کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے،اتحاد ایک زبر دست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تو دور کی بات آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتی ،حضور نبی کریم ﷺ،خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کے عہد کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس کام کو بڑی بڑی قومیں اپنی طاقت کے بَل بوتے پر نہیں کرسکیں،اُس کو مسلمانوں نے باہمی اتحاد و اتفاق ،اخوت وہمدردی آپسی بھائی چارگی اور اجتماعیت سے کر دکھایا۔
آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو، اور جتنا کمزور آج کا مسلمان ہے شاید ہی اتنا کمزور کبھی رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر ہی حملہ آور ہورہی ہیں۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے، ان کے املاک تباہ و برباد کئے جا رہے ہیں، بہت سارے ممالک میں انہیں تہ وتیغ کیا جارہا ہے ،جن میں قابل ذکر فلسطین، افغانستان،عراق، سیریا،حلب اور میانمار ہے۔ وطن عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے ہراساں و پریشاں کیا جاتا ہے ،کبھی شریعت میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،تو کبھی گائے کے نام پر ،معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامی قلعے مدارس و مساجد کی طرف انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری ایسی درگت کیوں ہو رہی ہے؟ہمیں ہر طرف سے دبانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟جب کی اللہ نے مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے ،اور یہ نعمتیں مختلف انواع و اقسام کی ہیں، جیسے اللہ نے مسلمانوں کو زراعتی،حیوانی،آبی، معدنی غرضیکہ ہر قسم کے دولت وثروت سے نوازا ہے، پیٹرول کا ایک وافر مقدار مسلمانوں کے پاس موجود ہے، مسلمانوں کی تعداد بھی ایک عرب سے زائد ہے،ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور ان کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، اہم آبی گزر گاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ پھر بھی مسلمان اتنا بے بس، مجبور، کمزوراور ذلیل و خوار کیوں ہیں ؟ان کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟ا ن کے متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ان میں سب سے اہم اور اصل وجہ آپسی اختلاف و انتشار اورتفرقہ بازی ہے ،یہی وہ بیماری ہے جس نے آج مسلمانوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے آج اغیار ہم پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف سے اتحاد اتفاق اور باہمییکجہتی کی جو میراث ملی تھی ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے اوراس کے بر عکس آج دوسری قومیں متحد و متفق ہو کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اور ویسے بھی اسلام نے مسلمانوں کے سامنے آپسی اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور پیش کیا ہے اور مسلمانوں کے مضبوط تعلقات پر خاص زور دیا ہے۔آج عالمی سطح پر دعوتِ دین اور غلبۂ دین کے لئے امت مسلمہ میں مضبوط اجتماعیت اور منظم اتحاد کی ضرورت ہے۔قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اجتماعیت اور آپسی اتحاد پر صاف صاف وضاحتیں ملتی ہیں۔جیسا کہ سورۂعمران آیت/ ۱۰۳،میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: “وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔ یہاں مفسرین کے نزدیک ’’حبل اللّٰہ ‘‘سے مراد کتاب اللّٰہ اور سنت رسول ہے۔ اسی طرح سورۂانفال آیت/۴۶ میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ”یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جگھڑا و اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” اللہ کے رسول ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے تمام صحابۂ کرام کے سامنے فرمایا ’’تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت ہے۔(مسلم)
لہذا مسلمانوں کے پاس کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ایک مصرعہ ہم نے اکثر سنا ہوگا “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے” یہ مشہور مصرعہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کا ہے،ڈاکٹر اقبال نے بھی اُمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ر ہے ہیں کہ قومیت کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔لیکن مقام افسوس صد افسوس ہے! کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ گمراہ اور بھٹکی ہوئی راہ پر گامزن ہیں ، ذلت و رسوائی اور ذہنی محکومی ہمارا مقدر ثابت ہورہی ہے۔ آج دشمنان ِ اسلام عالمی سطح پر ملت کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ شروع ہے۔ عالم اسلام کے بے شمار قائدین کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے ،اور بہت سی شخصیتیں شہید کردی گئیں ہیں۔ اسی طرح اب ہندوستانی مسلمانوں پر بھی خوف کے کچھ بادل منڈلانا شروع ہوچکے ہیں۔یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشیش جاری ہیں۔ جس کے لئے مختلف قانون وضع کئے جارہے ہیں۔اس ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں کے اکثر بےقصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرکے ان کے مستقبل کو برباد کیا جاتا رہا۔ انہیں جیلوں کے اندر طرح طرح کی اذیتوں سے گزارا گیا۔ اور اب براہِ راست تمام ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مآب لیچنگ کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی ایک منظم پروپگنڈے کا حصّہ ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت ملک کی جو موجودہ حکومت ہے وہ فسطائیت پر کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے نازک ترین حالات میں ملت اسلامیہ کے اندر آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپسی اتحاد و اتفاق کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ دین اسلام ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا ،خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگالیں۔ آج ہمیں اسی یقیں محکم کے ساتھ مسلمانوں کے اندر آپسی اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
لیکن افسوس بالائے افسوس ! آج ایک طرف عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ہم مسلمان آپس میں ہی خانہ جنگی کے شکار ہیں ،ہم مختلف گرہوں اور ٹکڑوں و ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں،ذات پات اور قومیت کا الگ مسئلہ ،ہم میں کا ہر ایک فرد وسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے،معمولی معمولی باتوں کو ایشو بنا کر ہم ایک دوسرے سے بر سر پیکار یا کم از کم بد ظن ضرور ہوجاتے ہیں ،اور بد ظنی اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تک سننا گوارہ نہیں ہوتا،اِس طرح کے اختلافات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اِس سے ہماری داخلی طاقت و قوت کمزور ہوتی جا رہی ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے اِسلام کی نشر و اشاعت بھی متاثر ہورہی ہے،غیر مسلموں کے ذہن و دماغ میں اسلام کے خلاف مختلف طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں ،جن لوگوں کے دلوں میں ملّت ِاسلامیہ کا درد ہے وہ ہمیشہ اِس فکر میں سر گرداں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں کیونکہ بقول شاعر مشرق
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،قرآن بھی اللہ بھی ایک
کیا بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک
آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ باطل طاقتیں اپنے پورے وسائل کے ساتھ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لئے صف آراہوچکی ہیں۔ اس وقت گروہی تعصبات کو ہوا دے کر ملّی وحدت کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔رنگ و نسل،حسب و نسب اور قومیت کے نام پر ملت کو تقسیم کرنے کا منصوبہ زور وشور سے جاری ہے۔تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہماری اس زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی کیا وجوہات ہیں؟ ہم جو کبھی قافلۂ سالار ہوا کرتے تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اسلاف کے ناموں سے قیصر و کسریٰ کے در و دیوار بھی دہل جاتے تھے، پھر آج کیوں ہم خوف و ڈر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟؟ تاریخ گواہ ہے ماضی میں ہماری قوم نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئیے اور ساحل پر کشتیاں جلا ڈالی تھیں،پھر اسی قوم کے ماننے والے آج کیوں پست حوصلہ اور کمزور ہوگئے ہیں؟؟؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیئے کہ جو قومیں آپسی اختلافات کا شکار ہوگئیں، ان کے اتحاد کا سورج ڈوب گیا، محکومی ان کا نصیب بن گیا ،اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے آپسی اتحاد پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے،ہزاروں تقریریں کی جاچکی ہیں، سمینار اور کانفرنسیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ہمیں آج اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اس وقت ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ آپسی انتشار اور گروہ بندی ہے۔ آج ہم نے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم حالات کی سنگینی سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں ۔ ہماری موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ ہم اس پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے ماضی کے مسلمانوں کو محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال قبل سر زمینِ عرب سے ایک”قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ”ٌ کا پیغام لے کر اُٹھی تھی جو شرک و کفر کے اندھیروں سے نکل کر توحید اور انصاف کی علمبردار بن گئی۔ کچھ ہی عرصے میں کفر وشرک کا زور مٹ گیا۔ فتح و کامرانی اور عزت و توقیر صرف اہل ایمان کو نصیب ہوئی۔لیکن آج جب ہم امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج ہماری اجتماعیت بکھر چکی ہے ، ہم مغربی تہذیب کو اپنا شعار بناچکے ہیں،اور نظامِ کفر کی غلامی کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔اسی وجہ سے آج ہماری صفوں سے اتحاد و اتفاق کا تصور کمزور ہوتا جارہا ہے۔اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ فکری سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے”واعتصموا بحبل اللہ”کے مفہوم و تقاضے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہم نے اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر گزارنے کی بجائے اپنی خواہشات نفس پر نچھاور کردی ہے۔ہم نے دینی تعلیمات سے کم اور اپنے نظریات سے زیادہ محبت رکھی۔ اجتماعیت اور “واعتصموا بحبل اللہ “کے سبق کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی پر چلنے والی اور “بنیان مرصوص” صفت کی حامل قوم سمجھتی ہے لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہائے افسوس!ہماری عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں۔ ہم نے غور و فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کیا یہ بات غور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے سینکڑوں فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کونسے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔ عراق،شام، فلسطین،افغانستان،برما اور کشمیر کے علاقوں میں شہید ہونے والے لاکھوں مسلمانوں سے کبھی ان سے جماعتی پہچان نہیں پوچھی گئیں۔ کاش ہم دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے۔! اب سوال یہ ہے کہ جب امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی وجہ معلوم ہوچکی ہے تو اس کے حل کی کوششیں کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ اور اگر ہورہی ہیں تو وہ کامیاب اور بااثر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آج ہر جماعت کے پاس اپنی ہی پالیساں بنی ہوئیں ہیں۔ آج جماعتوں اور ملی تنظیموں کے پاس اتحاد کا طریقۂ کار بس یہی ہے کہ ہمارے پرچم تلے آجاؤ، ہماری دکان کے خریدار بن جاؤتبھی تم فلاح پاؤگے۔آج ہر جماعت نے دین کے کسی نہ کسی ایک جُز کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور ساری توانائیاں اسی ایک جُز کی ترویج و اشاعت میں لگارہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو متبادل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا یا زندگی کے تمام شعبوں پر اسلامی احکام و قوانین کو نافذ کرنا، اس مقصد حقیقی سے آج ملت کی بے شمار جماعتیں اور ادارے ناواقف ہیں۔بے شمار جماعتوں نے اسلام کے کسی ایک ہی جُز کو اپنا مقصد و نصب العین بنادیا ہے۔چند عبادتوں اور فرائض سے آگے سوچنے اور کرنے کی کسی جماعت کے پاس آج مہلت ہی نہیں ہے۔ بعض جماعتوں نے شرک و بدعت کی کمر توڑنے کے لیے لاٹھی اُٹھا رکھی ہے تو کچھ لوگ صرف نماز کے لیے دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں خانقاہوں میں صرف پیر ی مریدی اور اللہ ہُو اللہ ہُو کی صدا تک بات محدود ہے،تو بعض ملی جماعتوں کے نزدیک صرف سیاسی کوشیش ہی دین کی سربلندی کا واحد راستہ ہے۔ کسی گروہ نے صرف خدمتِ خلق کو ہی اپنا حقیقی نصب العین بنالیا ہے۔ آج کئی دینی جماعتیں اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے خودساختہ نکاتوں پر کام کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں انتشار و افتراق پیدا ہورہا ہے۔عوام فروعی معاملات میں الجھ کر اصل دین سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم غیر شعوری طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارگی، آپسی رواداری، خلوص،باہمی محبت جیسی اصطلاحوں کی اب کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ہماری صفوں سے اتحاد ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور متنفر ہی ہوسکتا ہے۔مسلمانوں کے درمیان ایثار،قربانی،محبت اور خلوص جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ذہن نشین رہے !کہ مسلمانوں کا آپسی اختلاف اور تفرقہ تمام مشکلات اور مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے (جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے، تفرقہ کرو گے، اتفاق و اتحاد کو پس پشت ڈال دو گے تو پھر کمزور ہوجاؤ گے، تمہاری طاقت وقوت،شان و شوکت سب ختم ہوجائیگی، تمہاری عظمت و عزت خاک میں مل جائیگی،اور تم ذلیل و خوار ہو جاؤ گے۔لہذا اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوکر حق و باطل کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہوگا۔ اسلامی نظامِ زندگی کو نافذ کرنے کا مقصد ہی آج ملت میں آپسی اتحاد و اتفاق کو پیدا کرسکتا ہے۔جب تک ہم اسلامی نظام کو قائم کرنا اپنا مقصد نہیں بنالیں گےتب تک ہمارا آپسی اتحاد کمزور ہی رہے گا۔ امت مسلمہ کی طاقت،قوت،عزت، غلبہ، کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ آپسی اتحادو اتفاق ہی ہے۔اور صرف اسی کے ذریعہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسے ہی ذلت ورسوائی، کمزوری،بے بسی،محکومی اور ذہنی غلامی کی پستی میں گرتے رہیں گے۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے فروعی و جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی وحدت و اخوت اور بھائی چارگی کے رشتہ کو مضبوط و مستحکم کریں، کیوں کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی مضبوط اور منظم قیادت اتحاد کی شکل میں ابھرے،جو مستقبل میں اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ کا ذریعہ بن سکے۔
Leave a Reply