہ شدید بخار ہوا ، نہایت ہی فرحت و سرور سے فرمایا ، تمام اذکار و اشغال سلوک سے ایک حرارت ، قلب کو پہنچانا ہے ، وہ بلا محنت بخار میں حاصل ہے۔ شدت مرض میں سوائے افسوس ترک مسجد ، کبھی شکایت مرض نہ فرماتے۔ بلکہ فرماتے ، خدائے تعالیٰ مرض عصیان اور افلاس ایمان سے بچائے۔ ( تذکرہ نوری،ص، 161-162)
” فقراء سے محبت”: کتنے فقرا خدام تھے جن کی کفالت سرکار نور قدس سرہ خود فرماتے ، اور وہ بھی ایک عجیب شان سے ، کہ کسی کو معلوم نہ ہو ، غرباء خدام کے مکانوں پر قیام فرماتے ، مریدین آتے نذر و ہدیہ پیش کرتے، وہ سب ان گھر والوں کا حصہ ہوتا۔ بہت سے غرباء کی تنخواہیں مقرر تھیں ، جو ایک پردے سے ان تک پہنچتی تھیں۔ (تذکرہ نوری ،ص،170)
“کشف و کرامات”: جب بندہ شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ طریقت کی راہوں میں گم ہو کر فنا فی اللہ کی منزلیں طے کر لیتا ہے ، تو اس سے کرامتوں کا ظہور ہوتا ہی رہتا ہے ، سرکار نور کی بھی بے شمار کرامات ہیں ان میں سے صرف ایک ملاحظہ فرمائیں!
سرکار نور قدس سرہ کی حقیقی بھانجی حضرت شاہ جی میاں قدس سرہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے یہاں ولادت ہونے والی تھی۔ وہ تکلیف سے پریشان تھیں۔ حضرت نوری میاں قدس سرہ تشریف لائے اور “تحفہ قلندری” یعنی تسبیح غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک منکا نکال کر ان کے گلے میں ڈال دیا اور فرمایا کہ پریشان کیوں ہوتی ہو۔ تمہاری جواولاد پیدا ہوگی اس کے سبب دین کا بہت کام ہو گا اور وہ بیٹا مجھ جیسا ہو گا۔ یہ خوش خبری تھی سراج العرفاء تاج العلماء حضرت سید شاہ اولا درسول محمد میاں صاحب قدس سرہ کی پیدائش کی۔ بزرگ اہل خاندان بتاتے ہیں کہ حضرت محمد میاں صاحب قدس سره کی شکل وصورت حضرت نوری میاں صاحب قدس سرہ سے بیحد مشابہ تھی۔ (اہل سنت کی آواز، اکتوبر 2003ء،ص،98)
“آپ کی تصانیف”: کثیر ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں۔
“سراج العوارف فی الوصایا والمعارف”(مطبوعہ)
دلیل الیقین من کلمات العارفین”(مطبوعہ)
رسالہ سوال و جواب
عقیدہ اہل سنت نسبت محاربین جمل و صفین و نہروان” ( غیر مطبوعہ)
تحقیق تراویح” ، “الجفر” ، “صلاۃ غوثیہ و صلاۃ معینیہ”
“تخییل نوری”: حضور سرکار نور قدس سرہ شاعری بھی فرمایا کرتے تھے۔ یہ آپ کا شعری دیوان ہے۔ جس میں آپ نے عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں عارفانہ غزلیں نعتیں رقم فرمائی ہیں۔ آپ ( علیہ الرحمہ) پہلے “سعید” تخلص فرماتے ، بعد میں بدل کر “نوری” کر لیا۔ اس مجموعۂ کلام کو حضور تاج العلماء حضرت سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہ نے شائع کیا۔
“خلفائے کرام”: آپ کے خلفاے کرام کے چند اسما یہ ہیں!
مجدد برکاتیت حضرت حاجی سید شاہ اسماعیل حسن شاہ جی میاں رحمتہ اللہ تعالی علیہ صاحبِ عرس قاسمی،
“حضرت سید شاہ مہدی حسن علیہ الرحمہ” ،
“حضرت سید شاہ محمد میاں قدس سرہٗ” ،
“حضرت تاج الفحول محب رسول بدایونی علیہ الرحمہ”۔
“اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ”
“مفتی اعظم ہند حضرت مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ”
“وصال سرکار نور قدس سرہ”: حضور سرکار نور قدس سرہ کا وصال 11/رجب 1324ھ ، مطابق 31/ اگست 1906ء کو مارہرہ مطہرہ میں ہوا۔ اور ” خاتم اکابر ہند”(1324ھ) تاریخ وصال ہے۔(تذکرہ نوری ،ص، 275-276)
“نور جان و نور ایماں نور قبر و حشر دے”
بو الحسین احمد نوری لقا کے واسطے”
محمد حسن رضا
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
1/فروری 2023ء