بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله الذي انزل القرآن علی حبیبہ سید الانس والجان والصلوۃ والسلام علی نبیہ الذي انزل علیہ الفرقان وعلی آلہ و صحبہ الی یوم المیزان
سوال __
نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یس وہی طہ
جواب_
طہ اور یس مقطعات سے ہیں جس کے معنی کسی کو معلوم نہیں اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضور ﷺ کے لیے اس کا اطلاق مناسب نہیں اس کی تحقیق کے لیے ایک تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے
فاقول و باللہ التوفیق
قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں
محکمات
متشابھات
محکمات وہ آیات ہیں جن میں کسی قسم کا احتمال و اشتباہ نہیں جملہ احکام میں انہی آیات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے
متشابھات وہ آیات ہیں جو چند وجوہ کا احتمال رکھتی ہیں ان میں سے کون سی وجہ مراد ہے یہ الله تعالٰی ہی جانتا ہے یا جس کو الله تعالٰی اس کا علم دے
جو گمراہ، بدمذہب اور ہواۓ نفس کے پابند ہوتے ہیں وہ انہی آیات متشبھت کے پیچھے پڑتے اور تاویل کا اہل نہ ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کے مطابق تاویلیں ڈھونڈتے ہیں (خزائن العرفان)
قرآن مجید میں ہے ھو الذی انزل علیک الکتب منہ آیت محکمت ھن ام الکتاب واخر متشبھت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ الا الله
وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں (محکمات) اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے (متشابہات) وہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمرہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے (کنزالایمان)
مذکورہ آیت سے محکمات و متشابہات کی ماہیت اور ان کے مابین فرق دن سے زیادہ روشن ہے اس باب میں مفسرین کے الفاظ گو مختلف ہیں مگر سب کا ما حصل ایک ہے ان شاء اللہ آگے ہم ذکر کریں گے
آیات متشابہات دو طرح کی ہیں
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثم المتشابہ علی نوعین نوع لایعلم معناہ اصلا کالمقطعات فی اوائل السور مثل الم حم فانہا یقطع کل کلمۃ منہا عن الاخر فی التکلم ولا یعلم معناہ و نوع یعلم معناہ لغۃ لکن لا یعلم مراد الله تعالٰی لان ظاہرہ یخالف المحکم مثل قولہ تعالٰی ید اللہ وجہ الله و الرحمن علی العرش استوی
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ متشابہ دو قسم ہیں
اول جس کے معنی جاننے کی اصلا کوئی صورت نہیں جیسے ابتدائے سور میں الم حم وغیرہا
دوم جس کا معنی لغۃً معلوم ہو لیکن اللہ تعالی کی مراد معلوم نہ ہو جیسے ید الله وجہ الله الرحمن علی العرش استوی
قسم اول مقطعات درج ذیل انتیس سورتوں میں ہیں
۱ بقرہ
۲ آل عمران
۳ اعراف
۴ یونس
۵ ہود
۶ یوسف
۷ رعد
۸ ابراہیم
۹ حجر
۱۰ مریم
۱۱ طہ
۱۲ شعراء
۱۳ نمل
۱۴ قصص
۱۵ عنکبوت
۱۶ روم
۱۷ لقمان
۱۸ سجدہ
۱۹ یس
۲۰ ص
۲۱ مومن
۲۲ فصلت(حم سجدہ)
۲۳ شوریٰ
۲۴ زخرف
۲۵ دخان
۲۶ جاثیہ
۲۷ احقاف
۲۸ ق
۲۹ قلم
یک حرفی مقطعات
ص
ق
ن
دو حرفی مقطعات
طہ
طس
یس
حم
تین حرفی مقطعات
الم
الر
طسم
چار حرفی مقطعات
المر
المص
پانچ حرفی
کھیعص
بعض مقطعات مکرر ہیں اور مختلف سورتوں میں ہیں
الرحمن علی العرش استوی آیات متشابہات کی دوسری قسم سے ہیں وہ تمام آیات جن میں الله تعالٰی کے لیے ید وجہ کا اطلاق آیا ہے وہ بھی اسی میں شامل ہیں یہاں ان آیات سے بحث مقصود نہیں
الرحمن علی العرش استوی کے معنی کی تحقیق فرماتے ہوۓ اعلی حضرت رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا
“اکثر نے تحریر فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعا مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں یہی بہتر کہ اس کا علم اللہ پر چھوڑ دیں ہمیں ہمارے رب نے آیات متشبھت کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ آمنا بہ کل من عند ربنا جو کچھ ہمارے مولی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے”
اعلی حضرت رحمہ اللہ کی یہ توضیح متشابہ کی دوسری قسم سے متعلق ہے جس کا ظاہر معلوم ہوتا ہے مقطعات تو وہ ہیں جن کا ظاہر بھی معلوم نہیں
اعلی حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ مذہب جمہور ائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم و اولی ہے اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں “
حضور صدر الافاضل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آتے ہیں ان کی نسبت قول راجح یہی ہے کہ وہ اسرار الہی اور متشبھت سے ہیں ان کی مراد الله اور رسول جانیں ہم اس کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں “
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مثال المتشابہ الحروف المقطعات فی اوائل السور و حکم المجمل والمتشابہ اعتقاد حقیۃ المراد بہ حتی یاتی البیان ” متشابہ کی مثال وہ حروف مقطعات ہیں جو اوائل سور میں ہیں مجمل اور متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی مراد کے حق ہونے کا اعتقاد رکھیں
فتح الباری میں ہے “المحکم من القرآن ماوضح معناہ والمتشابہ نقیضہ ” یعنی محکم وہ ہے جس کا معنی واضح ہو اور متشابہ اس کی ضد ہے
اسی میں ہے
المحکم ما عرف المراد منہ اما بالظہور واما بالتاویل والمتشابہ مااستاثر الله تعالٰی بعلمہ کقیام الساعة و خروج الدجال و الحروف المقطعۃ فی اوائل السور محکم وہ ہے جس کی مراد ظہور یا تاویل سے جانی جا سکے اور متشابہ وہ ہے جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا جسے قیام ساعت خروج دجال اور اوائل السور میں حروف مقطعات
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے
تفسیر بغوی میں ہے المحکم ما لا یحتمل من التاویل غیر وجہ واحد والمتشابہ ما احتمل وجوھا محکم وہ ہے جس میں وجہ واحد کے سوا اور کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو اور متشابہ وہ ہے جو چند وجوہ کا محتمل ہو
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے
اسی میں ہے “وقیل المحکمت مااوقف الله الخلق عن معناہ والمتشابہ ما استاثر الله تعالٰی بعلمہ لاسبیل لاحد الی علمہ ” کہا گیا کہ محکمات وہ ہیں جن کے معانی پر الله تعالٰی نے مخلوق کو آگاہی بخشی اور متشابہ وہ ہیں جن کے علم کو الله تعالٰی نے اپنے لیے خاص کر لیا
خازن میں ہے “ان حروف الھجاء فی اوائل السور من المتشابہ الذی استاثر الله بعلمہ وھی سر الله فی القرآن فنحن نؤمن بظاہرھا و نکل العلم فیھا الی اللہ تعالی”
اوائل سور میں جو حروف مقطعہ ہیں وہ متشابہ سے ہیں جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کرلیا یہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا راز ہے تو ہم اس کے ظاہر پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کر دیتے ہیں
حروف مقطعات کی تفسیر ممکن نہیں
ابن کثیر میں ہے “اختلف المفسرون فی الحروف المقطعۃ اللتی فی اوائل السور فمنہم من قال ھی مما استاثر الله بعلمہ فردوا علمہا الی اللہ ولم یفسروھا”
اوائل سور میں جو حروف مقطعات ہیں ان کے باب میں مفسرین مختلف ہیں بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس کے علم کو اپنے لیے خاص کر لیا تو انہوں نے اس کا علم الله تعالٰی کی طرف پھیر دیا اور اس کی تفسیر نہیں کی
اتقان میں ہے “و جمہور اھلِ السنۃ منہم السلف واھل الحدیث علی الایمان بہا وتفویض معناھا المراد منھا الی اللہ تعالی ولا نفسرھا “
جمہور اہل سنت ہمارے اسلاف اور محدثین کا مذہب یہی ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کے معنی مراد کا علم الله تعالٰی کے سپرد کر دیں اور ہم اس کی تفسیر نہ کریں
اتقان میں ہے “واما ما لایعلمہ الا الله تعالٰی فھو یجری مجری الغیوب نحو الآی المتضمنۃ قیام الساعة وتفسیر الروح و الحروف المقطعۃ وکل متشابہ فی القرآن عند اھل الحق فلا مساغ للاجتہاد فی تفسیرہ”
جن کا علم اللہ ہی کو ہے وہ غیوب کی منزل میں ہیں جیسے وہ ایات جو مشتمل ہیں قیام الساعہ پر اور روح، حروف مقطعات اور جملہ متشابہات قرآنیہ کی تفسیر تو ان کی تفسیر میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں
راسخون فی العلم اور آیات متشابہات
امامِ شافعی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک راسخون فی العلم کے لیے متشابہات کے معانی کا علم ثابت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنیہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم الخَ میں الراسخون اسم جلالت پر معطوف ہے
اتقان میں ہے “اختلف ھل المتشابہ مما یمکن الاطلاع علی علمہ اولایعلمہ الا الله علی قولین منشؤھما الاختلاف فی قولہ والراسخون فی العلم ھل ھو معطوف ویقولون حال او مبتدأ خبرہ یقولون والواؤ للاستیناف ” کیا متشابہ کے علم پر خلق کی اطلاع یابی ممکن ہے؟ کیا اس کا علم اللہ کے لیے خاص ہے؟ یہ مختلف فیہ ہے اختلاف کا منشا یہ ہے کہ کیا الراسخون فی العلم اسم جلالت پر معطوف ہے اور یقولون حال ہے یا الراسخون مبتدا ہے جس کی خبر یقولون ہے اور واؤ مستانفہ ہے
اسی میں ہے “وعلی الاول طائفۃ یسیرۃ منہم مجاھد وھو روایۃ عن ابن عباس فاخرج ابن المنذر من طریق مجاھد عن ابن عباس فی قولہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم قال انا ممن یعلم تاویلہ “
پہلا مذہب (کہ راسخون علم رکھتے ہیں) ایک قلیل جماعت کا ہے ان ہی میں حضرت مجاہد ہیں عبد اللہ ابن عباس سے بھی یہ ایک روایت ہے ابن منذر نے ابن عباس سے بہ طریق مجاہد تخریج کی وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم کے متعلق ابنِ عباس نے فرمایا میں انہی میں سے ہوں جو اس کی تاویل جانتے ہیں
اسی میں ہے “واختار ھذا القول النووی فقال فی شرح مسلم انہ الاصح لانہ یبعد ان یخاطب الله عبادہ بما لاسبیل لاحد من الخلق الی معرفتہ وقال ابن الحاجب انہ الظاہر”
امامِ نووی نے اسی قول کو اختیار کیا شرح مسلم میں فرمایا یہی اصح ہے کیوں کہ یہ بعید ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے اس طرح خطاب فرماۓ کہ کسی کو اس کی معرفت حاصل نہ ہو سکے ابنِ حاجب نے کہا یہی ظاہر ہے
اس کے برخلاف اکثر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ راسخون فی العلم بھی متشابہات کے معانی کا علم نہیں رکھتے
اتقان میں ہے ” واما الاکثرون من الصحابة والتابعین واتباعہم ومن بعدھم خصوصاً اہل السنۃ فذھبوا الی الثانی وھو اصح الروایات عن ابن عباس قال ابن السمعانی لم یذھب الی القول الاول الا شرذمۃ قلیلۃ واختارہ العتبی” صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اکثر مشائخین بالخصوص اہلِ سنت دوسرے قول (راسخون نہیں جانتے) کی طرف گئے یہی ابنِ عباس سے اصح روایت ہے ابنِ سمعانی نے کہا قول اول کی طرف مٹھی بھر لوگ گئے ہیں یہی امامِ عتبی کا مختار ہے
ترجیح مذہب __
یہ جو دوسرا قول ہے جو اکثر مشائخ کا مذہب ہے یہی راجح ہے اس کی ترجیح متعدد دلائل سے ظاہر ہے
اتقان میں ہے ” ویدل لصحۃ مذہب الاکثرین ما اخرجہ عبد الرزاق فی تفسیرہ والحاکم فی مستدرکہ (وھو صحیح) عن ابن عباس انہ کان یقرأ وما یعلم تاویلہ الا ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ فھذا یدل علی ان الواؤ للاستیناف “
مذہب اکثرین کی صحت کی دلیل وہ حدیث ہے عبد الرزاق نے اپنی تفسیر اور حاکم نے مستدرک میں جس کی تخریج کی (وھو صحیح ) ابن عباس سے مروی ہے وہ وما یعلم تاویلہ الا الله ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ پڑھتے تھے یہ حدیث واؤ کے مستانفہ ہونے پر دلیل ہے
اسی میں ہے “ویؤید ذلک ان الآیۃ دلت علی ذم متبعی المتشابہ ووصفہم بالزیغ وابتغاء الفتنۃ وعلی مدح الذین فوضواالعلم الی اللہ تعالی وسلموا الیہ کما مدح الله المؤمنین بالغیب وحکی الفراء ان فی قرأۃ ابی ابن کعب ایضا ویقول الراسخون”
اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ آیت میں متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کی مذمت کی گئی کہا گیا کہ وہ کجی اختیار کرنے اور فتنہ چاہنے والے ہیں اور آیت میں ان کی مدح کی گئی جنہوں نے اس کا علم اللہ تعالی پر چھوڑ دیا جیسا کہ اللہ نے مومنین بالغیب کی مدح فرمائی اور فراء نے حکایت کی کہ ابی ابنِ کعب کی قرات میں بھی ہے ویقول الراسخون
اسی میں ہے “واخرج ابن ابی داوُد فی المصاحف من طریق الاعمش قال فی قراۃ ابنِ مسعود وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ”
مصاحف میں ابنِ ابی داوُد نے بطریق اعمش تخریج کی کہا ابنِ مسعود کی قرات میں ہے وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ
اسی میں ہے ” واخرج الشیخان وغیرہما عن عائشۃ قالت تلا رسول الله ﷺ ھذہ الآیۃ ھو الذی انزل علیک الکتاب الی قولہ اولوالالباب قالت قال رسول الله ﷺ فاذا رأيت الذین یتبعون ما تشابہ منہ فاولئک الذین سمی اللہ فاحذرھم”
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے یہ آیت پڑھی ھو الذی انزل علیک الکتاب اولوالالباب تک فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب تو متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کو دیکھے (تو جان لے ) یہی وہ ہیں جن کو اللہ نے بیان کیا پھر تو ان سے مجتنب رہ
اسی میں ہے ” عن عائشۃ قالت کان رسوخہم فی العلم ان آمنوا بمتشابہ ولا یعلمونہ”
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ان کا رسوخ فی العلم یہ تھا کہ وہ متشابہ پر ایمان لائے اور انہیں اس کا علم نہیں
دلائل عقلیہ سے بھی علم متشابہات ممکن نہیں
اتقان میں ہے ” واما اثبات المعنی المراد فلایمکن بالعقل لان طریق ذلک ترجیح مجاز علی مجاز وتاویل علی تاویل وذلک الترجیح لایمکن الا بالدلیل اللفظی والدلیل اللفظی ضعیف لایفید الا الظن والظن لایعول علیہ فی المسائل الاصولیۃ القطعیۃ فلھذا اختار الائمۃ المحققون من السلف والخلف بعد اقامۃ الدلیل القاطع علی ان حمل اللفظ علی ظاہرہ محال ترک الخوض فی تعیین التاویل “
عقل سے معنی مراد کا اثبات ممکن نہیں کیوں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مجاز کو دوسرے مجاز اور ایک تاویل کو دوسری تاویل پر ترجیح دیں اور یہ دلیل لفظی ہی سے ممکن ہے اور دلیل لفظی ضعیف ہے جو ظن کا فائدہ دے گی جب کہ مسائل اصولیہ قطعیہ میں ظن پر اعتماد نہیں اسی لیے ائمۂ محققین نے اس بات پر قطعی دلیل قائم ہوجانے کے بعد کہ لفظ کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا محال ہے تاویل کی تعیین میں ترکِ غور و خوض کو مختار جانا
صورت تطبیق_
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ھذا نزاع لفظی لان من قال یعلم الراسخون تاویلہ یریدون یعلمون تاویلہ الظنی ومن قال لایعلم الراسخون تاویلہ یریدون لایعلمون التاویل الحق الذی یجب ان یعتقد علیہ”
یہ لفظی نزاع ہے جنہوں نے کہا کہ راسخون فی العلم اس کی تاویل جانتے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ ظنی تاویل جانتے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ یہ تاویل نہیں جانتے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاویل حق واجب الاعتقاد کا علم نہیں رکھتے
مذکورہ جملہ عبارات کو دیکھیں پڑھیں اور سمجھیں تو یہ واضح ہے کہ متشابہات کی تاویل جو قطعی یقینی واجب الاعتقاد ہو راسخون فی العلم پر بھی روشن نہیں
یہی وجہ ہے کہ مقطعات کی تاویلات میں مفسرین کی آرا مختلف ہیں
ابنِ کثیر میں ہے”ومنہم من فسرہا واختلف ھؤلاء فی معناہا فقال بعضہم ھی اسماء السور قال الزمخشري وعلیہ اطباق الاکثر وقیل ھی اسم من اسماء اللہ تعالی “
بعض نے مقطعات کی تفسیر کی مگر بیانِ معنی میں ان کے درمیان اختلاف ہوگیا ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں زمخشری نے کہا اکثر کی یہی رائے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں
خازن میں ہے “وقال آخرون من اھل العلم ھی معرفۃ المعانی ثم اختلفوا فیھا فقیل کل حرف منھا مفتاح اسم من اسماء اللہ تعالی،،،،،،، وقیل ھی اسماء اللہ مقطعۃ لوعلم الناس تالیفہا لعلموا اسم اللہ الاعظم وقیل اسماء السور وبہ قال جماعۃ من المحققین وقال ابن عباس ھی اقسام “
بعض اہلِ علم نے فرمایا یہ معانی کی معرفت ہے پھر ان میں باہم اختلاف ہوا کہا گیا ان میں سے ہر حرف کسی نامِ خدا کے لیے مفتاح ہے __ ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ ہیں جدا جدا اگر لوگ اس کی تالیف جان لیں تو وہ اسمِ اعظم جان لیں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سورتوں کے نام ہیں محققین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے ابنِ عباس نے فرمایا یہ قسمیں ہیں
اتقان میں ہے “عن مجاہد قال فواتح السور اسماء من اسماء الرب ” مجاہد سے مروی ہے فرمایا فواتح السور اسماۓ الہیہ سے ہیں
اسی میں ہے “قیل انھا اسم الاعظم الا انہ لانعرف تالیفہ منھا” ایک قول یہ ہے کہ یہ اسمِ اعظم ہیں مگر ہم کو ان کی تالیف معلوم نہیں
اسی میں ہے “عن ابنِ عباس الم طسم و ص واشباھہا قسم اقسم اللہ تعالی بہ وھو من اسماء اللہ” ابنِ عباس سے مروی ہے کہ الم طسم ص اور اس کے نظائر قسم ہیں جو اللہ تعالی نے یاد فرمائی اور وہ اسماۓ الہیہ سے ہیں
اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للقرآن کالفرقان والذکر اخرجہ عبد الرزاق عن قتادۃ واخرجہ ابن ابی حاتم بلفظ کل ھجاء فی القرآن فھو اسم من اسماء القرآن ” ایک قول یہ ہے کہ یہ بھی فرقان اور ذکر کی طرح قرآن کے نام ہیں اس کی تخریج عبد الرزاق نے قتادہ سے کی اور ابنِ ابی حاتم نے ان الفاظ کے ساتھ تخریج کی کہ قرآن مجید میں حرفِ ہجا قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے
اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للسور نقلہ الماوردی وغیرہ عن زید بن اسلم ونسبہ صاحب الکشاف الی الاکثر وقیل ھو فواتح للسور”
ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں ماوردی وغیرہ نے زید ابنِ اسلم سے اسے نقل کیا صاحبِ کشاف نے اسے اکثر کی طرف منسوب کیا ایک قول یہ ہے کہ یہ فواتحِ سُوَر ہیں
(۱) یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ سورتوں کے نام ہیں
(۳) یہ اساسمِ اعظم ہیں
(۴) یہ قسمیں ہیں
(۵) یہ قرآن کے نام ہیں
مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے یہ مختلف اقوال ہیں جو ابھی ہم نے ذکر کیے
اتقان میں ہے “وقد تحصل لی فیھا عشرون قولاً وازید ولااعرف احدا یحکم علیہا بعلم”
اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو
یعنی مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے اقوال حتمی اور قطعی نہیں ہیں بھلا قطعیت کہاں سے آۓ جب ان کا علم راسخون فی العلم کو بھی نہیں
یس اور طہ بھی مقطعات سے ہیں اسی سے ظاہر ہے کہ ان کے معانی کا قطعی علم کسی کو نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ ان کے معانی کے بیان میں بھی مفسرین کی آرا مختلف ہیں
اتقان میں ہے “فقیل ان طہ و یس بمعنی یارجل او یا محمد او یا انسان وقیل ھما اسمان من اسماء النبی قال الکرمانی فی غرائبہ ویقویہ فی یس قرأۃ یسین بفتح النون قولہ ال یاسین وقیل طہ ای طأ الارض فیکون فعل امر والھاء مفعول”
ایک قول ہے کہ طہ اور یس کا معنی ہے یا رجل یا یا محمد یا یا انسان ایک قول یہ ہے کہ دونوں اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں کرمانی نے غرائب میں کہا اور اس کی تقویت یس میں اس کی قرات یسین بفتحِ النون اور ال یاسین کے قول سے ہوتی ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے طأ الارض تو طا فعل امر ہے اور ھا مفعول
اسی میں ہے “عن ابنِ عباس طہ ھو کقولک افصل وقیل طہ ای یا بدر لان التاء متسعۃ والھاء بخمسۃ فذلک اربعۃ عشر اشارۃ الی البدر لانہ یتم فیھا وقیل فی قولہ یس ای یا سید المرسلین”
ابنِ عباس سے مروی ہے کہ طہ وہ تیرے قول افصل کی طرح ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے یا بدر اس لیے کہ ط کا نمبر 9 ہے اور ہ کا نمبر 5 تو یہ ہوا 14 اس سے بدر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ چودہویں شب میں مکمل ہوتا ہے یس میں ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے یا سید المرسلین
کشاف میں ہے ” قلت وذکر الماوردی عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان اللہ تعالی اسمانی فی القرآن سبعة اسماء محمد و احمد و طہ و یس و المزمل و المدثر و عبد اللہ قالہ القاضی و حکی ابو عبد الرحمن السلمی عن جعفر الصادق انہ اراد یا سید مخاطبۃ لنبیہ ﷺ وعن ابنِ عباس یس یا انسان اراد محمدا ﷺ وقال ھو قسم وھو من اسماء الله سبحانہ وقال الزجاج معناہ یا محمد وقیل یا رجل وقیل یا انسان وعن ابن الحنفیہ یس یا محمد وعن کعب یس قسم اقسم اللہ تعالی بہ قبل ان یخلق السماء والارض بالفی عام قال یا محمد انک لمن المرسلین ثم قال و القرآن الحکیم “
میں کہتا ہوں ماوردی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ میں نے سرکار دوعالم ﷺ کو سنا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں میرے سات نام بیان کیے محمد، احمد، طہ، یس، مزمل، مدثر اور عبد اللہ قاضی نے یہ بات کہی ابو عبد الرحمن سلمی نے حضرت امام جعفر صادق سے حکایت کی کہ یاسید مراد ہے ابنِ عباس سے مروی ہے کہ یس یعنی اے انسان مراد آقا ﷺ ہیں اور کہا وہ قسم ہے اور اسماۓ الہیہ سے ہے زجاج نے کہا اس کا معنی ہے اے محمد ایک قول یہ ہے کہ یا رجل اور ایک قول ہے یا انسان اور ابنِ حنیفہ سے مروی ہے یس یعنی اے محمد اور کعب سے مروی ہے یس قسم ہے جو اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دوسو سال قبل یاد فرمائی کہا اے محمد بیشک تو مرسلین سے ہے پھر کہا و القرآن الحکیم
اسی میں ہے ” وجعلہ سیبویہ اسما للسورۃ وقد جاء فی تفسیرہا یا رجل وروی ابن عباس وابن مسعود وغیرھما ان معناہ یا انسان “
سیبویہ کے نزدیک یہ سورہ کا نام ہے اور اس کی تفسیر میں یا رجل بھی وارد ہے ابنِ عباس اور ابنِ مسعود وغیرھما سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے اے انسان
ان عبارات سے یس اور طہ کے درج ذیل معانی کا علم ہوا
(۱) یہ دونوں اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ دونوں اسماۓ نبی سے ہیں
(۳) یہ دونوں قسم ہیں
(۴) طہ کا معنی ہے طأ الارض
اس صورت میں طأ فعل امر ہوگا اور ھا مفعول
(۵) طہ کا معنی ہے اے بدر
(۶) یس کا معنی ہے اے سید
(۷) ان دونوں کے معانی ہیں اے مرد اے محمد اے انسان
اخیر کی تین صورتیں تسلیم کی جائیں تو ظاہر ہے کہ طہ میں نام اقدس صرف ھا ہے اور طا حرف ندا اسی طرح یس میں نام اقدس صرف س ہے اور یا حرف ندا
مواہب شریف میں ہے “مفسرین کا یس کے معنی میں اختلاف ہے اور اس سلسلے میں چند اقوال ہیں قول اول یہ ہے کہ اے انسان یہ قبیلہ بنو طے کی لغت ہے اور حضرت ابنِ عباس، حضرت حسن، حضرت عکرمہ، ضحاک اور سعید ابنِ جبیر کا یہی قول ہے بعض نے کہا یہ حبشہ کی لغت ہے کہا گیا کہ بنو کلب کی لغت ہے اور کلی نے کہا یہ سریانی زبان میں ہے_
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے کہا اس کی تقریر یہ ہے کہ انسان کی تصغیر انیسین آتی ہے گویا اس کا حرف اولین حذف کرکے پچھلا حصہ لے لیا گیا اور یس پڑھا گیا اس صورت میں نبی کریم ﷺ کو خطاب ہوگا جس پر انک لمن المرسلین کے الفاظ دلالت کررہے ہیں_”
ابوحبان نے اس تفسیر کو رد کردیا جس کی ایک وجہ مواہب شریف میں بیان کی گئی کہ ان اسماء میں تصغیر جائز نہیں کیوں کہ اس میں تحقیر کا معنی پایا جاتا ہے اور حق نبوت میں یہ بات منع ہے
مواہب شریف میں ہے ” کہا گیا کہ یس کا معنی یا محمد ہے ابنِ حنیفہ اور ضحاک نے یہ بات کہی ایک قول کے مطابق جو ابو العالیہ نے کہا اس کا معنی یا رجل ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ قرآن کے پاک ناموں میں سے ایک نام ہے یہ حضرت قتادہ کا قول ہے حضرت ابو وراق سے منقول ہے کہ اس کا معنی یا سید البشر ہے حضرت جعفر صادق سے مروی ہے کہ اس سے یاسید مراد ہے نبی کریم ﷺ سے خطاب کیا گیا “
اسی میں ہے “حضرت طلحہ حضرت ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ ایک قسم ہے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ قسم یاد کی اور یہ اللہ تعالی کے ناموں میں سے ہے __ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے دوہزار سال قبل اس کے ساتھ قسم یاد کی کہ اے محمد بےشک آپ رسولوں میں سے ہیں پھر فرمایا و القرآن الحکیم انک لمن المرسلین “
مواہب شریف کی مذکورہ عبارات سے یس کے چند معانی کا علم ہوا
(۱) اے محمد
(۲) اے مرد
(۳) اے سید البشر
(۴) اے انسان
(۵)یہ قرآن مجید کا ایک نام ہے
(۶) یہ ایک قسم ہے
(۷) اللہ تعالی کا نام ہے
طہ کی تفسیر میں بھی مفسرین کا یوں ہی اختلاف ہے_
جلالین میں ہے “طہ الله اعلم بمرادہ بذلک”
اس کے حاشیہ پر ہے” ای ان ھذہ حروف مقطعۃ استاثر الله بعلمھا وقیل ان طہ اسم لہ ﷺ حذف فیہ حرف الندا وقیل فعل امر اصلہ طاھا ای طأ الارض بقدمیک معا خوطب بہ “
یعنی یہ حروف مقطعہ ہیں ان کے علم کو اللہ نے اپنے لیے خاص کرلیا ایک قول یہ ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے یہاں حرف ندا محذوف ہے ایک قول یہ ہے کہ فعل امر ہے اس کی اصل طاھا ہے یعنی ایک ساتھ دونوں قدم زمین پر رکھیں اس سے مخاطب حضور ﷺ ہیں_
یس کے اول کے چار معانی پر غور کریں، اس سے ظاہر ہے کہ حضور اقدسﷺ کا نام پاک یس نہیں بلکہ س ہے کیونکہ یس کی ی حرف ندا ہے اور س منادی ہے
یس اور طہ کی تفسیر کے ذیل میں کشاف کی عبارت بھی فقیر کے پیش نظر ہے اس کا حاصل بھی قریب قریب یہی ہے جو ابھی ذکر کیا
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ طہ، یس اور مقطعات کے باب میں مفسرین کے یہ اقوال “بہ زمرۂ تاویلات” ہیں اور ان تاویلات میں سے کوئی تاویل قطعی نہیں ہے
اعلی حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا “تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں”
الاتقان کی عبارت گزر چکی”قد تحصل لی فیھا عشرون قولاً او ازید ولا اعرف احدا یحکم علیھا بعلم ” اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو_
تفسیر وتاویل کے درمیان فرق_
خازن میں ہے ” فالتفسیر اصلہ فی اللغۃ من الفسر وھو کشف ما غطی وھو بیان المعنی المعقولۃ فکل ما یعرف بہ الشئی ومعناہ فھو تفسیر وقد یقال فیما یختص بمفردات الالفاظ وغریبھا تفسیر واما التاویل فاشتقاقہ من الاول وھو الرجوع الی الاصل والمراد منہ بیان غایتہ المقصودۃ منہ فالتاویل بیان المعنی والوجوہ المستنبطۃ الموافقۃ للفظ الآیۃ “
تفسیر لغت میں فسر سے مشتق ہے اور وہ کشف مبہم ہے اور وہ معانی معقولہ کا بیان ہے تو جس سے شئی اور اس کے معنی کی معرفت ہو وہ تفسیر ہے ایک قول یہ ہے کہ مفرد اور غریب الفاظ کی شرح تفسیر ہے اور تاویل اول سے مشتق ہے اور وہ اصل کی طرف رجوع ہے اور اس سے مراد اس کی غرض مقصود کا بیان ہے تو تاویل ان مختلف معانی و وجوہ مستبطہ کا نام ہے جو لفظ آیت کے موافق ہوں۔
اسی میں ہے ” والفرق بین التفسیر والتاویل ان التفسیر علی النقل المسموع والتاویل یتوقف علی الفہم الصحیح واللہ اعلم”
تفسیر وتاویل کے درمیان فرق یہ ہے کہ تفسیر کی اساس نقل مسموع پر ہے اور تاویل فہم صحیح پر موقوف ہے__
اسی میں ہے “فاماالتاویل وھو صرف الایۃ علی طریق الاستنباط الی معنی یلیق بھا محتمل لما قبلہا وما بعدھا وغیر مخالف للکتاب والسنۃ فقد رخص فیہ اھل العلم فان الصحابة قد فسروا القرآن واختلفوا فی تفسیرہ علی وجوہ ولیس کل ما قالوا سمعوہ من النبی ﷺ
تاویل آیت کو بطریق استنباط ایسے معنی پر محمول کرنا ہے جو اس کے شایان ہو اپنے ماقبل و مابعد کے موافق ہو اور کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو اہلِ علم نے ایسی تاویل کی اجازت دی صحابہ نے قرآن کے معانی بیان کیے اور بیان معنی میں بوجوہ باہم مختلف ہوۓ یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا تو اسے نبی کریم ﷺ سے ضرور سنا ہی ہو_
ان عبارات سے ظاہر ہے کہ مغلقات کی تشریح مفردات و غرائب کی وضاحت اور معانی معقولہ کا بیان تفسیر ہے جس کی بنا نقل مسموع پر ہوتی ہے اور تاویل کی یہ شان نہیں_
طہ اور یس کے جو معانی ماقبل میں بیان کیے گئے ان کی بنا نقل مسموع پر نہیں اسی لیے ہم نے کہا کہ یہ سب اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں
اصولِ تفسیر کی تفہیم سے یہ مسئلہ مزید روشن ہوجاتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں تفسیر کے بعض اصول بیان کردئیے جائیں
اتقان میں ہے ” للناظر فی القرآن لطلب التفسیر ماخذ کثیرۃ امہاتہا اربعۃ الاول النقل عن النبی ﷺ وھذا ھو الطراز المعلم لکن یجب الحذر من الضعیف منہ والموضوع فانہ کثیر ولھذا قال احمد ثلث کتاب لا اصل لہا المغازی والملاحم والتفسیر قال المحققون من اصحابِہ مرادہ ان الغالب انہ لیس لہ اسانید صحاح متصلۃ والا فقد صح من ذلک کثیر _ قلت الذی صح من ذلک قلیل جدا بل اصل المرفوع منہ فی غایۃ القلۃ ” بہ غرض تفسیر قرآن میں غور وفکر کرنے والے کے لیے کثیر ماٰخذ ہیں جن میں سے چار اصل ہیں _ اول نبی کریم ﷺ سے نقل معلم کا یہی طریقہ ہے لیکن احتیاط واجب ہے کہ یہاں ضعیف اور موضوع بہ کثرت ہیں اسی وجہ سے امام احمد نے فرمایا تین کتابیں ہیں جن کی اصل نہیں مغازی ملاحم اور تفسیر امام احمد کے اصحاب محققین نے فرمایا مراد یہ ہے کہ اکثر وہ حدیثیں ہیں جن کی صحیح متصل اسانید نہیں ہیں ورنہ تو بہت سی حدیثیں صحیح السند بھی ہیں_ میں کہتا ہوں وہ جو صحیح السند ہیں بہت کم ہیں بلکہ اصل مرفوع انتہائی کم ہیں_
اسی میں ہے “الثانی الاخذ بقول الصحابی فان تفسیرہ عندہم بمنزلۃ المرفوع الی النبی ﷺ کما قالہ الحاکم فی مستدرکہ”
دوم صحابی کے قول کو اخذ کرنا کہ ان کی تفسیر احادیثِ مرفوعہ کی منزل میں ہیں جیسا کہ امام حاکم نے مستدرک میں فرمایا_
اسی میں ہے ” ثم قال الزرکشی وفی الرجوع الی قول التابعی روایتان عن احمد واختار ابن عقیل المنع و حکوہ عن شعبۃ لکن عمل المفسرین علی خلافہ فقد حکوا فی کتبھم اقوالہم لان غالبھا تلقوھا من الصحابة “
پھر زرکشی نے کہا تابعی کے قول کی طرف رجوع کرنے میں امام احمد سے دو روایتیں ہیں ابنِ عقیل نے منع کو مختار کہا انہوں نے امام شعبہ سے اسی کی حکایت کی لیکن مفسرین کا عمل اس کے بر خلاف ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ان کے اقوال کی حکایت کی کیوں کہ تابعین نے زیادہ تر صحابہ ہی سے حاصل کیا_
اسی میں ہے ” الثالث الاخذ بمطلق اللغۃ فان القرآن نزل بلسان عربی وھذا قد ذکرہ جماعۃ و نص علیہ احمد فی مواضع “
سوم مطلق لغت سے اخذ کرنا کیوں کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ایک جماعت نے اسے ذکر کیا اور امام احمد نے چند مقامات پر اسی کی تنصیص کی _
اسی میں ہے “الرابع التفسیر بمقتضی من معنی الکلام والمقتضب من قوۃ الشرع “
چہارم مقتضائے کلام اور پختہ دلائل شرع سے تفسیر کرنا
تفسیر کے یہ چار مآخذ ہیں
مقطعات کے ذیل میں جو مفسرین کے اقوال ہیں ان کے مآخذ کیا ہیں ؟ غور کیجیے تو یہ عقدہ کھل جائے گا اور یہ دعویٰ روشن ہوجاۓ گا کہ یہ اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں_
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بسا اوقات تاویلات تفسیر بالرائے کی حد میں داخل ہوجاتی ہیں اتقان شریف میں تفسیر بالرائے کی پانچ صورتیں بیان کی دوسری صورت کا بیان ان لفظوں کے ساتھ کیا ” الثانی تفسیر المتشابہ الذی لا یعلمہ الا الله ” ان آیات متشبھت کی تفسیر کرنا جن کا علم اللہ ہی کو ہے تفسیر بالرائے ہے_
اشکال اور اس کا جواب_
اشکال اول
یہاں آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ طہ اور یس کے متعلق مفسرین نے جو یہ کہا کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں تو یہ تفسیر ہے تاویل نہیں کہ یہ نقل سے ثابت ہے _
اول _ ماقبل میں تفسیر کشاف کے حوالے سے ماوردی کی حدیث گزری کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں میرے سات نام بیان کیے محمد احمد طہ یس مزمل مدثر اور عبداللہ یہ حدیث روح البیان میں بھی ذکر کی گئی
مطالع المسرات میں ہے فروی النقاش عنہ ﷺ انہ قال لی فی القرآن سبعة اسماء فذکر منہا طہ
نقاش نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا قرآن مجید میں میرے سات نام ہیں پھر حضور ﷺ نے ان میں طہ کا ذکر کیا
اسی میں ہے فاخرج ابن عدی فی الکامل عن علی و جابر واسامۃ بن زید وابن عباس و عائشۃ وابو نعیم فی الدلائل وابن مردویہ فی تفسیرہ عن ابی الطفیل رضی اللہ تعالی عنہم عن رسول اللہ ﷺ انہ قال لی عند ربی عشرۃ اسماء ذکر منہا یس
ابن عدی نے حضرت علی، حضرت جابر، حضرت اسامہ بن زید، حضرت عباس اور حضرت عائشہ سے کامل میں تخریج کی اور ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں تخریج کی کہ حضرت ابو طفیل نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں پھر انہیں میں یس کا ذکر کیا
دوم _ در منثور میں ہے” عن اشھب قال سئلت مالک بن انس اینبغی لاحد ان ینتسمی بہ یس فقال مااراہ ینبغی یقول اللہ یس و القرآن الحکیم یقول ھذا اسمی تسمیت بہ”
حضرت اشہب سے مروی ہے فرمایا میں نے حضرت مالک بن انس سے دریافت کیا کیا کسی کا نام یس رکھنا مناسب ہے؟ فرمایا میں مناسب نہیں سمجھتا اللہ تعالی فرماتا ہے یس و القرآن الحکیم فرماتے ہیں یہ میرا نام ہے میں اس سے پکارا گیا
سوم__ در منثور میں ہے “عن ابی الطفیل قال قال رسول اللہ ﷺ ان لی عند ربی عشرۃ اسماء قال ابو الطفیل حفظت منہا ثمانیۃ محمد احمد ابو القاسم والفاتح والخاتم والماحی والعاقب والحاشر وزعم سیف ان ابا جعفر قال الاسمان الباقیان طہ و یس”
ابو الطفیل سے مروی ہے کہا رسول الله ﷺ نے فرمایا یقیناً میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں محمد احمد ابو القاسم فاتح خاتم ماحی عاقب حاشر سیف نے گمان کیا کہ ابو جعفر نے کہا دو باقی نام ہیں طہ اور یس
ظاہر ہے کہ جب نقل موجود ہے تو طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا تفسیرا ثابت ہوا نہ کہ تاویلا__
جواب
یہاں صرف اتنا کہ دینا کافی نہیں کہ نقل موجود ہے بلکہ اس سے آگے اب اس کی سند کی تحقیق بھی لازم ہے
اتقان میں ہے “واعلم ان القرآن قسمان قسم ورد تفسیرہ بالنقل وقسم لم یرد والاول اما ان یرد عن النبی ﷺ او الصحابة او روؤس التابعین فالاول یبحث فیہ عن صحۃ السند والثانی ینظر فی تفسیر الصحابی فان فسرہ من حیث اللغۃ فھم اہل اللسان فلا شک فی اعتمادہم او بما شاہدہ من الاسباب والقرائن فلا شک فیہ والا وجب الاجتہاد واما مالم یرد فیہ نقل فھو قلیل و طریق التوصل الی فہمہ النظر الی مفردات الالفاظ من لغۃ العرب و مدلولاتہا واستعمالہا بحسب السیاق “
جان لیجیے قرآن دو قسم ہیں اول جس کی تفسیر نقل سے وارد ہے ثانی جس میں نقل وارد نہیں
اول یا تو نقل نبی کریم ﷺ سے وارد ہے یا صحابہ سے یا روؤس تابعین سے برتقدیر اول سند کی صحت سے بحث کی جاۓ گی بر تقدیر ثانی صحابی کی تفسیر میں نظر کی جاۓ گی اگر تفسیر بحیث اللغۃ ہو تو وہ اہلِ زبان ہیں اس لیے یہ تفسیر مقبول ہوگی یا ان کی یہ تفسیر اسباب و قرائن کے مشاہدہ پر مبنی ہوگی تو بلاشبہ یہ بھی مقبول ہے ورنہ معنی تک رسائی کے لیے اجتہاد واجب ہے
ثانی جس میں نقل وارد نہیں یہ کم ہیں اس کے فہم تک رسائی کا طریقہ یہ ہے کہ مفردات الفاظ میں نظر کریں سیاق کے اعتبار سے لغت، اس کے مدلولات اور اس کے استعمال پر غور کریں__
یہ اصول محکمات سے متعلق ہیں گمان غالب ہے اور یہ گمان بہ درجۂ یقین ہے کہ مقطعات کے باب میں کسی ایسی نقل مرفوع صحیح السند کا وجود نہیں جو ان کے معانی بیان کریں پھر بھی اگر کوئی اس کے خلاف کا مدعی ہے تو اسی اصول کے تحت یہ سوال قائم ہوگا کہ اس کی سند کیا ہے کیا وہ صحیح السند ہے؟
اتقان میں علوم قرآن کی تین قسمیں بیان کی گئیں دوسری قسم کے تعلق سے کہا گیا ” ما اطلع اللہ علیہ نبیہ من اسرار الکتاب واختصہ بہ وھذا لایجوز الکلام فیہ الا لہ اولمن اذن لہ قال واوائل السور من ھذا القسم وقیل من القسم الاول”
دوسری قسم اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو جن اسرار پر مطلع فرمایا اور اس کو ان کے لیے خاص کیا اس میں کلام کرنا انہی کے لیے جائز ہے یا ان کے لیے جن کو آپ نے کلام کی اجازت دی فرمایا اوائل سور اسی قسم سے ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ قسم اول سے ہے_
تو اگر یہ دعویٰ ہے کہ طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا نقل سے ثابت ہے تو اس نقل کی سند کی تحقیق ضروری ہے اگر وہ صحیح السند ہے فبہا ورنہ ان میں کلام کی اجازت نہیں ہوگی
مطالع المسرات میں یس کے متعلق مذکور حدیث کے تعلق سے فرمایا وفی سندہ مقال
فقیر نے اس کے علاوہ دیگر مذکورہ احادیث کی سند کی تحقیق کے لیے متعدد اکابر مفتیان عظام و علماء کرام سے سوال کیا علمی فقہی گروپ پر استفسارا پوسٹ کیا خود بھی انتھک کوشش کی مگر اب تک سند کی تحقیق نہیں ہوسکی اہلِ علم سے فقیر کی عرض ہے کہ اس باب میں اگر آپ کسی نتیجے تک پہونچتے ہیں تو ضرور آگاہ کریں ان اللہ لایضیع اجر المحسنین
اشکال دوم
فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے “یس و طہ نام رکھنا منع ہے کہ وہ اسماۓ الہیہ اور اسماۓ مصطفی ﷺ سے ایسے نام ہیں جن کے معنی معلوم نہیں کیا عجب کہ ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا اور رسول میں صادق نہ آسکیں تو ان سے احتراز لازم”
صدر الشریعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” طہ یس نام بھی نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں اور بعض علماء نے اسماۓ الہیہ سے کہا بہر حال جب معنی معلوم نہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو “
ان عبارات سے ظاہر ہے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں_
جواب_ اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ تعالی کی عبارات کا حاصل صرف یہ ہے کہ طہ اور یس نام نہ رکھے جائیں اس میں کہیں کوئی جملہ یا لفظ ایسا نہیں جو طہ اور یس کے اسماۓ نبی ﷺ سے ہونے پر قطعیت کے ساتھ دال ہو بلکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ذرا ان جملوں پر غور کریں ان کے معنی کسی کو معلوم نہیں
_ کیا عجب ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا ورسول میں صادق نہ آسکیں یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں
ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں _ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو
” طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں ” کیا مذکورہ جملے اس دعویٰ کی قطعیت کے بجائے اس کے بہ قبیل ظنیات ہونے کی مؤید نہیں؟
اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ کی عبارات سے اشکال اول کا یک گونہ جواب بھی ملتا ہوا نظر آرہا ہے اگر وہ احادیث جن کا اشکال اول کے تحت ذکر کیا گیا مرفوع صحیح السند ہوتیں تو امام اہلِ سنت اور صاحب بہار شریعت رحمہما اللہ قطعیت کے ساتھ فرماتے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں فتدبر
خلاصۂ کلام
طہ اور یس مقطعات سے ہیں مقطعات متشابہات کی قسم ہیں جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں_ _ طہ اور یس کے تحت مفسرین کے اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں
_ متشابہات کی تاویلات ظنی ہیں قطعی نہیں _ متشابہات کی کہیں تفسیر کی گئی ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہوگی
ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے کہ نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے یس اور طہ کے اطلاق سے ممانعت ہونی چاہیے حضور صدر الشریعہ رحمہ اللہ کے طرز استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو لیکن ہم منع اس لیے نہیں کہتے کہ دلائل الخیرات شریف میں طہ اور یس کو اسماء النبی ﷺ سے شمار کیا گیا اس کتاب کی مقبولیت اور صاحب کتاب کے مقام رفیع کے سامنے فقیر کی معروضات کی حیثیت کیا؟ البتہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں کم از کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق سے اجتناب برتا جائے
اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند استاد زمن اور حضور تاج الشریعہ کے اشعار میں کہیں حضور ﷺ کے لیے یس یا طہ کا اطلاق نظر نہیں آیا یہ اسی غایت احتیاط کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے
اللہ تعالی ہمیں اور جملہ افراد اہل سنت کو اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے سرکار دوجہاں ﷺ کی محبت میں جلاۓ اور انہیں کی محبت پر موت عطا فرمائے آمین
بندۂ عاجز
کلیم احمد رضوی مصباحی
خادم التدریس والافتا
دارالعلوم رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف سیتامڑھی