غزل
اس دل کی وسعت کیا کہنا اک دنیا ہے آباد یہاں
پر اس کی ندرت کیا کہنا ہر کوئی نہیں ہے شاد یہاں
یوں کہنے کو تو ملتے ہیں دل دار یہاں دل شاد یہاں
پر دل کی حقیقت کیا جانے ہم راز دل ناشاد یہاں
دل ٹوٹ گیا ہے جب سے پھر دل جوڑنے والا مل نہ سکا
ہر دل کا معالج بیٹھا ہے دل بر کی لیے فریاد یہاں
بس شیریں لیلی کرتے ہیں یہ دل کے لٹیرے کیا جانیں
ہر خبطی مجنوں بن بیٹھا ہر شخص بنا فرہاد یہاں
اس دنیا کے مے خانے میں دل دوز ہیں ساغر کے فتنے
اب توڑ دے جام و مینا تو ہے جام لیے صیاد یہاں
دل عشق بنا ویران ہوا جب عشق ہوا حیران ہوا
کیا کیا دل پر قربان ہوا ہے کس کو خبر تعداد یہاں
ہم دل کے مریضوں کا ازہر اب کوئی نہیں حامی یاور
کیوں دل کی سنائے جاتا ہے دردوں سے بھری روداد یہاں
Leave a Reply