مارہرہ مقدسہ میں آباد خاندان رسالت وہ مبارک ومسعود خاندان ہے جس کے تمام شیوخ واکابر کی پیشانیوں میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا،چنانچہ سلطان العاشقین حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ عشقی مارہروی کی سب سے بڑی کرامت استقامت و تصلب فی الدین اور تقویٰ و طہارت بتائی جاتی ہے-
اسی صاحب تقویٰ و طہارت اور متصلب خانوادے کی ایک عظیم اور جلیل القدر شخصیت جنہیں دنیا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے پیکر میں جانتی اور پہچانتی ہے-
آپ 13/ فروری سنہ 1927ء کو جنت نشاں مارہرہ مقدسہ میں پیدا ہوئے-اور اپنے وقت کے جید اور ممتاز علماء سے نورعلم کشید کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کی بافیض درسگاہوں سے حافظ قاری مولانا مفتی اور مرشد کی منزلیں طے کرتے ہوئے حسن سے احسن کے مرتبہ پر فائز ہوئے- یوں تو آپ کو خاندانی وراثت کے طور پر بے شمار اوصاف وکمالات حاصل ہوئے-مگر اس وقت میرے قلم کا محورومرکز حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کا تصلب فی الدین ہے- آپ اپنے اکابر واعاظم کے اس وصف خاص کے مظہراتم تھے-آپ کے اقوال ہوں یا افعال، تحریر ہو یا تقریر، ظاہر وباطن، ہر چیز میں تصلب فی الدین کا نورچمکتا تھا-فقیہ اعظم، شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کے سوالات شرف ملت دام ظلہ العالی نے مرتب فرمائے تھے ۔اس انڑویو میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے کس پہلو نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ؟ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کی سیرت کے اس زریں پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا کہ آپ مذہب حق اہل سنت وجماعت ، خصوصاً مسلک اعلی حضرت کے اعلیٰ درجے کے پابند تھے اور اس میں اتنا تصلب تھا کہ کم بینوں کو تعصب کا دھوکہ ہوتا تھا ۔مسلک اعلیٰ حضرت میں نہ ادنیٰ سی مداہنت خود فرماتے تھے اور نہ اس کو برداشت فرماتے تھے-
آج کے دور میں متصلب فی الدین کی واضح پہچان مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے محبت و وابستگی ہے- اس زاویہ سے دیکھا جائے تو بھی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کو سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے غایت درجہ کا عشق تھا- اسلام وسنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت ان کا خصوصی مشن تھا- حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ احقاق حق اور ابطال باطل کے ذریعہ اپنے تصلب فی الدین کی صاف ونمایاں تصویر تھے-
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی تحریر فرماتے ہیں کہ جب مولوی خلیل احمد بجنوری ثم بدایونی نے اپنی چھپی ہوئی وہابیت کا اعلان کیا تو لوگوں نے حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ سے شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ میں مفتی شریف الحق سے بات کرتا ہوں ۔ چوں کہ یہ شخص تقیہ کرکے حضور تاج العلما علیہ الرحمہ سے مرید ہوا اور ان کا خلیفۂ مجاز تھا ۔ اور ابتداءً متصلب سنی بنتا تھا. اسی وجہ حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کو کچھ تردد تھا ۔
میں ایک بار حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحب! مولوی خلیل کے بارے میں کیا سنا اور دیکھا ہے ؟ میں نے بدایوں کے مناظرے کی پوری رپورٹ سنا دی اور عرض کیا : یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ دیوبندیوں کے وہ اکابر جن کی علمائے اہلسنت کی طرف سے تکفیر ہو چکی ہے وہ انکی تکفیر سے کف لسان ہی نہیں کرتا بلکہ انکو اپنا پیشوا مانتا ہے اور بلاشبہ من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفرہ کی رو سے کافر ومرتد ہو چکا ہے ، اور بلاشبہ اس کی بیعت واجازت فسخ ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے عرس قاسمی کے مبارک ومسعود موقع پر قل شریف کی محفل میں اس سے اعلان براءت فرمایا کہ یہ شخص اب سنی نہیں رہا ، اس کی اجازت و خلافت ختم ہو گئی ۔ میرے مریدین اور اہل سنت اس سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھیں-
حضور امین ملت بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ ہم بھائیوں سے کہتے تھے کہ میرا مرید مسلک اعلیٰ حضرت سے ذرا بھی ہٹ جائے تو میں اس کی بیعت سے بیزار ہوں ۔اور میرا کوئی ذمہ نہیں ہے ۔فرماتے تھے کہ یہ میری زندگی میں نصیحت ہے اور وصال کے بعد وصیت ہے-
ابا حضور ،حضور رفیق ملت ہم طالبان علوم نبویہ کو مسلک اعلیٰ حضرت پر پابند رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کئی مرتبہ یہ بیان فرما چکے ہیں کہ جب حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو ہم چاروں بھائیوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ” بیٹا! مولانا احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے مسلک کو مضبوطی سے تھامے رہنا“ ۔
علامہ ارشد القادری ایک تاثراتی تحریر میں فرماتے ہیں کہ حضور احسن العلماء نے دم رخصت ارشاد فرمایا: مسلک اعلی حضرت پر ڈٹے رھنا! آج سوچتا ہوں تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے کہ ان کے ایمان کی حس کتنی بیدار تھی کہ موت کا فرشتہ ان کے سرہانے کھڑا تھا اور اس عالم میں بھی انہیں اپنے خاندان کی نہیں صرف مسلک اعلیٰ حضرت کی فکر دامن گیر تھی ۔
یقینا حضور احسن العلما علیہ الرحمہ کے کردار وعمل میں استقامت علی الحق اور تصلب فی الدین کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا تھا ، اسی طرح آپ کے اقوال و خطبات اور نصائح ووصایا کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ نے فروغ مسلک اعلیٰ حضرت کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ آب ذر سے لکھے جانے کے قابل ہیں-
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق ورفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالمرسلین[ﷺ]
Leave a Reply