WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

ریوڑی جیسلمیر میں جلسۂ ایصال ثواب::-موت ایک اٹل حقیقت:لہٰذا آخرت کی تیاری کریں:علّامہ پیر سید نوراللّٰہ شاہ بخاری گذشتہ روز [17 فروری 2022 عیسوی بروز؛جمعرات]

ریوڑی جیسلمیر میں جلسۂ ایصال ثواب::-موت ایک اٹل حقیقت:لہٰذا آخرت کی تیاری کریں:علّامہ پیر سید نوراللّٰہ شاہ بخاری گذشتہ روز [17 فروری 2022 عیسوی بروز؛جمعرات]

ریوڑی جیسلمیر کے سابق سرپنچ مرحوم فوٹے خان کے ایصال ثواب کے لیے ایک عظیم الشان “جلسۂ سکندری واصلاح معاشرہ”کا انعقاد کیا گیا،جس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے علاقۂ تھار کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ”دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر” کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علّامہ الحاج سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے فرمایا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ ہم آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں، کیونکہ موت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا ذائقہ چکھنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے”
    ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے-مزید آپ نے اپنے خطاب کے دوران موت کے تعلق سے آیت کریمہ “کل نفس ذائقة الموت” کے تحت فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ موت اور زندگی دونوں کو اللہ نے خلق فرمایا۔ موت برحق ہےجو ہر ایک کو آنی ہیں۔ دنیا میں اگر دیکھا جائے تو لوگ ہر چیز کے منکر ہوگیے حدتو یہ کہ اللہ کے وحدانیت وربوبیت اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت اور رسالت کے بھی منکر ہوگئے ۔لیکن آج تک کوئی بھی موت کا منکر نہیں ہوا کیونکہ ایسا کوئی طبیب ہی نہیں جو موت کاعلاج کرکے زندگی دلاسکے ۔ موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر ہو یا فاسق و فاجر حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں موت کے بعد ہی انسان کی اصلی اور ابدی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔انسان اس دنیا سے چلا جائے تو انتقال کر جاتا ہے جسکا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ دنیا میں ما سوائے اللہ کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں،باقی سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔
دنیا میں انسان وقت ِ متعینہ کےلئے ترتیب سے آتا ہے، پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا، لیکن دنیا سے جاتے وقت مالک الموت ترتیب نہیں بلکہ وقت متعین دیکھتا ہے۔ موت چھوٹے اور بڑے کو نہیں دیکھتی ہے ۔وہ دودھ پیتے ہوئے بچے کو اسکی ماں چھین لیتی ہے ۔ موت نہ رنگ و نسل دیکھتی ہے ، نہ ذات اور مرتبے کو۔موت نہ نیک و صالح لوگوں پر رحم کرتی ہے اور نہ ہی ظالموں کو بخش دیتی ہے ۔ ہر ایک کو اپنے گلے سے لگا کر رہتی ہے، پھر چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو وہاں پہنچ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خود کو اللہ کہنے والا فرعون بھی موت سے نہیں بچ پایا ۔ اس لیےانسان کو ہر حال میں ہوشیاررہنا چاہییے اور ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہییے اور اس بات پہ کامل یقین رکھنا چاہییےکہ یہ دنیا فانی ہے،جو مومن کیلئے قید خانہ ہے ۔ جس طرح ایک قیدی کو قید خانے کے اصول و ضوابط کے ماتحت رہنا پڑتا ہے، اُسی طرح دنیاوی زندگی میں بھی رہنا پڑتا ہے۔ ہر قیدی کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ قیدخانہ اُس کے لئے ایک عارضی گھر ہے اوربالآخر اُسے اپنے اصلی گھر میں ہی منتقل ہونا ہے۔گویا ہر کسی کا اپنا اصلی اور ابدی گھر ہے ،اور وہ ہے موت کے بعد آخرت کا گھر ۔ظاہر ہےہر انسان کو آخرکاراپنے مالک کے دربار میں حاضر ہونا ہے ،جہاں اُس کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابن آدم کے قدم تب تک آگے نہیں بڑھ سکتے، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ پہلا:عمر کہاں گزاری؟دوسرا :جوانی کہاں گزاری؟تیسرا:مال کہاں سے کمایا؟چوتھا:مال جو کمایا کہاں پہ صرف کیا؟ اورپانچواں : جو علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟
لہٰذا ایک انسان کو پہلے سے ہی ان سوالات کی تیاری کرنی چاہے تاکہ وہ اس وقت مجرم نہ ٹھہرایا جائے۔ دنیا میں کوئی بھی نفس ایسا نہیں ہوگا، جس پر کوئی نہ کوئی مصیبت نہ آئی ہوگی۔چنانچہ انسان پر جو بھی آزمائش ڈال دی جاتی ہے اُس پر انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ “میں نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ہم تم کو آزمائیں کہ تم میں سے کون اچھا اور کون بُرا۔” چونکہ اللہ کی طرف سے ہی سب کچھ ہوتا ہے، اسکی اجازت کے بغیر مچھر کاپَر بھی نہیں کٹ سکتا۔لہٰذا شکوے شکایتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زندگی اور موت سب اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو پہلے ان کو چیزوں کےنام سکھائے گئے اور اللہ نے انسان کے اندر یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے ۔انسان کی زندگی بامقصد ہے اور اس کی موت بھی بامقصد اور یقینی ہے ۔ایک انسان کو زندگی کا مقررہ وقت اس لئے دیا گیا تاکہ اس کا امتحان لیا جائےاور موت اس لیے آتی ہے کیونکہ امتحان میں پرچے کا وقت ختم ہوتاہے اور پھر موت کے فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بندے کو اپنا پرچے سمیت اللہ کے دربار میں لے آئے تاکہ اسکی ابدی اور اصلی زندگی کا فیصلہ طے کرلیا جائےکہ کیا یہ جنت کا حقدار ہے یا جہنم کا ۔اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ جس نے جیسا کیا ہوگا ،اسکو اُسی کے مطابق جزا و سزا دی جائے گی۔اللہ عادل ہے اور عدل کو پسند فرماتاہے ۔چونکہ اُس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے، وہ چاہے تو سیدھے راستے اختیار کرلے، چاہے تو غلط راستے چن لے ۔ایک انسان کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ میرے لیے کیا بہتر ہے ۔انسان کو پہلے ہی یہ دیکھنا چاہئے کہ مجھے کس لیے پیدا کیا گیا اور میری آخری منزل کہاں ہے؟۔جس انسان کو یہ حقیقتِ زندگی سمجھ میں آجائے تو اس کے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی کتاب زندگی کو نیک کاموں سے سجا کراپنےاعمال نامہ کا تحفہ دائیں ہاتھ میں لے لے۔انسان کا اعمال نامہ جیسا ہوگا، اُسی کے مطابق جزا و سزا ہو گی ۔کیونکہ جزا و سزا ضروری ہے ،اگر یہ نہ ہوتا تو پھر نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا اور نہ امتحان کا کوئی فائدہ ۔اللہ تعالیٰ جس کو بھی زندگی دیتا ہے اس کے لئےامتحان بھی رکھتا ہے تاکہ انسان کی اصلیت پتہ چل جائے، خواہ وہ نیک ہو یا بد ۔اور اگر بندہ اللہ کی پسند کے مطابق زندگی گزار رہا ہو تو وہ فرمانبردار بندوں میں سے ہے اور اگر اللہ کے احکام وفرامین کو چھوڑ کر اپنے نفس کا غلام بن کے اس کی پیروی کرنے لگا تو بے شک اللہ کا باغی ، سرکش اور نافرمان بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔انسان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اِس زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن کو بھی لائے گا، جس دن ہم سب کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے گا اور ہمارا اعمال نامہ دیکھ کر ہمارے ٹھکانے کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کی جائے پناہ کہاں ہے ؟ وہ دن ایسا ہے جہاں کوئی بچ نہیں سکتا۔ ۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا وہاں آپ کے نیک اعمال کام آئیں گے ۔
یقیناً موت سب سے بڑی حقیقت ہے جسے ہر شخص بھلا بیٹھا ہے اور زندگی سب سے بڑا دھوکا ہے جس کے پیچھے ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔
موت یقینی اور اکیلا سفر ہے جو ہر انسان کو اکیلے طے کرنا ہے ۔اس کے ساتھ نامۂ اعمال کے سوا کچھ نہیں جائے گا، نہ ہی اس کے ماں باپ نہ ہی احباب و اقارب ۔ موت انسان کا محافظ اور وفادار دوست ہے جو اپنے مقررہ وقت پر آکر اس کی روح قبض کر لیتی ہے ، لہٰذا موت کی تیاری لازمی ہے ۔ انسان کو ہر سانس لیتے وقت یہ دل میں رکھنا چاہئے کہ ابھی موت آئے گی ،تب جاکے انسان دنیا کی لذتوں کو چھوڑکر آخرت کا فکر مند رہے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کرو” یعنی موت یاد کرنے سے دنیا کی اِن لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ ان کی طرف طبیعت مائل نہ ہو اور تم صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اللہ اپنے بندوں کو مختلف مرحلوں اور حالات سے گزاتا ہے کبھی غم اور خوشی دے کر، کبھی بڑھاپا اور کبھی جوانی دے کر تاکہ وہ دیکھے کہ میرا شاکر بندہ کون ہے اور ناشکری کرنے والا کون ہے؟ اور کون مجھے یاد کرتا ہے اور کون بھلا بیٹھا ہے؟ کون مصیبتوں پر صبر کرتا ہے،کون نہیں؟ اور وہ لوگ نادان اور احمق ہیں جو مصیبتوں کے آنے پر ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں اور عقلمند انسان کبھی ایسا احمقانہ کام نہیں کرے گا کہ اُس پر مصیبت آئےتو وہ خود کو اللہ کے سامنے رگڑنا شروع کر دے اور جب مصیبت ٹل جائےتو اللہ کو بالکل ہی بھول جائے۔ ایک انسان کی زندگی چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، آخرکار ختم ہوہی جاتی ہے اور جو ابدی زندگی ہے، وہ آخرت ہے ۔ لہٰذا انسان کو اس زندگی کیلئےسامان تیار کرنا چاہیے جو اصلی ہے ۔ انسان کی روح جب نکالی جاتی ہے تو اس پر اسی وقت قیامت آتی ہے اور اصلی گھر کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس میں تبدیلی لائے ۔لہٰذا انسان کےلیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کو بھلائی اور نیک کاموں میں گزارے تاکہ جنت اس کو حاصل ہوجائے اور عذاب الہٰی سے بچ سکے ۔
آپ کے خطاب سے قبل ان حضرات نے بھی اصلاح معاشرہ،اصلاح عقائد واعمال اور جملہ ارکان اسلام بالخصوص نمازپنجگانہ کی پابندی اور اس کی اہمیت وفضیلت پر مشتمل تقاریر کیں!
ادیب شہیرحضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، حضرت مولاناشاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر،حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری،
نائب صدر:دارالعلوم انوارمصطفی سہلاؤشریف-
قاضیِ ریوڑی حضرت مولانا صوفی عبدالکریم صاحب سکندری نیگرڑا-

نظامت کے فرائض حضرت مولاناالحاج محمدپٹھان صاحب سکندری سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ سَم، جسلمیر نے بحسن وخوبی نبھائی-
جب کہ خصوصی نعت خوان کی حیثیت سے قاری امیرالدین صاحب سکندری نے شرکت کی-

اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
مولاناباقرحسین صاحب قادری انواری،قاری محمدعباس صاحب سکندری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناریاض الدین سکندری انواری،قاری عبدالسبحان صاحب سکندری خطیب وامام: جامع مسجد ریوڑی،مولاناعبدالکریم گلزاری خطیب وامام:جامع مسجد متؤں کی ڈھانی،قاری محمد عرس سکندری انواری،ماسٹر محمدیونس صاحب جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عوام اہل سنّت بالخصوص سکندری جماعت کے لوگوں نے شرکت کر کے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت وایصال ثواب کیا-
۔
آخر میں مرحوم کے حق میں اجتماعی فاتحہ خوانی ہوئی،اور صلوٰة وسلام ودعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹر:محمدانور علی سکندری انواری بن عبدالملوک
متعلم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *