سانحہ اور حادثہ ہم معنی الفاظ ہیں مگر سوانح نگاری کو حوادث نگاری سمجھنا زبان سے نا آشنائی بلکہ بے خبری کا اشاریہ ہے، سوانح نگاری ایک بیانیہ فن ہے کسی عظیم المرتبت شخصیت کی حیات کے خدو خال کو روشن کرنا سوانح نگاری ہے ، کسی کی زندگی اور اس کی زندگی کے روشن واقعات پھر اس کی سیاسی سماجی ادبی شعری مذہبی اور ملی خدمات کو ترتیب اور تاریخ کی رعایت کے ساتھ اس طرح حیطۂ تحریر میں لانا کہ شخص و شخصیت کی تصویر ابھر آۓ اس کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح آئنہ ہوجاۓ سوانح نگاری ہے کارلائل کے لفظوں میں افراد کی داستان حیات سوانح نگاری ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ فن پیکر تراشی اور مصوری کا فن ہے یہ تاریخ نویسی کا فن ہے اگر سوانح نگار قادر الکلام و ساحر البیان نہ ہو تو وہ گرد سے آٹے دبے کسی آئنے کو کبھی چمکا نہ سکے سوانح نگار کو آئنہ گر کہیں نہ کہیں مگر یہ بات تو تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کے کام آئنہ گری کے ہیں _
سیرت سوانح عمری ہی کی ایک شکل ہے رسول خدا ﷺ اور ان کی روشن حیات کے جمیل تذکرے سیرت کہلاتے ہیں۔ سیرۃ النبی ﷺ کے عنوان پر کتابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے کائنات میں صاحب رفعنا لک ذکرک کے سوا ایسا دوسرا کوئی فرد نہیں جس کی مکمل سوانح عمری ہر زمانے ہر ملک اور ہر زبان میں تسلسل کے ساتھ لکھی گئی ہو یہ اختصاص و شرف آپ کے حصے میں آیا کہ آپ کا تذکرہ ہر دور میں ہر زبان میں ہوا ، ہورہا ہے اور ان شاء اللہ ہوتا رہے گا، تذکرے کے ذکر پر یاد آیا کہ یہ تذکرہ بھی سوانح عمری کی ایک صورت ہے بس لطیف فرق یہ ہے کہ تذکرہ میں زندگی کا تذکرہ مجملاً مگر مراد و مقصود کی وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے اور سوانح عمری میں زندگی کی تفصیل مکمل وضاحت کے ساتھ مذکور ہوتی ہے، گاہ گاہ اس فرق سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے سیرۃ النعمان، سیرت امام احمد رضا اور تذکرۃ الرشید سوانح عمریاں ہںں، سیرت و تذکرہ کے علاوہ آپ بیتی، رپورتاژ، سفر نامے اور روداد یہ سب سوانح نگاری کی مختلف شکلیں ہیں اور اپنی علیحدہ خصوصیات کی بدولت باہم ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد، اب یہ سب علیحدہ صنف ہیں یہ جملہ اصناف اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں، اردو ادب کی حسن آرائی میں ہر صنف کا اپنا ایک حصہ ہے _
شعرائے دکن نصرتی، رومی، ذوقی اور دیگر شعرا کی مثنویوں میں گاہ گاہ شخصیات کی سیرت و سوانح منظوم ہیں ہم ان کو چاہیں تو سوانح کے اولین نقوش سے تعبیر کرلیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو سوانح نگاری کو بہ طور فن مولانا الطاف حسین حالی نے متعارف کیا، حیات سعدی (سال اشاعت 1884) اردو کی با اصول سوانح نگاری کی پہلی اہم کتاب تصور کی جاتی ہے، یادگار غالب (1897) اور حیات جاوید (1901) نے سوانح نگاری کے اصول کو مزید انضباط بخشا ہے مولانا شبلی کی سوانح عمریاں المامون (1887)، سیرۃ النعمان (1890), الفاروق (1899) اور الغزالی (1902) اسی عہد کی یادگار ہیں یہ سوانح عمریاں اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں_
وسیع الالقاب امام احمد رضا خان برکاتی بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بر صغیر ہند و پاک بلکہ عالم اسلام کی نابغۂ روزگار عبقری شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے آپ چودہویں صدی ہجری کے مجدد، نامور فقیہ، عظیم القدر محدث و اصولی معروف مفسر، بلند پایہ نعت گو شاعر اور بے مثال عاشق رسول کی حیثیت سے متعارف ہیں، جملہ مروجہ علوم و فنون میں ید طولی رکھتے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاء الدین نے علوم ریاضی میں امام احمد رضا سے استفادہ کیا ہزار سے زائد کتب کے مصنف ہیں آپ کی تصنیف فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا ہے قرآن مجید کا اردو ترجمہ کنزالایمان واقعتاً ایمان کا خزانہ ہے حدائق بخشش اردو ادب کا بیش بہا خزانہ اور آپ کی شگفتگیِ فکر کا خوبصورت اظہاریہ ہے آپ کی ذات و شخصیت، آپ کی دینی مذہبی خدمات اور آپ کی تحقیقات و تصنیفات ایک زمانے سے عصری جامعات میں موضوع تحقیق ہیں بر صغیر کی عصری جامعات میں جس قدر رضویات سے متعلق تحقیقی مقالے لکھے گئے اور اس کے نتیجے میں جس قدر ڈاکٹریٹ تفویض کی گئی اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی_
ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری رحمہ اللہ امام احمد رضا سے از حد قریب تھے آپ امام احمد رضا کے تلمیذ رشید بھی ہیں مرید وفا شعار بھی اور خلیفۂ اجل بھی ، امام احمد رضا نے آپ کو ولد اعز کہا عزیز از جان کہا یوں وہ اہل بیت رضا سے نہ ہو کر بھی اہل بیت رضا سے تھے آپ نے چار ضخیم جلدوں میں امام احمد رضا کی سوانح عمری لکھی اس کا تاریخی نام مظہر المناقب (1369) تجویز کیا یہ مبارک کتاب علمی حلقوں میں حیات اعلی حضرت سے معروف ہے مولانا حالی کی سوانح عمریوں نے سوانح نگاری کے لیے جو اصول وضع کیے جو ضوابط مرتب کیے بحمداللہ حیات اعلی حضرت کی ترتیب و تدوین میں ان اصول و ضوابط کی رعایت کے جلوے جگمگ جگمگ ہیں_ علامہ ظفر الدین کی حیات اعلی حضرت کے ساتھ علامہ بدر الدین کی سوانح اعلی حضرت تفہیم رضویات کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں نو واردان رہِ تحقیق کے لیے یہی کتابیں مآخذ و مراجع ہیں تب سے اب تک رضویات سے متعلق جس قدر تحقیقی مقالے لکھے گئے ان کا اہم حوالہ یہی کتابیں رہیں_ مولانا محبوب گوہر اسلام پوری جہان شعریات میں اب کسی کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں خوش مزاج نقیب خوش خیال شاعر اور خوش اطوار شخص کے طور پر وہ بہت دور تک متعارف ہیں ان کی شخصیت جیسی پرکشش ہے ویسے ہی ان کی شاعری پرکشش ہے ہم نے بہت سے زود گو شاعر دیکھے ہیں مگر محبوب گوہر کا کمال یہ ہے کہ زود گوئی کے با وصف ان کے یہاں سخن کا معیار گرتا بھی نہیں اور گھٹتا بھی نہیں مقدار کا شاعر بسا اوقات قدر کا لحاظ نہیں رکھ پاتا محبوب گوہر کے یہاں مقدار کے باوجود قدر کے جلوے ہیں تخییل کی ایسی خوش آئند کہکشاں آرائی ہے کہ حسن شعریات سے آئنۂ سخن مجموعۂ حیرت نظر آۓ
تضمین گوہر اور ثنائے سرکار ہے وظیفہ کی اشاعت و مقبولیت کے بعد اب ان کا ایک اور نیا شاہکار منظوم سوانح اعلی حضرت منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے اس کی ہر سطر یعنی ہر مصرع نیا آب نئی تاب کا مظہر ہے سوانح نگار کے خامۂ زر نگار نے ادب کی زمین پر عقیدت و محبت کی روشنائی سے رضویاتی فکر کی وہ فصل اگائی ہے کہ بس دیکھا کیجیے سراہا کیجیے- مغربی مفکر ایمرسن نے کہا تھا کہ جب کوئی عظیم انسان عظیم تر انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری وجود میں آتی ہے اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو یہ منظوم سوانح عمری وجود میں آئی ہے اس کی وجہ سے اب محبوب گوہر ہمیشہ زندہ رہیں گے اس عظیم کارنامے نے ان کو ایسا عظیم کردیا کہ اب جب کبھی رضویات کے تعلق سے کوئی بات کہی جاۓ گی تو علامہ ظفر الدین بہاری، علامہ بدر الدین، علامہ شمس بریلوی اور پروفیسر مسعود رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی عظیم القدر شخصیات کے ساتھ محبوب گوہر کا تذکرہ بھی عزت و احترام کے ساتھ ہوگا _ سوانح نگار گرد سے اٹے دبے شیشے کو چمکاتا ہے وہ غیر متعارف شخص کا تعارف بن جاتا ہے اس کی عظمتیں روشن کرتا ہے داغ عظیم شاعر تھے ان کے روبرو غالب کا چراغ مدھم تھا یہ یادگار غالب تھی جس نے غالب کی عظمتوں سے عالم کو روشناس کیا حالی نے سمجھایا کہ داغ اگر عظیم ہیں تو غالب عظیم تر ہیں مگر یاد رہے کہ یہ کلیہ کلی نہیں ہے ابن ہشام، ابن خلدون اور ابن اسحاق ذرے سے آفتاب ہوگئے سیرت پر ان کی خدمات نے انہیں پائدار زندگی بخش دی الغزالی لکھ کر شبلی نے امام غزالی کو روشن نہیں کیا بلکہ وہ خود روشن ہوگئے سیرۃ النعمان نے نعمان کو نہیں چمکایا شبلی نعمانی کو سیرۃ النعمان نے چمکا دیا البتہ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ آج بھی اگر ہم سیرت کے حوالے سے خلجان میں مبتلا ہوں تو اطمینان بخش روشنی انہی بزرگوں کی کتب سیر سے ملتی ہے، امام غزالی اور امام اعظم کے حوالے سے الغزالی اور سیرۃ النعمان کا حوالہ ہمیں ایمان افروز روشنی عطا کرتا ہے، اعلی حضرت علیہ الرحمہ چودہویں صدی ہجری میں افق علوم و فنون پر آفتاب کی طرح روشن تھے انہیں مدینے والے نے چمکایا تھا انہوں نے اپنے انوار علم سے عالم کو روشن کیا پھر رضویات پر جنہوں نے کام کیا وہ بھی روشن ہوگئے ذرے سے ماہتاب ہوگئے مولانا محبوب گوہر سے جو آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ محبوب گوہر بہ ہزار جلالت انتہائی متواضع و منکسر ہیں انہوں نے یقیناً ایک بڑا کام کیا ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ بڑا کام بھی بڑے حضرت کا فیضان ہے ان کی منظوم سوانح سے اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی متنوع الجہات شخصیت کے مختلف گوشے ہم سے ناواقفوں کے لیے روشن ہوۓ یہ عظیم کارنامہ محبوب گوہر کے قلم سے وجود پذیر ہوا اور اب ان شاء اللہ اس عظیم کارنامے کی بدولت محبوب گوہر بھی ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے_ سوانح نگار کے لیے کئی طرح کی مشکلیں ہوتی ہیں عقیدت چاہتی ہے کہ ذروں کو آفتاب بنا کر پیش کیا جائے خامۂ حقیقت نگار چاہتا ہے کہ زہر کو زہر کہا جائے اور قند کو قند یہ راہ صداقتوں کی راہ ہے اس راہ کا راہی اگر اولو العزم نہ ہو تو ہمت ہار جاۓ پھر یہ کہ جب مسافر اس سنگلاخ وادی کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو وہ اس کشمکش میں رہتا ہے کہ ہر طرف کھلے ہوۓ خوش رنگ پھولوں میں سے وہ کس کا انتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے، مولانا محبوب گوہر نے منظوم سوانح اعلی حضرت کی تصنیف سے قبل کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا عنوان کی وسعتوں کو دیکھیں مضامین کے بے کراں پھیلاؤ کو دیکھیں تب آپ کو محبوب گوہر کا کمال سمجھ میں آۓ گا اور تب آپ کی زبان بے ساختہ کہے گی کہ کوزے میں سمندر ہم نے محاورتاً سنا تھا دیکھا نہیں تھا منظوم سوانح اعلی حضرت کی صورت میں ہم نے کوزے میں ایک بے کراں سمندر دیکھا ہے منتخب واقعات نے کتاب کی قدر و قیمت بڑھا دی ہے حسن زبان نے شراب ذوق کو دو آتشہ کردیا ہے_
منظوم سوانح اعلی حضرت مولانا محبوب گوہر کی شائستگیِ زبان، شگفتگیِ فکر کے ساتھ ان کی قدرت کلامی کا خوبصورت اعلانیہ ہے ہر شعر ان کی کہنہ مشقی پر دلیل ہے یہ غزل نہیں ہے کہ مضمون کھوج کر لائیں پھر اسے تخییل کا جمال بخشیں یہ سوانح نگاری ہے یہاں مضمون پہلے سے موجود ہے ایسے میں اسے حسن شعری اور جوہر ادبی سے آراستہ کرنا یقیناً فن کاری ہے لسانی نفاست ، فکری طہارت ، اظہاریے کی فصاحت اور ابلاغ کی بلاغت نے منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو ادب کا شاہکار بنا دیا ہے__ راقم چھوٹا موٹا شاعر بھی ہے اور کچھ حد تک شعری نزاکتوں سے آگاہ بھی، یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں کسی کی ولادت یا وصال کی تاریخ بیان کی گئی اور بحمداللہ ایسے کسی شعر میں سلاست و روانی متاثر نظر نہیں آئی بہ حیثیت شاعر میں جانتا ہوں کہ یہاں سوانح نگار کو کیسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا مگر محبوب گوہر کی قدرت کلامی کو سلام کہ وہ اس پر خار وادی سے بھی سلامتی کے ساتھ گزر گئے ہم بطور نمونہ ایسے چند اشعار پیش کرتے ہیں__
اعلی حضرت کی ولادت_
ہجری بارہ سو بہتر دن تھا دس شوال کا
چودہ جون اٹھارہ سو چھپن تھا شمسی سال کا
بیعت کی تاریخ_
بارہ سو چورانوے ہجری کا ہے یہ واقعہ
دیکھیے کیسے درِ مرشد پہ پہنچے ہیں رضا
بارہ سو چورانوے ہجری میں مارہرہ گئے
اور بیعت کا شرف آل نبی سے پاگئے
اعلیٰ حضرت کا وصال_ تیرہ سو چالیس ہجری تھی صفر کا ماہ تھا دار فانی سے ہوۓ جب راہی ملک بقا استاد زمن کی پیدائش_
عیسوی اٹھارہ سو انسٹھ میں تھے پیدا ہوۓ
گلشنِ علم و ادب میں خوب تر پھولے پھلے
حجۃ الاسلام کی پیدائش_
ہے اٹھارہ سو پچھتر ان کی پیدائش کا سال
عہد طفلی سے ہی تھے یہ خوش خصال و خوش خیال
حجۃ الاسلام کا وصال__
عمر اڑسٹھ سال کی تھی جب ہوا ان کا وصال
تیرہ سو باسٹھ ہے ہجری ان کا سال انتقال
مفتی اعظم ہند کی پیدائش__
ان کی ہجری تیرہ سو دس میں ولادت تھی ہوئی
آمد والا سے سارے شہر میں آئی خوشی
مفتی اعظم کا وصال_
اپنے علم و فضل سے کرکے جہاں کو مالا مال
چودہ سو دو ہجری میں حضرت نے فرمایا وصال
منظوم سوانح اعلیٰ حضرت پچیس سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے تاریخیات کے باب میں اشعار کی روانی کا جب یہ عالم ہے تو دیگر اشعار کی سلاست، روانی اور برجستگی کا عالم کیا ہوگا ہم نے ابھی کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ یہاں مضمون متعین ہے اس کے باوصف حسن شعری کمال کا ہے یہ دعویٰ فقط دعویٰ نہ رہے اس لیے ہم چند اشعار کا انتخاب کیا ہے آپ بھی ان اشعار کو دیکھیں پڑھیں اور حظ اٹھائیں__
ہے سراپاۓ نبی کا تذکرہ اس طور پر
جیسے ہوں قرطاس پر تفسیر کے پھیلے گہر
ہے چمکتے موتیوں جیسے تمام الفاظِ نعت
دعوت نظارہ دیتی ہے سخن کی کائنات
چاشنی ہے نغمگی ہے کیف ہے تاثیر ہے
شعر کیا ہے آیت قرآن کی تفسیر ہے
انتہائی علمی نکتہ آفرینی کے سبب
صفحۂ قرطاس پر بکھری ہوئی تھی تاب و تب
شعر میں برجستگی ہے صاف ستھری ہے زباں
آبشاروں کے شکم سے جیسے موجیں ہوں رواں
عظمت فکر و تخیل کا امیں کہیے انہیں
خانقاہ نعت کا گدی نشیں کہیے انہیں
اس شعر کو پڑھتے ہی معا مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا اور فکری توارد نے خوشگوار حیرت سے ہمکنار کیا وہ شعر یوں ہے
شہرت ناعت چلی ہے دعوت بیعت لیے
خانقاہ فکر کے گدی نشینوں کی طرف
مضمون کے پھیل جانے کا اندیشہ لاحق ہے ورنہ اس طرح کے متعدد اشعار ہیں جن سے مولانا محبوب گوہر کی تازہ کاریاں واضح ہیں منظوم سوانح اعلی حضرت کسی مقتدر سیمینار کا عنوان ہونا چاہیے اہل علم و فضل و کمال یکجا ہوں اور یہ کتاب موضوع بحث ہو اس کتاب کے مختلف ایسے ادبی پہلو ہیں جو آشکار ہونا چاہتے ہیں اس کے لیے سیمینار سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوسکتا ہے
ہم نے اسی مضمون میں بہت پہلے کہا تھا کہ علامہ ظفر الدین کی مصنفہ سوانح عمری حیات اعلیٰ حضرت میں ان اصول و ضوابط کی پاسداری نظر آتی ہے جو سوانح نگاری کا لازمہ ہیں، ہم نے یہ بات ایک خاص مقصد کے تحت کہی تھی ان اصول و ضوابط کی رعایت کی وجہ سے اگر حالی کی سوانح عمریاں ادب ہیں تو حیات اعلی حضرت کی ادبیت سے انکار کی صورت کہاں باقی رہی ، حیات اعلی حضرت کی زبان بھی بحمداللہ صاف ستھری، شگفتہ اور انتہائی پاکیزہ ہے، ایجاز ہے تو مراد میں مخل نہیں اطناب ہے تو اکتاہٹ کا باعث نہیں لہجہ ایسا جیسے سلسبیل رواں ہو ادب کی ادبیت کے لیے جس قدر جواہر مطلوب ، یہاں بدرجۂ اتم موجود ، ان کے جوت کی جل تھل سے ہر سطر بسا ہوا ، مستزاد یہ کہ ہر سطر غلبۂ محبت کے باوجود صداقت کا امین ، اصل میں ایک ٹرینڈ چل چکا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب اگر ہمارے مسلک کا ہمنوا نہیں تو وہ لائقِ اعتنا نہیں برا ہو ایسی مسلکی عصبیت کا کہ تقویۃ الایمان جیسی پھوہڑ کتاب کو ادب کا اعلی نمونہ کہا جاۓ اور حدائق بخشش کے محاسن شعری و جواہر ادبی سے آنکھیں موند لی جائیں ہمیں خدشہ لاحق ہے کہ منظوم سوانح اعلی حضرت کے ساتھ ادب کے اجارہ داروں کا رویہ بھی بے نظری و بے اعتنائی کا نہ رہے_ ایک کمی اپنی طرف سے بھی رہ جاتی ہے کہ ہماری کتابیں ہمارے حلقوں تک پہونچ پاتی ہیں بلکہ ہم خود دوسروں تک پہنچانا نہیں چاہتے کاش ہماری کتابیں دیگر کتب خانوں تک بھی پہونچ سکیں مگر صاحبِ منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے آج بھی اعلی حضرت کے چاہنے والے کم نہیں ہیں اعلی حضرت کے فدائیوں کے درمیان یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی یہ پہلا ایڈیشن ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوگی کہ اس کے مزید کئی ایڈیشن شائع ہوں گے سب سے بڑی بات ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین اجر ثابت ہوچکا ان شاء اللہ یہ کتاب حضرت گوہر کے لیے توشۂ آخرت ہوگی__
حضرت محبوب گوہر کو اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے ایک بڑا کام ہوا اب احباب سوچتے ہوں گے کہ اس سے بڑا کیا کام ہوسکتا ہے مگر زندگی ہے تو کام بھی ہے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں حضرت گوہر صاحب قلم ہیں اور ان کے قلم کو اللہ تعالیٰ نے زور کلامی عطا فرمایا ہے اب اس کے بعد اگر سیرت پر ان کا قلم چل نکلے تو کم از کم ہمارے لیے باعث حیرت نہیں ہوگا اللہ تعالی مزید توفیق ارزانی فرماۓ
تبصرہ نگار
محمد کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف
Leave a Reply