ہندوستان مختلف تہذیب و ثقافت کا گہوارا ہے برسہا برس سے مختلف اقوام کے لوگ بنا کسی بھید و بھاؤ کے آپسی اخوت و محبت سے سکونت اختیار کئے ہوۓ تھے۔ ہمہ وقت یہاں گنگا جمنی تہذیب کی ندیاں بہتی تھیں۔ شادی بیاہ سے لے کر ایک دوسرے کی تہوار نیز مذہبی و غیر مذہبی تقریبات میں خلوص و محبت کے ساتھ شامل ہوتے تھے یہاں تک کہ خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے۔لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی بے مثال گنگا جمنی تہذیب پر جاہل قسم کے غیر مسلموں نے کٹر پنتھی دکھانا شروع کردیا اور جگہ جگہ مسلمانوں کو نشان زد پر لینے لگے۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی تنظیم و تحریک تشکیل کرلی گئی جس سے کہ قوم مسلم کو حراساں و ظلم و جبر کرنے میں آسانی پیدا ہو اور وقتاً فوقتاً تنظیم سےمدد بھی ملتی رہے۔ آزادئ ہند کے بعد سے کچھ سال تک یہاں کے حالات کافی حد تک بہتر تھے۔ لیکن آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلنے والی بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئ دن بدن اس کی لو تیز ہوتی جاری ہے یہاں تک کہ حالات یہ بن گئے کہ مسلمانوں کی مذہبی عمارت نہ ہی ان کی ذاتی جائیداد (دوکان و مکان وغیرہ) محفوظ ہے۔ غیرمسلموں کے چھوٹے سے چھوٹے تہوارمیں بھی مسلمانوں کے جان و مال کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مآب لینچنگ میں ہزاروں مسلمانوں کو بنا کسی وجہ کے بے دردی سے قتل کرڈالا گیا، گئوکشی کے بےوجہ جرم میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یہاں کے سماجی عدل و انصاف کا توازن بالکل مسخ کردیا گیا۔ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا، صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرڈالا بھارتی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کسی سے مخفی نہیں اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس بھی محفوظ نہیں ۔ یہ کس جمہوری ملک کی تہذیب و تمدن ہے کہ تہوار و جلوس میں ننگی تلواریں دھار دار آلہ لے کر نکلا جاۓ اور ایک مخصوص مذہب کے خلاف بھڑکاؤ نعرے بازی کی جاۓ ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوٹ مچایا جاۓ اور پھر اس پر اپنے مذہبی جھنڈے نصب کئے جائیں۔ حد تو اس وقت ہوگئ جب یہ ننگا ناچ حکومت ہند کی کھلی آنکھوں کے سامنے ناچا جارہا تھا پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔لیکن اسی سرزمین پر مختلف مذاہب کے مابین ایک بڑا ہی صاف و شفاف پاکیزہ مذہب ‘اسلام’ ہے جس کا پیغام ہرآن امن و امان کا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے پیغام کو عمل میں لاتے ہیں۔
دنیا کا ہرگوشہ خاص کر بھارت ملک کا ہر ہر ذرہ گواہ ہے کہ یہاں پر صدیوں سے نکلنے والے اسلامی جلوس[ربیع الاول،محرم نیز دگر جلسے جلوس] میں مسلمانوں نے کسی خاص مذہب و کمیونٹی کو نشانہ بنایا ہو یا اپنے مذہب سے ہٹ کر نعرے بازی کیا ہو یا کسی دگر مذہب کی عبادت گاہوں کو ٹھیس پہنچایا ہو۔ یہ تو کجا مسلمان اپنے جلوس میں ایک چینٹی جیسی مخلوق کو ایزا دینے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر اس سرزمین پر کوئی سچا سپوت بن کر بودوباش اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ یقیناً قوم مسلم ہے۔ ہرسال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر دنیا بھر میں اربوں کھربوں کی تعداد میں ایک ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں یہ نظم صرف مذہب اسلام میں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان اکٹھا ہونے کے باوجود کبھی کسی مذہب، کسی خاص کمیونٹی یا کسی کی عبادت گاؤں کو کوئی ٹھیس پہنچایا ہو۔ اسی عیدالفطر کی نماز کو مثال کے طور پر لے لیجئے جو ٢٢/اپریل ٢٠٢٣ ٕ بروز سنیچر کو ادا کی گئ ایک اندازے کے مطابق خالص بھارت میں بیس کروڑ سے زاٸد مسلمانوں نے مساجد،عیدگاہ اور سڑکوں پر نماز عیدالفطر ادافرمائی بغیر کسی نعرہ بازی کے بغیر کسی مندر کی طرف آنکھ اٹھاۓ اور بغیر کوئی دھار دار آلہ لئے امن و امان، چین و سکون کے ساتھ سچے وفادار بھارتی بن کر اپنے اپنے گھروں پر واپس آگئے۔
[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں۔]
Leave a Reply