عام تر ہے آپ کا فیضان تاج الاولیا
شادماں ہے ہر تہی دامان تاج الاولیاء
طالبِ نورِ معارف ہے لہذا کیجیے
سوے دل پرنالۂ عرفان تاج الاولیا
جب ورق گردانیِ طومارِ ہستی میں نے کی
حاضری کا بڑھ چلا ارمان تاج الاولیا
لب پہ آیا بے محابا دیکھ کر شانِ غِنا
آپ پر قرباں ہے میری جان تاج الاولیا
ہے بہت معروف روحانی ضیافت آپ کی
کیجیے اپنا کبھی مہمان ، تاج الاولیا
ہے تمھارا قلزمِ مجذوبیت پر جوش آج
جذب کا بھر دیں بس اک فنجان تاج الاولیا
بندۂ محتاج ہے امید وارِ التفات
ہو رہی ہے زندگی ہلکان تاج الاولیا
دیکھ لو تو خرمنِ آلام جل کر خاک ہو
کہہ رہا ہے یہ مرا وجدان تاج الاولیا
دیکھ کر اک وقت میں دو دو جگہ دو تین بار
فوج کا افسر ہوا حیران تاج الاولیا
کر دیا تم نے دھنی دے کر بہ تعدادِ بنات
برہمن کو مژدۂ ولدان تاج الاولیا
نوریِ دریوزہ گر ہی کیوں ہو محرومِ مراد
پاتے ہیں جب فیض بے ایمان، تاج الاولیا
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی
۲۴/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۳/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی
بروز: منگل
Leave a Reply