WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کسبِ حلال کے لیے جدّ و جہد کرنا اور حرام سے بچنا : احادیث کی روشنی میں–از:سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

مذہب اسلام نے جس طرح ظاہری آرائشِ جسم میں طہارت کی ترغیب دی ہے، بالکل اسی طرح بدن کی نشو و نما اور پرورش میں بھی طہارت کی ترغیب دلائی ہے۔ شریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ جب اللہ کا بندہ ،اللہ کے حضور حاضر ہو اور اپنی بندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہو، تو اس وقت جس طرح اس کا ظاہرِ بدن ، اسکے کپڑےاور مقامِ بندگی پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح بندے کا وہ بدن جس پر پاک کپڑے پہنے جاتے ہیں اور جو جسم اللہ کی بارگاہ میں جُھک کر عبد ہونے کا اعلان کرنے جا رہاہے۔ اس کا رزق حلال سے پلاہوا ہونابھی ضروری ہے ۔ اس عنوان کے تحت اگر دیکھا جائے تو کتب احادیث بھری پڑی ہیں (جن کے اندر رزق حلال کمانے کی ترغیب دلائی گئی ہےاور رزق حرام سے بچنے کی ترھیب بھی ہے) اُن میں سے چند احادیث مبارکہ ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں!٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًاوَّاِنَّ اللہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ“۔ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کو قبول نہیں فرماتاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو وہی حکم دیاہے جو حکم رسولوں کو دیاتھا۔ کہ ارشاد فرمایا:﴿یٰاَیُّھَاالرَّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾(المومنون:۵۱)”اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤاور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتاہوں“(کنزالایمان)۔ اور فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾(بقرہ: ۱۷۲) ترجمہ: ”اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی سُتھری چیزیںاور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“ (کنز الایمان)پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفرکرکے آیا ہو، اس کے بال غبار آلودہوں”یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ، یَارَبِّ “ (پھر اسی پریشانی کی حالت میں)اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر عرض کرےاے میرے رب! (لیکن) اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے (حرام کھاتا پیتاہے)اور اس کا لباس حرام ( کے پیسوں کا) ہے، ”وَغُذِیَ بِا الْحَرَامِ“اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا بڑھا ہے۔ ”فَاَنِّی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ؟“ تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔(مسلم، باب قبول الصَّدقۃ من الکسب الطیب، حدیث:۲۲۳۵/۱۰۱۵،ص:۴۶۱،مطبوعہ دار الفکر بیروت) مذکورہ بالا حدیث شریف میں رزق حلال کی ترغیب، حرام کی روزی سے بچنے کی ترھیب کے طور پر جس پریشان حال مسافر شخص کا مثالی ذکر کیا گیا ہے اس کے پاس بظاہر قبولیتِ دعا کے کافی اسباب مہیا ہیں ، جیسے : طویل سفر کا مسافر ہونا، پریشان حال ہونااور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا ئے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ پروردگار کو پکارنا۔ پھر بھی اس کی اجابت دعا پر سوالیہ نشان لگ رہاہے ، وجہ صرف ایک ہے ، اس بندے نے حلال رزق کی تلاش نہیں کی اور خود کو حرام سے بچایا نہیں۔٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ﴿یٰاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ:۱۶۸) اےلوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔(کنزالایمان) تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مستجاب الدعا (جس کی دعائیں قبول کی جائیں) بنادے۔ تو اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یَا سَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ“ اے سعد اپنا کھانا حلال بناؤ مقبول الدعا ہوجاؤگے۔ ” وَ الَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ “اس ذات با برکات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد(ﷺ) کی جان ہے”اِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ الْحَرامَ فِی جَوْفِہٖ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ عَمَلٌ اَرَبَعِیْنَ یَوْمًا“ بندہ جب ایک حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے، تو چالیس دن تک اس کا کوئی (نیک) عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہٗ مِنْ سُحْتٍ فَا النَّارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ اور جس بندے کا گوشت حرام روزی سے بنا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔(المعجم الاسط ۶/حدیث:۶۴۹۵مطبوعہ دارالحرمین، قاھرہ ) معلم کائنات ﷺ کے تعلیمی انداز اور متعلمین کے ذوق علم پر بار بار بعجز و نیاز قربان ہونے کو جی چاہتاہے۔ جب مجلس پاک میں ایسی آیت کریمہ پڑھی گئی جس میں جملہ انسانیت کو اللہ کا کلام رزق حلال کھانے کی تاکید فرما رہاہے عین اسی وقت حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کھڑے ہوکر مستجاب الدعوات ہونے کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کروانے کی عرضی پیش کرنا۔ظاہر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ خود اپنے لیے عرض کررہے ہیں مگر حقیقت میں معلم کائنات سے مذکور ہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کروادی اور ساتھ میں رزق حلال کی اہمیت اور حرام کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد پوچھ کر ہمارے لیے بے شمار اسباق مہیا کروادیے۔حدیث شریف کے اس جز کو جس میں آقا کریم ﷺ قسم اُٹھا کر ارشاد فرماتے ہیں ” بندہ جب حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتاہے“پڑھ کر گزر جانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بھی یہ عہد واثق کرلینی چاہیے کہ ’ان شاء اللہ‘اب حرام کےکبھی قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اور پھر حدیث شریف کا اگلا جز تو ہمیں نہایت ہی جھنجھوڑ کر تنبیہ کر رہاہے کہ اگر اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو حرام کی روزی سے دور رہنا ہوگا۔٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“ حلال روزی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۵، حدیث:۲، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّایُبَالِی الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِّنَ الْحَرَامِ“ترجمہ:لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا ہے(کمایاہے) وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے(مشکوٰۃ، ج:۱،کتاب البیوع،باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الاول، ص:۲۴۶، حدیث:۲۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاھور )غیب داں نبی ﷺ کا مذکورہ بالا فرمان جو کہ پیشین گوئی کی شکل میں بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے لوگ اور تو چھوڑو، یہ بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جس مال سے ہم حج جیسا اہم فریضۂ اسلام ادا کرنے کےلیے جارہے ہیں آیا وہ مال ہم نے حلال ذریعوں سے کمایا ہے یا حرام ذریعوں سے؟۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے ہیں’حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ”جومالِ حرام لے کر حج کو جاتاہے جب وہ لبیک کہتاہے فرشتہ جواب دیتاہے لَالَبَیْکَ وَلَا سَعْدَیکَ وَ حَجُّکَ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکَ حَتّٰی تَرُدَّ مَا فِیْ یَدَیْکَ نہ تیری حاضری قبول، نہ تیری خدمت قبول، اور تیرا حج تیرے مُنہ پر مردود، جب تک تو یہ حرام مال جو تیرے ہاتھ میں ہے واپس نہ دے“(فتاویٰ رضویہ ج:دہمص:۷۱۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن نظامیہ ،لاہور)۔٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَ کُلُّ لَحَّمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتْ نَارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ترجمہ: وہ گوشت جس نے حرام (روزی) سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ہر وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ہے، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ قریب ہے۔ (مشکوٰۃ، ج: ۱،کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثانی،ص:۲۴۷حدیث:۲۶۴۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاھور)٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ا للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ“ ترجمہ: حلال رزق کا ذریعہ تلاش کرنا فرض کے بعد فرض ہے۔ مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ، الفصل الثالث،ص۲۴۸، حدیث:۲۶۵۸، مطبوعہ مکتبہ (رحمانیہ ،لاھور نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کے بعد رزق حلال تلاش کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ بنیادی فریضہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، چونکہ جب بندے کے پیٹ میں رزق حلال ہوگا تبھی جمیع عبادات قبول ہوں گی۔٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِا لْحَرَامِ“۔ ترجمہ: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام روزی سے پلا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۸، حدیث:۲۶۶۴، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور )٭زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیا اور اُسے پسند فرمایا۔ پلانے والے سےدریافت فرمایا کہ یہ دودھ تو نے کہاں سے حاصل کیا؟ اُس نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تالاب پر گیا، جس کا نام اس نے لیا تو وہاں زکوٰۃ کے اُونٹ تھے جنہیں لوگ پانی پلارہے تھے۔ اُنھوں نے میرے لیے دودھ دوہا تو میں نے اپنے مشکیزے میں ڈال لیا، یہ وہی تھا۔ ’فَاَدْخَلَ عُمَر یَدَہٗ فَاسْتَقَاءَہ‘ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ مُنہ میں ڈالا اور اس دودھ کی قئےکردی (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص: ۹۱،حدیث:۲۷۸۶، مطبوعہ البشریٰ کراچی)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے”تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمٌ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ رَجُلٌ خَرَجَ ضَارِبًا فِیْ الْاَرْضِ یَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعُوْدُ بِہٖ اِلٰی عَیَالِہٖ“۔ اس دن وہ شخص عرش کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہوگا، جوشخص اللہ کا فضل(رزق حلال) تلاش کرنے کے لیے زمین میں نکلتاہےپھر اسے حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آتاہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال،ص:۲۲۷ مطبوعہ: دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ،فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادُہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُو السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَلٰکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ“ ترجمہ: اگر کوئی بندہ حرام مال کمائےپھر اس سے صدقہ کرے تو قبول نہیں کیا جائے گا، اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوگی، اور اگر وہ اس (مال ) کو ترکہ کی صورت میں (وارثوں کے لیے)چھوڑ جاتاہے تو بھی وہ اس کے لیے جہنم کا سبب بنے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۷، حدیث:۲۶۴۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ حلال کمانا جہاد ہے اور تمہارا اسے اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ تجارت سے کمایا ہوا ایک درہم دوسرے حلال ذرائع سے حاصل کیے ہوئے دس درہموں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال، ص:۲۲۷ مطبوعہ دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَاتَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْاَلَ عَنْ اَربَعٍ، عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَ عَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اَکْتَسَبَہٗ، وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہِ؟“۔ ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوجائے، عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کے بارے میں کہ کیسے گزاری (نیکی میں یا بدی میں)؟ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۰، مطبوعہ دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان)٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا حِلِّہٖ ، وَ اَنْفَقَہٗ فِیْ حَقِّہٖ اَثَابَہُ اللہُ عَلَیْہِ وَاَوْرَدَہٗ جَنَّتَہٗ“دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، جس نے اس میں حلال ذریعہ سے مال کمایااور حق کے راستے میں خرچ کیا، تو اللہ اسے اس کا ثواب عطا فرمائے گا اور اسے جنت تک پہنچا دے گا، ”وَمَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا مِنْ غَیْرِ حَلِّہٖ، وَاَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ اَحَلَّہُ اللہُ دَارَ الْھَوَانِ“اور جس نے دنیا میں مال ناجائز طریقہ سے کمایااور اس کو ناحق طریقہ سے خرچ کیا ، توا للہ تعالیٰ اسے ذلت کی جگہ تک پہنچادے گا، ”وَ رُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِیْ مَالِ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ لَہٗ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مال کو ہتیانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی﴿کُلَّمَاِخَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا﴾(الاسراء:۹۷)ترجمہ: (وہ آگ) جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(کنزالایمان)۔ الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۱، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر شب آواز دیتاہے کہ جو حرام کھاتاہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ سنت ۔(کیمیائے سعادت)٭عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شبہے کا ایک درہم جو اس کے مالک کو واپس کردوں وہ میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص حرام کھاتاہے اس کے ساتوں اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ نا فرمانی میں مبتلا ہونا چاہے یا نہ چاہے اور جو شخص حلال کھاتاہے اس کے اعضا نیک کام میں لگے رہتے ہیں اور اس کو خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کے کسب اور حرام سے اجتناب کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین

تکبر و گھمنڈ کی نحوست:احادیث کی روشنی میں – – از:۔سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

آج معاشرہ میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبّر (گھمنڈ) کی مذمّت کی ہے۔ خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“اس کے علاوہ قرآن مقدس میں بہت سی آیتیں ہیں جو تکبّر کی مذمّت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اِس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبّرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔ اب ذیل میں تکبر و غرور کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اِس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہو جائیگا کہ کبریائی اور بڑائی در حقیقت صرف ذات وحدہ لا شریک کے شایانِ شان ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی موت و حیات اور ہر ایک کی عزّت و ذلّت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ”اللہ ہی کے لیے بڑائی اور کِبریائی ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے“(مفہوم قرآن)اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا بھی قطعی علم حاصل ہوگا کہ کسی انسان کے لیے ہرگز ہرگز یہ مناسب نہیں کہ وہ کبریائی اور بڑائی کا دعویدار بنے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ غرور و گھمنڈ کا رویہ اپنائے۔ اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اللہ وحدہ لا شریک کا حریف بنتا ہے۔ اِس لیے ایسا شخص بہت بڑا مجرم ہوگا اور اُس کے لیے سخت ترین سزائیں ہوں گی ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کہ کِبریائی (بڑائی) اور عظمت میری خاص صفتیں ہیں جو مجھے ہی زیب دیتی ہیں جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا (یعنی عظمت و کبریائی اپنے لیے ثابت کرےگا) میں اُس کو آگ میں داخل کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”میں اُسے آگ میں پھینک دونگا” (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳) ٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائےگا (یعنی سخت ناراض ہوگا) اور نہ ہی انہیں پاک فرمائےگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی انہیں دیکھے گا۔ اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا فقیر مُتکبّر (گھمنڈی) (مشکوٰۃ ص: ۴۳۳)٭حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ ”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا “ (مسلم شریف ج :۱، ص:۶۵مشکوٰۃ ص:۴۳۳)٭حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اِختیار کرو کیونکہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ”جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبّر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رُسوا ہوتاہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتّے اور سُوّر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے“۔ (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳)اب آخر میں ایک تفصیلی حدیث شریف ملاحظہ کریں جو تکبّرکی رگوں کو کاٹ ڈالنے والی ہے، اور گھمنڈ کی عمارت کو ڈھانے والی۔٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”برا بندہ وہ ہےجو غرور (گھمنڈ) کرے اور اکڑ کر چلےاور بڑی شان والے رب کو بھول جائے۔برا بندہ وہ ہے جو ظلم و زیادتی کرے اور قہاراعلیٰ (رب) کو بھول جائے، برا بندہ وہ ہے جو غفلت سے کھیل میں لگ جائے اور قبر کو اور اُس میں سڑنے گلنے کوبھول جائے، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو حد سے گزرنے والا متکبّر اور سرکش ہو اور اپنی ابتدا اور انتہا (یعنی کیسے پیدا ہوا اور کہاں ٹھکانا ہوگا) کو بھول جائے، کتنا برا ہے وہ بندہ جو دین کو شبہات کے ذریعہ دھوکا دے (یعنی متّقی و پرہیز گار بن کر دیندار ظاہر کرے تاکہ لوگوں میں مقبول ہو، حالانکہ عمل خیر اللہ کے لیے ہونا چاہیے)، برا بندہ وہ بندہ ہے کہ ہوس اور لالچ اُس کو کھینچے لیے جا رہی ہے (یعنی وہ حرص و ہوس کا پابند ہو گیا ہو)، بڑا برا ہے وہ بندہ جسے خواہشات نفسانی گمراہ کرے، وہ بندہ بہت برا ہے جسے رغبتیں اور خواہشیں ذلیل کریں ۔ (ترمذی شریف ۔ مشکوٰۃ ص: ۴۳۴)تکبّر ہی وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ اُس کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ! تو ابلیس نے تکبّر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں ، کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے ہوئی ہے، لہٰذا اِس تکبّرانہ جواب پر اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت و ملامت کی، اور اُسے جنّت سے نکال کر جہنم اُس کا ٹھکانا کیا۔ اِس لیے انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ مردودِ بارگاہِ خدا ابلیس لعین کے نقش ِقدم پر نہ چل کر قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی اِس رزیل و ذلیل خصلت و عادت کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اترانے کے بجائے اپنے اندر انکساری و عاجزی، فروتنی و نرم خوئی پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے اِس بری عادت سے توبہ و اِستغفار کر لیں۔یوں تو قرآن و احادیث و دیگر کتابوں میں بہت سی جگہوں پر غرور و تکبّر کی شدید مذمّت کی گئی ہے اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں سے ڈرایا گیا ہے لیکن ہم نے صرف چند حدیثیں ہی پیش کی ہیں ۔ نہاں خانۂدل میں اگر حق و صداقت کی کچھ بھی روشنی ہوگی تو یقینًا یہی مذکورہ حدیثیں ہی عبرت کے لیے کافی ہوں گی ۔طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہدو بوند ہی بہت ہے اگر کچھ اثر کرےبارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو تکبر و گھمنڈ جیسی سبھی بیماریوں و برائیوں سے بچنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !

قوم بے حس ترے کردار پہ رونا آیا—از:- محمد کہف الوری مصباحی

فضول باتیں کرو نہ ہم سے ہمارا بھیجا پکا ہوا ہے

سوال بے جا کی سوزشوں سے دماغ میرا تپا ہوا ہے

جہالتوں کی ہے مارا ماری علوم سے اب کسے ہے یاری

جدھر بھی دیکھو گلی گلی میں فتن کا میلہ لگا ہوا ہے

مخالفت کے شرارے دل میں موافقت کے ڈھکوسلے ہیں

لباس رہبر میں آج رہزن سماج سیوک بنا ہوا ہے

بہار تنقید کی جوانی پہ بوکھلوں نے ہے پھیرا پانی

پڑھا تھا جن سے’الف’ ‘با’ ‘عم’ انہیں کا ابا بنا ہوا ہے

بڑا مہذب خلیق اعظم سخن چیں یوں کہ فدا ہو عالم

زباں پہ اللہ چھری بغل میں کسے خبر یہ بکا ہوا ہے

زبانی دعوائے اعتدالی لبوں پہ ان کے حسین گالی

کسے بتائیں ہم ان کے نخرے گلے پہ چاقو دھرا ہوا ہے

بتائے سب کو بڑا فسادی کسی کو حاسد کھلا عنادی

صلاح دیتا ہے سب کو علمی جہل کا امرت پیا ہوا ہے

زنانی زلفیں گھنیراسرمہ ولی کی صف میں کھڑا بے دھرما

دھرم کو سنکٹ ہوا ہے جس سے وہی تو اگوا بنا ہوا ہے

شرافتوں کے ہیں جبے قبے زباں پہ سیٹھوں کے لمبے خطبے

شرارتوں کا وہ ہے مجسم شریف لیبل لگا ہوا ہے

ملی جو پیری جناب والا خزانوں کا کھل گیا ہے تالا

بنا کے چیلہ امیروں کو خود مرید ان کا بنا ہوا ہے

موالی غنڈوں کا بھی ہے دادا مرید کم ہیں مریدہ زیادہ

کسی نے مانگا نہ منہ سے پانی مرا جو اس کا ڈسا ہوا ہے

خلافت ان کی سراپا آفت سراپا ان کا سراپا زحمت

فریب کو وہ کہے کرامت خرافتوں میں گھرا ہوا ہے

بنا مدرسوں کا ناظم الہڑ نظام گھٹیا پڑھائی گڑ بڑ

خبر نہیں ہے مدرسوں کی صدر مدرس بنا ہوا ہے

حکیم ہے حکمتوں سے خالی دوائیں اس کی بڑی نرالی

کھرل میں کوٹے وہ گھاس بھوساکہے یہ نسخہ جچا ہوا ہے

ہمہ کارہا کے حوصلے ہیں فقط دکھاوے کے چونچلے ہیں

ترقی ان کی ثری میں پہنچی بلند پرچم کیا ہوا ہے

ہر ایک شعبے میں ہے ملاوٹ اندھیر نگری ہے راج چوپٹ

ہر ایک ٹیچر پھٹیچروں کے ستم کا دھندا بنا ہوا ہے

بہت نا ہانکو تعلی ازہر کہانی تیری ہے سب کو ازبر

ذرا سا تاکو تم اپنے اندر گریباں تیرا پھٹا ہوا ہے

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپال

موبائل نمبر:-9779814516787+

حضرت شیر اہل سنت کے ساٹھ سالہ یوم ولادت کے پر مسرت موقع پر سید خادم رسول عینی ناظم نشر و اشاعت خانقاہ قدوسیہ کی جانب سے عظیم منظوم پیش کش ——

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

مبارک ہو بلند اقبال کا یوم ولادت ہے

ہے جس کی زندگانی پر ہمیشہ غوث کا سایہ

اک ایسے عاشق ابدال کا یوم ولادت ہے

غریبوں بے سہاروں کا رہا حامی جو بچپن سے

اک ایسے ماحیء اشکال کا یوم ولادت ہے

نہیں لاتا ہے جو خاطر میں غم کو اور حوادث کو

مبارک ہو کہ اس خوش حال کا یوم ولادت ہے

بنائی خانقاہ خیر جس نے خوب محنت سے

اک ایسے صاحب افعال کا یوم ولادت ہے

بھلائی کی بقا کے واسطے آواز اٹھائی ہے

ہے نازک جس سے شر کا حال کا یوم ولادت ہے

وہ جس کے قول پر دانائی کو ہے فخر اے عینی

خوشا کہ ایسے خوش اقوال کا یوم ولادت ہے

صوفی اور تصوف۔۔از: سید خادم رسول عینی


صوفی اور تصوف – – – – – – – –

صوفی کی عظمت کا اعتراف زمانہ کرتا ہوا آیا ہے ۔تصوف کے حامل کو صوفی کہتے ہیں ۔تصوف کسے کہا جاتا ہے ؟ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔

صوفی وہ ہے جو نفس کی آفتوں اور اس کی برائیوں سے دور رہتا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو ہدایت کے نیک راستے پر چلتا رہتا ہے۔ صوفی وہ ہے جو حقائق کو گرفت میں لیے ہوتا ہے۔صوفی وہ ہے جو راہ سلوک کو طے کر چکا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو مقصود حقیقی کو پاچکا ہے۔مسلسل ریاضت کے ذریعہ صوفی کا نفس شکستہ ہوجاتا ہے۔اس کی دنیاوی خواہشات زائل ہوجاتی ہیں ۔اس کی دنیاوی آرزوئیں اور تمنائیں نابود ہو جاتی ہیں۔صوفی اپنے نفس کو مجاہدہ اور ریاضت میں لگادےتا ہے۔صوفی جو کام کرتا ہے وہ آخرت کی غرض سے کرتا ہے۔صوفی نوافل کے ذریعہ قرب حق حاصل کرتا ہے اور وہ خدا کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے۔ صوفی اپنی زندگی میں خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

جب بات صوفیت کی آتی ہے تو ہمارے ذہن میں جن کا نام فوری طور پر یاد آتا ہے وہ ہیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ۔ آپ ہندوستان عطائے رسول بن کر تشریف لائے اور جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے خلائق کا دل جیت لیا۔ آپ کے کردار، آپ کے حسن اخلاق، آپ کی کرامات سے متاثر ہو کر غیر مسلم نہ صرف آپ کے شیدا ہوگئے بلکہ ایمان سے سرفراز بھی ہوئے۔

جب حاسد حکمرانوں نے خواجہ کے استعمال کے لئے پانی بند کردیا تو آپ نے اپنی کرامت کے ذریعہ سارے دریا کے پانی کو ایک کوزے میں بھر دیا۔پھر جب خیال آیا کہ مخلوق خدا کو پانی کی قلت کی وجہ سے پریشانی ہوگی تو آپ نے کوزے کے پانی کو حکم دیا اور آپ کے حکم سے کوزے کا پانی دریا میں چلاگیا اور دریا پھر سے پانی سے لبالب ہوگیا۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کا کردار، ایک صوفی ء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

جب کسی جوگی نے خواجہ کو ہوا میں اڑنے کا چیلینج دیا تو آپ نے اپنی کھڑاؤں کو ہوا میں اڑنے کا حکم دیا اور کھڑاؤں حکم خواجہ کی تعمیل کرتے ہوئے آسمان میں اڑی اور اس نے جوگی کو واپس خواجہ کے قدموں پہ لا کھڑا کیا۔یہ کرامت دیکھ کر جب جوگی ایمان لایا تو خواجہ نے اسے اپنے گلے لگا لیا ، اس کی غلطیوں کو معاف کردیا اور اسے اپنی خانقاہ میں جگہ دی۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کی شان ، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء ایثار۔

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ کام آتی ہیں شمشیریں

جب مفتیء اعظم اڑیسہ کے جد اعلیٰ ، حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے اپنے قرب و جوار میں مخلوق خدا کو پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے عصا کو زمین پر مارا اور صاف و شفاف پانی کا چشمہ ابلوایا جس سے مخلوق خدا کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی میسر آیا ۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کا کردار اور ایک صوفی ء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی ‌نے کیا خوب فرمایا ہے:

بہر تشنہ لب عصا سے کردیا چشمہ رواں
دہر نے یہ فیض دیکھا سید السادات کا

جب حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے یہ محسوس کیا کہ مخلوق خدا کو دھوپ میں آرام کے لیے اور ماحولیات کی بہتری کے لیے ایک وسیع و عریض درخت کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنی مسواک کو زمین میں پیوست کیا اور اچانک اس سے زمین میں ایک وسیع و عریض درخت نمودار ہوگیا جس سے مخلوق خدا کو دھوپ اور کثافت و آلودگی سے راحت ملی۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کی شان اور ایک صوفیء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی نے کیا خوب شعر کہا ہے :

گاڑ دی مسواک دھرتی پر ، شجر وہ بن گئی
خرق عادت ہے یہ کس کا سید السادات کا

میں نے اپنی آنکھوں سے پیر و مرشد حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کو دیکھا ہے ، آپ کے روز و شب کا مشاہدہ کیا ہے، آپ کے انسانیت نما کردار کا ملاحظہ کیا ہے ۔مجاہد ملت کا جب انتقال ہوا اس وقت میں اسکول میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔
مجاہد ملت کے جنازہ / وصال کے دوسرے دن جب میں اسکول گیا تو کلاس میں ایک عجیب و غریب چیز کا میں نے مشاہدہ کیا۔ ہمارے کلاس ٹیچر ایک غیر مسلم دھام نگری تھے۔ وہ خود مجاہد ملت کی داستان سنانے لگے اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ یہ بولنے لگے کہ ان کی پڑھائی کے لیے اخراجات مجاہد ملت برداشت کرتے تھے ۔اور انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صرف ان کی نہیں بلکہ دھامنگر کے کئی غیر مسلم غرباء کی مالی امداد مجاہد ملت کرتے تھے ۔ افسوس کہ اب مجاہد ملت کا انتقال ہوگیا ! “

یہ ہے ایک مومن کا کردار، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

کسی شاعر نے منقبت در شان حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ میں کیا خوب کہا ہے:

پیار یکساں کیا چھوٹا ہو یا بڑا
اس خلوص و محبت پہ لاکھوں سلام

افسوس کا مقام ہے کہ آج صوفیوں کو دہشت گرد سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ صوفیوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جب کہ صوفیوں نے ملک عزیز میں اخوت کے پیڑ اگائے، محبتوں کے چراغ روشن کیے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ نظام الدین اولیاء ، سیدنا شاہ دریا علیہم الرحمہ سے لےکر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ تک سارے صوفیائے کرام کی تاریخ کے ابواب شاہد ہیں کہ آپ کی زندگی کے لمحات خدمت خلق میں گزرے تھے۔

تو پھر کوئی صوفی ازم کو دہشت گردی سے کیسے جوڑ سکتا ہے ؟

جہاں تک غیر مسلم سے مسلم بننے کا معاملہ ہے تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم ، مومنوں کے اخلاق و کردار اور اولیاے کرام کی کرامات کے نور کو دیکھ کر ایمان لائے، نہ کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک کو نکال کر درست تاریخ کا مطالعہ کریں۔اڑیسہ کے سابق گورنر ڈاکٹر بشسمبر ناتھ پانڈے نے اپنی کتابوں ( اسلام اینڈ انڈین کلچر ، اورنگ زیب) میں مدلل ثابت کیا ہے کہ مسلم دور حکومت میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا ۔ ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک ، اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ ء میں ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے کا اسپیچ سنا تھا ۔انھوں نے اپنی لمبی گفتگو میں یہ ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں بھی زبردستی تبدیلیء مذہب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی غیر مسلم پلیس آف ورشپ کو مسمار کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے نے اورنگ زیب عالمگیر کی تعریف میں پل باندھ دیے تھے اور انہوں نے اورنگ زیب کو ایک سچا مسلمان اور ایک صوفی بزرگ سے تعبیر کیا ۔

پھر بھی صوفی ازم کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے ، تعجب ہے۔

٢٠١٦ میں دہلی کے صوفی کانفرنس میں وزیر اعظم ہند
نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں اپنے اسپیچ کے دوران انھوں نے کہا تھا:

“تصوف کراہتی انسانیت کو سکون دے سکتا ہے۔
تصوف کے نزدیک خدا کی خدمت کا مطلب انسانیت کی خدمت ہے۔
بلھے شاہ کی تعلیمات آج کے دور میں زیادہ ضروری ہوگئی ہیں اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔تصوف امن ، بقائے باہم ، ہمدردی اور مساوات کی آواز ہے۔
ہمیں تصوف کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ہوگا جو اسلام کے اصولوں اور اعلی انسانی اقدار کی بات کرتا ہے۔”

پھر بھی آپ کہیں گے کہ صوفی ازم آتنک باد ہے؟

“صوفی ازم آتنک باد ہے ” یہ جملہ کذب پر مبنی ہے۔

صوفی ازم اسلام کی روحانی اصطلاح ہے ۔
صوفی ازم امن پسند اسلام کا آئینہ دار ہے ۔
صوفی ازم اپنے اندرونی خود کو پاکیزہ کرنے کا نام ہے ۔
صوفی ازم ضبط نفس/تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
خالق سے قربت حاصل کرنے کے طریقے کو صوفی ازم کہا جاتا ہے۔
صوفی ازم وہ ہے جس سے سلسلہ قادریہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ وغیرہ جڑے ہویے ہیں ۔
صوفی ازم محبت اور اخوت کا پیغام ہے ۔

دہشت گردی سے تصوف جیسی مقدس طریق کا کوئی واسطہ نہیں ۔

نعت محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کے روضے کی دید پائی ہے

بدلی خوش قسمتی کی چھائی ہے

میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر

“جان عیسیٰ تری دہائی ہے”

فخر کرتے نہیں نبی ، گرچہ

منسلک ان سے ہر بڑائی ہے

لائے تشریف جان امن‌ و اماں

اب کہاں ظلم کی رہائی ہے؟

اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں

کس قدر عام بے حیائی ہے

یا نبی کیجیے کرم کی سحر

رات پھر زندگی میں آئی ہے

ان کی یادوں میں رہتا ہوں مسرور

اک عجب لذت جدائی ہے

یہ ہے دربار شاہ ، اور یہاں

بھید بھاؤ کی کب رسائی ہے؟

نور سے ہوگئی فضا معمور

نعت ” عینی ” نے جب سنائی ہے

از: سید خادم رسول عینی

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست:- نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست

بے شک برائے عظمت ہے لازمی سیاست

مکر و فریب سے گر ہے قوم کو بچانا

بہر دفاع امت ہے لازمی سیاست

تعلیم و معیشت کا بحران دور ہوگا

کرنی ہے گر تجارت ہے لازمی سیاست

اب اس جہاں میں کوئی نہ کام تیرا ہوگا

گر ہے عمل سے رغبت ہے لازمی سیاست

فرش زمیں پہ ظالم کی حکمرانی کیوں ہے؟

کرنے کو اب بغاوت ہے لازمی سیاست

رہبر کی کرسیوں پر قبضہ ہے رہزنوں کا

کرنی ہے گر حفاظت ہے لازمی سیاست

تیرا وقار و شہرہ ہے مٹ گیا جہاں سے

بہر حصول شہرت ہے لازمی سیاست

یوں قوم کیوں جہاں سے ہے خوف زدہ ازہر

بہر بحال سطوت ہے لازمی سیاست

نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپالنگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپالموبائل نمبر+9779814516787

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں–محمد کہف الوری مصباحی،

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں

وہی جو خدا نے کہا لکھ رہا ہوں

عقیدے لکھے ہیں جو قرآن میں میں

انہیں کو یہاں باخدا لکھ رہا ہوں

وہی رحمت کل جہاں ہیں یقیناً

بفضل خدا باخدا لکھ رہا ہوں

وہی غیب داں ہیں خدا کی عطا سے

خدا بھی نہ ان سے چھپا لکھ رہا ہوں

خدا نے کہا ہے سلام ان پہ بھیجو

فرشتوں کی ہے یہ ادا لکھ رہا ہوں

خدا نے بنایا انہیں نور عالم

بشر ان کو نوری کیا لکھ رہا ہوں

خدا نے کیا ان کا چرچا جہاں میں

انہیں ارفع اعلی کیا لکھ رہا ہوں

خدا ان کی مرضی عطا یوں کرے کہ

فترضی کو اس کی رضا لکھ رہا ہوں

انہیں کی رضا سے ہوا کعبہ قبلہ

زہے کعبہ تجھ پہ فدا لکھ رہا ہوں

وہی یٰسیں طٰہٰ وہی والضحٰی ہیں

انہیں نجم اسریٰ پڑھا لکھ رہا ہوں

کریں کیوں نہ تعظیم ہم مصطفٰی کی

یہی حکم رب نے دیا لکھ رہا ہوں

شفاعت کرے جو قیامت میں سب کی

اسے شافع کل وریٰ لکھ رہا ہوں

وسیلہ گناہوں کی بخشش کا ان کو

خدا نے کیا ہے کیا لکھ رہا ہوں

مقام ستائش پہ تم جلوہ گر ہو

تمہیں حمد کا سلسلہ لکھ رہا ہوں

عنایت ہوئی کثرت خیر تم کو

تمہیں کو میں خیرالوری لکھ رہا ہوں

وہ روکیں تو رکنا وہ دیں کچھ تو لینا

خدا کا اسے فیصلہ لکھ رہا ہوں

کرو نہ کبھی ان سے آواز اونچی

یہ لاترفعوا میں ملا لکھ رہا ہوں

پکارو نبی کو نہ تم اپنے جیسا

منع رب نے اس سے کیا لکھ رہا ہوں

کلام الہی سے جلوہ نبی کا

بیاں مجھ سے جو ہو سکا لکھ رہا ہوں

کمال نبی اب حدیثوں میں دیکھو

سنو ان کا میں معجزہ لکھ رہا ہوں

بہے چشمے انگلی سے، آب دہن سے

کنواں کھارا میٹھا ہوا لکھ رہا ہوں

کمال لعاب دہن ان کا دیکھو

جڑا پیر ٹوٹا ہوا لکھ رہا ہوں

لٹکتی ہوئی آنکھ کو مصطفی نے

دوبارہ دیا ہے جلا لکھ رہا ہوں

نمازوں میں یاد ان کی ہے شرک کیسے

نمازوں کو ان کی ادا لکھ رہا ہوں

نمازی کو گر وہ بلائیں کہ آجا

تو فوراً حضوری کو جا لکھ رہا ہوں

نمازی ہی کیا جب شجر کو بلایا

تو فوراً وہ حاضر ہوا لکھ رہا ہوں

شجر کیا انہوں نے کہا جو قمر کو

تو ٹکڑے ہوا برملا لکھ رہا ہوں

قمر ہی نہیں بلکہ سورج بھی ان کے

اشارے پہ الٹا چلا لکھ رہا ہوں

زمیں کیا فلک کیا،زماں کیا ملک کیا

سبھی کو میں ان کا گدا لکھ رہا ہوں

مریضوں کو کر دو ہوا کے رخوں پر

ہوا پہ درود شفا لکھ رہا ہوں

جو پوچھو کہ نعت نبی کس سے سیکھی

سنو! نام احمد رضا لکھ رہا ہوں

خموش ہو گیا ان کو یہ کہ کے ازہر

بڑا سب سے بعد خدا لکھ رہا ہوں

*محمد کہف الوری مصباحی، نائب صدر لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال،نگران اعلی: فروغ اردو زبان تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال،موبائل نمبر:-9779814516787+

پیر سید عمر علی شاہ صاحب ترمذی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سرہالی شریف کا تذکرہ ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب 1930ءمیں سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے گھر رانیوال سیداں پیدا ہوئے۔اپ مشہور صوفی بزرگ سید میراں یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور نجیب الطریفین سید تھے۔ابھی چار سال کی عمر تھی کہ والد محترم سید نور حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرما گئے ۔بچپن سے ہی یتیم ہوگئے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کی والدہ محترمہ مشفقہ نے کی ۔اور آپ کی کفالت آپ کے دادا جان سید حسین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے کی ۔اسکول میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔روحانی تعلیم و تربیت کے لیے پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے گجرات کے مشہور بزرگ پیر سید شہنشاہ ولایت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی۔ اور حضرت پیر سید حاجی احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو تمام اوراد و وظائف اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی خلافت سے نوازا۔ معاش کے حصول کے لیے آپ نے محکمہ پولیس میں ملازمت بھی کی۔1952میں آپ محکمہ پولیس میں سولہ روپے تنخواہ پر بھرتی ہوئے، آپ کی ڈیوٹی جیل میں تھی جہاں پر قیدیوں کے لواحقین سے ملاقات کروانی ہوتی تھی ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے اگر میں چاہتا تو اس منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزانہ کے ہزاروں روپے کما سکتا ۔لوگ بڑی سفارشوں سے جیلوں میں ڈیوٹی لگواتے ہیں کہ وہاں پر مال کمانے کے بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے لقمہ حرام سے محفوظ رکھا ساری زندگی حلال کمایا اور اپنے اہل و عیال کو حلال کھلایا۔پولیس کی نوکری میں آپ نماز پنجگانہ کے علاوہ جس شہر میں ڈیوٹی ہوتی وہاں کے مزارات اولیاء کی حاضری کے لیے اہتمام سے جایا کرتے تھے۔۔1975ء کو آپ نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا ۔دراصل آپ کی ہمشیرہ صاحبہ بیوہ ہو گئی تھیں ۔ان کی خدمت کے لیے اور آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف میں علم دین کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ نے اپنی نوکری کی قربانی دی ۔حالانکہ پینشن کو ایک سال رہتا تھا آپ نے کوئی پنشن نہ لی۔ اتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور کبھی بھی اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کی۔ آستانہ عالیہ مقدسہ چھالے شریف پر آپ کی خدمات کا دورانیہ 1975 تا 1992 تک ہے ۔1992ء میں آپ اپنے گھر سرہالی شریف تشریف لے آئےپیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے زندگی میں بے شمار حج اور عمرے کیے تھے مگر کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے نام کے ساتھ الحاج وغیرہ لکھوایا آپ اپنے نام کے ساتھ کوئی لقب بھی نہیں لکھواتے تھے ۔اتنے بڑے شیخ طریقت ہونے کے باوجود آپ نے کوئی سیکر ٹری نہیں رکھا ہوا تھا سب سائلین کے فون خود سنتے ۔مہمانوں کو چائے کھانا بھی خود لا کر عطا فرماتے یہ کام کسی خادم اور نوکر سے نہیں کرواتے تھے ۔آپ شب زندہ دار ،تہجد گزار پنجگانہ نماز باجماعت کے پابند،نوافل کی کثرت کرنے والے ذکر و اذکار اور معمولات پابندی سے نبھانے والے تھے ۔تلاوت قرآن پاک پابندی کے ساتھ فرماتے۔۔بڑھاپے کے باوجود رمضان المبارک کے تمام روزے رکھتے ،نماز تراویح باجماعت مسجد میں ادا فرماتے ۔علم دین سے بے حد محبت فرماتے اپنے مریدوں کے بچوں کو علم دین کی ترغیب دلاتے تھے ۔محفل میں موجود علمائے کرام کی عزت و تکریم فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کی دل جوئی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپ نے اپنے کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا ،دن ہو یا رات غریب سے غریب بندہ یا کوئی امیر انسان آپ کو بلانے کے لیے حاضر ہو گیا اپ بلا تامل ،بغیر ناز نخرے اس کے ساتھ چل پڑتے کوئی گاڑی لاتا تو گاڑی میں بیٹھ جاتے کوئی رکشہ لاتا تو رکشے میں بیٹھ جاتے کوئی موٹر سائیکل لاتا تو موٹر سائیکل پر سوار ہوجاتے کئی لوگ پیدل آتے تو ان کے ساتھ پیدل ہی چل پڑتے۔پھر کبھی کسی نے کوئی خدمت کی تو اس کو بھی دعا دی کسی نے کچھ نہیں دیا تو اس کو بھی دعائیں دیں ۔آپ کی دعا کا یہ جملہ بڑا مشہور اور ہر زبان زد عام تھا یا اللہ رکھیں شان نال ،ماریں ایمان نال ۔آپ کے اس انداز دل نوازی نے لاکھوں لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا عام وخواص، امیر وغریب ،چھوٹےو بڑے سب آپ کی محبتوں کے اسیر تھے۔ایک دفعہ راقم الحروف اپنے نھنے منے بیٹے کے ساتھ قبلہ پیر صاحب کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے سب نے کھانا کھا لیا سب دعا کے انتظار میں تھے کہ پیر صاحب دعا فرمائیں تاکہ مجلس برخاست ہو پیر صاحب نے فرمایا یہ بچہ کھانا کھا لے پھر دعا کرتے ہیں ادھر نھنا منا کاکا چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر کھانا کھا رہا تھا۔۔کچھ گرا رہا تھا۔۔کچھ کے ساتھ کھیل رہا تھا پیر صاحب نے سختی سے منع کیا کہ بچے کو کوئی کچھ نہ کہے اس کو اپنی مرضی کے مطابق کھاناکھانے دیں الغرض بچے نے جب کھانا ختم کیا تو پھر پیر صاحب نے دعا فرمائی۔۔بچے کے ساتھ شفقت و لطف اور اس کی دل جوئی کا یہ انداز آج بھی دل پر نقش ہے آپ ہمہ وقت باوضو رہتے تھے۔ہمیشیہ سفید لباس پہنتے اور اس کے اوپر عمامہ شریف اس کے اوپر بڑی سفید چادر پہنتے تھے۔اپ سادہ طبعیت اور درویش منش انسان تھے۔طبعیت میں حد درجہ سادگی اور نفاست کا غلبہ تھا۔نخوت و تکبر انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔اپ محفل میں خاموشی سے آکر بیٹھ جاتے ،ہٹو بچو کی صداؤں سے تنفر تھا ،چاہتے تو مریدوں کی فوج ظفر موج اپنے استقبال کے لئے بھیج سکتے جیسا کہ عام چلن ہے مگر ساری زندگی عاجزی و انکساری اختیار فرمائی۔ ۔پیر سید عمر علی شاہ صاحب بے شمار اوصاف و کمالات کا منبع تھے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو چھپاتے رہے ۔حب جاہ اور نمود و نمائش سے بچتے رہے۔آپ گوناگوں اوصاف کے حامل انسان تھے۔کچھ کمالات وہبی تھے کچھ کمالات کسبی تھے ۔علو المرتبت پیر ہونے کے باوجود انتہائی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرماتے ۔گندی نالی میں اخبار یا کوئی مقدس کاغذ دیکھتے خود اٹھا لیتے ،زمین پہ روٹی یا رزق پڑا ہوا دیکھ کر بھی خود اٹھا لیتے تھے ۔اپ کی انفرادی خصوصیت آپ کی طویل دعا ہوتی تھی آپ کو سینکڑوں مقدس نام ازبر تھے بشمول انبیاء کرام علیہم السلام ،اہل بیت اطہار علیہم الرضوان ،صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اولیائے کاملین رحمہم اللہ اجمعین کے اسمائے گرامی ۔اپ دعا فرماتے ہوئے ان پاکیزہ ہستیوں کے اسماء گرامی بیان فرماتے جاتے ایک رحمتوں کا سائباں تن جاتا ۔۔محفل کا رنگ ہی بدل جاتا اور گھر والوں کی تسکین و فرحت کا ساماں ہوجاتا تھا ۔۔ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے پیر صاحب کو تنہائی میں دعا مانگتے دیکھا کہ تنہائی میں کیسی دعا مانگتے ہیں انہوں نے کہا کہ جیسے محفل میں دعا مانگتے تھے ویسے ہی تنہائی میں دعا مانگتے تھے آپ کے ظاہر اور باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا جیسا لوگوں کے سامنے ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں ہوتے تھے۔ آپ جودوسخا پیکر تھے غریب پرور انسان تھے بے شمار لوگوں کی چپکے سے مدد کر دیتے تھے اور اس کا کبھی بھی اظہار نہیں کرتے تھے دن اور رات کوئی بھی مہمان آتا تو اس کی خوب مہمان نوازی فرماتے کسی کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ آخرکار علم و حکمت کا یہ نیّر تاباں ،شریعت و طریقت کی کہکشاں پون صدی سے زائد عرصہ اپنی خوشبو ئیں لٹا کر چند روز بستر علالت پہ رہ کر 25 مارچ 2021 جمعرات کو انتقال فرما گئے ۔جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد اپ کی نماز جنازہ علاقے کی تاریخی جنازہ تھی، جس میں علاقہ بھر کے علمائے کرام و مشائخ عظام سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب ترمذی جو آپ کے اکلوتے لخت جگر ہیں۔ آپ کو اپنے والد محترم کا جانشین و سجادہ نشین مقرر کیا گیا ہے ۔پیر سید مدثر حسین شاہ صاحب اپنے والد محترم کی شخصیت کا پرتو اور عکس ہیں ۔انتہائی کریمانہ اخلاق کے مالک اور علم دوست شخصیت ہیں ۔اپنے والد محترم کی اعلیٰ روایات کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مہمان نوازی ،اصاغر نوازی ،تلطف دوستاں ،تکریم بزرگاں میں اپنی مثال آپ ہیں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مرقد پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے آپ کی اولاد کو اپنے جد کریم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔23 مارچ بروز بدھ کو آپ کا پہلا عرس مبارک صبح دس بجے تا نماز ظہر سرہالی شریف میں منعقد ہو رہا ہے۔ پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ قبلہ پیر سید عمر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لئے ایک دفعہ فاتحہ شریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیں اور قرب و جوار والے احباب اس بابرکت محفل میں شرکت فرمائیں۔ ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات22-03-2022منگل00923444650892واٹس اپ نمبر

حجۃالاسلام کی نعتیہ شاعری۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی۔

۔اعلیٰ حضرت کے خلف اکبر، مجاہد ملت کے مرشد خلافت حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی سیدی حامد رضا علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین، مفتیء شرع متین ، فقیہ اسلام ، مناظر اہل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم‌ ادیب اور باکمال شاعر بھی تھے۔آپ نے حمد، نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں جنھیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور قلب کو قرار ملتا ہے۔حجۃ الاسلام کی نعتیہ شاعری میں فصاحت و بلاغت کا حسن ہے تو تشبیہات و استعارات کی رعنائی بھی۔ الفاظ و محاورات کا جمال ہے تو صنایع و بدائع کی خوب صورتی بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام دیگر شعرا کے کلام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔”معارف رضا “میں سرکار حجۃالاسلام کا ایک نعتیہ کلام نظر سے گزرا۔اس کلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مستفید و محظوظ ہوں :ہے عرش بریں پر جلوہ فگن محبوب خدا سبحان اللہ

اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف

پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ

سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن و الفت کے

خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ

اس کلام کے ارکان ہیں :فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

اور اس بحر کا نام ہے :بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثلم بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثرم مسکن گویا آپ نے اس کلام میں زحاف ثلم، ثرم، تسکین کا استعمال کیا ہے اور چند مقامات پر زحاف تسبیغ کا بھی استعمال فرمایا ہے۔اشعار کے مختلف مقامات پر، صدر، ابتدا، حشو ، ضرب، عروض میں اتنے سارے زحافات کا استعمال کرنا حجۃالاسلام کے استادانہ کمال اور مہارت در علم عروض کا پتہ دیتا ہے۔ حجۃالاسلام کے اس کلام میں صنعت تلمیح بھی ہے اورصنعت اشتقاق بھی، صنعت عکس بھی ہے اور صنعت تجنیس زائد بھی۔صنعت تضاد بھی ہے اور صنعت تنسیق الصفات بھی۔صنعت تفویت بھی ہے اور صنعت تہذیب و تادیب بھی ،صنعت ترتیب بھی ہے اور صنعت طباق بھی۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور صنعت مراعاۃ النظیر بھی۔ صنعت فرائد بھی ہے اور صنعت کنایہ بھی۔

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔یہ جملہ خبریہ ہے اور صدق خبر بھی، کیونکہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اک آن میں مکہ سے بیت المقدس، پھر آسمان، سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں تشریف لے گیے اور واپس کرہء ارض پر تشریف بھی لے آئے ۔اس مصرع میں برق کا استعمال اپنے موقف میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ مقتضیء حال کے مطابق بھی ہے ۔ سائنس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں سب سے تیز جو شیء حرکت کرتی ہے وہ روشنی ہے اور روشنی کی ایک شکل ہے برق ۔ برق کی رفتار کتنی ہے ؟ برق کی رفتار ہے ١٨٦٠٠٠ میل فی سیکنڈ ، جبکہ آواز کی رفتار ہے ٣٤٣ میٹر فی سیکںڈ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی پہلے دکھائی دیتی ہے اور گرج کی آواز بعد میں سنائی دیتی ھے۔ نظر کی رفتار روشنی / برق سے بھی کم ہوتی ہے۔کرہء ارض سے سورج تک دوری ہے ٩٣ ملین میل۔سورج ، کرہء ارض سے سب سے نزدیک کا ایک ستارہ ہے ۔اگر سورج کی دوری ٩٣ ملین میل ہے تو اندازہ لگائیں ساتوں آسمان، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں کی دوری کتنی ہوگی۔ اور حضور صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک آن میں لامکاں جاکے تشریف لے آئے۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کے سامنے نظر/ روشنی/ برق کی رفتار کی کیا حیثیت ؟اس لیے حجۃالاسلام نے کہا:

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔اس مصرع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی رفتار کو نظر اور برق سے تشبیہ دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ ہے تیزی ۔ برق کے استعمال سے بصری پیکر تراشی کا حسن بھی جلوہ گر ہوگیا ہے ۔

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

۔اس مصرع میں راکب کے ساتھ ساتھ مرکب کے استعمال نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہاں راکب سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرکب سے مراد براق/ رف رف ۔حجۃالاسلام ایک اور نعتیہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

نہ کوئی ماہ وش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوب خدا تم ہو ۔حجۃالاسلام نے اس شعر کے ذریعہ تشبیہات و استعارات جن سے عموما” مجازی فضا تیار کی جاتی ہے ان کو رد کیا ہے اور رد کرتے ہوئے ممدوح گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی توصیف بیان کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔اس قبیل کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ و خورشید سیاروں ستاروں کی ضیا تم ہو

وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا

اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو

نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر

تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو

تم ہو حبیب کبریا پیاری تمھاری ہر ادا

تم سا کوئی حسیں بھی ہے گلشن روزگار میں ؟

صنعت اقتباس کے حسن سے مزین یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن

بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں

عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

سرکار حجۃالاسلام کے اشعار میں پیکر تراشی کے جلوے ملاحظہ فرمائیں:

ماہ تری رکاب میں نور ہے آفتاب میں

بو ہے تری گلاب میں رنگ ترا انار میں

گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں

جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہ تمام دو

سارے بہاروں کی دلھن ہے میرے پھول کا چمن

گلشن ناز کی پھبن طیبہ کے خار خار میں

سوسن و یاسمن سمن سنبل و لالہ نسترن

سارا ہرا بھرا چمن پھولا اسی بہار میں

ان کی جبین نور پر زلف سیہ بکھر گئی

جمع ہیں ایک وقت میں ضدین صبح و شام دو

حجۃالاسلام کے ان اشعار میں بصری پیکر تراشی بھی ہے اور سماعی پیکر تراشی بھی، لمسی پیکر تراشی بھی ہے اور مشامی پیکر تراشی بھی۔ در حقیقت حجۃالاسلام کے کلاموں میں لفظوں کی ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے کہ جس کے سبب قاری کے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں اور اس کا قلب جمالیاتی چاشنی سے بھر جاتا ہے۔سرکار حجۃالاسلام نے خاتم الاکابر حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت کہی ہے جسے پڑھ کر قلب میں ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور دل و دماغ میں ایک روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

فانی ہوجاؤں شیخ میں اپنے

ہو بہو ہو ادائے آل رسول

حقہ حق ہو ظاہر و باطن

حق کے جلوے دکھائے آل رسول

دل میں حق حق زباں پہ حق حق ہو

دید حق کی کرائے آل رسول

پھر الی اللہ فنائے مطلق سے

پورا سالک بنائے آل رسول

ان اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشق رسول اور محبت آل رسول ہی وہ محور ہیں جن کے گرد حضرت حجۃالاسلام کی پاکیزہ نعتیہ و منقبتیہ شاعری حرکت کناں نظر آتی ہے ۔