قارئینِ کرام ہم اس موضوع کے دو حصے کرکے آپ کے مشام جاں کو معطر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس کا کیا کردار رہا ہے،اور کس طرح اس نے سماج کی تعمیر کا کام انجام دیا ہے؟ گویا یہ ماضی کا جائزہ ہے ۔
موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں دینی مدارس سے کس رول کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یعنی اس کام میں یہ مدارس کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جہاں تک موضوع کے پہلے حصے کا تعلق ہے،یہ ایک ایسی درخشندہ اور تابناک تفصیل ہے۔ جس کی ضیا بار کرنوں سے تاریخ کا ہر صفحہ منور ہے۔ اہلِ نظر اگاہ ہیں کہ مدارس کی تاریخ اس صفہ نبوی سے جڑی ہوئی ہے جہاں سے دنیا کوانسانیت کا درس ملا تھا۔ دنیا کےتمام مدارس اسی سر چشمہ سے فیض یاب ہوتے ہیں اور اسی کے پیغام کو عام کرتے ہیں۔ مدارسِ دینیہ نہ صرف تعلیم گاہ ہیں،بلکہ تربیت کی بھی آماجگاہ ہیں ۔ چنانچہ تاریخ پر سر سری نظر ہی یہ بتا سکتی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ سے کیسےکیسے مردانِ کار نکلے اور انھوں نے سماج کو کن خوبیوں سے آراستہ کیا۔ ماضی کے دریچے سے اگر دیکھا جاۓ تو زندگی کے میدان اور مختلف علوم و فنون کے لیے ماہرین انھیں دینی مدارس سے فراہم ہوۓ۔ مدارس نے ہی قوم کو بڑے بڑے اطباء، ماہر انجینئر، صنعت کار اور فن حرب کے ماہرین دیے۔ اداباء، شعراءاور خطباء یہیں سے نکلے اور دینی علوم کےماہرین کا توکیا کہنا،وہ تو دینی مدارس کی پہچان ہوتے ہیں۔ محدثین، مفسرین، فقہاء اور تمام علوم آلیہ و علوم عالیہ کے ماہرین دینی مدارس کے فیضان ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی منظر نامہ اس سےعلاحدہ نہیں۔ عہدِ سلطنت سے لے کر مغلیہ دور تک اور پھر برطانوی سلطنت کے زمانہ تک یہی دینی مدارس وہ مراکز تھے، جہاں سے سماج کی ہر ضرورت پوری ہو رہی تھی، اس کے مردان کار تیار ہو رہے تھے۔ تعلیم گاہوں کے مسند نشینوں سے لے کر اخلاق و کردار کے معلمین تک، تاجروں اور صنعت کاروں سے لے کر زرعت اور دست کاری کے محنت کشوں تک، غرض سماج کے تمام قسم کے لوگ انہیں مدارس سے تیار ہوکر نکل رہے تھے اور یہ بات توظاہر ہے کہ کوئی بھی سماج انہیں افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر یہاں افراد صالح تھے تو لازمًا سماج صالح بن رہا تھا اور سماج کی صالح تشکیل کا سہرا ان دینی مدارس کے سر بندھ رہا تھا، جہاں سے یہ افراد سماج کو فراہم ہورہے تھے۔
ملک کی آزادی اور آزادی کے بعد سماج کو صحیح ڈگر پر جاری رکھنے میں بھی دینی مدارس کا رول بہت نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد جب یہاں مسلم حکومت باقی نہیں رہی اور یہاں کی مسلم عوام ایک سیکولر نظام حکومت کے تحت آگیے، ان کے دین و ایمان، اسلامی احکام، اس کے شعائر اور اسلامی شناخت کے تحفظ کا بیڑا ان دینی مدارس ہی نے اٹھایا۔ آج یہ حقیقت ایک زندہ مثال کی شکل میں موجود ہے کہ یہاں جو کچھ اسلام کی شادابی اور اس کی رونق موجود ہے وہ ان مدارس اور اس کے فضلاء کی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مدارس اور اس کے فضلاء نے مسلم عوام الناس کا رشتہ اپنے دین سے باقی رکھا۔ سماج کی اصلاح کے پروگرام میں مساجد میں جمعہ کے خطبات اور مختلف تقاریب کے موقع پر اصلاحی تقاریر کا بڑا حصہ ہے اور یہ بزم بھی مدارس اور اس کےنونہالوں سے آراستہ رہتی ہے۔
ماضی میں معاشرہ کی تشکیل اور اس کی اصلاح میں مدارس دینیہ کے رول پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ اس باب میں بہت کچھ کہنے کے سامان موجود ہیں، لیکن اس مختصر تحریر میں ہم اس پہلو کو انہی اشاروں پر بس کرتے ہوۓ دوسرے پہلو کی طرف اتے ہیں۔ کہ ماضی کو دیکھنے اور اس کا جائزہ لینے کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔
اگر ہم اس پہلو پر غور کریں کہ زمانہ کس رخ پر گامزن ہےاور فساد بگاڑ کن کن راہوں سے ارہا ہے، اصلاح و تربیت کے لیے آج کن عناصر کی ضرورت ہے، سماج کو کس طرح کی ضرورت در پیش ہے، معاشرہ میں بسنے والوں کو کیسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، اس صورتِ حال میں دینی مدارس اور ان کے فضلاء کی ذمہ داری بہت کچھ بڑھ جاتی ہے، سماج کی اصلاح اور معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں ازسرنو اپنی تیاریوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ایسی تیاری جو زمانے کے تقاضے کے مطابق ہو، جو زمانہ کی زبان اور اسلوب سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اسی زبان میں جواب دینے کی طاقت سے اراستہ بھی ہو۔ آج ضرورت ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء دور جدید کے مسائل کو سمجھیں جدید سوالات سے آگاہ ہوں، جدید اصطلاحات سے واقف ہوں ۔ یقینا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے ہر درد کا مداوا اسی دین حنیف میں ہے اور سماج کی تمام تر مشکلات کا علاج بھی اسی دین کی تعلیمات فراہم کرسکتی ہیں۔ لیکن یہ تعلیمات جن افراد امت کے پاس ہیں وہ ان کو آج کے اسلوب میں پیش کرنے کی صلاحیت حاصل کریں تو کہا جاسکےگا کہ دینی م
دارس کے فضلاء معاشرہ کی اصلاح کا وہ کردار ادا کرسکیں گے جو ان کا امتیاز رہا ہے۔
یہاں ایک بات یہ قابل ذکر ہے، کہ اصلاح خواہ سماج کی ہو یا فرد کی، اس کے لیے گفتار کے ساتھ کردار کی کشش لازمی ہوتی ہے۔ دینی مدارس اور ان کےفضلاء جب معاشرہ کی اصلاح کا علم لے کر اٹھیں گے تو ضروری ہوگا کہ وہ اپنے کردار کا بھی ایسا نمونہ پیش کریں، جو خود اصلاحِ معاشرہ کی دعوت ہو۔