WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

ہم گناہوں سے کیسے بچیں؟از قلم (مولانا) عبد الحلیم قادری انواری خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰسہلاؤ شریف ضلع :باڑمیر (راجستھان)۔

ہم گناہوں سے کیسے بچیں؟از قلم (مولانا) عبد الحلیم قادری انواری خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰسہلاؤ شریف ضلع :باڑمیر (راجستھان)۔

  آج کے اس پُر فتن دور میں جہاں دنیا حیرت انگیز حد تک ترقی کرتی جارہی ہے وہیں ترقی کے اس دور میں انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے انتہائی پستی اور ذلت کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ جا رہا ہے گنا ہوں کے اس دلدل میں سبھی طبقے کے لوگ شامل ہیں مگر افسوس کہ مسلمان دوسرے طبقات کے لوگوں کو ان گناہوں کے کاموں میں پیچھے چھوڑ رہا ہے-
  بڑے تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اللہ  اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور قرآن و حدیث کو مانتا ہے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہے سزا و جزا کو تسلیم کرتا ہے پھر بھی اپنی عاقبت سے غافل انسان پتہ نہیں کیا سے کیا کر گزرتا ہےاور ذلت و پسپائی کے گہرے گڈھے کی طرف جاتا نظر آرہا ہے اور اس ذلت و پستی کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل چھوٹے طبقے کو چھوڑ کر امت کے زیادہ تر لوگوں میں ایک طرف عبادت الٰہی  اور اطاعت رسول ﷺ میں غفلت و سستی ہےتو دوسری طرف گناہوں کے کاموں میں رغبت اور دل چسپی ہے، اور یہ  ایک کُھلی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج لوگوں میں گناہوں کا سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اور عام سے عام تر ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے -

اور گنا ہ کو گنا ہ سمجھنے والے مٹتے جا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ گناہوں کو ایک قابل فخر ہنر سمجھنے لگے ہیں، گناہ ایک معمولی بات محسوس کی جاتی ہے جس پر حیرت اور تعجب ہونا ان لوگوں کے نزدیک خود قابل تعجب اور حیرت کی بات ہے-
اور ایسی بھیانک صورت پیدا کرنے میں جہاں دوسرے بہت سے اسباب ہیں وہیں دور حاضر میں ٹی وی انٹر نیٹ اور سیل فون کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے اور ان چیزوں کی وجہ سے گنا ہوں کے سلسلے کو زیادہ وسعت مل گئی ہے-
انہیں کے ذریعہ گانا بجانا ،فحش و عریانی،بے حیائی و بے شرمی وغیرہ برے کام آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے ہیں جو اصل میں ایک خطرے کی ہی گھنٹی ہے مگر ان برے کامو ں کی طرف لوگوں کی بے حسی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اس طرف توجہ دلائی بھی جاتی ہے پھر بھی لوگ کسی کی نہیں سنتے ہیں-
چناں چہ ہر مسلمان یہ بات بھلی بھانتی جانتا ہے کہ انسان کی دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات اللہ او ر اس کے رسول کی اطاعت اور فرما ں برداری میں ہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے-
لہٰذ ا ہر مسلمان کو چاہیےکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے اور گناہ وبدکاری سے مکمل طور پر پرہیز کرے جیسا کہ ایک حدیث شریف ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو میری یہ پانچ باتیں لے ان پر خود عمل کرے اور دوسروں کو بھی سکھائے ؟۔
حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں کروں گا تو آقا کریم ﷺ نے میرا ہاتھ لیا اور یہ پانچ باتیں بتائیں اور فرمایا :۔
(1) تو حرام کاموں سے بچ لوگوں میں سب سے بڑا عابد ہو جائے گا-
(2) اللہ کی تقسیم پر راضی ہوجا سب سے بڑا غنی ہوجائے گا-
(3) پڑوسی پر احسان کر مومن بن جائے گا-
(4) اور اپنے لیے جو پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لیے پسند کر (صحیح معنوں میں)مسلمان ہوجائے گا-
(5) اور زیادہ نہ ہنسنا کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے (ترمذی شریف )

انسان فرشتوں سے افضل یا جانوروں سے بد تر؟: علماء کرام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو عقل بلا شہوت پیدا کیا ہے جانوروں کو شہوت بلا عقل پیدا کیا ہے اور انسان کو عقل و شہوت دونوں کے ساتھ پیدا کیا ہے لہٰذا جو انسان اپنی عقل کو اپنی شہوت پر غالب کر لیتا ہے وہ فرشتوں سے بہتر قرار پاتا ہے اور جو اپنی شہوت کو اپنی عقل پر غالب کر لیتا ہے وہ جانوروں سے بد تر ہوجاتا ہے-
الغرض گناہوں اور شہوتوں سے بچنا ضروری ہے مگر افسوس کہ آج گناہوں سے بچنے کا کوئی اہتمام نہیں، بڑے بڑے لوگوں میں بھی اس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں ہے، نماز بھی چالو ہے ،روزے بھی چالو ہیں،تعلیم و تعلم بھی جاری ہے،تدریس و تحقیق بھی جاری ہے
مگر بڑی حیرت کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی گناہ سے بچنے کا کوئی جتن نہیں ہے- اور اس بچنے کا اہتمام اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ ہمیں ہمارا نفس اور شیطان گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں،لہٰذا گناہوں کے کئی دروازے اور راستے ہیں نفس اور شیطان لوگوں پر مختلف راستوں اور دروازوں سے حملہ کرتے ہیں،اور اسی کی جانب اس حدیث پاک میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ ترجمہ: کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح یا خون کی رگوں میں دوڑتا ہے (صحیح بخاری )-
اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح اس کے اندر خون دوڑتا ہے-
الغرض شیطان انسان کو بھٹکانے کے واسطے کئی طرح سے حملہ آور ہوتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے گناہوں کے کاموں سے دور رہیں-

مومن گناہ کو پہاڑ اور فاسق مکھی سمجھتا ہے: مومن کی شان یہ ہے کہ وہ گناہ کے کاموں کو ایک پہاڑ سمجھتا ہے کوئی معمولی بات نہیں سمجھتا،گناہوں کو معمولی بات سمجھنا فاسقوں کا نظریہ ہے-
چناں چہ اس کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے کہ وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے وہ خوف کھاتا ہے کہ پہاڑ اس پر گر پڑے گا اور فاسق آدمی اپنے گناہ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے اس کے ناک پر سے مکھی گزر گئی (بخاری شریف)-

گناہ کے دو راستے ہیں:
علماء کرام نے لکھا ہے کہ شیطان کے انسان پر حملہ کرنے کے دو راستے ہیں ایک شبہات کا راستہ اور دوسرا شہوات کا راستہ ان میں سے دماغ ،آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ اور پیر ہیں جن سے خاص طور پر وہ انسان پر حملہ کرتا ہے یہ تو ہوئے اندرونی راستے ان کے علاوہ بہت سے باہری راستے بھی ہیں جیسے مال و دولت، دنیاوی عہدے و مناصب، ظاہری آن بان وشان شوکت وغیرہ یہاں پر چند برے امور کے بارے میں نشاندھی کی جاتی ہے-

آنکھ: آنکھ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو خطرناک حد تک انسان کے دل کو تباہ و برباد کر کے چھوڑ دیتا ہے اس لیے نظر کو شیطان کا قاصد کہا گیا ہے کیوں کہ اسی کے ذریعہ شیطان انسان کو زنا جیسے بدترین کاموں میں مبتلا کر دیتا ہے،
اسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نظر بچانے اور اس کو نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے- اور حدیث پاک میں اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں نظر ابلیس کی زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے خوف کی وجہ سے اس کو ترک (چھوڑ)کر دیتا ہے اللہ عز و جل اس کو ایسے ایمان سے اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا-
چناں چہ اس کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنکھیں شیطان کی شکار گاہیں ہیں اس سے پتہ چلا کہ نظر شیطان کا بڑا حربہ (ہتھیار)ہے انسان کو برائی میں مبتلا کرنے کا ۔لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے تاکہ دل کی دنیا برباد نہ ہو جائے-

کان: شیطان کا ایک اہم راستہ کان ہے کان کے ذریعہ وہ بہت سی باتوں کو دل میں اتارتا ہے اور دل کی دنیا کو تباہ و برباد کرتا ہے۔مثلاً گانے سننے ،غیبت و چغلی سننے اور اس طرح کی دیگر حرام و گندی چیزوں کو سننے سے انسان کا دل خراب ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ برباد ہو جاتا ہے جیسے گانا سننے سے دل میں نفاق کی بیماری پیدا ہوتی ہے-
اسی لیے رسول کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے: (ابو داؤد)-
بعض اللہ والوں نے فرمایا ہے کہ گانا سننا بعض لوگوں میں نفاق اور بعض میں عناد بعض میں جھوٹ بعض میں فسق و فجور اور بعض میں تکبر پیدا کرتا ہے، اسی کی وجہ سے بے حیائی کی باتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اسی طرح کان سے غیبت، گالی گلوج اورکسی کا مزاق سن کر انسان کے دل میں برے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں اور ا س کا دل اس کی وجہ سے گندہ اور ناپاک ہوجاتا ہے-

زبان: شیطان کے راستوں میں سے ایک راستہ زبان بھی ہے اس سے شیطان بڑا کام لیتا ہے اور حملہ کرتا ہے اسی لیے ایک صحابی نے آقائے کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ نجات کیا ہے؟ تو حضور نے زبان نبوت سے اور باتوں کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی فرمائی “اپنی زبان قابو میں رکھو” کیوں کہ اس ایک زبان سے بہت سارے گناہ ہوتے ہیں-
جیسے جھوٹ اسی زبان سے بولا جاتا ہے، غیبت اسی زبان سے کی جاتی ہے، چغلی اسی زبان سے ہوتی ہے، فضول وبے ہودہ گوئی بھی اسی سے ہوتی ہے، کسی کو اذیت و تکلیف دینے میں بھی اس کو بڑا دخل ہے جیسے گالی دینا ،توہیں کرنا وغیرہ زبان سے اس طرح کے کئی گنا ہ ہوتے ہیں- لہٰذا زبان کو بہت زیادہ قابو میں رکھنے کی کوشش کرنا چاہیئے ۔

شرم گاہ : یہ ایک بہت بڑا شیطانی راستہ ہے جس سے وہ انسان میں داخل ہوتا ہے اور اس کو برائی میں مبتلا کرتا ہے یہ نہایت ہی خطرناک راستہ ہے جس سے انسان شہوتوں و لذتوں میں پڑ کر خدا و رسول اور آخرت کو بھول جاتا ہے-
اسی لیے رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھے ضمانت دے اس کے دو جبڑوں کے بیچ کی چیز اور اس کے دو پیروں کے بیچ کی چیز تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں (بخاری شریف )-
پتہ چلا کی زبان کی طرح شرم گاہ کا فساد بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے اور جو اس کے شر سے بچ گیا وہ گویا تمام برائیوں سے بچ گیا- لہٰذا اس سے بھی خوب چوکنا رہنے کی ضرورت ہے-

اور گناہ کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے دل کالا ہوجاتا ہے حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول با وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن جب گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے دل میں ایک کالا نقطہ بن جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور گناہوں سے الگ ہوجاتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر توبہ کے بجائے اس میں زیادتی کرتا ہے تووہ نقطہ بھی بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ دل اس سے بند ہو جاتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پاک میں کیا ہے ۔ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے ۔(ترمذی شریف) ۔
اس سے معلوم ہوا کہ گنا ہ کا اثر یہ بھی ہے کہ اس سے دل میں ایک کالا نقطہ و داغ لگ جاتا ہے اور گناہ پر اصرار کرے تو یہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ پورا دل کالا ہوجاتا ہے-
کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک بار گناہ کر لیتے ہیں اس میں قرار آجائے گا اس کے بعد گناہ نہیں کریں گے اس طرح ہم گناہ کر کے گناہ چھوڑ دیں گے یہ صرف خیال ہی ہے حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا
کیوں کہ یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی کہنے لگے کہ میں بیماری کو بیماری سے دور کروں گا، آپ ہی بتائیں کیا ایک بیماری دوسری بیماری سے دور ہوتی ہے؟ یہ در اصل فاسقوں کا نظریہ ہے-

توبہ: گناہ چھوڑنے کے لیے سب سے پہلا قدم توبۂ نصوح ہے لہٰذا اس کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اللہ کی بارگا ہ میں توبۂ نصوح یعنی سچی و پکی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے خوب گڑ گڑا کر اپنے گناہوں سے معافی مانگ لے-

توبہ کی فضیلت:
گناہ گار بندہ جب اللہ تعالیٰ سے استغفار(معافی )اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے سے بہت خوش ہوتاہے اور اس کی بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے توبۂ نصوح کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے چناں چہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ (دست قدرت)رات میں کھول دیتا ہے تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کر لے اور دن اپنا ہاتھ کھول دیتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے (یہ سلسلہ جاری رہے گا)یہاں تک کہ سورج مغرب سے نکل آئے- (مسلم شریف)۔

الغرض: اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے میں کسی بھی پہلو سے کمی نہیں چھوڑنی چاہیےاور نہ ہی شرم کر کے اللہ رب العزت کے دربار عالی سے دور رہنا چاہیے بلکہ رب کعبہ کے سامنے حاضر ہوکر گِڑ گِڑا ،گِڑگِڑا کر معافی مانگ لینی چاہیے وہ بڑا رحیم و کریم اور معاف کرنے والا ہے-

پاک پروردگار ہم سبھی لوگوں کو ہرطرح کناہ کے کاموں اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے اور گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *