WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

تلاوت قرآن و سماع قرآن عظیم عبادت اور کار ثواب ہیں۔ مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ

مہراج گنج (پریس ریلیز)

حافظ قرآن اسلام کا علم بردار ہوتا ہے۔ جس نے اس کی تعظیم کی اللہ تعالی اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ قرآن سیکھنے اور سکھانے والا دو کمالات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک تو وہ خود قرآن کریم سے نفع حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو اخلاق کے ساتھ نفع تقسیم کرتا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار دارالعلوم عربیہ عزیزیہ مظہرالعلوم نچلول مہراج گنج کے استاذ حافظ و قاری مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ نے بودنا مہراج گنج کی نوری جامع مسجد تکمیل قرآن کے موقع پر کیا۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ شب قدر میں اللہ تعالی نے بہت سی نعمتیں رکھی ہیں۔ جنہیں فرزندان توحید کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بہتریں موقع کو ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم رات مین ہم عبادت نہیں کرتے، شب بیداری نہیں کرتے اور اس طرح ایک بڑی محرومی ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ مولانا موصوف نے اس سال اسی مسجد میں تراویح سنانے کا شرف حاصل کیا ہے۔
اس سے پیشتر تلاوت قرآن سے محفل کا آغاذ ہوا۔ مسجد کے خطیب و امام حافظ و قاری شفیع الله مظہری نے نعت کے اشعار پیش کیے اور قاری عبدالحق علیمی علیگ کو قرآن سنانے اور مصلیان مسجد کو تیس پارے قرآن سن پر مبارک بادی پیش کی۔ اس موقع پر خورشید احمد، امجد علی، آفتاب عالم، سہم الدین، حافظ شمشیر، ماسٹر معروف، مولانا فیاض نظامی، اشتیاق انصاری، شبیر صدیقی، ماسٹر تبارک انصاری، ماسٹر سبحان الله کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ اس پروگرام کا انعقاد رمضان مبارک کی ستائیسویں شب مطابق 18 اپریل 2023 بروز منگل بعد نماز عشا عمل میں آیا۔

تواضع:قرب الٰہی،عزت وعظمت اور بلندی کے حصول کا اہم ذریعہ.. ازقلم:(علامہ)سید نور اللہ شاہ بخاری..(مہتمم و شیخ الحدیث) دار العلوم انوار مصطفیٰ(سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے، اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اور تعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیوں کہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے-
تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور، فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔

تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم:

حضور اکرم ﷺ دین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چناں چہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا –
ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف لے گیے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو-
یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ حد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔
آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں!

تواضع بلندی کا ذریعہ:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مال دار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)۔

:تواضع کی بنیاد:

حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کے بغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔

تواضع کی توفیق:

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لیے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)۔

تواضع و انکساری کا اجر:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم )۔
اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ )۔

حضور نبی کریم کی شان ِتواضع:

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺ اپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھےجیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے-
اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے،اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂ اقدس کی صفائی بھی فرماتے،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶)۔
حضور یہ سارے کام خود اس لیے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔
اس لیے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں-

میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا.. از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی9430555134

کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی

نذر احباب

بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا

شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا

حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا

ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا

ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا

اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا

تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا

ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا

گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا

قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا

شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134

منظوم سوانح اعلیٰ حضرت محبوب گوہر کا عظیم کارنامہ….تبصرہ نگارمحمد کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا شریف

سانحہ اور حادثہ ہم معنی الفاظ ہیں مگر سوانح نگاری کو حوادث نگاری سمجھنا زبان سے نا آشنائی بلکہ بے خبری کا اشاریہ ہے، سوانح نگاری ایک بیانیہ فن ہے کسی عظیم المرتبت شخصیت کی حیات کے خدو خال کو روشن کرنا سوانح نگاری ہے ، کسی کی زندگی اور اس کی زندگی کے روشن واقعات پھر اس کی سیاسی سماجی ادبی شعری مذہبی اور ملی خدمات کو ترتیب اور تاریخ کی رعایت کے ساتھ اس طرح حیطۂ تحریر میں لانا کہ شخص و شخصیت کی تصویر ابھر آۓ اس کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح آئنہ ہوجاۓ سوانح نگاری ہے کارلائل کے لفظوں میں افراد کی داستان حیات سوانح نگاری ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ فن پیکر تراشی اور مصوری کا فن ہے یہ تاریخ نویسی کا فن ہے اگر سوانح نگار قادر الکلام و ساحر البیان نہ ہو تو وہ گرد سے آٹے دبے کسی آئنے کو کبھی چمکا نہ سکے سوانح نگار کو آئنہ گر کہیں نہ کہیں مگر یہ بات تو تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کے کام آئنہ گری کے ہیں _
سیرت سوانح عمری ہی کی ایک شکل ہے رسول خدا ﷺ اور ان کی روشن حیات کے جمیل تذکرے سیرت کہلاتے ہیں۔ سیرۃ النبی ﷺ کے عنوان پر کتابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے کائنات میں صاحب رفعنا لک ذکرک کے سوا ایسا دوسرا کوئی فرد نہیں جس کی مکمل سوانح عمری ہر زمانے ہر ملک اور ہر زبان میں تسلسل کے ساتھ لکھی گئی ہو یہ اختصاص و شرف آپ کے حصے میں آیا کہ آپ کا تذکرہ ہر دور میں ہر زبان میں ہوا ، ہورہا ہے اور ان شاء اللہ ہوتا رہے گا، تذکرے کے ذکر پر یاد آیا کہ یہ تذکرہ بھی سوانح عمری کی ایک صورت ہے بس لطیف فرق یہ ہے کہ تذکرہ میں زندگی کا تذکرہ مجملاً مگر مراد و مقصود کی وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے اور سوانح عمری میں زندگی کی تفصیل مکمل وضاحت کے ساتھ مذکور ہوتی ہے، گاہ گاہ اس فرق سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے سیرۃ النعمان، سیرت امام احمد رضا اور تذکرۃ الرشید سوانح عمریاں ہںں، سیرت و تذکرہ کے علاوہ آپ بیتی، رپورتاژ، سفر نامے اور روداد یہ سب سوانح نگاری کی مختلف شکلیں ہیں اور اپنی علیحدہ خصوصیات کی بدولت باہم ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد، اب یہ سب علیحدہ صنف ہیں یہ جملہ اصناف اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں، اردو ادب کی حسن آرائی میں ہر صنف کا اپنا ایک حصہ ہے _
شعرائے دکن نصرتی، رومی، ذوقی اور دیگر شعرا کی مثنویوں میں گاہ گاہ شخصیات کی سیرت و سوانح منظوم ہیں ہم ان کو چاہیں تو سوانح کے اولین نقوش سے تعبیر کرلیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو سوانح نگاری کو بہ طور فن مولانا الطاف حسین حالی نے متعارف کیا، حیات سعدی (سال اشاعت 1884) اردو کی با اصول سوانح نگاری کی پہلی اہم کتاب تصور کی جاتی ہے، یادگار غالب (1897) اور حیات جاوید (1901) نے سوانح نگاری کے اصول کو مزید انضباط بخشا ہے مولانا شبلی کی سوانح عمریاں المامون (1887)، سیرۃ النعمان (1890), الفاروق (1899) اور الغزالی (1902) اسی عہد کی یادگار ہیں یہ سوانح عمریاں اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں_
وسیع الالقاب امام احمد رضا خان برکاتی بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بر صغیر ہند و پاک بلکہ عالم اسلام کی نابغۂ روزگار عبقری شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے آپ چودہویں صدی ہجری کے مجدد، نامور فقیہ، عظیم القدر محدث و اصولی معروف مفسر، بلند پایہ نعت گو شاعر اور بے مثال عاشق رسول کی حیثیت سے متعارف ہیں، جملہ مروجہ علوم و فنون میں ید طولی رکھتے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاء الدین نے علوم ریاضی میں امام احمد رضا سے استفادہ کیا ہزار سے زائد کتب کے مصنف ہیں آپ کی تصنیف فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا ہے قرآن مجید کا اردو ترجمہ کنزالایمان واقعتاً ایمان کا خزانہ ہے حدائق بخشش اردو ادب کا بیش بہا خزانہ اور آپ کی شگفتگیِ فکر کا خوبصورت اظہاریہ ہے آپ کی ذات و شخصیت، آپ کی دینی مذہبی خدمات اور آپ کی تحقیقات و تصنیفات ایک زمانے سے عصری جامعات میں موضوع تحقیق ہیں بر صغیر کی عصری جامعات میں جس قدر رضویات سے متعلق تحقیقی مقالے لکھے گئے اور اس کے نتیجے میں جس قدر ڈاکٹریٹ تفویض کی گئی اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی_
ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری رحمہ اللہ امام احمد رضا سے از حد قریب تھے آپ امام احمد رضا کے تلمیذ رشید بھی ہیں مرید وفا شعار بھی اور خلیفۂ اجل بھی ، امام احمد رضا نے آپ کو ولد اعز کہا عزیز از جان کہا یوں وہ اہل بیت رضا سے نہ ہو کر بھی اہل بیت رضا سے تھے آپ نے چار ضخیم جلدوں میں امام احمد رضا کی سوانح عمری لکھی اس کا تاریخی نام مظہر المناقب (1369) تجویز کیا یہ مبارک کتاب علمی حلقوں میں حیات اعلی حضرت سے معروف ہے مولانا حالی کی سوانح عمریوں نے سوانح نگاری کے لیے جو اصول وضع کیے جو ضوابط مرتب کیے بحمداللہ حیات اعلی حضرت کی ترتیب و تدوین میں ان اصول و ضوابط کی رعایت کے جلوے جگمگ جگمگ ہیں_ علامہ ظفر الدین کی حیات اعلی حضرت کے ساتھ علامہ بدر الدین کی سوانح اعلی حضرت تفہیم رضویات کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں نو واردان رہِ تحقیق کے لیے یہی کتابیں مآخذ و مراجع ہیں تب سے اب تک رضویات سے متعلق جس قدر تحقیقی مقالے لکھے گئے ان کا اہم حوالہ یہی کتابیں رہیں_ مولانا محبوب گوہر اسلام پوری جہان شعریات میں اب کسی کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں خوش مزاج نقیب خوش خیال شاعر اور خوش اطوار شخص کے طور پر وہ بہت دور تک متعارف ہیں ان کی شخصیت جیسی پرکشش ہے ویسے ہی ان کی شاعری پرکشش ہے ہم نے بہت سے زود گو شاعر دیکھے ہیں مگر محبوب گوہر کا کمال یہ ہے کہ زود گوئی کے با وصف ان کے یہاں سخن کا معیار گرتا بھی نہیں اور گھٹتا بھی نہیں مقدار کا شاعر بسا اوقات قدر کا لحاظ نہیں رکھ پاتا محبوب گوہر کے یہاں مقدار کے باوجود قدر کے جلوے ہیں تخییل کی ایسی خوش آئند کہکشاں آرائی ہے کہ حسن شعریات سے آئنۂ سخن مجموعۂ حیرت نظر آۓ
تضمین گوہر اور ثنائے سرکار ہے وظیفہ کی اشاعت و مقبولیت کے بعد اب ان کا ایک اور نیا شاہکار منظوم سوانح اعلی حضرت منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے اس کی ہر سطر یعنی ہر مصرع نیا آب نئی تاب کا مظہر ہے سوانح نگار کے خامۂ زر نگار نے ادب کی زمین پر عقیدت و محبت کی روشنائی سے رضویاتی فکر کی وہ فصل اگائی ہے کہ بس دیکھا کیجیے سراہا کیجیے- مغربی مفکر ایمرسن نے کہا تھا کہ جب کوئی عظیم انسان عظیم تر انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری وجود میں آتی ہے اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو یہ منظوم سوانح عمری وجود میں آئی ہے اس کی وجہ سے اب محبوب گوہر ہمیشہ زندہ رہیں گے اس عظیم کارنامے نے ان کو ایسا عظیم کردیا کہ اب جب کبھی رضویات کے تعلق سے کوئی بات کہی جاۓ گی تو علامہ ظفر الدین بہاری، علامہ بدر الدین، علامہ شمس بریلوی اور پروفیسر مسعود رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی عظیم القدر شخصیات کے ساتھ محبوب گوہر کا تذکرہ بھی عزت و احترام کے ساتھ ہوگا _ سوانح نگار گرد سے اٹے دبے شیشے کو چمکاتا ہے وہ غیر متعارف شخص کا تعارف بن جاتا ہے اس کی عظمتیں روشن کرتا ہے داغ عظیم شاعر تھے ان کے روبرو غالب کا چراغ مدھم تھا یہ یادگار غالب تھی جس نے غالب کی عظمتوں سے عالم کو روشناس کیا حالی نے سمجھایا کہ داغ اگر عظیم ہیں تو غالب عظیم تر ہیں مگر یاد رہے کہ یہ کلیہ کلی نہیں ہے ابن ہشام، ابن خلدون اور ابن اسحاق ذرے سے آفتاب ہوگئے سیرت پر ان کی خدمات نے انہیں پائدار زندگی بخش دی الغزالی لکھ کر شبلی نے امام غزالی کو روشن نہیں کیا بلکہ وہ خود روشن ہوگئے سیرۃ النعمان نے نعمان کو نہیں چمکایا شبلی نعمانی کو سیرۃ النعمان نے چمکا دیا البتہ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ آج بھی اگر ہم سیرت کے حوالے سے خلجان میں مبتلا ہوں تو اطمینان بخش روشنی انہی بزرگوں کی کتب سیر سے ملتی ہے، امام غزالی اور امام اعظم کے حوالے سے الغزالی اور سیرۃ النعمان کا حوالہ ہمیں ایمان افروز روشنی عطا کرتا ہے، اعلی حضرت علیہ الرحمہ چودہویں صدی ہجری میں افق علوم و فنون پر آفتاب کی طرح روشن تھے انہیں مدینے والے نے چمکایا تھا انہوں نے اپنے انوار علم سے عالم کو روشن کیا پھر رضویات پر جنہوں نے کام کیا وہ بھی روشن ہوگئے ذرے سے ماہتاب ہوگئے مولانا محبوب گوہر سے جو آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ محبوب گوہر بہ ہزار جلالت انتہائی متواضع و منکسر ہیں انہوں نے یقیناً ایک بڑا کام کیا ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ بڑا کام بھی بڑے حضرت کا فیضان ہے ان کی منظوم سوانح سے اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی متنوع الجہات شخصیت کے مختلف گوشے ہم سے ناواقفوں کے لیے روشن ہوۓ یہ عظیم کارنامہ محبوب گوہر کے قلم سے وجود پذیر ہوا اور اب ان شاء اللہ اس عظیم کارنامے کی بدولت محبوب گوہر بھی ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے_ سوانح نگار کے لیے کئی طرح کی مشکلیں ہوتی ہیں عقیدت چاہتی ہے کہ ذروں کو آفتاب بنا کر پیش کیا جائے خامۂ حقیقت نگار چاہتا ہے کہ زہر کو زہر کہا جائے اور قند کو قند یہ راہ صداقتوں کی راہ ہے اس راہ کا راہی اگر اولو العزم نہ ہو تو ہمت ہار جاۓ پھر یہ کہ جب مسافر اس سنگلاخ وادی کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو وہ اس کشمکش میں رہتا ہے کہ ہر طرف کھلے ہوۓ خوش رنگ پھولوں میں سے وہ کس کا انتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے، مولانا محبوب گوہر نے منظوم سوانح اعلی حضرت کی تصنیف سے قبل کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا عنوان کی وسعتوں کو دیکھیں مضامین کے بے کراں پھیلاؤ کو دیکھیں تب آپ کو محبوب گوہر کا کمال سمجھ میں آۓ گا اور تب آپ کی زبان بے ساختہ کہے گی کہ کوزے میں سمندر ہم نے محاورتاً سنا تھا دیکھا نہیں تھا منظوم سوانح اعلی حضرت کی صورت میں ہم نے کوزے میں ایک بے کراں سمندر دیکھا ہے منتخب واقعات نے کتاب کی قدر و قیمت بڑھا دی ہے حسن زبان نے شراب ذوق کو دو آتشہ کردیا ہے_

             منظوم سوانح اعلی حضرت مولانا محبوب گوہر کی شائستگیِ زبان، شگفتگیِ فکر  کے ساتھ ان کی قدرت کلامی کا خوبصورت اعلانیہ ہے ہر شعر ان کی کہنہ مشقی پر دلیل ہے  یہ غزل نہیں ہے کہ مضمون کھوج کر لائیں پھر اسے تخییل کا جمال بخشیں یہ سوانح نگاری ہے یہاں مضمون پہلے سے موجود ہے ایسے میں اسے حسن شعری اور جوہر ادبی سے آراستہ کرنا یقیناً فن کاری ہے  لسانی نفاست ، فکری طہارت ، اظہاریے کی فصاحت اور ابلاغ کی بلاغت نے منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو ادب کا شاہکار بنا دیا ہے__ راقم چھوٹا موٹا شاعر بھی ہے اور کچھ حد تک شعری نزاکتوں سے آگاہ بھی، یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں کسی کی ولادت یا وصال کی تاریخ بیان کی گئی اور بحمداللہ ایسے کسی شعر میں سلاست و روانی متاثر نظر نہیں آئی بہ حیثیت شاعر میں جانتا ہوں کہ یہاں سوانح نگار کو کیسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا مگر محبوب گوہر کی قدرت کلامی کو سلام کہ وہ اس پر خار وادی سے بھی سلامتی کے ساتھ گزر گئے  ہم بطور نمونہ ایسے چند اشعار پیش کرتے ہیں__

اعلی حضرت کی ولادت_
ہجری بارہ سو بہتر دن تھا دس شوال کا
چودہ جون اٹھارہ سو چھپن تھا شمسی سال کا

بیعت کی تاریخ_
بارہ سو چورانوے ہجری کا ہے یہ واقعہ
دیکھیے کیسے درِ مرشد پہ پہنچے ہیں رضا

بارہ سو چورانوے ہجری میں مارہرہ گئے
اور بیعت کا شرف آل نبی سے پاگئے

اعلیٰ حضرت کا وصال_ تیرہ سو چالیس ہجری تھی صفر کا ماہ تھا دار فانی سے ہوۓ جب راہی ملک بقا استاد زمن کی پیدائش_
عیسوی اٹھارہ سو انسٹھ میں تھے پیدا ہوۓ
گلشنِ علم و ادب میں خوب تر پھولے پھلے

حجۃ الاسلام کی پیدائش_
ہے اٹھارہ سو پچھتر ان کی پیدائش کا سال
عہد طفلی سے ہی تھے یہ خوش خصال و خوش خیال

حجۃ الاسلام کا وصال__
عمر اڑسٹھ سال کی تھی جب ہوا ان کا وصال
تیرہ سو باسٹھ ہے ہجری ان کا سال انتقال

مفتی اعظم ہند کی پیدائش__
ان کی ہجری تیرہ سو دس میں ولادت تھی ہوئی
آمد والا سے سارے شہر میں آئی خوشی

مفتی اعظم کا وصال_
اپنے علم و فضل سے کرکے جہاں کو مالا مال
چودہ سو دو ہجری میں حضرت نے فرمایا وصال

    منظوم سوانح اعلیٰ حضرت  پچیس سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے  تاریخیات کے باب میں اشعار کی روانی کا جب یہ عالم ہے تو دیگر اشعار کی سلاست، روانی اور برجستگی کا عالم کیا ہوگا ہم نے ابھی کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ یہاں مضمون متعین ہے اس کے باوصف حسن شعری کمال کا ہے یہ دعویٰ فقط دعویٰ نہ رہے اس لیے ہم چند اشعار کا انتخاب کیا ہے آپ بھی ان اشعار کو دیکھیں پڑھیں اور حظ اٹھائیں__

ہے سراپاۓ نبی کا تذکرہ اس طور پر
جیسے ہوں قرطاس پر تفسیر کے پھیلے گہر

ہے چمکتے موتیوں جیسے تمام الفاظِ نعت
دعوت نظارہ دیتی ہے سخن کی کائنات

چاشنی ہے نغمگی ہے کیف ہے تاثیر ہے
شعر کیا ہے آیت قرآن کی تفسیر ہے

انتہائی علمی نکتہ آفرینی کے سبب
صفحۂ قرطاس پر بکھری ہوئی تھی تاب و تب

شعر میں برجستگی ہے صاف ستھری ہے زباں
آبشاروں کے شکم سے جیسے موجیں ہوں رواں

عظمت فکر و تخیل کا امیں کہیے انہیں
خانقاہ نعت کا گدی نشیں کہیے انہیں

اس شعر کو پڑھتے ہی معا مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا اور فکری توارد نے خوشگوار حیرت سے ہمکنار کیا وہ شعر یوں ہے

شہرت ناعت چلی ہے دعوت بیعت لیے
خانقاہ فکر کے گدی نشینوں کی طرف

مضمون کے پھیل جانے کا اندیشہ لاحق ہے ورنہ اس طرح کے متعدد اشعار ہیں جن سے مولانا محبوب گوہر کی تازہ کاریاں واضح ہیں منظوم سوانح اعلی حضرت کسی مقتدر سیمینار کا عنوان ہونا چاہیے اہل علم و فضل و کمال یکجا ہوں اور یہ کتاب موضوع بحث ہو اس کتاب کے مختلف ایسے ادبی پہلو ہیں جو آشکار ہونا چاہتے ہیں اس کے لیے سیمینار سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوسکتا ہے

ہم نے اسی مضمون میں بہت پہلے کہا تھا کہ علامہ ظفر الدین کی مصنفہ سوانح عمری حیات اعلیٰ حضرت میں ان اصول و ضوابط کی پاسداری نظر آتی ہے جو سوانح نگاری کا لازمہ ہیں، ہم نے یہ بات ایک خاص مقصد کے تحت کہی تھی ان اصول و ضوابط کی رعایت کی وجہ سے اگر حالی کی سوانح عمریاں ادب ہیں تو حیات اعلی حضرت کی ادبیت سے انکار کی صورت کہاں باقی رہی ، حیات اعلی حضرت کی زبان بھی بحمداللہ صاف ستھری، شگفتہ اور انتہائی پاکیزہ ہے، ایجاز ہے تو مراد میں مخل نہیں اطناب ہے تو اکتاہٹ کا باعث نہیں لہجہ ایسا جیسے سلسبیل رواں ہو ادب کی ادبیت کے لیے جس قدر جواہر مطلوب ، یہاں بدرجۂ اتم موجود ، ان کے جوت کی جل تھل سے ہر سطر بسا ہوا ، مستزاد یہ کہ ہر سطر غلبۂ محبت کے باوجود صداقت کا امین ، اصل میں ایک ٹرینڈ چل چکا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب اگر ہمارے مسلک کا ہمنوا نہیں تو وہ لائقِ اعتنا نہیں برا ہو ایسی مسلکی عصبیت کا کہ تقویۃ الایمان جیسی پھوہڑ کتاب کو ادب کا اعلی نمونہ کہا جاۓ اور حدائق بخشش کے محاسن شعری و جواہر ادبی سے آنکھیں موند لی جائیں ہمیں خدشہ لاحق ہے کہ منظوم سوانح اعلی حضرت کے ساتھ ادب کے اجارہ داروں کا رویہ بھی بے نظری و بے اعتنائی کا نہ رہے_ ایک کمی اپنی طرف سے بھی رہ جاتی ہے کہ ہماری کتابیں ہمارے حلقوں تک پہونچ پاتی ہیں بلکہ ہم خود دوسروں تک پہنچانا نہیں چاہتے کاش ہماری کتابیں دیگر کتب خانوں تک بھی پہونچ سکیں مگر صاحبِ منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے آج بھی اعلی حضرت کے چاہنے والے کم نہیں ہیں اعلی حضرت کے فدائیوں کے درمیان یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی یہ پہلا ایڈیشن ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوگی کہ اس کے مزید کئی ایڈیشن شائع ہوں گے سب سے بڑی بات ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین اجر ثابت ہوچکا ان شاء اللہ یہ کتاب حضرت گوہر کے لیے توشۂ آخرت ہوگی__

       حضرت محبوب گوہر کو اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے ایک بڑا کام ہوا اب احباب سوچتے ہوں گے کہ اس سے بڑا کیا کام ہوسکتا ہے  مگر زندگی ہے تو کام بھی ہے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں حضرت گوہر صاحب قلم ہیں  اور ان کے قلم کو اللہ تعالیٰ نے زور کلامی عطا فرمایا ہے اب اس کے بعد اگر سیرت پر ان کا قلم چل نکلے تو کم از کم ہمارے لیے باعث حیرت نہیں ہوگا اللہ تعالی مزید توفیق ارزانی فرماۓ

تبصرہ نگار
محمد کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف

تراویح کے دوران دو جہگوں پر حملہ.. تحریر:جمال اختر صدف گونڈوی

تراویح کی نماز گھروں میں قائم کرنے والے حضرات کیا علمائے کرام سے مشورہ کئے تھے؟

مذہب اسلام میں مشورے کو خاص اہمیت حاصل ہے،
غیب دان پیغمبر خود کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے،
دنیا کے تمام مسلمانوں کا اس بات سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ بزرگ و برتر اگر کوئی ذات ہے تو وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے
اس کے بعد بھی مشورہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ یقیناً یہ تعلیم امت کے لئے تھا،
مگر مسلمانوں کی اکثریت علماء سے بیزاری کا ثبوت دے رہی ہے،
بلکہ اب تو دینی معاملات میں بھی خود فیصلے کرنے لگی ہے،
حالیہ دنوں میں مرادآباد ہلدوانی میں جس طرح گھروں میں تراویح کو لےکر ہنگامہ ہوا اور مسلمانوں پر یکطرفہ پولیسیہ کارروائی ہوئی جو کہ بہت افسوسناک ہے،
اسلام میں مصلحت و دور اندیشی کا بڑا دخل ہے،
یہ مصلحت ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار کے حملے کا جب خطرہ بڑھ جاتا تو صحابہ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے

دعوتِ حق کا آغاز:
مدینہ تاریخ اسلام کا عظیم ورق ہے۔ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے چھوٹے بھائی عمیر بھی اپنے بھائی کے ساتھ چھوٹی عمر میں ہی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر بمشکل چودہ پندرہ سال تھی۔ الاستیعاب کے مطابق جنگ بدر میں شرکت کا شوق تھا، مگر آنحضورﷺنے منع فرمایا کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ جب حضرت سعد نے ان کے جذبۂ جہاد کو دیکھا تو حضورﷺسے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میرے بھائی کو جہاد پر جانے کی اجازت دے دیجیے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں شریک ہوئے اور دشمن سے خوب لڑے۔ سولہ سال کی عمر میں شہادت پالی۔ انھیں قریش کے طاقت ور ترین جنگ جو عمرو بن عبدِودّ نے شہید کیا تھا۔
نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کو نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو آغاز میں کافروں کی اذیت کے خوف سے مسلمان نمازیں چھپ چھپ کر پڑھتے تھے۔ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر نماز پڑھنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، کچھ مشرکین مکہ وہاں آنکلے انھوں نے مسلمانوں اور ان کے دین کو گالیاں دینا شروع کردی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بری طرح مذاق اڑایا۔ جب حضرت سعد نماز سے فارغ ہوئے تو ان کافروں کو للکارا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں مرے ہوئے اونٹ کے شانے کی ایک بڑی ہڈی تھی۔ انھوں نے جب ان کافروں پر حملہ کیا تو یہ وہاں سے کھسک گئے تاہم عبداللہ بن خطل لعنتی کے سر پہ انھوں نے ضرب لگائی تو وہ زخمی ہوگیا، مگر ان لوگوں میں ہمت نہیں ہوئی کہ واپس پلٹ کر سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کریں۔ یہ تاریخ اسلام میں کفار کا پہلا خون تھا جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے بہایا گیا تھا۔ ۔ جب حضور نبی کریم ﷺکو اس واقعہ کا پتا چلا تو آپ ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ اے سعد! اللہ نے ہمیں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پس آیندہ ہاتھ نہ اٹھانا۔
عوام کو چاہئے کہ وہ کوئ بھی کام جو دین سے منصوب ہو اجتماعی طور پر کرنے سے پہلے علماء سے مشورہ ضرور کر لیں،
یہ من مانی اور جلد تراویح ختم کرنے کا نتیجہ تھا کہ دو دو بڑے حادثے پیش آئے ہیں،
اس وقت ہمارا مخالف ہماری غلطیوں کا شدت سے انتظار کر رہا ہے ، ہمارے عمل کے بعد ان کا رد عمل بہت بھیانک اور تخریب کارانہ ہوتا ہے،
پھر ہم چلا چلا کر کہتے ہیں ہم پر ظلم ہوا ہے ہمیں انصاف چاہئے،
جو قوم اپنے اسلاف کی سیرت بھلا دیتی وہ ایسے ہی خسارے و بربادی کا شکار ہو جاتی ہے،
تیس دن کی تراویح کو کم کرنے اور جلد چھٹکارا پانے کے لئے جس طرح پانچ دن دس دن کی تراویح کا انتظام کارخانوں میں، گراؤنڈ میں،حال میں، اور گھروں میں کیا جانے لگا ہے اس سے علماء متفق نہیں ہیں،
جمعہ کی نماز چاہے جتنی بھیڑ کے ساتھ آپ مسجد میں پڑھیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن تراویح کو لےکر سیاسی اعتراض کسی بڑے خطرے کا دستک دے رہی ہے،
یہ تو بس شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا،
اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو ملک بھر میں بڑے جانی مالی نقصان کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا،
بہار میں مدرسے کو جلا دیا گیا وہاں سیکولر حکومت ہے لیکن سب خاموش ہیں،
کیونکہ انہیں صرف آپکے ووٹ سے مطلب ہے نہ کی آپکی حفاظت سے،
دوسری طرف ہماری قیادتیں بھی کچھ کم نہیں ہیں،
مذہبی قیادت تو کہیں نظر نہیں آ رہی ہے سیاسی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جہاں صرف دنیا داری ہے دین داری کا کوئی تصور نہیں،
عوام نے علماء کو بہت پہلے سیاست سے الگ کر دیا ہے اور صاف کہ دیا ہے کہ علما امامت کریں مدرسے میں بچوں کو پڑھائیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں،
سیاست وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں اسلام کی سیاست کا کچھ پتہ تک نہیں،
اسلام کے دو بازو ہیں ایک کا نام مذہب ہے دوسرے بازو کا نام سیاست ہے،
ایک بازو پر علما کام کر رہے ہیں لیکن دوسرے بازو کو نا اہلوں نے اپاہج بنا دیا ہے،
ایسے میں تمام خانقاہوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود متحد ہوں اس کے بعد بنام مسلمان تمام فرقوں کے ساتھ ملت کی تحفظ کے لئے اتحاد کریں
اسکے بعد عوامی سطح پر اتحاد پر کام شروع کیا جائے ،
اگر یہ کام کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو یقیناً مذہب و سیاست دونوں میں ہم مضبوط ہوں گے،
دعوت کے طریقوں میں ہمیں نرمی برتنی ہوگی اور سماجی طور پر اسلام کی خوبصورتی کو عملی طور پر پیش کرنا ہوگا،
قوم کے اہل ثروت حضرات کو کچھ عصری ادارے بنانے چاہییے جہاں قوم کے بچے تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدوں پر فائز ہو سکیں،
ایک جائزے کے مطابق پچاسی فیصد مسلمان صرف مالی بحران کی وجہ کے اعلی تعلیم نہیں حاصل کر پا رہے ہیں اور وہ بیچ میں تعلیم روک کر مزدوری کرنے لگتے ہیں،
جب تک تعلیم کو فروغ نہیں دیا جائے گا لوگ اپنے حقوق اور دین کو نہیں سمجھ پائیں گے،
اسلام میں علم کی بڑی اہمت ہے چنانچہ علم حاصل کرنے کے لئے چین جانا پڑے تو وہاں بھی جاؤ،
آج ہمارے بچے گھروں سے نکل کر مسجد و مدرسے تک جانے کے لئے تیار نہیں ہیں،
کچھ مغربی مزاج مسلمان اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں تو انہیں بچوں کو دینی تعلیم سے دور بھی کر رہے ہیں
کیونکہ ان بچوں پر اسکول کی طرف سے اتنا زیادہ کام دے دیا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے کاموں کی فرصت ہی نہیں مل پاتی،
اگر ہمارے پاس اس طرح ادارے ہوں جہاں ہندی ،انگریزی ، عربی، وغیرہ سب ایک ساتھ پڑھائ جائے تو بچوں کے لئے بہت آسانی ہو جائے گی،
سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں کو بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہئیے کیونکہ انکی ایک پوسٹ نہ جانے کتنوں کے لئے نفرت کا سبب بنتی ہے اور اسی پوسٹ کو دکھاکر جاہل بے روزگار لڑکوں کو جنونی بناکر ہمارا مخالف ہمارے گھروں پہ مسجدوں مدرسے پہ حملہ کروا سکتا ہے،
نوجوانوں کو صرف دینی پوسٹ ہی کرنی چاہیے اور اپنے منصوبے سفر کی تفصیلات کب کہاں آنا جانا ہے یہ سب بالکل پوسٹ نہیں کرنی چاہئے
مذہبی معاملات کو سوشل میڈیا پر ہرگز بحث کا حصہ نہ بنائیں
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑوا میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ جشن معراج النبی ﷺ منایاگیا..رپورٹ:محمد عرس سکندری انواری فاضل:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری نے انتہائی فکری خطاب فرمایا

حسب روایت سابقہ 17 فروری 2023عیسوی بروز سنیچر[اتوارکی شب] ضلع باڑمیر کے قدیمی ادارہ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑوا باڑمیر کے وسیع صحن میں دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ شہزادۂ مفتئ تھار حضرت مولاناعبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی کی صدارت میں جملہ مسلمانان اہلسنت کی طرف سے انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ “جلسۂ معراج النبی ﷺ” کا انعقاد کیاگیا-
جلسہ کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑوا کے ہونہار طلبہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں اردو وسندھی زبان میں نعتہائے رسول مقبول ﷺ کے نزرانے پیش کیے-
محبت رسول و تقاضائے محبت رسول کے عنوان پرافتتاحی مگر جامع خطاب خطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے کیا-پھر ثناخوان رسول محمد ایوب صاحب درس سہروردی نے خصوصی نعت خوانی کی-
آخر میں خصوصی وصدارتی خطاب علاقہ تھار کی مرکزی دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب کے دوران واقعۂ معراج کی حکمتوں اور اس کے پیغام پر مشتمل قرآن وحدیث اور تاریخ وسیر کی کتب کے حوالوں سے بہت ہی عالمانہ گفتگو کی،خطاب کے درمیان موقع محل پر سرتاج الصوفیاء والشعراء حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے سندھی وامام عشق ومحبت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری علیہ الرحمہ کے اردو اشعار اور پھر اس کی تشریح اس پر مستزاد-
آپ نے اپنے خطاب کے دوران اصلاح عقائد واعمال پر زور دیا-
نظامت کے فرائض حضرت مولانا محمد صدیق خان مدرس دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑوا نے بحسن وخوبی انجام دیا-
اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی،حضرت مولاناالحاج حبیب الرحمان صاحب،مولانا محمداکبر سہروردی،قاری ارباب علی قادری،قاری اسلام الدین،حکیم قائم درس،حاجی عبدالرحیم منیجر،حاجی صاحبنہ، حاجی امام الدین درس، حاجی بچل خان بلوچ،محمدفضل خان درس،عرب سمیجا وغیرہم-

رپورٹ:محمدعرس سکندری انواری
فاضل:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

عالم اسلام سفر حج سے متعلق سعودی حکومت کےمن مانے فیصلوں سے پریشان و مضطرب: مفتی محمد سلیم مصباحی بریلوی

پریس ریلیز
درگاہ ترجمان
۱۸۔۲۔۲۳

درگاہ اعلیحضرت کے ترجمان ناصر قریشی نے بتایا کہ سعودی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نئے قوانین جن میں والدین کے ذریعہ 12 سال سے کم عمر کے بچوں کو سفر حج کے لئے ساتھ میں لے جانے پر نئی پابندی عائد کی گئی ہے اور حالیہ برسوں میں سعودی حکومت نے حاجیوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگا کر حج کو جو بہت زیادہ مہنگا کر دیا ہے اس پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مرکز اہلسنت خانقاہ رضویہ درگاہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف کے مفتی محمد سلیم بریلوی نے کہا کہ حج دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک رکن اور فرض ہے جودین اسلام کیاہم اور بنیادی عبادات میں آتا ہے۔ یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ایک مسلمان اللہ کے گھر اور اس کے رسول اور اپنے آقا سے منسوب مقامات کی زیارت، ان کی یادگاروں اور ان کے آثار و تبرکات کی زیارت اور ان کی آخری آرام گاہ روضہ رسول گنبد خضری کو دیکھنا اپنی زندگی کا سب سے قیمتی مقصد سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے ان مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کے حج کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی کے لیے اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرے اور اس کے لیے آسان قوانین بنائے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی نجدی اور وہابی حکومت حج کے ایسے قوانین لاتی ہے اور ہر سال ایسے نئے ٹیکس لگاتی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لئے اپنے اس اہم مذہبی فریضہ کی ادائیگی مہنگی ہو رہی ہے۔ اگر ہم اب کی بات کریں تو سعودی حکومت نے ایک اور من مانا فیصلہ جاری کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے ایک پیچیدہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کہ والدین اپنے 12 سال سے کم عمر کے بچے کو اپنے ساتھ حج پر نہیں لے جا سکتے۔ اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے وہ مسلمان کہ جن پر شرعا حج فرض ہو چکا ہے، جن کے بچوں کی عمریں 12 سال سے کم ہیں اور وہ ان کم سن بچوں کو اتنی لمبی مدت تک تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تو وہ لوگ حج جیسے فریضہ کی ادائیگی سے محروم ہو جائیں گے۔
چونکہ حج کرنے کے قابل ہونے کی وجہ سے ان پر حج فرض ہو گیا ہے اور وہ اپنے 12 سال کے بچے کو 45 دن کی اتنی طویل مدت تک کسی کے پاس نہیں چھوڑ سکتے اور ادھر سعودی حکومت نے پابندی عائد کردی تو اب ایسے بہت سے لوگوں کے سامنے ایک نہایت پیچیدہ اور دشوار کن مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔سعودی حکومت کو یہ من مانا فیصلہ مسلط کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور عالم اسلام سے مشورہ کرنا چاہیے تھا کہ ایسے بچوں والے لوگ حج کیسے کریں گے؟ یہ ان پر بہت بڑا ظلم ہوگا اور انہیں زبردستی اور جان بوجھ کر فریضہ حج سے روکنا ہوگا جس کی مذمت قرآن نے پہلے پارہ کی سورۂ بقرہ کی ایک آیت میں یہ کہہ کر کی ہے جس کا مفہوم ہےکہ ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں (کعبہ شریف، حرم شریف وغیرہ) کو روکےان میں نام خدا لئے جانے سے۔”
حکومت ہند سے اپیل کرتے ہوئے مفتی محمد سلیم بریلوی صاحب نے کہا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اپنی سطح سے سعودی حکومت کو ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرائےاور 12 سال سے کم عمر کے بچوں پر عائد پابندی پر نظر ثانی کرکے اسے ہٹانے کی کوشش کرے اور یہ دباؤ ڈالے کہ سعودی حکومت حج کو سستا بنائے۔

بزرگوں کے نام سے منسوب جلسوں کا اصل مقصد ان کی تعلیمات کواپنانا اور معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کرنا ہے:علامہ سیدنوراللہ شاہ بخاری

آگاسڑی باڑمیر میں حضرت مخدوم نوح سرور کی یاد میں جلسہ

(باڑمیر،راجستھان[پریس ریلیز])یقیناً کسی بھی بزرگ کی یاد منانے اور ان کو ایصالِ ثواب وبلندئِ درجات کی دعا کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین اور معتقدین وغیرہ کا ان کے نام سے منسوب محافل ومجالس کا انعقاد کرنا اور ایسی مجالس میں ذکرُاللّٰہ ، نعت خوانی اورقرآنِ پاک کی تلاوت،علمائے کرام کے ذریعہ وعظ ونصیحت اور اللہ ورسول کے احکام وفرمودات اور بزرگان دین کے احوال پر مشتمل بیانات اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو جو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے وہ بلاشبہ جائز و مستحسن ہے-
کیونکہ اس طرح سے بزرگان دین کی یادگیری کرنے کا اصل مقصد ان کو ایصال ثواب کرنے کے ساتھ ایسی مجالس خیر کے ذریعہ ان کی تعلیمات کوعام کرنا اور ان کے بتائے راستے پرچلنا، لوگوں تک اللہ ورسول اور بزرگان دین کے پیغامات کو پہنچانا اور لوگوں کو دین وشریعت کے قریب کرنے کے ساتھ ان کے اندر دینی جذبہ بیدار کرنا ہوتاہے-
حاصل کلام یہ ہے کہ اس طرح کے جلسوں کا اصلاح مقصد معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرنا،مساجد ومدارس کو آباد کرنا، جملہ اوامرشرعیہ پر لوگوں کو حکمت وموعظت کے ساتھ کاربند کرنے اور منہیات سے روکنے کی کوشش کرنا ہے-
مذکورہ خیالات کا اظہار 16 فروری 2023 عیسوی جمعرات کو آگاسڑی باڑمیر میں سروری جماعت وجملہ مسلمانانِ اہلسنت کی طرف سے حضرت مخدوم شاہ لطف اللہ المعروف مخدوم نوح سرور ہالائی علیہ الرحمہ کی یاد میں منعقدہ عظیم الشان اجلاس میں مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی مرکزی دینی،تربیتی وعصری درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور “خانقاہ عالیہ بخاریہ” سہلاؤشریف کے سجادہ نشین نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے کیا-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے مزارات اولیاء پر حاضری کے آداب اور بزرگوں کے وسلیہ پر بھی گگفتگوکی-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے سبھی شرکاء جلسہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دنیا میں جتنے بھی اللہ کے نیک بندے یا اولیاءاللہ گذرے ہیں ان کا اصل مقصد اور مشن بندگان خدا کو اللہ سے جوڑنا،دین اور شریعت کے احکام کو پہنچانا اور شریعت اسلامیہ پر لوگوں کو کاربند ہونے کی تاکید وتلقین کرنا ہی رہا ہے- اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہیے کہ ہم بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں،نمازپنجگانہ باجماعت کی پابندی کریں اپنی مساجد کوآباد کریں،اپناماحول دینی بنائیں، غیر ضروری باتوں اور وسوسوں سے پرہیز کریں،شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس سے ہر حال میں بچیں یہی بزرگان دین کے ناموں سے محافل کے انعقاد کا اصل مقصد بھی ہے-
آفتتاحی خطاب حضرت قاری محمد احسان صاحب نے کیا بعدہ دارالعلوم رضائے مصطفیٰ جیسلمیر کے مہتمم حضرت مولانا الحاج قاری نورمحمد صاحب رضوی نے “اصلاح معاشرہ” کے عنوان پر بہت ہی عمدہ ولائق عمل خطاب کیا- جب کہ خصوصی نعت ومنقبت خوانی کاشرف مداح رسول حضرت قاری عطاؤالرحمٰن صاحب قادری انواری جودھپورنے حاصل کیا-نظامت کے فرائض حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نے بحسن وخوبی انجام دیا-
اس دینی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ مندرجہ ذیل علمائے کرام شریک ہوئے-ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، مولانا فیروز رضارتن پوری،مولانانہال الدین انواری آساڑی،مولانا محمدعرس سکندی انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،ماسٹر محمدیونس صاحب وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر جلسہ اختتام پزیر ہوا-
مذکورہ اطلاع مولانا محمد قاسم صاحب امام مسجد آگاسڑی نے دی-

معراج النبی کاپیغام: امت مسلمہ کے نام.. از:مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کی حیاتِ بابرکت میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو پیغام و سبق نہ ملتا ہو اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی ذات کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا، جس کو دیکھ کر صاف و شفاف آئینہ میں صبح قیامت تک آنے والے لوگ اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کو سدھار سکتے ہیں، الجنھوں اور پریشانیوں میں راہ عافیت تلاش کرسکتے ہیں، آلام و مصائب کے دشوار گزار حالات میں قرینۂ حیات پاسکتے ہیں، یورشِ زمانہ سے نبرد آزمائی اور فتنہ و فساد کے پر خطر ماحول میں حکمت و تدبر کے ذریعہ منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیرت کا کوئی واقعہ اور کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لئے ان گنت نصائح نہ ہوں۔ چنانچہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حیرت انگیز واقعات میں سے واقعۂ معراج بھی ہے،جو بہت ہی مشہور ومعروف ہے ۔اسے علمائے اسلام نے نہایت تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اور اکثر واقعہ تفسیرِ قرآن کریم اور صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے۔اس سارے واقعہ سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو کیا سبق ملتا ہے ؟اور اِس واقعہ کو مدنظر رکھ کر آئندہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ،یہ سوالات نہایت اہم ہیں-
عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)یہ واقعہ جو اصطلاحا ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہیں جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صَعصَعہ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو سعید خدری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں
جو تاریخ انسانی کا نہایت محیرالعقول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے اللہ تعالی نے اپنے نبی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی کے کچھ حصے میں جسم و روح کے ساتھ، بیداری کی حالت میں عالم بالا کی سیر کرائی اور اپنے قرب کا اعلی ترین مقام عنایت فرمایا، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایا، نیکوں اور بدوں کے سزا و جزا کا معائنہ کروایا، نبیوں سے ملاقات ہوئی، ہر جگہ آپ کی عظمت و رفعت کا چرچہ کروایا، رحمتوں کی بارش فرمائی اور انعامات و الطاف سے خوب نوازا اور امت کے لئے عظیم الشان تحفہ ’’نماز‘‘ کی شکل میں عطا کیا، اور قیامت تک کے لئے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا۔ واقعۂ معراج بے شمار سبق آموز پہلوؤں اور عبرت خیز واقعات کا مجموعہ ہے۔
اس واقعۂ معراج کی روشنی میں ہمارے لئے موجودہ عالمی حالات میں بھی کئی ایک نصیحت آموز ہدایات ملتی ہیں جس کے ذریعہ گرد و پیش میں چھائے ہوئے تاریک ماحول اور ظلم و ستم کی اندھیری رات میں ہم چراغ ایمان کو فروزاں کرسکتے ہیں اور مایوسی و ناامیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی شمع روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں واقعۂ معراج کے پس منظر کو ذہنوں میں تازہ کرنا پڑے گا اور ان حالات کی چیرہ دستیوں کو دیکھنا ہوگا جس کے بعد یہ ایک عظیم الشان سفر کروایا گیا-
ہمیں چاہییے کہ ہم آج جہاں معجزہ معراج النبی کا جشن منائیں وہیں لوگوں کو اس کے جامع پیغام کو اپنانے کی تاکید وتلقین کریں۔کیونکہ جس امت کے رسول معراج کی بلندیوں تک پہنچے اس امت کو پستیوں کا قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے سے امت کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کا سبق ملتا ہے۔امت مصطفیٰ کی معراج اطاعت مصطفیٰ ؐمیں موجودہے۔جو عرش کی بلندیوں سے ساری کائنات کا مشاہدہ کر رہے تھے ان کا دیا ہوا نظام اور ضابطۂ حیات ہی سب سے جامع اور کامل ترین ہوسکتا ہے۔آپ کی وسعتِ نگاہ نے ہر خطے اور ہر صدی کے مسائل کا حل عطا فرمایا ہے۔معراج مصطفی نظام مصطفی کامل ہونے کی دلیل ہے۔معجزۂ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ دینی احکام اور دنیاوی امور کے لحاظ سے کوئی شخص بھی علوم مصطفی کے ہم پلہ نہیں۔معراج کا جشن منانا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔معجزہ معراج کے مطالعہ سے نسل نو کیلئے انکشافات کی راہیں کھلتی ہیں۔معراج کی رات کے مشاہدات نبوی میں امت کیلئے فکر آخرت کے بہت بڑے بڑے اسباق موجود ہیں۔سفرِ معراج میں دو مسجدوں کا ذکر واضح کر رہا ہے کہ امت کے دل میں مسجد کا شوق کس قدر ہونا چاہیے۔
اور حضور کے معراج سےواپسی پر اللّٰہ وعزوجل کی طرف سے نمازوں کاتحفہ ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس تحفہ کی قدر کرتے ہوئے نمازوں کی پابندی کریں-
اللہ تعالیٰ ہمیں جملہ اوامرشرعیہ بالخصوص نمازپنجگانہ باجماعت کی ادائیگی کی توفیق بخشے-آمین

ریچھولی باڑمیر میں تقریب ختمِ بخاری کے موقع پر مصلح قوم و ملت حضرت مولانا حافظ سعید صاحب اشرفی کی شرکت.. رپورٹ:خلیل احمد فیضانی

دور حاضر میں مسلم بچیوں کا علم دین کے زیور سے آراستہ ہونا بہت ضروری ہے-
نباض قوم و ملت حضور شیخ الجامعہ صاحب قبلہ اشرفی نے یہ چیز بروقت محسوس کی اور بچیوں کے کئی ادارے کھولے
وقتاً فوقتا آپ اس کی ضرورت کا احساس بھی دلاتے رہتے ہیں
اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی بھی خوب فرماتے ہیں اور الحمد للہ آپ کی کوششیں بہت حد تک بار آور بھی ہوئیں ہیں-
آج مورخہ 22: رجب المرجب، مطابق 14:فروری بروز منگل دارالعلوم فیض غلام رسول ریچھولی، باڑمیر میں تقریب ختمِ بخاری کی مجلس منعقد ہوئی جس میں ادارہ ہذا سے فارغ ہونے والی سات طالبات کو رداے فاطمی سے نوازا گیا -جس میں پیر طریقت حضرت سید احمد شاہ باپو علیہ الرحمہ کے محبین اور معتقدین نے باڑمیر اور جالور کے گوشے گوشے سے شرکت کی اور اکتساب فیض کیا علاقائی علماے کرام، ائمہ مساجداورعوام الناس کا ایک جم غفیر دیکھنے کو ملا-یہ ایک تاریخ ساز پروگرام ہوا جس کی سرپرستی حضور پیر طریقت حضرت مولانا سید عطاءاللہ شاہ لونی شریف اور صدارت پیر طریقت حضرت سید عبداللہ شاہ لونی شریف نے کی- پروگرام تقریباً گیارہ بجے شروع ہوا جس میں ادارہ ہذا کے طلبہ نے حمد، نعت و منقبت، مکالمات اور دیگر مختلف موضوعات پر معلوماتی تقریریں پیش کر کے سامعین کے دلوں کو جیت لیا –
آخر میں استاد گرامی حضور مصلح قوم وملت حافظ وقاری محمد سعید صاحب اشرفی، بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان اشرف باسنی، ناگور راجستھان نے صحیح بخاری کی آخری حدیث کو پڑھاتے ہوئے فرمایا:امام بخاری نے نہ جانے کس اخلاص کے ساتھ یہ کتاب لکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو خلق میں وہ مقبولیت عطا فرمائی کہ مخلوق خدا کی کتابوں میں جس کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی
جو شہرت اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو عطا فرمائی اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا-
حضرت نے بخاری شریف کی آخری حدیث پر سیر حاصل گفتگو فرمائی اور فن حدیث کی اہمیت وفضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: حدیث رسول شریعت اسلامیہ کا اہم ماخذ ہے اور قرآن کریم کے بیان کردہ احکامات کی تفصیل احادیث رسول کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے-
آپ نے مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ قرآن کریم اسلامی احکام کو اجمالی طور پر بیان کرتاہے جبکہ احادیث رسول اس کی تفصیل کرتی ہیں اور انہوں نے بطور خاص طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ:آپ یہاں سے عالمہ بن کر جارہی ہیں- آپ عالمہ بنی ہیں، تو عمل کرنے والی بھی بنیں- جو کچھ آپ نے یہاں پڑھا ہے جو کچھ آپ نے یہاں سیکھا ہے اس پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں-
آخر میں پیر طریقت حضرت مولانا سید عطاءاللہ شاہ لونی شریف کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا
مجھے یہ ساری معلومات حضرت مولانا خورشید احمد صاحب ازہری کے ذریعے پہنچی

رپورٹ:خلیل احمد فیضانی