حدیث شریف میں ہے کہ “لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے” اور “دین ہر مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے” لہٰذا ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی نفع رسانی و خیر خواہی کے لیے کمر بستہ اور تیار رہنا چاہییے، معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہییے- اس سلسلے میں ہمارے علمائے کرام، قائدین دین و ملت موثر رول اور کردار ادا کرسکتے ہیں-
ویسے اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے خود اوامر پر عمل پیرا اور منہیات سے پرہیز کرنے کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری باقاعدہ نبھائے تو معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ و مامون ہو جائے گا اور اگر ہمارے اور آپ کے اندر احساس ذمہ داری نہیں ہے تو اس بارے میں ہم سے مواخذہ ہوگا جیسا کہ حدیث رسول کا مفہوم ہے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: “تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا (ماتحت) کے بارے میں باز پرس (پوچھ تاچھ) ہوگی، آدمی اپنے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا (گھر والوں) کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے آقا(مالک) کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائےگا، پس تم میں سے ہر ایک نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا” (متفق علیہ)
اس حدیث پاک میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے امت کے ہر شخص کو اپنے اپنے فرائض کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت و لاپرواہی کرے گا وہ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں جوابدہ ہوگا… اور جو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حساس اور کوشاں ہوں گے انہیں دوسری حدیثوں میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دخولِ جنت اور ابدی سعادت کی بشارت وخوشخبری بھی دی ہے-
مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل دستور حیات عطا کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے والا مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کا حقدار ہوتا ہے- اسلامی نظام زندگی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر گوشے اور انسانوں کے ہر طبقے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں- کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے اور شادی بیاہ،تجارت و معیشت وغیرہ ہر طرح کے معاملات کے لیے دفعات و قوانین متعیّن ہیں- گویا انسانی ضرورتوں کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے جوڑے اور اپنی ہر خواہش رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کر دے-
ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسلامی دستور حیات کا عملی نمونہ ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ اور آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، صحابۂ کرام،تابعین عظام اور سلف وخلف نے سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے آئیڈیل بنایا تو وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب و کامران رہے…آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمارا معاشرہ اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور نظر آتا ہے، اسلامی احکام و قوانین کا کوئی پاس ولحاظ نہیں، اور نہ ہی اپنے آقا و مولیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو زندگی کا نمونہ بنانے میں کوئی دلچسپی ہے، گویا شرمِ نبی اور خوفِ خدا دونوں ہم سے رخصت ہو چکا ہے… آج ہمارے معاشرے کی یہ بدلی ہوئی حالت کیوں ہے؟ ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے؟ ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف اور بیزاری ہے-اصلاح معاشرہ کے لئے ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور ان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں-
اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل فرمایا ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں، آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، یہی وجہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پہلے اور بعد بہت سے فلاسفہ اور حکما ومصلحین ایسے بھی گزرے جو وعظ و نصیحت کرتے رہے اور انہوں نے فلسفہ اور عقل و دانائی کی بنیاد پر اپنا لوہا منوایا، لیکن معاشرے پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا، ایسا صرف اس لئے ہوا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دیکھاتے رہے لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے، وہ لوگوں کو رحم و محبت کا سبق پڑھاتے رہے لیکن خود غریبوں کو ستاتے رہے-
اصلاح معاشرہ میں آپ کا دوسرا بنیادی اصول جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے سچائی اور حق کے راستہ پر چلنا تھا، آپ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرماتے رہے اور خود بھی اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے صحابہ کو بھی اس رزیل ترین فعل سے پرہیز کرنے کی تاکید فرماتے رہے- حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ وصف اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ کو صادق اور امین مانتے تھے… جھوٹ معاشرے کے بگاڑ کی ایک اہم ترین برائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لعنت کے مستحقین میں جھوٹے کو بھی شامل کیا گیا ہے-
اب اصلاح معاشرہ کے تعلق سے ہم کچھ ایسے اہم امور اور اصول کو درج کریں گے کہ اگر ان پر عمل کر لیا گیا تو یقیناً ہمارے معاشرے کی سُدھار ہو جائے گی-
خود اپنی اصلاح کی فکر کرنا:-
اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص پر خود اپنی اصلاح و سدھار کی ذمہ داری ہے، اگر معاشرے کا ہر شخص اس ذمہ داری کو محسوس کر لے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرے تو معاشرے کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی، کسی دوسرے کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی، اصل خرابی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہوچکے ہیں اور محض دوسروں کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح بھی یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر اس سے پہلے خود کی اصلاح ضروری ہے، اس لیے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے خود کی ذات کے متعلق سوال ہوگا، کسی دوسرے کے متعلق سوال کا مرحلہ بعد میں آئے گا،… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا-
(1) اس کی عمر کے بارے میں کہ زندگی کے ماہ وسال اور اوقات کہاں گزارے؟…
(2) جوانی کے بارے میں کہ جوانی کس چیز میں کھوئی؟…
(3) مال کے سلسلے میں کہ مال کہاں سے کمایا؟…
(4) اور یہ کہ وہ مال کہاں خرچ کیا؟…
(5) اور یہ کہ جو باتیں وہ جانتا تھا ان پر کتنا عمل کیا؟… [ترمذی ج/2 ص/67]
جو لوگ دنیا میں اپنی اس انفرادی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گے ان کے لیے جنت کا وعدہ بھی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے صحابۂ کرام سےارشاد فرمایا: کہ اگر تم مجھ سے چھ باتوں کا وعدہ کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں…
(1) جب بات کرو تو سچ بولو…
(2) جو وعدہ کرو اسے پورا کرو…
(3) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو…
(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو…(5) اپنی نگاہ نیچی رکھو…
(6) اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو…
اسی طرح ایک روایت میں یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں-
اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کی کوشش کرنا:-
اپنی اصلاح کے بعد اب معاملہ اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کا آتا ہے- عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مصلحین قوم و ملت اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بد عملی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں حالانکہ قرآن مقدس میں واضح انداز میں فرمایا گیا ہے [یاایھاالذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا] ترجمہ: ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ- (سورۂ تحریم:6) اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی اصلاح کے بعد سب سے پہلے خود اپنے گھر والوں کے اصلاح کی ذمہ داری ہے، جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات و اطوار سے آراستہ کرتے ہیں احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہوئی ہیں-
اپنے ارد گرد،پاس پڑوس کے اصلاح کی فکر کرنا:-
اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے، سب سے پہلے اپنے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں؟ ان کے اعمال کس طرح کے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں- اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح رہنمائی کریں، دین کے اصولوں پر کاربند ہونے کے لیے ہم ان کی مدد کریں، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ اور کورے ہیں تو ہم انہیں تعلیم کی اہمیت بتا کر علم حاصل کرنے کی جانب رغبت دلائیں- اخلاق سے عاری ہوں تو ان کو اچھے اخلاق سکھائیں، ان کے معاملات زندگی خراب ہوں تو انہیں بتائیں کہ معاملات کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟- اور یہ ساری باتیں لعن طعن اور بےجا سختی کے انداز میں نہ کریں بلکہ یہ سارے کام الفت و محبّت اور نرمی و پیار کے میٹھے انداز میں کریں- صحابئ رسول حضرت ابزیٰ خزاعی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک دن سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے، نہ ان کو علم سیکھاتے ہیں، نہ ان کو نصیحت کرتے ہیں، نہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں، اور نہ ہی ان کو برائی سے روکتے ہیں- اور لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے، نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی بات سیکھتے ہیں، اللّٰہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سیکھائیں، عقل کی باتیں بتائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اور لوگوں کو بھی چاہییے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں، اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں عنقریب ہی تمہیں اس دنیا ہی میں سزا دوں گا”…(کنزالعمّال ج/3 ص/684)
سبھی مسلمانوں کی اصلاح کی کوشش کرنا:-
اپنی ذات، اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے لوگوں کی اصلاح کے بعد عام مسلمانوں کے اصلاح کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے- اگر آپ مسلمانوں کو منکرات (برائیوں) میں مبتلا دیکھیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے(حتّی المقدور) روکیں، پھراس روکنے کے بھی مختلف درجے ہیں جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلافِ شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے، اگر ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے اور اسے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زبان سے کہنے کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، گویا اگر دل سے بھی برا نہ سمجھے تو مسلمان یا صاحبِ ایمان کہلانے کا صحیح معنوں میں مستحق ہی نہیں ہے-
اب آئییے حضور سرور کائنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اصلاح معاشرہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا اصول ملاحظہ کریں کہ اس جانب اگر ہمارے مصلحین خصوصی دھیان دے کراصلاح کی کوشش کریں تو ان شاء اللّٰہ العزیز ہمارے معاشرے میں بہت حد تک بہتری آجائےگی-
ایمانِ محکم،عملِ صالح،خوفِ الٰہی اور فکر آخرت:-
ہمارے پیارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور کن بنیادوں پر صحابۂ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتدا و پیشوا بن گئے- ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل و غارت گری کا رواج تھا، وہ لوگ راہِ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا- حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوف الٰہی اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا، وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا وہ قیصروکسریٰ جیسے عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح رہے-
آج ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم و نسق، یقین محکم کی قوت،کردار وعمل کی طاقت، خوفِ الٰہی کا زاد راہ اور آخرت کی فکر کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے… جب ہمارے پاس ایمان و یقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار و عمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگیے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا، اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاح معاشرہ کا باضابطہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا- اس لیے ہمارے مصلحین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے وقت ان باتوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں کہ سب سے پہلے ایمان کی مضبوطی پر دھیان دیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح (نیک عمل) کی جانب لوگوں کو راغب کریں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوف الٰہی و خشیّتِ ربّانی نیز فکرِ آخرت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں- اس لیے کہ اگر کسی بھی مسلمان کے اندر یہ چیزیں پیدا ہوجائیں تو وہ از خود (اپنے آپ) اوامرِ شرعیہ کا عامل اور منہیات سے پرہیز کرنے کا خوگر ہو جائے گا-
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے-آمین
Leave a Reply