سورہء بقرہ کی ایک آیت کا اقتباس یوں ہے:
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ
ترجمہ:
اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ۔
اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت کا حکم ہے:
١.مردار
٢.خون
٣.خنزیر کا گوشت
٤.وو جانور جو غیر خدا کا نام لےکر ذبح کیا گیا ۔
خدا کے حکم میں حکمت کار فرما رہتی ہے۔ خنزیر بھی گائے ،بیل، بکرے کے ایسا ایک چوپایہ جانور ہے ۔گائے ، بیل، بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے ، تو پھر خنزیر کا گوشت حرام کیوں ؟ کچھ تو حکمت خداوندی کار فرما ہوگی۔
قرآن میں جو احکام بیان کیے گیے ہیں وہ کسی بندے کی جانب سے نہیں ہیں ۔ایک بندہ جب کوئی حکم جاری کرتا ہے تو اس میں کچھ ذاتی منفعت بھی رہ سکتی ہے۔لیکن خدا بے نیاز ہے ۔ قرآن فرماتا ہے :
اللہ الصمد
یعنی اللہ بے نیاز ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ کھائے نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں۔
خدا جو احکام جاری کرتاہے وہ خالص اس کے بندوں کی منفعت کے لیے ہوتے ہیں ۔
جب میں اڑیسہ کی یونیورسٹی میں اگریکلچرل سائنس میں گریجویشن کررہا تھا تو ہر سیمسٹر میں ایک سبجکٹ ویٹرنری سائنس کا بھی ہوا کرتا تھا جسے ویٹرنری سائنس داں پڑھایا کرتے تھے۔ ایسی ہی اک کلاس میں پڑھاتے ہوئے ایک ماہر ویٹرنری سائنس( جو غیر مسلم تھے ) نے کہا:
“شریعت اسلامیہ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے اور اس حکم کو سائنس کی حمایت بھی حاصل ہے”۔انھوں نے سائنسی وجوہات یوں بیان کی تھیں :
“١.خنزیر کا نظام انہضام گائے کے نظام انہضام سے جدا گانہ ہے۔گائے کے پیٹ کے اندر جب عمل انہضام ہوتا ہے تو جراثیمی زہر جسم سے باہر نکل جاتے ہیں ۔لیکن خنزیر کے جسم سے یہ جراثیمی زہر باہر نہیں نکلتے ، بلکہ یہ خنزیر کے فیٹی ٹیسوز میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔
٢. خنزیر میں سویٹ گلانڈ / مسام عرقی نہیں ہوتا ،
جس کے سبب وہ پسینہ نہیں چھوڑتا۔کسی جانور سے جب پسینہ چھوٹتا ہے تو اس کے بدن سے جراثیمی زہر نکل جاتے ہیں ۔چونکہ خنزیر کے بدن سے جراثیمی زہر نہیں نکلتے ، وہ بدن میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔
٣.خنزیر کا گوشت سرطان زا ہوتا ہے۔ ٥٠٠ گرام گوشت کھانے سے سرطان کا امکان اٹھارا فی صد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔”
ماہر ویٹرنری سائنس نے یہ بھی کہا کہ” اسلامی شریعت نے جس انداز سے جانور یا پرندے کو ذبح کرنے کے لئے کہا ہے وہ بھی سائنسی اعتبار سے درست ہے۔یعنی حلال شدہ گوشت کھانا چاہیے کیونکہ بغیر حلال کیے گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے “۔اس کی وجوہات انھوں نے یوں بیان کیں:
“١.اسلامی طریقے سے جب ذبح کیا جاتا ہے تو شریان سے پورا خون باہر نکل جاتا ہے جس کے سبب گوشت میں جراثیمی زہر باقی نہیں رہتے۔
٢.حلال شدہ گوشت میں خون باقی نہیں رہتا ۔قرآن کی آیت میں ویسے بھی خون کو حرام کہا گیا ہے۔اگر حلال شدہ نہیں ہے تو گوشت میں خون کے کچھ حصے باقی رہ جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اس لیے حلال شدہ گوشت ہی کھانا چاہیے۔”
تین چار سال پہلے ایک فیس بک سٹار نے اپنے فیس بک وال میں پوسٹ کیا تھا :
“اسٹریلیا میں خنزیروں کی پرورش فارم میں اور صاف ستھرے ماحول میں ہوتی ہے اور وہ گندی چیزیں نہیں کھاتے ، لہذا ان خنزیروں کا گوشت مسلمانوں کو کھانا چاہیے”
میں نے اس پوسٹ کا رد کیا ۔افسوس کہ اس پوسٹ کی تائید میں اسٹریلیا اور امریکہ کے کچھ نام نہاد مسلم بھی کمنٹ لکھ رہے تھے اور بڑی بے حیائی کے ساتھ علی الاعلان یہ اظہار کر رہے تھے کہ خنزیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہونے کے باوجود بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں ۔
میں نے اس پوسٹ کے خلاف بحث کی اور یہ بحث تقریباً چار روز تک چلتی رہی۔میں نے اپنے کالج کے لکچرر سے جو سیکھا تھا اسی کی روشنی میں بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ خنزیر کا گوشت صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ خنزیر گندی چیزیں کھاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی حرام ہے کہ خنزیر کا نظام انہضام اور استحالہ ایسا ہے کہ اس کے گوشت میں جراثیمی زہر فطری طور پر موجود رہتے ہیں اور وہ صحت کے لیے بےحد نقصان دہ ہے۔ فارم کی پرورش ماحولیات تو بدل سکتی ہے لیکن جانور کے جینیٹک کیریکٹر / جینیاتی کردار کو بدل نہیں سکتی ، جانور کے استحالہ کو بدل نہیں سکتی۔چار دن کی مسلسل بحث کے بعد اس فیس بک اسٹار نے ہماری بات تسلیم کرلی اور اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔
پتہ یہ چلا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ آج کل اپنے ملک میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔تبھی تو کبھی حجاب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی اذان کے خلاف ، کبھی مدرسوں کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی حلال ذبیحہ کے خلاف۔
حجاب سماج کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔حجاب صرف اسلام کی تہذیب نہیں ہے بلکہ ملک عزیز ہندوستان کی بھی تہذیب ہے۔
راقم الحروف کے دو اشعار اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں:
شرم و حیاءے جسم کی ترکیب ہے حجاب
اچھے سماج کے لیے ترتیب ہے حجاب
جو شخص ہے مخالف پردہ وہ جان لے
ہندوستان ملک کی تہذیب ہے حجاب
اذان فضا کے تقدس کے لیے لازم ہے۔نماز کے لیے مسلمانوں کو جب پکارا جاۓ تو کیسے پکارا جاۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سارے آپشنز رکھے گئے۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات کو سب پر ترجیح دی ، گویا اذان کے کلمات سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب ہیں۔ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب ہو اس کے تقدس کا کیا کہنا ۔
اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
:
خدا کا نام ہے اس میں رسول کا بھی نام
ہیں کلمے خوب معظم اذان دی جائے
نبی نے اس کو دی ناقوس ، سینگ پر ترجیح
ہے برکتوں سے مجسم اذان دی جائے
مدرسوں کی تعلیم سماج میں امن و اماں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کیونکہ مدرسے سے فارغ ہوکر علماء وعظ کرتے ہیں ، اچھے کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے باز آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس سے سماج اور ملک میں اچھے باشندوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
حلال ذبیحہ بہتر صحت اور تندرستی کے لیے لازم ہے۔اگر بغیر حلال کے گوشت استعمال کیا جائے تو بدن امراض کا شکار ہوگا اور بیماریاں بڑھتی چلی جائینگی۔ان باتوں کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اسباق کو منظر عام پر لائیں اور قرآنی احکام اور ان کی منفعت کو غیر مسلموں تک پہنچائیں ۔ہم اپنا قیمتی وقت اپنوں کے خلاف پرچہ بازی میں صرف کررہے ہیں، فروعی مسائل میں اختلافات کو بڑھاوا دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم داعیء اسلام ہیں ؟ کاش یہی وقت ہم ترسیل و ابلاغ اور تبلیغ اسلام میں صرف کرتے!
جو لوگ حلال اور حجاب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، وہ ایک دن ضرور پشیماں ہونگے اور اعتراف کرینگے کہ حجاب سماج کے لیے کس قدر ضروری ہے اور حلال ذبیحہ صحت کے لیے کیوں لازم ہے ۔
خدا رب العالمین ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے جو احکام جاری کئے ہیں ، جینے کے طریقے جو سکھائے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے بنی آدم کے لیے مفید ہیں ۔
حلال اور حجاب پر اگر ملک میں پابندی لگی تو ملک کے باشندے خود خسارے میں رہیں گے۔