حضور حافظ ملت قدس سرہ کی مقدس حیات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سینے کی ہر سانس اور دھڑکن امت مسلمہ کی ہمدردی اور غم خواری میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ آپ ہمیشہ اپنی قوم کو عروج و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے حتی کہ آپ کے قول و فعل اور تحریر و تقریر کے ہر گوشے سے اصلاح امت کے سوتے پھوٹتے تھے ۔ چونکہ حافظ ملت اسم با مسمیٰ تھے ، اس لئے قوم کی اصلاح کا درد و غم ہمیشہ آپ کے سینے میں موجود تھا ۔ آئیے اس سلسلے میں حا فظ ملت کی ایک اصلاح کن اور درد و غم میں ڈوبی ہوئی تحریر ملاحظہ کریں جو آپ کی ملی ہمدردی اور قومی غم گساری کا بین ثبوت ہے ۔
’’برادران اسلام ! پیارے بھائیو ! دنیا چند روزہ ہے ، اس کی راحت و مصیبت سب فنا ہونے والی ہے ، یہاں کی رفیق و شفیق بھی کام آنے والا نہیں ، بعد مرنے کے صرف اور صرف خدا اور اس کے رسول جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم ہی کام آنے والے ہیں ۔ سفر آخرت کی پہلی منزل قبر ہے ، اس میں منکر نکیر آکر سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ، اور تیرا دین کیاہے ، اسی کے ساتھ نبی کر یم رؤف الرحیم جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مردے سے دریافت کرتے ہیں ’’ ما تقول فی ھذا الرجل ‘‘ یعنی حضور کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں کہ ان کی شان میں کیا کہتا ہے ؟اگر اس شخص کو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے عقیدت ومحبت ہے تو جواب دیتا ہے کہ یہ تو ہمارے آقا و مولا اللہ کے محبوب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ان پر تو ہماری عزت و آبرو ، جان و مال سب قربان ، اس شخص کے لئے نجات ہے اور اگر حضور سے ذرہ برابر کدورت ہے ، دل میں آپ کی عظمت و محبت نہیں ہے ، تو جواب نہیں دے سکے گا ، یہی کہے گا میں نہیں جانتا ، لوگ جو کہتے تھے میں بھی کہتا تھا۔ اس پر سخت عذاب اور ذلت کی مار ہے ۔العیاذ باللہ ۔
معلوم ہوا کہ حضور کی محبت مدار ایمان اور مدار نجات ہے ، مگر یہ تو ہر مسلمان بڑے زور سے بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم حضور سے محبت رکھتے ہیں ۔ آپ کی محبت ہمارے دل میں ہے ۔ لیکن ہر دعوے کے لئے دلیل چاہیے اور ہر کامیابی کے لئے امتحان ہو تا ہے ۔ نبی کر یم علیہ الصلا ۃ والتسلیم کی شان اقدس میں گستاخیاں اور بےادبیاں کی ہیں ، ان سے اپنا تعلق قطع کریں ، ایسے لوگوں سے نفرت اور بیزاری ظاہر کریں ، اگرچہ وہ ماں باپ اور اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔ بڑے بڑے مولانا پیر و استاذ ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن جب انہوں نے حضور کی شان میں بے ادبی کی تو ایمان والے کا ان سے کو تعلق با قی نہیں رہا ۔اگر کوئی شخص ان کی بے ادبیوں پر مطلع ہو جانے کے بعد پھر بھی ان کی عزت ان کا احترام کرے اور اپنی رشتہ داری یا ان کی شخصیت اور مولوبیت کے لحاظ سے نفرت و بیزا ری ظاہر نہ کرے وہ شخص اس امتحان میں نا کامیاب ہے ۔ اس شخص کو حقیقۃً حضور کی محبت نہیں صرف زبانی دعویٰ ہے ، اگر حضور کی محبت اور آپ کی سچی عظمت ہوتی تو ایسے لوگوں کی عزت و عظمت ، ان سے میل محبت کے کیا معنی ؟خوب یاد رکھو ! پیر اور استاذ ، مولوی اور عالم کی جو عزت و عظمت کی جاتی ہے اس کی محض یہی وجہ ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور نسبت رکھنے والا ہے مگر جب اس نے حضور کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی پھر اس کی کیسی عزت ؟اور اس سے کیا تعلق ؟ اس نے تو خود حضور سے اپنا تعلق قطع کرلیا پھر مسلمان اس سے اپنا تعلق کیوں کر باقی رکھے گا ۔
اے مسلمان! تیرا فرض ہے کہ اپنے آقا و مولا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر مرمٹنے ، ان کی محبت میں اپنا جان و مال عزت و آبر و قربان کرنے کو اپنا ایمانی فرض سمجھے اور ان کے چاہنے والوں سے محبت ، ان کے دشمنوں سے عداوت لازمی اور ضروری جانے ، غور کرو ! کسی کے باپ کو گالی دی جائے اور بیٹے کو سن کر حرارت نہ آئے تو صحیح معنی میں وہ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ۔ اسی طرح اگر نبی کی شان میں گستاخی ہو اور اور امتی سن کر خاموش ہوجائے اس گستاخ سے نفرت و بیزاری ظاہر نہ کرے تو یہ امتی بھی یقینا صحیح معنی میں امتی نہیں ہے ، بلکہ ایک زبانی دعا کرتاہے جو ہرگز قابل قبول نہیں ۔ مسلمان ٹھنڈا دل سے غور کریں اور اپنی صداقت ایمانی کے ساتھ انصاف کریں کہ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو کیا تعلق رکھنا چاہیے ؟بلا رعایت اور بغیر طرف داری کے کہنا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر کسی کی شخصیت و مولویت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی رعایت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے ۔ نبی کے مقابلہ میں نبی کے گستاخ کی طر ف داری اور رعایت تمہارے کام نہیں آسکتی ؟ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔
(حیات حافظ ملت ، ص ۲۵)
اس اقتباس سے حضور حافظ ملت قدس سرہ کے دھڑ کتے دل کے جذبات کو پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ کس والہانہ انداز میں آپ نے قوم مسلم کو صحیح سمت سفر کی طرف رہنمائی کی ہے اور اطاعت رسول کی دعوت پیش کی ہے کہ پڑھنے والے پر بھی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔
مسلمانوں ! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضرا ہے ، تمہارا مقصود ہی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، تمہاری مشکلات کا حل انہیں کی نظر کرم اور اشارۂ ابرو پر موقوف ہے ۔ تمہارے مقاصد کا حصول انہیں کی تعلیم پر عمل ہے ، جس کو مسلمان اپنی بدنصیبی سے فراموش کرچکے ہیں ۔
(ماہنامہ اشرفیہ ، نومبر ۲۰۰۹ ء ص ، ۱۲؍۲۲ مضمون محمد شاہد علی رضوی )
ترسیل: محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
یکم/ جمادی الآخر 1444ھ
25/ دسمبر 2022 ء
Leave a Reply