اللّٰہ تبارک و تعالی نے اس خاک دان گیتی پر سب سے اشرف و اعلیٰ مخلوق انسان کو پیدا فرما کر اس کے سر پر اَحْسَنِ تَقْوِیمْ کا تاج زریں سجایا۔ اور ذاتِ لَمْ یَزَلْ نے انہی میں سے انبیائے کرام کی شکل میں ایسے ستارے درخشاں کیے جنہوں نے کائنات کو علم و ہدایت کے نور سے منور کر دیا ان میں آخر میں وہ ستارہ طلوع ہوا جس کا وجود ہر شی کی اصل ہے،جس کو قَدْجَاءَكُم مِنْ اْللّٰهِ نُوْرٌ کاپیکر اور اَوَّلُ مَاْخَلَقَ اللّٰهُ نُورِىْ کا جامہ پہناکر مبعوث فرمایا۔ یہ انبیائے کرام کی مقدس جماعت کے آخری فرد فرید ہمارے آقا علیہ السلام ہیں۔ یہ تمام انبیاءاس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے اور خدائی پیغام کو بندوں تک پہنچایا اور وقت مقررہ پر اس عالم فانی سے پردہ فرما گئے۔ چونکہ وعدۂِ ”كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْت“ بر حق ہے۔ اس وعدے کے مطابق موت انبیاء کو بھی آئی مگر ایک پل کےلیے۔ پھر اللہ نے انہیں برزخی زندگی عطا فرما دی۔ اسی کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں: ۔
انبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
تمام بنی آدم ذائقۂ موت چکھنے کے بعد پھر انہی اجسام عنصریہ کے ساتھ روز قیامت زندہ کیے جائیں گے۔ اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللہ تعالی بعض نفوس قدسیہ ( انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے، اگر آپ کی عقل اسے تسلیم نہیں کر سکتی ہے تو عالم آخرت کی زندگی کا ادراک بھی قدرت الٰہیہ کے علاوہ اور کیسے ہو سکتا ہے؟
انبیائے کرام علیہم السلام کے لیےموت صرف تصدیق اور وعدۂِ الٰہیہ کےمطابق ایک آن کے لئے آتی ہے، پھر وہ ابد تک حیات حقیقی دنیاوی اور جسمانی کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی قبروں میں حصول لذت کے لیے نماز بھی پڑھتے ہیں انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں اور ساری کائنات پر حکومت بھی کرتے ہیں، انبیائے کرام کی زندگی کے بارے میں علمائے امت محمدیہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے انبیائے کرام دنیاوی و حقیقی زندگی کے ساتھ حیات ہیں اور حیات انبیاء کا انکار کرنے والے لوگ گیارہویں صدی ہجری کے بعد ہی رونما ہوئے ہیں۔
مندرجہ ذیل سطروں میں انبیائے کرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر چند دلائل نقلیہ وعقلیہ ملاحظہ فرمائیں،
نقلی دلائل:
(١) اللٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ! وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِي سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتَ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَا تَشْعُرُوْن،(ترجمہ) اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں،
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام ہر اعتبار سے شہداۓکرام سے افضل و اعلیٰ ہیں، گروہ شہداء کا درجہ انبیاۓ کرام سے کم ہے اور جب شہداء کے لئے اس آیت کریمہ سے حیات ثابت ہے تو انبیاء و مرسلین جو سب سے اعلی و ارفع گروہ ہیں، ان کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ حیات ثابت ہوگی، اسی طرح جب قرآن میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے تو انبیائے کرام کو بھی بدرجۂ اولیٰ مردہ کہنے سے منع ہوگا۔
صحابہ ،تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء ،صالحین، اسلاف، اور تمام عاشقان محبوبِ ذاتِ لم یزل کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاۓ کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور اپنی امت کے احوال پر بھی مطلع ہیں،
(٢) اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ! وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃَ لِلْعَالَمِین: اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور آپ ﷺ کا رحمت ہونا تمام جہانوں کے لئے عام ہے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آپ اپنے ظاہری حیات میں اور بعد وفات بھی رحمت ہیں اور تمام جہانوں کیلئے رحمت ہونا آپ کی حیات کا تقاضہ کرتا ہے۔
(٣) حدیث پاک میں ہے: ”عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قالَ قالَ رسولُ اللّٰهِ ﷺ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى اْلاَرْضِ اَنْ تَاكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ“ (سنن نسائی،کتاب الجمعہ،ص: ۱۸۶/ ۱۸۷۔) رسول کریم ﷺنے فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر اجسام انبیاء کھانے کو حرام فرمادیا ہے۔ علامہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں؛ کہ ” اللہ کے نبی دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں“ ۔ حضرت ملا علی قاری فرماتےہیں : ” لَا فَرْقَ لَهُمْ فِي الحالَيْنِ وَلِذاقِيْلَ اَوْلِياءُ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ وَلٰكِنْ يَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلىٰ دَارٍ، وَاِنَّ اْلْاَنْبِياءَ فِي قُبُوْرِهِمْ اَحْيَاءٌ“.(انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کی اللّٰہ کے دوست مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں، اور بلاشبہ انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
(۴) سب سے بڑی دلیل حدیث پاک ہے ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قالَ قَالَ رسولُ اللّٰه ﷺ اَلْاَنْبِيَاءُ اَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّونَ“(حياة الانبياء فى قبورهم ص:٣) کبار محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ زندہ ہی نہیں بلکہ ایسے زندہ ہیں کہ وہ اپنی قبر انور سے سنتے بھی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں، ان کی حیات کا کوئی زوال نہیں ہے جب انبیاۓ کرام کا قبروں میں زندہ ہونا ثابت ہے تو سیدالانبیاء کا قبر انور میں زندہ ہونا بدرجۂ اتم ثابت ہوگا،
اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیزش اور تاویل کا وہم بھی نہیں ہے۔ اور امت کے ہر شخص کی نیت واعمال پر حاضر و ناظر بھی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو حضور کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے ہیں۔
حضور نور مجسم ﷺ دنیاوی زندگی سے لاکھوں کروڑہا درجہ بہتر اپنی قبر انور میں زندہ ہیں ۔
(۵) شب معراج آقا ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء و مرسلین کی امامت فرمائی تو اس سے یہ بات روز روشن کی طرح منور ہوگئ کہ انبیاۓ کرام بعد وصال بھی زندہ ہیں۔
(٦) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت پر صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکرصدیق کے جنازے کو بابِ روضۂ رسول پر رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کے الفاظ دہرائے، ” یَا رَسُولَ اللّٰهِ هَذَا اَبُوبَکْرٍ یَسْتَأذِنُ (اے اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر ہے آپ سے اجازت طلب کر رہا ہے) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دروازہ خود بخود کھل گیا اور روضۂ رسول سے یہ آواز آئی کہ حبیب کو حبیب سے ملا دو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے اس عمل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اپنے غلاموں کی فریاد سنتے بھی ہیں اور ان کو نوازتے بھی ہیں۔
(۷) اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی االلہ عنہا کا روضۂ رسول و ابو بکر پر بغیر پردے کے جانا اور حضرت عمر فاروق اعظم کے مدفون ہونے کے بعد پردے کے ساتھ جانا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ عمرین بھی زندہ ہیں۔
(۸) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا چہرہ قبرِ انور پر رکھنا اور مروان بن حکم سے یہ کہنا: کہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
صحابئ رسول کا یہی نظریہ تھا کہ یہ قبر محض مٹی کا ڈھیر نہیں ہے بلکہ اس میں نبی پاک ﷺ جلوہ گر ہیں ، صحابۂ کرام، تابعین عظام آپ ﷺ کو زندہ سمجھ کر ہی قبر انور پر حاضری دیا کرتے تھے۔
عقلی دلائل:
(۱) اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللّٰہ ﷻ بعض نفوس قدسیہ (انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے ،
(۲) انبیاۓ کرام کا بعد وصال ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہےاور ان کی بیویاں عدت گزارنے کے بعد بھی دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں۔ کیونکہ زندوں کاترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بعد وفات تقسیم کیا جاتا ہے اور انبیاۓ کرام زندہ ہیں اس لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک شوہر زندہ ہےعورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی ہےاور انبیاۓ کرام کی بیویاں بھی کبھی بھی دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی ہیں اس لئے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں۔
(۳) انبیاۓ کرام کا تو الگ ہی مقام ہے ان کے خاص غلام بھی اپنی قبروں میں باحیات ہیں مثلا صحابئ رسول حضرت حذیفہ و حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو تیرہ سو سال بعد قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا اور جسم مبارک کا بلکل صحیح و سالم ہونا، ان کے چہرۂ زیبا کو دیکھ کر ہزاروں لوگوں کا اسلام قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء و اولیاء مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔
اولیاء و شہداءکی قبورکھلنے پر ہم انہیں حرکت و عمل اور عبادت الٰہیہ کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ ذات مدفونہ ہی معطل عن الافعال ہیں،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں وہ قوت ہی نہیں ہے کہ ہم ان کے مصروف بالعبادت ہونے کا ادراک کر سکیں، ہاں! اللہ تعالیٰ جس سے وہ پردہ اٹھا لے وہ تمام عالم کے حالات مشاہدہ کر لیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنے جسم و روح کے ساتھ اپنی قبر میں زندہ ہیں اس کو یوں سمجھیں مثلا ” زیدٌ عالمٌ “ کا ترجمہ ہر عربی داں یہی کرے گا کہ زید فی الحال عالم ہے یہ کوئی نہیں کہے گا کہ زید عالم تھا۔ اسی طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ کا ترجمہ ہر شخص یہی کرے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ کوئی نہیں کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، بلکہ ہر چھوٹا بڑا یہی کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس کا ملخَّصِ کلام یہ ہے کہ آقا ﷺ ہر زمانے میں حیات ظاہری کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور یہ کلمۂ طیبہ ہمارے نبی کے زندہ ہونے کی بہت بڑی
دلیل ہے لہذا ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ انبیاۓ کرام جسم و روح کے ساتھ زندہ ہیں _
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میرےچشم عالم سےچھپ جانےوالے
Leave a Reply