قربانی کا لفظ “قرب” سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنیٰ ہے: ” قریب ہونا، نزدیک ہونا ” اور قربانی اللہ کاتقرب حاصل کی جانے والی چیزوں کو کہتے ہیں چونکہ قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں, اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہیں کہ خاص جانور کو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثواب اور تقرب کی نیت سے سے ذبح کرنا-
قربانی کے اس سارے عمل اور اس کے پس منظر وپیش منظر کے ذریعہ ہم سبھی مسلمانوں کو یہ سیکھایا گیا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے حکم کی بلا چوں وچرا اتباع کا نام ہی دین ہے-لہٰذا جب بھی کسی چیز کے بارے میں اللہ کا حکم سامنے آجائے تو اس میں نہ ہی عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع ہے اور نہ ہی اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہ جاتا ہے( گرچہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم وفرمان حکمت سے خالی نہیں ہے چاہے بندہ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے) بلکہ ایک بندۂ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ حکم پر اپنا سر جھکادے اور اس حکم کی دل وجان سے اتباع کرے-
قربانی کا مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنا ہے، لہذا قربانی سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا چاہییے تاکہ اپنے جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہم اس مقصد کے پانے والے بن جائیں جو اس ذبح عظیم کا مقصد ہے۔ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیاتھا۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیاتھا۔ ان کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی اس اداکو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پرلازم کردیا، حتی کہ اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنت کو واجب کر دیا۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کر تاہے کہ ’’ اللہ کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بل کہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتاہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جوچھری چلارہا ہے، اس سے وہ اللہ کی رضاحاصل کرنا چاہتا ہے یا نام و نمود اور واہ واہی بٹور نے کیلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانور وں کو قربان کررہا ہے؟ اگر جادۂ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللہ کے دین کواس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانورکی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کا میاب ہورہا ہے یا نہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فداکاری دیکھنا چاہتاہے۔
اب آئییے دیکھتے ہیں کہ اس قربانی کا اصل مقصد اور پیغام کیا ہے اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر ہم اور آپ قربانی کس کے لیے کرتے ہیں؟کیا ہمارا یہ عمل اللہ کی رضاجوئی کے لیے ہوتا ہے یا لوگوں کو دیکھانے کے لیے؟ ظاہر سی بات ہے کہ ہر بندۂ مومن کا یہی جواب ہوگا اور ہونا بھی چاہییے کہ “ہم قربانی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کرتے ہیں نہ کسی انسان کو دیکھانے کے لیے”…اگر ہم قربانی صرف رضائے مولیٰ کے لیے کرتے ہیں تو ہمیں چاہییے کہ ہم قربانی کے اصل پیغام پر عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کو سختی سے یہ بات سمجھا دیں کہ ائے نفس! ہم قربانی کا جانور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے ذبح کررہے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ آئندہ اپنے نفس اور تمام برےخوہشات کو اسی جانور کی طرح ذبح کرکے تمام امور خواہ وہ معاشرتی ہو یا معاشی،ملازمت ہو یا تجارت غرض یہ کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی ہی مطمح نظر رکھیں گے،چاہے کوئی راضی ہو یا ناراض ہمیں تو اللہ اور اس کے رسول کو راضی رکھنا ہے،یہ عہد کرکے اللہ تعالیٰ سے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا بھی کرتے رہیں کہ یااللہ تو اپنی اور اپنے محبوب کی رضا کی خاطر تمام خواہشات کو قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرما-ائے اللہ! یہ ہماری قربانی تو تیرے محبوب بندوں بالخصوص حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہماالسلام کی ایک نقل ہے اس نقل کو تو اپنی رحمت سے اصل بنادے اور قربانی کی جو اصل حقیقت ہے وہ ہمیں محض اپنے فضل وکرم سے عطافرمادے-
قربانی کی حقیقت اور روح نیز پیغام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنے خواہشات کو قربان کردیا جائے،بظاہر قربانی جانور کی کی جاتی ہے مگرقربانی سے مقصود تعمیل حکم ہےاور اپنے خالق ومالک کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہے-
ہر سال اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی اس بات کی بھی یاد دلاتی ہے کہ جو بندہ اللہ کے جتنا قریب ہوتا ہے اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش کا معاملہ بھی اتنا ہی سخت ہوتا ہے، قربت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنی ہی بڑی قربانی کی طالب ہوتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مومن بندوں کو اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ اگر ہم اپنے عہد کے پابند ہیں تو حق کا یقیناًبول بالا ہوگا۔
جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں وہ ہر اس چیز پر انکار کی چھری چلانے میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ سچی محبت کے راستے میں روڑا بن کر آتی ہو۔اللہ سے محبت کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اطاعت گذار ہو، اللہ کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتا ہو،خود کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے اور ہر اس چیز کو اختیار کرے جس میں اللہ کی رضا ہو اور ہر اس بات سے پرہیز کرے جو اللہ کو ناراض کرنے والی ہو۔ہمارے اہل و عیال اور مال و منال، ہماری جائدادیں اور عیش و عشرت کے سامان سے لبریز ہماری سکونت گاہیں، ان میں سے اگر کوئی شئی اللہ کے راستہ میں جدو جہد اور اس کی حقیقی محبت کے راستے میں آڑے آرہی ہیں تو پھر ایک مسلمان اپنے ایمان کے دعوے میں سچا نہیں قرار دیا جا سکتا ، اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرآن مجید میں فرمان ہے کہ ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے شدید ترین محبت کرنے والے ہوتے ہیں‘‘ اور محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ آدمی اپنے محبوب کے لئے ہر چیز کو قربان کردے، مال و منال اور اہل و عیال کیا چیز ہیں خود اپنی جان کی بھی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جائے۔جن لوگوں کے دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی کے آگے اپنی مرضیات و مرغوبات کو بہت آسانی کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی صرف ایک غلام کی اپنے آقا کے سامنے خوشدلانہ اطاعت شعاری ہی نہیں تھی بلکہ آقا کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک غلام کی لافانی محبت کا اظہار تھی۔اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اللہ کے پاس نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نا ہی(قربانی کے جانوروں کا)خون بلکہ اس کے پاس تو صرف تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘
اس لیے ہمیں عید قرباں سمیت اپنے دیگر سبھی مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔لہٰذا سوچیں اور بار سوچیں کہ کہیں آپ کی قربانی جذبۂ ایثار اور خلوص سے خالی تو نہیں، اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں اور جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنی جھو ٹی انا، خواہشات نفس کی بھی قربانی کردیں۔ جومسلمان آج قربانی کررہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں۔ اور ان سبھی قربانی کرنے والوں کےلیے بہت ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت اپنے اندر پیداکریں، دین وایمان اورملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اوردریغ نہ کریں۔ چاہے اپناگھر بار چھوڑناپڑے۔ اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتی کہ اگراپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اورحوصلہ سے کام لیاجائے۔ خاردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سینہ چاک کرنا پڑے پھر بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے خود کومٹاتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، حتیٰ کہ کامیابی ہمارے قدم چوم لے۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو اپنی رضا کاسبب بنا کر ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے-(آمین)
Leave a Reply