WebHutt

”رمضان المبارک “ امت کی غم خواری وہمدردی کا بھی مہینہ ہے۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

(پریس ریلیز)اقوام ملل کی وہ تاریخیں جو مختلف فرائض وواجبات کےآغاز کی شاہد عدل ہیں ان میں ماہ رمضان کے ”روزے“ کےسن آغاز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسے بھی امت مسلمہ کےشعور وآگہی کا حصہ ہونا چاہیۓ۔فرمان خداوندی”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض ہوۓ جیسے اگلوں پر فرض ہوۓ تھے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے“کےنزول کے ساتھ رمضان کے روزے کی فرضیت کا خدائ حکم ١٠دس شعبان المعظم سن ٢دو ہجری کو امت محمدیہ کےلۓ نافذ ہوا۔مذکورہ آیت کریمہ کا اسلوب بھی نہایت دلنشیں و دل پذیر اور جاذب جگر ہےکہ تکلیف دہ اس حکم کو دیگر امم سابقہ کی طرح امت محمدیہ بھی بخوشی انجام دےکر رب کی خوشنودی حاصل کرلے۔کیوں کہ انسانی طبع ومزاج ہمیشہ اسی امر کا خوگر رہا ہے کہ دوسروں کےپر مشقت فعل کو دیکھ کر اپنی تکلیف بھول جاۓاور مصروف عمل رہے۔اب دیکھناہے اس امت سےپہلے کن انبیا ء وامم سابقہ کے روزے تھے اور ان کی کیفیت ونوع کیا تھی؟تفسیر خازن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ایام بیض یعنی ہرماہ کے ١٣\١٤\١٥تاریخ کے روزے رکھتے تھے،حضرت نوح علیہ السلام عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،حضرت موسی علیہ السلام عاشورہ {دسویں}محرم اور ہر ہفتہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے،حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے،حضرت سلیمان علیہ السلام ہرماہ کے شروع کے تین ، درمیان کے تین اورآخر کے تین ایام یعنی ہر ماہ کے نو روزے ذکر کردہ ترتیب سےرکھتے تھےاور حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ با صوم رہتے تھے۔ان تمام روزوں کا انتساب گوکہ انبیا کی طرف ہےتا ہم بمطابق آیت کریمہ یہ مسلم ہےکہ اگلی امتوں پربھی روزے فرض تھے خواہ ان کے فرض روزے وہی رہے ہوں جو ان انبیا کے تھے جن کے یہ امتی تھے۔ یا۔نوع وکیفیت میں قدرے تغیر و اختلاف کے ساتھ مختلف رہے ہوں بہر حال انسانی طبع ومزاج کے مطابق امت محمدیہ کے روزہ رکھنے کی ذہن سازی خلاق کائنات نے یوں فرمائ کہ یہ مشقت کی چیزاگلے لوگوں پر فر ض ہوئ ۔انہوں نےاس کو رکھا تم بھی بخوشی رکھو۔مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس فرمان عالی شان سے مستفید ہونے کی بجاۓ روزہ نہ رکھ کر بدباطنی کا ثبوت دیتے ، اور غضب جبار کے شکار بنتے ہیں ،مذکورہ باتیں دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ نے ایک پریس ریلیز میں بتائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رمضان شریف غریبوں ،بے سہاروں اور بےکسوں کی غم خواری وہمدردی کا مہینہ بھی ہے۔کیوں کہ آدمی جب بھوکا پیا سا ہوتا ہے تو اس کی شدت وتکلیف کااحساس ہوتاہے جب کہ سال کے اور مہینوں کے دنوں میں کھانے پینے کاعمل جاری رہتاے اس لۓ اس شدت کااندازہ ان دنوں میں نہیں ہوتا اور غربا کی تکلیف یاد نہیں آتی۔ مگر ماہ رمضان میں غم خواری و خیر خواہی امت محمدیہ کے روزہ داروں کے دلوں میں مؤجزن ہوتی ہے ،اور دست تعاون ان کی طرف دراز ہوتا ہوا نظر آتا ہےاور روزہ فرض ہونے کی ایک حکمت علما وحکمانے یہ بھی بیان فرمائ ہے ۔فرمان آقاۓ کریم میں اس کو غم خواری وخیر خواہی کا مہینہ بایں الفاظ کہا گیاہے “ھو شھر المؤاساة“ یعنی یہ رمضان شریف غربا سے غم خواری وہمدردی کا مہینہ ہے۔حضور کاعمل بھی یہی تھا آپ غربا کی مفلوک الحالی دیکھ کر بے چین،بے قرار ہو جاتے تھے اور خود بھی ان کی اعانت فرماتے ، دوسرو ں کو ان کی امداد کی طرف متوجہ فرماتے اور بعد امداد مسرت وشادمانی کےآثار آپ کی جبین اقدس سے ہویدا ہوتے تھے۔چنانچہ ایک بار کچھ لوگ کاشانئہ اقدس پر حاضر ہۓ جو ننگے پاؤں ،ننگے بدن ،ننگے سر اور بوسیدہ حال تھے ،حضور ان کی حالت زار دیکھ کر بے قرار ہو گۓ ،پریشانی کے عالم میں آپ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر آتے ۔بظاہر کچھ نہ رہنے کی وجہ سے آپ انتہائ متفکر تھے ،اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا ،آپ نے حضرت بلال کو آذان کہنے کا حکم دیا ،پھر آپ نے نماز پڑھائ نماز کے بعد حاضرین کی توجہ ان کی مفلوک الحالی کی طرف دلائ ،ان کی امداد کے بعد آپ کے جبین اقدس پر طمانیت ومسرت کے آثا نمودا ر ہوۓ ۔اللہ کریم ہم سب کو ماہ رمضان کے روزے اور غربا وپریشان حال کی اعانت کی توفیق، اور ان کی غم خواری وہمدردی کے اظہار کی ہمت عطا فرماۓ ۔آمین

Exit mobile version