آج سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل، جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ سے آل انڈیا مقابلۂ قرأت اور مسابقۂ خطاب کا ایک اشتہار شائع ہوا، جس کو میرے ہم جماعت اور عزیز دوست فخر عالم بھائی نے ہماری جماعت کے واٹس ایپ گروپ میں ارسال کیا اور خصوصاً مجھ احقر کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی اور اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ : “ہاشم حصہ لے لو”۔
چونکہ اس وقت ہم تمام طالبان علوم نبویہ عید قرباں کی تعطیل کی وجہ سے اپنے اپنےگھروں پہ سکونت پذیر تھے، مدرسہ میں نہ ہونے اور ساتھیوں کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بات کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی، مگر موصوف نے دل سے کہا تھا، اس لیے میری کاہلی کو جب دیکھا تو اگلے ہی دن کال کی اور پوچھا کہ : مسابقۂ خطاب میں حصہ لینے کے متعلق کیا سوچا؟ میں نے کہا کہ: بھائی! وہ آل انڈیا مسابقہ خطاب ہے، میں اس میں کیسے حصہ لے سکتا ہوں؟ کس شمار و قطار میں آؤں گا میں؟۔ میرا یہ جواب سن کر انہوں نے مجھے سمجھایا، موٹیویٹ کیا اور حوصلہ دیا کہ تم سے امید ہے اس لیے صرف تمہیں کہہ رہا ہوں ۔ ان کے ان پرخلوص کلمات کی میں نے لاج رکھ لی اور کہا کہ ٹھیک ہے بھائی! میں حصہ لے لوں گا۔ لیکن میرا دل حصہ لینے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں تھا۔
🔸 کچھ دنوں بعد عید قرباں کی تعطیل ختم ہوئی اور ہم تمام طلبہ مادر علمی “جامعہ احسن البرکات” پہنچے، فخر عالم بھائی نے پہلی ہی ملاقات میں پوچھ لیا کہ کیا ہوا بھائی! حصہ لیے کہ نہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ میرا جواب سن کر انہوں نے خوب رنج و ملال کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ تم کو توحصہ لینا چاہیے-
رجسٹریشن کی تاریخ ابھی باقی تھی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، حصہ لے لوں گا، گزرتے دن کے ساتھ ان کے سوالات جاری رہے اور جواباََ میرا ٹال مٹول چلتا رہا بالآخر رجسٹریشن کی آخری تاریخ یکم محرم الحرام آ گئی۔ بلکہ اس نئے سال کے پہلے دن کا سورج رجسٹریشن کے آخری لمحات بھی لے کر ڈوبنے کے قریب آچکا تھا، تمام طلبہ نماز مغرب کی تیاری میں مصروف تھے اور وضو کرکے یکے بعد دیگرے روم میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت تمام ساتھیوں نے بیک زبان مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لیے مجھے ابھارا اور بالآخر بالکل آخری لمحے میں اپنا نام رجسٹریشن کروا ہی لیا۔
نام کا اندراج تو ہوگیا مگر تقریر کہاں سے بولوں، وہ بھی اس شخصیت کو عنوان بنا کر جن کا صرف تصور بوجهٍ مَّا مجھے حاصل تھا، اسی ٹینشن کے ساتھ جامعہ کے ایک لائق وفائق استاد حضرت مفتی شاداب احمد امجدی صاحب کے پاس گیا اور حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ تو انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا، اور فرمایا کہ یہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے شاگرد آل انڈیا مقابلہ میں شرکت کر رہے ہیں. پھر میں نے اپنا عریضہ پیش کیا کہ حضرت! اس مقابلہ میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ تو حضرت نے کہا کہ : کیوں نہیں انشاءاللہ ضرور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریر ریکارڈ کرکے بھیجنے میں صرف پانچ دن باقی تھے. ان پانچ دنوں میں حضرت کو تقریری مواد بھی فراہم کرناتھا اور مجھے تقریر یاد بھی کرنی تھی۔
حضرت اس وقت جداریوں کی اشاعت اور تدریسی خدمات میں بہت مصروف تھے اس لیے آخری وقت پر میرے لیے گئے اس فیصلے پر زجر و توبیخ بھی کی کہ اور پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ ڈھنگ سے کچھ لکھ سکوں ۔
پھر بھی موصوف نے ایک طالب علم کی حوصلہ شکنی نہ ہو بس اس لیے اس کم وقت میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تیار ہوگئے اور بالآخر حضرت نے ایک دن پہلے تقریر دی اور اس فقیر نے حضرت کی دعاؤں کا توشہ لیتے ہوئے یاد بھی کرلی اور دوسرے دن ریکارڈ کرکے بھیج بھی دی۔
مقابلے کا انعقاد کرنے والوں نے یہ طریقہ اپنایا تھا کہ جتنے طلبہ بھی ریکارڈنگ بھیجیں گے ان میں سے ہم دس کا انتخاب اپنی صواب دید پر کریں گے اس لیے اب دس منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہونے کا انتظار تھا. بالآخر منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہو گئی اور اس میں اپنا نام دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی، کیوں کہ معلوم ہوا تھا کہ کثیر تعداد میں طلبہ نے شرکت کی ہے (بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہزار کے قریب طلبہ نے ریکارڈنگ ارسال کی تھی) اور ان میں میرا نام آنا صرف فضل الٰہی سے ہی ممکن ہوا، لسٹ میں اپنا نام دیکھا اور یہ خوشخبری جب میں نے اپنے ساتھیوں کو دی تو پورے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ اور سبحان اللہ. ماشاءاللہ کے ساتھ مبارکبادیوں کی صدائیں گونجنے لگیں. اپنے ساتھیوں سے مبارکبادیاں حاصل کرنے کے بعد استاد مکرم مفتی شاداب امجدی کے پاس خوشخبری سنانے کے لئے گیا تو دیکھا کہ حضرت سونے کی تیاریاں کر رہے تھے جیسے ہی میں نے حضرت کو یہ خوشخبری سنائی تو حضرت خوشی سے جھوم گئے اور فرمایا کہ بابو! تم نے تو میری نیند ہی غائب کردی۔ دوسرے دن صبح فجر کے وقت جامعہ احسن البرکات کے پرنسپل حضرت علامہ عرفان ازہری صاحب کو جب یہ خوشکن خبر دی تو انہوں نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا اور پرنسپل صاحب نے اساتذۂ جامعہ کے گروپ میں یہ بات شیئر کی تو ابا حضور اور تمام اساتذہ نے دعاؤں سے نوازا ۔ 26/ اگست بروز جمعہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوتے وقت ابا حضور سے دعائیں بٹورنے کے لئے گیا تو ابا حضور نے اپنی عادت کے مطابق اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور فقیر کو دیتے ہوئے کہا کہ : جاؤ اللہ تعالٰی آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و احباب سے دعاؤں کی سوغات لئے ہوئے جامعہ سے نکلا اور خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں فاتحہ پڑھ کر خانقاہ عالیہ مینائیہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوا۔
اگلے دن سفر طے کرکے جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ پہنچا، جامعہ کی فلک بوس عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور پھر وہاں کے انتظام وانصرام کا عالم یہ تھا کہ وہاں کے خدام چپل تک کو ترتیب سے رکھ رہے تھے اور مسابقہ کی شفافیت کا عالم یہ تھا کہ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے ہم کو نگرانی میں لے لیا گیا تاکہ کسی سے مل نہ سکیں اور ایک خادم ہمارے ساتھ کر دیا گیا تاکہ وہ ہماری ضرورت پوری کرے۔ بالآخر وہ گھڑی آ گئی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا یعنی مسابقۂ خطاب شروع ہونے والا تھا کہ اچانک استاذ معظم حضرت مولانا تنویر احمد علیمی صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ ابھی ابا حضور کا فون آیا تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ ہاشم کیسے ہیں؟ انکا کیا حال ہے؟ ان سے کہ دینا کہ بے فکر ہوکر تقریر کریں، میں دعائیں کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں نے یہ جملہ سنا میرے دل سے خوف وہراس ختم ہو گیا. اور مجلس میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا اور جب باری آئی تو چونکہ ابا حضور کا جملہ رہ رہ کر مجھے یاد آ رہا تھا اس لیے بلا خوف وخطر پوری دل جمعی اور مکمل اعتماد کے ساتھ خطاب کیا۔ جیسے ہی خطاب سے فارغ ہوا مفتی شاداب صاحب کا میسیج آیا ( چونکہ حضرت لائیو پروگرام دیکھ رہے تھے ) کہ بیٹا ایک نمبر تمہارا ہی ہے۔
اس کے بعد ہم سبق ساتھیوں کا فون آیا اور وہ بھی یہی جملے ادا کر رہے تھے جو حضرت نے فرمائے تھے۔ لیکن ابھی رژلٹ آنا باقی تھا، دوسرے دن جیسے ہی 7:50 پر بیدار ہوا تو دیکھا کہ حضرت کی دعاؤں سے لبریز میسیج اسکرین کی زینت بنے ہوئے ہیں، پڑھ کر دل تو مطمئن تھا ہی لیکن بہرحال رژلٹ کا انتظار تھا۔ وقت مقررہ پہ رژلٹ آوٹ ہوا دیکھ کر رب کی بارگاہ میں شکرانہ پیش کیا، پہلے پہل مجھے اپنی بصارت پہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ میں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے، پھر دل میں خیال آیا کہ کامیاب کیوں نہ ہوتا جب کہ ابھی کچھ دن پہلے عرس حضور صاحب البرکات کے مبارک موقع پر جب میں نے حضور صاحب البرکات کی حیات و خدمات پر تقریر کی تھی، اس وقت حضور امین ملت نے خوب خوب دعاؤں سے نوازا تھا اور حضور شرف ملت نے کہا تھا کہ “ایسی مختصر اور جامع تقریریں میں نے بہت کم سنی ہے” اور جنگ آزادی کے موقع پر اس فقیر نے ایک مضمون لکھا تھا اس وقت ابا حضور نے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے کہا کہ “اللہ تعالیٰ آپ کی زبان اور قلم دونوں کو مضبوط بنائے” ۔ میرے سرکاروں اور میرے اساتذہ کی دعاؤں کا سہرا میرے سر تھا تو پھر ناکام کیوں کر ہوتا ۔
سب سے پہلے قبلہ پرنسپل صاحب کو خوشخبری سنائی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے : ارے! ماشاءاللہ بیٹا! تم نے تو دل خوش کر دیا مبارک ہو بیٹا! ۔ پھر مفتی شاداب صاحب کے پاس فون کیا وہ بھی خوشخبری سننے کا انتظار ہی کر رہے تھے، جب میں نے ان کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ “بابو! تم نے ہمارا سر فخر سے اونچا کر دیا اور ہمارے جامعہ کا نام روشن کر دیا” ۔ پھر ابا حضور کو فون کیا تو ابا حضور نے فون اٹھاتے ہی فوراً کہا کہ “بیٹا! مبارک ہو”- اور خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔
شام کے وقت جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، مناظر اہل سنت تاج الفقہاء حضرت علامہ مفتی اختر حسین صاحب علیمی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی اور خانقاہ عالیہ مینائیہ کے سجادہ نشین سرکار شاہ جمال مینا صاحب کے ہاتھوں خوبصورت ٹرافی اور فتاویٰ فقیہ ملت اور پچیس ہزار روپیے [25000] نقد انعام و اکرام سے نوازا گیا-[فالحمدلله علیٰ ذالک] اگلے دن جیسے ہی خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مقدسہ پہنچا اساتذہ و طلبہ اور خانقاہ کے تمام خدام کے چہرے کھل اٹھے، پرجوش استقبال کیا اور مبارکبادیوں سے نوازا- ابا حضور سے ملاقات کی تو ابا حضور کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور خوب خوب دعاؤں سے نوازا- میں اپنی اس نمایاں کامیابی پر تمام شہزادگان وآقایانِ خاندان برکات اورجملہ اساتذۂ کرام اور علاقۂ تھار کی بہت ہی عظیم شخصیت اور مغربی راجستھان کی ممتاز و منفرد دینی درسگاہ دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف کے مہتمم وشیخ الحدیث اور میرے اوپر خصوصی طور پر ماں باپ سی شفقت فرمانے والے مفکر قوم وملت نورالعلماء والمشائخ حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری کا ( جو وقتاً فوقتاً اپنی دعاؤں سے نوازتے رہتے ہیں، جن کی دعاؤں کا صدقہ مجھے یہ ملتا ہے کہ میں جس میدان میں بھی قدم رکھتا ہوں ان کی دعاؤں سے کامیاب ہوتا ہوں) اور دارالعلوم انوار مصطفیٰ کے ناظم تعلیمات اور لائق و فائق استاد اور ہندوستان کے مشہور ومعروف قلم کار حضرت مولانا شمیم احمد نوری مصباحی کہ جن کے مشوروں نے کئی جگہوں پر مجھے کامیاب کروایا. اللہ تعالٰی میرے تمام اساتذہ اور کرم فرماؤں کو سلامت رکھے اور عمر خضر عطا فرمائے-
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین آباد
Leave a Reply