کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی
نذر احباب
بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا
شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا
حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا
ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا
ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا
اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا
تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا
ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا
گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا
قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا
شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا
از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134
Leave a Reply