WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سال نو:دراصل وقت احتساب ہے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے.. از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

سال نو:دراصل وقت احتساب ہے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے.. از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

       جنوری سے عیسوی کلینڈر کی شروعات ہوتی ہے جب کہ محرم الحرام سے قمری و ہجری سال کا آغاز ہوتاہے،عموما ماہ جنوری کے آنے سے پہلے ہی نئے سال کی آمد کا لوگوں کو انتظار رہتاہے،دسمبر کی آخری تاریخ اور جنوری کی پہلی تاریخ،دن ورات کو لوگ جشن وطرب کی محفلوں کو سجاکر خوب موج ومستی کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے واہیات وخرافات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور "نیو ایئر" کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کرکے اس کااستقبال کرتے ہیں اور اس موقع پر یہ بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ سال نو کی آمد صرف خوشی  ومسرت ہی نہیں بلکہ دراصل وہ ہمیں فکر واحتساب کی دعوت دیتی ہے،ہم اپنی منزل حقیقی کی طرف رواں دواں ہیں،ہماری بہار عمر خزاں کی طرف تیزی کےساتھ بڑھ رہی ہے،ہم قبر کے قریب ہورہے ہیں اور دنیا سے داغ مقارقت دینے کا وقت نزدیک سے نزدیک تر آرہاہے،فیاض ازل نے ہماری جو متعینہ زندگی لکھی تھی وہ اختتام کوپہنچنے والی ہے اس لیے سال نو کی آمد پر بےجارسوم وخرافات پر عمل کے بجائے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے،بہر حال سالِ نو کے موقع پر لایعنی خرافات اور عیاشی وفحاشی سے پر مجالس کے انعقاد اور ان میں شرکت کے بجائے   خود احتسابی سے انسان کوکام  لینا چاہیے۔کیونکہ حقیقی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان مسافر ہے اس کی زندگی مسافرانہ ہے بالکل اسی طرح کہ ہم سب گویا کسی اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی گاڑی آئی وہ اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگیا اور باقی مسافر اپنی اپنی گاڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب گاڑی آ جائے اور تمام اسباب وسامان سمیٹ کر چل دیا جائے-

ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو غفلت اور لاپرواہی میں اپنی عمر کے بیش قیمت لمحات گزار رہے ہیں، اپنی موت کو بھول کر انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے کھانے ،پینے، کھیلنے ،کودنے اور اپنی دھن میں مصروف ہیں حالانکہ سانسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی عمر کی مقدار گھٹ رہی ہے رفتہ رفتہ انسان اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے اعمال وافعال کا جائزہ لینا بہتر ہے نا کہ محض مبارکبادیاں دے کر دل کو تسلی کا سامان مہیاکرنا،ہر گزرا ہوا دن آئندہ کی یاد دلانے والا ہے اور جو وقت گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں، دَراصل سال نو ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ جس وقت کو گزرنا تھا وہ گزر گیا اب آئندہ کا خیال کرنا ہے اور غفلت ولاپرواہی کے ماحول کو چھوڑ کر اپنا سمتِ سفر متعین کرکے زادِ راہ کا انتظام کرنا ہے-اور ویسے بھی نیاسال صرف وقتی مسرتوں اور خوشیوں کے جذبات لے کر ہی نہیں آتا بلکہ ایک نیے سفر کی شروعات، تازہ دم ہوکر زندگی کو آگے بڑھانے کے شوق کو بیدار بھی کرتاہے،دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ پرعزم اور بلند حوصلہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام گزرے ہیں، جن کی پوری حیات ظاہری مضبوط عزائم اور بادمخالف کے مقابل دیوار آہنی بن کر گزری ہیں، اور انہوں نے اپنے متبعین کو بھی انہیں عزائم سے آراستہ کیا،خود نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی اس کی واضح دلیل ہے،کن حالات میں اور کیسی مخالفتوں میں آپ نے دین حق کی تبلیغ کی اور انسانیت تک اللہ وحدہ لاشریک کے پیغام کو پہنچایا،عزائم اگر سرد ہوجائیں اور ارادوں میں تھکن آجائے تو پھر کامیابی وکامرانی ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائےگی-اسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
ٹہرو نہ ارادوں کی تھکن جاگ پڑےگی
ایک لمحہ کو رکنابھی قیامت ہے سفر میں
اس لیے ہر نیا سال خفتہ عزائم کو بیدار کرنے، سوئے ہوئے جذبات کو جگانےکاپیغام دیتا ہے،مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کچھ کرنے اور غفلتوں سے دامن جھاڑ کر میدان عمل میں قدم رنجہ ہونے کی دعوت دیتا ہے-

      یوں تو نیا سال ہمیں بہت سی باتوں کی جانب متوجہ کرتا ہے مگر بنیادی طور پر اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو اہم باتوں پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے-

(1) ماضی کا احتساب: نیاسال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات،معاملات، اعمال،حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کی مکمل تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں،کیوں کہ انسان دوسروں کی نظر سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”حاسبو ا انفسکم قبل ان تحاسبوا“(کنزل العمال:۳۰۴۴)
”تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے“

 اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مواخذہ ومحاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اسی کو قرآن نے سورہ منافقون میں  اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے جس کاترجمہ یہ ہے

”اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے(ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں۔اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھراسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے“

(2)آگے کا لا ئحہ عمل: اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کی روشنی میں ہمیں منصوبہ طے کرنا ہوگا کہ سال گزشتہ ہماری کمزوریاں کیا رہی ہیں اور ان کو کس طرح سے دور کیا جا ئے ؟دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے ، اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی لیکن کسی غلطی کا مرتکب ہونا اس قدر زیادہ بری بات نہیں ہے۔جتنی بری بات یہ ہے کہ اس سے سبق نہ حاصل کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے اوریہ منصوبہ بندی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں ہوں۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:”اغتنم خمساً قبل خمسٍ:شبابک قبل ھرمک، وصحّتک قبل سقمک، و غناک قبل فقرک،و فراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک“(المستدرک الحاکم:۶۴۸۷)

”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کا فائدہ اٹھا لو : اپنی بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی (کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی غربت سے پہلے اپنی مالداری(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت(کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی موت سے پہلے اپنی زندگی(کا فائدہ اٹھا لو)“۔

اور یہ بھی طے ہے کہ اس دنیا کے اعمال ہی پر ہماری کام یابی اور ناکامی مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”و ان لیس للانسان الاّ ما سعیٰ۔و ان سعیہ سوف یریٰ۔ثم یجزٰہ الجزآءالاوفیٰ“(النجم:۹۳،۰۴،۱۴)

”اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔پھر اسے پوراپورا بدلہ دیا جائے گا“

    وہ وقت جوگزرگیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرگیا،اور وہ وقت جس کاہم نے صحیح استعمال کرلیاوہ توہمارے کام آگیااورہم اس وقت کواستعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے،لیکن جووقت ہمارے ہاتھوں سے خالی چلاگیااورہم نے اس وقت میں کچھ حاصل نہیں کیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرچلاگیااورمستقبل کے لیے ایک سبق دے گیا،ابھی ہم جس وقت میں کھڑے ہیں یہ ہمارے لیے اپنے گزرے ہوئے لمحات کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرنے کاوقت ہے،ہمیں اپنے گزرے ہوئے اوقات کوسامنے رکھ کراپنی زندگی کامحاسبہ کرنا چاہیے، اور پھراس کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرناچاہیے،ہمیں ماضی کااحتساب کرتے ہوئے آئندہ کاپروگرام طے کرناہوگا،یہ محاسبہ ہمیں ہرپہلوسے کرناہوگا،ہمیں اپنے دنیاوی امورکے بارے میں بھی محاسبہ کرناچاہیے کہ اگرہم تاجرہیں توہم نے ان سالوں میں کیاکھویاکیاپایا؟اگرہم نوکری پیشہ ہیں توہم نے اپنی نوکری میں کوئی ترقی کی یا نہیں؟ اگر ہمیں ان میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتواس کے کیااسباب ہیں؟ان اسباب پرغوروفکر کرنے کے بعدہم اپناپروگرام تیارکریں کہ آئندہ ان پہلوؤں سے بچ کررہنا ہوگاجس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔انسان کا کسی چیز میں ناکام ہونا برانہیں ہے،بر ی بات یہ ہے کہ انسان بے حسی میں مبتلا ہوجائے۔ وہ ناکام ہو اور اپنی ناکامی کے اسباب پر غور نہ کرے اس کے قدم پیچھے ہٹیں ، اور فکر مندی کی کوئی چنگاری اس کے دل ودماغ میں سلگنے نہ پائے ، وہ ٹھوکر کھائے ، لیکن ٹھوکر اس کے لیے مہمیز نہ بنے ۔جو شخص اپنے نقصان کا جائزہ لیتا ہے ، اپنی کتاب زندگی پر نظرڈالتے ہوئے ، اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کو محسوس کرتا ہے ، وہی گرکر اٹھتا اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ۔ جس میں اپنے احتساب اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی صلاحیت ہی نہ ہو وہ کبھی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا ۔

           جس طرح دنیاوی امورمیں محاسبہ ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دینی امورکے بارے میں محاسبہ کرے، انسان یہ غورکرے کہ اس کے دین واخلاق،اعمال وکردارمیں کہیں کوئی کمی تونہیں آئی ہے،عبادات میں کوئی کوتاہی تونہیں رہ گئی،اپنے معاملات پرغورکرے کہ حلال وحرام اور مستحبات ومکروہات کے جواحکام شریعت نے دییے ہیں ،ان سب میں کہیں کوئی غفلت یالاپرواہی تونہیں برت رہاہے کہ اپنے کھانے اورکمانے میں حلال وحرام کی تمیزنہ کر پارہو،اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے حقوق میں کوئی کمی تونہیں کررہاہے،اپنی اولاداوربیوی کے جوفرائض وحقوق ہیں وہ سب برابرسے اداکررہاہے یانہیں؟اگرکہیں کوئی کمی یاکوتاہی ملے تواس کے اسباب پرغوروفکرکرتے ہوئے اس کمی کودورکرنے کی کوشش کرے،غرضیکہ انسان کوہرلحظہ اپنامحاسبہ کرناچاہیے-

       حاصل کلام یہ ہے کہ سال کی تبدیلی،کلینڈر کی شروعات دراصل خوشی ومسرت نہیں بلکہ خوداحتسابی و جائزہ کی دعوت دیتے ہیں،بچا کتنا ہے؟ اور کھویا کیاکیا ہے؟ اس پر نظر دوڑانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں،جس طرح ایک دکان دار شام کو جب دکان بندکرتا ہے تو اپنی آمدنی اور دن بھر کی وصولی وغیرہ پر نظر ڈال کر حساب کرتا ہے،مسافرِ دنیا کو بھی سال کے اختتام پر اپنے گزرے ہوئے لیل ونہار پر نظر ڈال کر کمیوں کو دور کرنے اور کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی فکر کرنی چاہیے-آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا،اللہ وحدہ لاشریک کو جب تک مقصود ہے کائنات کا نظام چلےگا،انسان بدلتے رہیں گے،کوئی پیدائش کی خوشیاں لے کر آئےگا،کوئی جدائی کاغم دےکر جائےگا،اس میں کامیاب وبامراد وہ ہے جس نے اپنی دین ودنیا کو سنوارنے، بہتر بنانے اور مقصود کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی لگائی، وہ دنیا میں نیک نام رہا اور دین میں قابل قدر سمجھا جاتا رہا ہے،اس کارشتہ خالق سے اچھاتھا اور مخلوق سے بہتر، وہ غافلوں،مدہوشوں کی طرح نہیں بلکہ فکرمندوں اور ہوشیاروں کی طرح زندگی گزارتا رہا،اس نے اپنے مقصد تخلیق کو فراموش نہیں کیا-نئے سال کی آمد عبرت ہے،موعظت ہے اور دعوت فکر وعمل ہے-مرزاغالب نے کیا خوب کہا ہے:

رومیں ہے رخش عمر،کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے،نہ پا ہے رکاب میں

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *