سرکار نوری میاں کی نصیحت و وصیت
(عرس نوری کی مناسبت سے گنجہاے گراں مایہ)
خانوادہ برکاتیہ مارہرہ شریف کے مہر درخشاں، کوکب کون ومکاں،نور بہاربوستاں،صاحب دورزماں،
وارث پیغمبراں،افتخاردودماں،شاہبازلامکاں،قبلہ گاہ قدسیاں،مالک گنج نہاں،صاحب بخت جواں سراج العارفین قدوۃ الواصلين سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ کا زمانہ تحفظِ دین وسنت کے لحاظ سے بڑا ہی پرآشوب تھا۔رافضیت،وہابیت،مرزائیت اور نیچریت کی تحریکیں سواداعظم اہل سنت کے عقیدہ و مسلک پر شب خون مارنے میں ایک دو سرے پر سبقت لےجانے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ ایسے پرانتشار ماحول میں سرکار نورعلیہ الرحمہ نے جس مومنانہ فراست اور مجاہدانہ عزیمت کےساتھ اپنے مختلف رسائل کے ذریعہ اہل سنت وجماعت کے عقائد و اعمال کی حفاظت وحمایت کی۔اس کی مثال اُس دورکی کسی دوسری خانقاہ یاشیخ طریقت کے یہاں نہیں ملتی۔
کثرت اوراد وظائف اور مصروفیات کے باوجود ایک درجن کے قریب چھوٹے بڑے رسائل آپ کی یادگار ہیں ۔انھیں میں سے ایک مختلف خصوصیات و فوائد پر مشتمل قلمی شاہکار بنام “سراج العوارف فی الوصايا والمعارف” بھی ہے۔
عوام اہل سنت کو بالعموم اورخانقاہ برکاتیہ کے جملہ مریدین و متوسلین کو بالخصوص اس کا دیکھنا،پڑھنا اور پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ رسالہ بزبان فارسی لکھا گیاہے،اس میں سات لمعات ہیں،پہلا لمعہ وصایا میں ہے۔اس میں گیارہ وصیتیں ہیں۔اردو ترجمہ سے قدرے ترمیم کے ساتھ دس وصیتیں ہدیہ قارئین ہیں ۔
(١) ایمان اوراسلام کے قبول کےبعد اہل سنت وجماعت کےمذہب پرمضبوطی سےقائم رہیں۔ مسلک حنفیہ اور مشرب قادریہ پر اپنےظاہر اورباطن کو آراستہ اور پیراستہ رکھیں،اسلام کےسارے احکام کی پابندی اور فرماں برداری اپنے اوپر لازم کرلیں۔ علماےدین اور فقرا کے مخلصین کا ادب کرنےکی کوشش کریں۔
درگاہ وخانقاہ کی خدمت بجالائیں اور نماز باجماعت کے لیے مسجدوں میں حاضرہوں۔ والدین،مرشد،علوم دین کےاساتذہ اور ان کی اولاد کانہایت ادب کریں ۔
اپنے پیرکو اپنےحق میں زمانےکےسارے شیوخ طریقت سے بڑھ کرجانیں،اپنےآپ کو تمام مخلوق خدامیں سب سے زیادہ کمتر اورحقیرسمجھیں۔
(٢) قول اورفعل میں شریعت محمدیہ کی پیروی اور طریقت کےاحکام پر قائم رہنے کے بعد ایسے پیر کے ہاتھ پر مرید ہوں جس میں یہ تین شرطیں دیکھ لیں
پہلی یہ کہ وہ مسلمان اور سنی مذہب کا پیرو ہو، دوسری شریعت کی پوری پابندی کرتاہو، تیسری اس کا مسلک صحیح ہو یعنی اسلام میں اہل سنت وجماعت کامذہب رکھتا ہو اور شریعت کاپابندہو اورطریقت میں کسی صحیح السلسلہ پیر کامرید اور خلیفہ ہو۔ ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہے۔اورخدا سےخدا کو طلب کرے جب خدا کو لیا توسب چیزوں کو حاصل کرلیا۔
(٣) کتاب وسنت سے اپنی ضرورت بھر علم دین حاصل کرنےکی پوری کوشش کریں اور اس کام کو سب کاموں پرمقدم رکھیں اسکے بعد ہی طریقہ باطنی میں قدم رکھیں کیونکہ جاہل صوفی اور بےعلم عابد شیطان کامسخرہ اوربالکل نکما اورناقابل قبول ہے۔اس کےعلاوہ درجوں میں ترقی،عروج کی بلندی اور باریکیوں کی سمجھ بوجھ جوعالم کو اس راہ میں حاصل ہوتی ہے،جاہل کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں۔
(٤) اگر اللہ تعالی کےخاص بندوں میں سے کوئی نظر پڑے تو تمہارا ہاتھ ہو اور اس کا دامن۔ اس سے نیاز مندی سے پیش آئیں اور اس کی خدمت کو دونوں جہاں کی سعادت جانیں۔ آنے والے مہمانوں کی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت و تواضع کریں اور اگر کوئی شخص کچھ مانگے تو اپنی وسعت بھر محروم نہ پھیریں ۔اپنے ذاتی کام کے لیے کسی دنیادار کی چاپلوسی اورخوشامد نہ کریں کہ کاموں کا بنانے والا اللہ تعالی ہے۔
(٥) آیہ شریفہ “اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ”(اللہ کی فرماں برداری کرو اور اس کےرسول کی فرماں برداری کرو) کے مضمون پر مطلع ہونے کے بعد عمل کرناضروری ہے،یہی آیت ہمارے شیخ( خاتم الاکابر سیدنا شاہ آل رسول قدس سرہ) کی وصیت تھی۔
جھگڑوں کو ختم کرنے اور لڑائیوں سے دور ہونے کے لیے موجودہ دور کےمحکموں میں مقدمات نہ کریں بلکہ قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ کی سنت و شریعت یعنی حدیث،فقہ،اصول اور تفسیر سے رجوع کریں اور ان کی روشنی میں معاملات طے کریں۔
(٦) اپنےسچےدین پر اتنےسخت اور مضبوط ہوں کہ دوسرے متعصب جانیں اس لیے کہ دین حق میں مضبوطی پسندیدہ بات ہے اور دین باطل پر مضبوطی حماقت اور بری چیز ہے۔ فقیروں، مسکینوں اورغربیوں سےمحبت اور ہمدردی کریں۔امیروں اور دنیاداروں سے دور بھاگیں۔
فاسق،فاجر،بدکردار،کافراور مشرک سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ خاص طور سے دین اسلام میں کھلم کھلا فاسق،کافر اور مشرک کی صحبت اور ان سے محبت کرنے سے دور رہیں،کیونکہ بری صحبت مقناطیس اور لوہے کی مثل ہے یعنی بری صحبت بری عادت کی طرف ایسے کھینچتی ہے جیسے لوہےکو مقناطیس۔
( ٧) خدا کی مخلوق کو نہ ستائیں تاکہ خود بھی تکلیف نہ پائیں۔ حدیث شریف کے مطابق رحم کرنے والوں پر رحمن تبارک وتعالی رحم فرماتا ہے،تم زمین والوں پر رحم کرو،آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اور اپنے اندراچھی باتیں مثلاً محبت،خلوص، دوستی،ہم دردی اوراحسان وغیرہ پیداکریں اور بری باتوں مثلاً لڑائی،جھگڑا،نفاق،خود پسندی،غرور، جھوٹ،زنا،لواطت وغیرہ سے پاک صاف رہیں تاکہ صفت ملکوتی پیدا ہو اورحیوانی،شیطانی صفت دور ہو۔ بڑے اور چھوٹے گناہوں سے دور رہیں۔
(٨) فقیر کا سالانہ فاتحہ جسے”عرس”بھی کہتے ہیں ہر گز تکلف سے نہ کریں اس لیے کہ تکلف شریعت میں منع ہے اور فقیر تکلف سے دور رہتا ہے جو کچھ میسر آئے،اس میں تھوڑا سا اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں اور قرض میں نہ پھنسیں اور فکر وتشویش کی بلاسے بچے رہیں۔
عرس میں قرآن شریف،حدیث شریف،درودشریف اورکلمہ طیبہ کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کےعلاوہ اورکوئی نیاکام نہ ہوجیسا کہ اس زمانہ میں رواج ہے۔
نااہلوں کے سنوانے کے لیے قوالی ہرگز ہرگز نہ کریں۔جس چیز کو شریعت منع کرے اسے چھوڑ دیں۔ اگرچہ فقیر سماع کا جس طرح سے کہ چشتیہ سلسلے کے پرانے بزرگوں نے سنا ہے،منکر نہیں ہے۔اور کبھی کبھی مزارات اولیائے کرام کی مجالس میں حاضر ہو کر سماع سنا بھی ہے،مگر چونکہ اس زمانہ میں سماع، جوازکی شرائط کے ساتھ نہیں ہوتا،اس لیے مجبوراً چھوڑ دینے کےعلاوہ کوئی اور علاج نہیں۔ سماع سننے کی اہلیت اس پرآشوب دور میں مفقود ہے اور بقیہ شرائط بھی نہیں پائی جاتیں اس لیے مجبور ہوکر ترک سماع واجب اور ضروری ہے۔
(٩) خانقاہ اور درگاہ کےاوراد و وظائف،قرآن مجید کی تلاوت،درود شریف خصوصاًدلائل الخیرات،حصن حصین،حرز یمانی،حزب البحر،اسمائےاربعین وغیرہ خاندان برکاتیہ کےمعمول کےمطابق ہمیشہ پڑھتےرہیں اورمسجدکی حاضری نہ چھوڑیں اورپانچوں وقت کی نمازباجماعت ادا کریں،ذکروشغل اور مراقبہ کرتے رہیں اورخاندان برکاتیہ کےاس طریقے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی نہ کریں،اپنے سے عمر میں بڑے اور بزرگ سے بات کرنےاورچلنےمیں سبقت نہ کریں ہاں ضرورت اورمجبوری ہو جیسے جماعت کی پہلی تکبیر چھوٹ جانےکا ڈر،توآگےبڑھ کرشامل ہوجائیں۔اگر کوئی غریب اپناحال سنائے تو اسے پوری توجہ سے سنیں اور اس کے ساتھ ہمدردی اور نرمی برتیں۔
(١٠) حدیث،تفسیر،فقہ،اصول،تصوف،سلوک اور دیگر شرعی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیں اور ان کتابوں سے مناسبت پیدا کریں۔ دن رات کا اکثر وقت ان کاموں میں صرف کریں ۔ شریعت اورطریقت میں اپنے آپ کو صرف مقلد سمجھیں۔ان دونوں پسندیدہ طریقوں میں سے کسی میں بھی ہرگز ہرگز اجتہاد کا دعوی نہ کریں۔ شریعت میں حنفی اور طریقت میں قادری رہیں اور اپنے آپ کو انھیں حضرات کا مقلد جانیں ورنہ انجام خراب ہو گا اس لیے کہ اس زمانہ میں تقلید چھوڑنے کا انجام الحاد و زندقہ ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ سرکار نور کے اقوال عالیہ پر عمل کی توفیق بخشے،آمین
📝 انیس القمر امجدی
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف ۔
٢/فروری،٢٠٢٣ء ١٠/رجب المرجب، ١٤٤٤ھ
Leave a Reply