WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سلطان اورنگ زیب عالمگیر ، ایک انصاف ور حاکم۔از: سید خادم رسول عینی۔

جب میری پوسٹنگ خاندیش مہاراشٹر میں تھی تو کئی بار اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میں جب بھی اورنگ آباد گیا میں نے حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے مزار(جو خلد آباد میں واقع ہے) پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔میں نے جب پہلی بار مزار عالمگیر کی زیارت کی تو میری آنکھیں دنگ رہ گئیں۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس نے پچاس سال ہندوستان میں حکومت کی۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کی سلطنت کی باؤنڈری اکبر ، ہرش وردھن، چندر گپت، وکرما دتو کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی‌۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کے نام سے ہی مراٹھا و گولکنڈہ تھر تھر کانپتے تھے۔اسی لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ ایسے جلیل القدر بادشاہ کی قبر اس قدر سادگی کا پیکر لیے ہوئے کیوں ہے۔جب میں نے وہاں کے ذمہ داروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عالم گیر کی یہ وصیت تھی کہ ان کی قبر کو پکی نہ کی جاۓ، ایسے ہی کچی رہنے دی جائے، قبر کے اوپر کوئی گنبد بھی نہ بنایا جائے۔اس وصیت سے عالم گیر کی کمال درجے کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔ہم نے شاہ جہاں ، اکبر اور ہمایوں کے مقبرے دیکھے ہیں جن کی تعمیر اور سجاوٹ میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے گیے ہیں ۔لیکن اورنگ زیب کی سادگی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ان کے مقبرے پر بھی بے تحاشا اخراجات ہوں ۔ ایسی سادگی کے حامل شخص کے بارے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران رعایا پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔آئیے تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا انصاف ور حاکم ۔اورنگ زیب ایک حاکم تھے ۔ایک حاکم ہونے کے سبب ان کا مقصد استحکام سلطنت تھا ۔استحکام سلطنت کے لیے انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اقدامات کئے۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج غلط نکلے ہوں ۔صرف انھی نتائج کے سبب اورنگ زیب کو ظالم و جابر بادشاہ کہنا ناانصافی ہے۔ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں اس پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہہمیں لےدے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتناکہ عالم گیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھاآئیے تاریخ کے اوراق سے پتہ لگاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ در اصل اورنک زیب ایک صوفی منش اور درویش صفت بادشاہ تھے۔اورنک زیب نے اورنگ آباد میں اپنی زندگی کے تقریباً ٣٨ سال گزارے ہیں۔اورنگ زیب ایک جفاکش، عالی دماغ، بیدار مغز،متحمل مزاج ، علم دوست اور خدا ترس حکمران تھے۔اورنک زیب کے بچپن اور جوانی دونوں دکن کے مذہبی ماحول میں بسر ہویے تھے۔اورنگ آباد کے اسلامی ماحول ، اسلامی حکومتیں ، اسلامی رسم و رواج نے ان کے ذہن کی اچھی خاصی دینی تربیت کی تھی۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوے اورنگ زیب نے اکبر اور جہانگیر کی تمام غیر شرعی رسومات کو موقوف کردیا ، ہندو راجاؤں کے لباس اور وضع کو بھی ترک کرایا ، وضع قطع اسلامی بنائی اور سونے کے زیورات اور جواہرات جو بادشاہوں کی شان سمجھے جاتے تھے ان کو پہننا موقوف کردیا ۔آپ ہی کے دور میں اورنگ آباد میں بے شمار خانقاہیں بنیں ۔درگاہوں کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد میں ایسے بے شمار مندر بھی ہیں جن کی حفاظت ، مرمت اور توسیع اورنگ زیب کے عہد میں ہوئی۔اس درویش صفت بادشاہ پر یہ سراسر بہتان ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا۔اگر ایسا ہوتا تو آج اورنگ آباد میں نہ کوئی مندر ہوتا اور نہ اکناتھ مندر کی بلند عمارت ہوتی۔اورنک زیب نے اپنی صوبہ داری یا شہنشاہیت کے دور میں کسی غیر مسلم کا ناحق خون نہیں بہایا نہ کسی مندر یا مکان کو جبراً مسجد میں تبدیل کیا۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آج اورنگ آباد میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم نہ ہوتا ۔تاریخ شاہد ہے کہ پونا کے پیشوا ، مرہٹوں کے سردار اورنگ زیب کے بد ترین مخالف تھے۔لیکن ان کی کسی بھی تحریر/ڈائری میں اورنگ زیب کے تشدد یا ظلم کے واقعے کا اندراج نہیں ہے۔اورنک زیب حامل شریعت تھے اور کسی بھی قوم کے پلیس آف ورشپ کو مسمار کرنا وہ اسلامی رواداری کے خلاف سمجھتے تھے۔اورنگ زیب نے جبرا” کسی غیر مسلم کو مسلم نہیں بنایا ۔البتہ بہت سارے غیر مسلم ایمان سے سرفراز اس لیے ہوئے کہ انھیں اپنی ملازمت میں ترقی چاہیے تھی یا وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔گویا اسلام قبول کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور انھوں نے کسی کے دباؤ پر آکر اسلام قبول نہیں کیا۔اپنے دور شہنشاہی میں اورنگ زیب کے اہم کار ناموں میں کچھ کارنامے مندرجہ ذیل ہیں :١. اورنگ زیب نے معذور افراد کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ، غریب خانے اور مطب قائم کیے جہاں ان کی رہائش کا مفت انتظام تھا اور ان کا علاج مفت ہوتا تھا ۔٢. اورنگ زیب نے مندروں اور مسجدوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اراضی وقف کی۔٣. اورنگ زیب نے ستی کی رسم کی حوصلہ شکنی کی۔٤. اورنگ زیب نے رسم سالگرہ بند کیا کیونکہ اس میں اخراجات بے تحاشہ ہوتے تھے۔٤. اورنگ زیب نے سکہ پر کلمہ لکھنا بند کروایا کیونکہ اس سے کلمہ کی توہین ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سبھی رعایا کے لیے یکسانیت مقصود تھی۔٥. اورنگ زیب نے شراب بند کیا کیونکہ یہ انسان کی ذات اور سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔٦. اورنگ زیب نے طوائف پر پابندی لگادی تاکہ عورت کو سماج میں بہتر مقام ملے۔٧. اورنگ زیب نے ماتم پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ کام خلاف شرع ہے۔٨. اورنگ زیب نے قوالی پر پابندی عائد کی کیونکہ درباری علمائے شریعت نے قوالی کو حرام قرار دیا۔٩. اورنگ زیب نے جوا کھیلنے کو سنگین جرم قرار دیا۔١٠. اورنگ زیب نے ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی لگادی۔آج کل ہندوستان میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر جلوس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر ان جلوسوں پر آج بھی پابندی لگادی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں برائے ملازمت مقیم تھا ۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ شروعات میں ہندوستان کی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔لیکن آخری اوورز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی عمدہ گیند بازی کی وجہ سے ہندوستان ٹیم کی شکست ہو گئی۔جب پاکستان ٹیم کی جیت ہو گئی تو دبئی میں مقیم پاکستانیوں نے جیت کی ریلی نکالی۔اس سے پہلے کہ دبئی کے باشندہ بھارتیوں کا کوئی رد عمل ہو ، دبئی کی پولیس نے ان پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ دبئی میں کسی قسم کی ریلی یا کسی طرح کا جلوس نکالنا قانونی جرم ہے۔اس قسم کے قوانین اگر آج بھی ہندوستان میں نافذ کیے جائیں تو ملک کو ، ملک کے شہروں کو، ملک کی بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہےاس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دور عالم گیر میں ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی حق بجانب تھی کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی ہونے کا امکان رہتا ہے۔بہر حال ، اورنگ زیب نے غلط رسومات کو ہٹاکر حکومت اور رعایا کے اصل مقصد پر توجہ دی۔ ترقی کی راہ پر کام کیا اور رعایا کی بہبودی کو ترجیح دی۔عہد عالم گیری میں ایک سو دس سے زیادہ غیر مسلم راجہ مہاراجہ ایسے تھے جو دس ہزاری اور پنچ ہزاری منصب پر فایز تھے۔مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے۔اورنگ زیب پابند شریعت تھے اور اپنے دل میں رسول ، آل رسول اور صوفیا کی بے حد محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ وصیت کی تھی:١.مجھے حضرت زین الدین شیرازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں دفن کیا جائے تاکہ ان کا قرب باعث برکت ہو۔٢ سادات کا ادب و احترام لازم ہے۔اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔اس سے تمھیں دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر فائدے ہونگے۔عالم گیر نماز باجماعت کے بے حد پاند تھے۔جنگ کے دوران بھی وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔بلخ کی جنگ میں ان کے حریف عبد العزیز نے جب دیکھا کہ اورنگ زیب نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اپنی تلوار کو روک لو ، کیونکہ ہم اس شخص سے جنگ جیت نہیں سکتے جو شریعت خداوندی کا اس قدر پابند ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہے ۔عالم گیر علم اور عمل دونوں جہت سے یکتائے روزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں لوگ عالم گیر زندہ پیر کہتے تھے۔ایسے خوش دل و خوش عقیدہ شخص کے تئیں غلط نظریہ رکھنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریزی عہد کے مورخوں نے اپنایا۔خاص طور پر ایلیٹ اور ڈاوسن نے یہ رویہ اپنا کر تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے۔آشروادی لال ، شری رام شرما، آر سی مجمدار جیسے مورخوں نے بھی اورنگ زیب پر لکھتے وقت جانب دارانہ رویے کا اظہار کیا جس سے پڑھنے والے نے اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ سمجھ لیا۔لیکن ١٩٦٠ کے آس پاس چند غیر جانب دار اور صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جنھیں بڑھکر اورنگ زیب کے تئیں ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے اور اچھے نسان بھی تھے۔ان حقیقت پسند مورخوں کے چند نام یہ ہیں :عرفان حبیب،ہر بنس مکھیا، ستیش چندر، رومیلا تھاپر، ڈاکٹر بی این پانڈے وغیرہ ان مورخوں کی کتابوں کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ١.اورنگ زیب برہمنوں اور مندروں کو دان دیا کرتے تھے۔٢. اپنے دور حکومت میں اورنگ زیب نے اکبر سے بھی زیادہ ہندوؤں کو اعلی’ عہدوں پر تقرری سے نوازا۔٣.جزیہ اکبر سے پہلے بھی تھا اور اورنگ زیب نے اس کو دوبارا نافذ کیا مگر یہ غیر مسلموں کے صرف دس فیصد لوگوں پر نافذ تھا اور اس کی شرح صرف ٢.٢٥ فی صد تھی جب کہ مسلمانوں پر زکاۃ ٢.٥ فی صد فرض تھی اور جزیہ نافذ کرکے دیگر سارے ٹیکس معاف کر دیے گیے۔جزیہ کے سارے پیسے خزانہء جزیہ میں رکھے جاتے تھے جو غریبوں اور بے سہاروں کے کام آتے تھے۔٤.اورنگ زیب نے ہندو مندروں اور مٹھوں کے لیے وظیفے مقرر کیے ۔٥ ۔اورنک زیب نے شمار مندروں اور گرو دواروں کے لیے جاگیریں وقف کیں۔٦. اورنگ زیب نے راجپوتوں کو پنچ ہزاری کا منصب عطا کیا۔٧. اورنگ زیب نے یہ فرمان جاری کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔رومیلا تھاپر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت، بپن چندر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت ، ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب خدا بخش خطبات وغیرہ سے ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔جہاں تک بی این پانڈے کی بات ہے ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ میں بی این پانڈے کی تقریر سنی تھی اور اپنی طویل تقریر کے دوران ڈاکٹر بی این پانڈے نے تاریخ کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر انصاف ور حاکم تھے، متعصب نہیں تھے اور ان پر فرقہ واریت کا الزام جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب متعصب نہیں تھے ، بلکہ اپنی رعایا کا یکساں خیال رکھتے تھے اور ایک انصاف ور حاکم تھے۔اورنگ زیب ‌خود عربی، فارسی ، اردو اور ہندی کے عالم و فاضل تھے ۔وہ اپنی نثر و نظم میں محاورات کا استعمال بہت عمدہ انداز سے کرتے تھے۔ان کے مضامین ، نظم، خطوط اور شاہی فرامین سے بھی یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم تھے۔ان کے شاہی فرامین اور خطوط ملک کی مختلف لائبریریز میں محفوظ ہیں ، وہاں سے لےکر ان کے شاہی فرامین اور خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ، تاریخ کے حقائق کا مطالعہ کریں اور ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم کی شخصیت سے متعلق متعصبانہ رویہ اختیار نہ کر کے غیر جانبدارانہ فیصلہ لیں ۔

لفظ رمضان کی تحقیق۔۔از: سید خادم رسول عینی

لفظ رمضان کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ماہ رمضان بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔اسی اثنا میں ماہ رمضان کی اہمیت اور روزے کی افادیت پر کئی مقالے نظر نواز ہوئے، جنھیں پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سارے شعرائے کرام کی نظمیں بعنوان ماہ رمضان/ ماہ صیام دستیاب ہوئیں اور ان کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، روح کو تسکین ملی۔ماہ نامہ فیض الرسول براؤن شریف کے ماہ رمضان خصوصی شمارے میں حضرت علامہ علی احمد رضوی بلرام پوری کی نظم بعنوان” رمضان آگیا ہے” پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔اس کلام کے چند اشعار نذر قارئین ہیں :
ہوئے مشک بو گلستاں رمضان آگیا ہے
کہ مہک رہی ہیں کلیاں رمضان آگیا ہے

چھٹے ظلمتوں کے بادل ہوئی رحمتوں کی بارش
ہوئے خوش سبھی مسلماں رمضان آگیا ہے۔

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
فعلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
مصرع تقطیع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محترم نے رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے اور یہی درست ہے۔
جب کہ چند شعرا نے رمضان کے میم کو ساکن باندھا ۔
کیا ساکن باندھنا بھی درست ہے ؟اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے پہلے لفظ رمضان پر صرفی نگاہ ڈالتے ہیں۔

کسی لفظ کا درست تلفظ جاننے کے لیے پہلے سمجھنا ہے کہ لفظ کا مادہ کیا ہے۔

“عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی ہے۔رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ میں سورج کی گرمی کے سبب پتھر وغیرہ سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔چونکہ اس مہینہ میں سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے ریت اور پتھر وغیرہ اس قدر سخت گرم ہوجاتے تھے کہ ان پر چلنے والوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس وجہ سے عربوں نے لغت قدیمہ میں اس مہینہ کا نام رمضان رکھ دیا، یعنی پاؤں جلادینے والا مہینہ۔
رمضان کی اک اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے۔

لفظ “رمضان”بروزن۔ “فَعِلان” رمض کا مصدر ہے اور یہ باب ‘سمع’ کے ثلاثی مجرد سے ماخوذ ہے۔
لفظ “رمضان” گرچہ مصدر ہے تاہم اسم علم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے۔

رمضان کے مادہ رَمَضٌ پر غور کریں ۔میم مفتوح ہے یعنی علم عروض کی زبان میں میم متحرک ھے۔اگر رمض کا میم متحرک ہے تو رمضان کا میم بھی متحرک ہونا چاہیے۔

اب آئیے قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔سورہء بقرہ میں ہے:
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیت میں رمضان کا میم متحرک ہے۔
تو پھر شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے کیوں کہ قرآن صریح طور پر ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ رمضان کا میم متحرک ہے۔

اب آئیے کلام رضا میں لفظ رمضان کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اعلیٰ حضرت نے اپنے کسی شعر میں لفظ رمضان کا استعمال کیا ہو ۔اعلی’ حضرت کے ایک نعتیہ کلام میں مطلع یوں نظر آیا :

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مصرع کی تقطیع کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔تو پھر دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے۔ اردو شاعری میں سرکار اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر استاد کون ہوسکتا ہے؟ حدائق بخشش سے بہتر رہنمائی کون کرسکتا ہے؟

صرف لفظ رمضان نہیں ، بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت نے جہاں بھی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے وہاں قرآن کے الفاظ کو اسی وزن پر باندھا ہے جس وزن پر قرآن میں مرقوم ہے۔مثلا”:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم‌ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب‌اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیہم نے عدو کو بھی لیا دامن‌‌میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدایی دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محرم نہیں

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں ؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن‌ ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی’ ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

اب آئیے دیکھتے ہیں اردو کے دیگر اساتذہ نے لفظ رمضان کا کس انداز سے استعمال کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جمعہء آخر ماہ رمضاں ہے افضل
یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے
اس شعر میں اسماعیل میرٹھی نے بھی لفظ رمضان کو میم متحرک باندھا ہے۔

ریاض شفیق کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلال رمضاں توڑ غریبوں کی نہ آس
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے کوءی بھوک نہ پیاس
اس میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

رشک کا شعر دیکھیں:
عید ہر روز مناتے جو بگڑتا ہو فلک
ایک روزے سے ہیں ماہ رمضان میں ہم تم
اس شعر میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

اردو شاعری کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔ان کی مشہور نظم عید رمضان سے ماخوذ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
خوشی شب رات کی ہور عید رمضاں کا خوش نت نت
اے دونوں عیدا کیاں خوشیاں خدا تج کوں سدا دیتا

اتنے سارے حوالہ جات دیکھ کے بھی کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے؟

اب آئیے لغت کی طرف چلتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں رمضان کے میم کو مفتوح لکھا ہے۔فیروز اللغات میں بھی رمضان کے میم‌ کو مفتوح لکھا ہے۔پھر بھی آپ کہیں گے کہ رمضان کا میم ساکن درست ہے ؟

اب آئیے علم عروض کی طرف رخ کرتے ہیں۔
لفظ رمضان دو اسباب کا مجموعہ ہے۔رمَ اور ضان۔
رمَ ، سببِ ثقیل ہے ، ضان سبب متوسط ہے ، اور یہ بات جائز نہیں کہ سببِ ثقیل کا کوئی حرف ساکن کردیں۔

بعض لفظوں کے تلفظ میں اساتذہ نے چھوٹ دی ہے جیسا کہ کلمہ کی لام کو ساکن کرنا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کی ہ کو جب ساقط کرتے ہیں تو تین حرف پے در پے متحرک آتے ہیں جسے ثقل سمجھا گیا ہے ، اس لیے کلمہ میں لام کی تسکین روا سمجھی گئی ہے ۔
جبکہ رمضان میں کوئی حرف ساقط نہیں ہوتا کہ جس کے سبب بقیہ کلمہ کو ثقل سمجھا جاے ۔
اس لیے اساتذہ نے رمضان کے م کو ساکن نہیں باندھا۔

مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رمضان کا میم متحرک ہی درست ہے۔

کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں قرآن کی تو مانیں۔
مثال کے طور پر:
لفظ قرآن کا درست وزن کیا ہے ؟
مفعول۔
کیونکہ یہ قرآن نے سکھایا ہے۔
الرحمان
علم القرآن
لیکن میر تقی میر نے قرآن کو ایک شعر میں فعول کے وزن پر باندھا ، مثلا”:
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

لیکن ہم نے میر کو نہیں مانا ۔
قرآن کو مانا ۔
لفظ قرآن کو مفعول کے وزن پر باندھا ۔

یہی کیفیت لفظ رمضان کے ساتھ ہے۔
ہم قرآن کو مانیں گے۔ کسی اور کی متضاد رائے کو قبول نہیں کریں گے۔

تبصرہ – – – از – علامہ کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریروی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله الذي انزل القرآن علی حبیبہ سید الانس والجان والصلوۃ والسلام علی نبیہ الذي انزل علیہ الفرقان وعلی آلہ و صحبہ الی یوم المیزان

سوال __
نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یس وہی طہ

جواب_
طہ اور یس مقطعات سے ہیں جس کے معنی کسی کو معلوم نہیں اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضور ﷺ کے لیے اس کا اطلاق مناسب نہیں اس کی تحقیق کے لیے ایک تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے
فاقول و باللہ التوفیق

قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں
محکمات
متشابھات

محکمات وہ آیات ہیں جن میں کسی قسم کا احتمال و اشتباہ نہیں جملہ احکام میں انہی آیات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے

متشابھات وہ آیات ہیں جو چند وجوہ کا احتمال رکھتی ہیں ان میں سے کون سی وجہ مراد ہے یہ الله تعالٰی ہی جانتا ہے یا جس کو الله تعالٰی اس کا علم دے
جو گمراہ، بدمذہب اور ہواۓ نفس کے پابند ہوتے ہیں وہ انہی آیات متشبھت کے پیچھے پڑتے اور تاویل کا اہل نہ ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کے مطابق تاویلیں ڈھونڈتے ہیں (خزائن العرفان)

  قرآن مجید میں ہے ھو الذی انزل علیک الکتب منہ آیت محکمت ھن ام الکتاب واخر متشبھت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ الا الله 

وہی ہے جس نے تم پر یہ کتاب اتاری اس کی کچھ آیتیں صاف معنی رکھتی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں (محکمات) اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے (متشابہات) وہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمرہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے (کنزالایمان)

مذکورہ آیت سے محکمات و متشابہات کی ماہیت اور ان کے مابین فرق دن سے زیادہ روشن ہے اس باب میں مفسرین کے الفاظ گو مختلف ہیں مگر سب کا ما حصل ایک ہے ان شاء اللہ آگے ہم ذکر کریں گے

آیات متشابہات دو طرح کی ہیں
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثم المتشابہ علی نوعین نوع لایعلم معناہ اصلا کالمقطعات فی اوائل السور مثل الم حم فانہا یقطع کل کلمۃ منہا عن الاخر فی التکلم ولا یعلم معناہ و نوع یعلم معناہ لغۃ لکن لا یعلم مراد الله تعالٰی لان ظاہرہ یخالف المحکم مثل قولہ تعالٰی ید اللہ وجہ الله و الرحمن علی العرش استوی
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ متشابہ دو قسم ہیں
اول جس کے معنی جاننے کی اصلا کوئی صورت نہیں جیسے ابتدائے سور میں الم حم وغیرہا
دوم جس کا معنی لغۃً معلوم ہو لیکن اللہ تعالی کی مراد معلوم نہ ہو جیسے ید الله وجہ الله الرحمن علی العرش استوی

قسم اول مقطعات درج ذیل انتیس سورتوں میں ہیں
۱ بقرہ
۲ آل عمران
۳ اعراف
۴ یونس
۵ ہود
۶ یوسف
۷ رعد
۸ ابراہیم
۹ حجر
۱۰ مریم
۱۱ طہ
۱۲ شعراء
۱۳ نمل
۱۴ قصص
۱۵ عنکبوت
۱۶ روم
۱۷ لقمان
۱۸ سجدہ
۱۹ یس
۲۰ ص
۲۱ مومن
۲۲ فصلت(حم سجدہ)
۲۳ شوریٰ
۲۴ زخرف
۲۵ دخان
۲۶ جاثیہ
۲۷ احقاف
۲۸ ق
۲۹ قلم

یک حرفی مقطعات
ص
ق
ن

دو حرفی مقطعات
طہ
طس
یس
حم

تین حرفی مقطعات
الم
الر
طسم

چار حرفی مقطعات
المر
المص

پانچ حرفی
کھیعص

بعض مقطعات مکرر ہیں اور مختلف سورتوں میں ہیں

الرحمن علی العرش استوی آیات متشابہات کی دوسری قسم سے ہیں وہ تمام آیات جن میں الله تعالٰی کے لیے ید وجہ کا اطلاق آیا ہے وہ بھی اسی میں شامل ہیں یہاں ان آیات سے بحث مقصود نہیں

الرحمن علی العرش استوی کے معنی کی تحقیق فرماتے ہوۓ اعلی حضرت رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا
“اکثر نے تحریر فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعا مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں یہی بہتر کہ اس کا علم اللہ پر چھوڑ دیں ہمیں ہمارے رب نے آیات متشبھت کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ آمنا بہ کل من عند ربنا جو کچھ ہمارے مولی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے”
اعلی حضرت رحمہ اللہ کی یہ توضیح متشابہ کی دوسری قسم سے متعلق ہے جس کا ظاہر معلوم ہوتا ہے مقطعات تو وہ ہیں جن کا ظاہر بھی معلوم نہیں
اعلی حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ مذہب جمہور ائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم و اولی ہے اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں “
حضور صدر الافاضل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آتے ہیں ان کی نسبت قول راجح یہی ہے کہ وہ اسرار الہی اور متشبھت سے ہیں ان کی مراد الله اور رسول جانیں ہم اس کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں “
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مثال المتشابہ الحروف المقطعات فی اوائل السور و حکم المجمل والمتشابہ اعتقاد حقیۃ المراد بہ حتی یاتی البیان ” متشابہ کی مثال وہ حروف مقطعات ہیں جو اوائل سور میں ہیں مجمل اور متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی مراد کے حق ہونے کا اعتقاد رکھیں

فتح الباری میں ہے “المحکم من القرآن ماوضح معناہ والمتشابہ نقیضہ ” یعنی محکم وہ ہے جس کا معنی واضح ہو اور متشابہ اس کی ضد ہے

اسی میں ہے
المحکم ما عرف المراد منہ اما بالظہور واما بالتاویل والمتشابہ مااستاثر الله تعالٰی بعلمہ کقیام الساعة و خروج الدجال و الحروف المقطعۃ فی اوائل السور محکم وہ ہے جس کی مراد ظہور یا تاویل سے جانی جا سکے اور متشابہ وہ ہے جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا جسے قیام ساعت خروج دجال اور اوائل السور میں حروف مقطعات
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے

تفسیر بغوی میں ہے المحکم ما لا یحتمل من التاویل غیر وجہ واحد والمتشابہ ما احتمل وجوھا محکم وہ ہے جس میں وجہ واحد کے سوا اور کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو اور متشابہ وہ ہے جو چند وجوہ کا محتمل ہو
اسی طرح الاتقان میں بھی ہے

اسی میں ہے “وقیل المحکمت مااوقف الله الخلق عن معناہ والمتشابہ ما استاثر الله تعالٰی بعلمہ لاسبیل لاحد الی علمہ ” کہا گیا کہ محکمات وہ ہیں جن کے معانی پر الله تعالٰی نے مخلوق کو آگاہی بخشی اور متشابہ وہ ہیں جن کے علم کو الله تعالٰی نے اپنے لیے خاص کر لیا

خازن میں ہے “ان حروف الھجاء فی اوائل السور من المتشابہ الذی استاثر الله بعلمہ وھی سر الله فی القرآن فنحن نؤمن بظاہرھا و نکل العلم فیھا الی اللہ تعالی”
اوائل سور میں جو حروف مقطعہ ہیں وہ متشابہ سے ہیں جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کرلیا یہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا راز ہے تو ہم اس کے ظاہر پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کر دیتے ہیں

حروف مقطعات کی تفسیر ممکن نہیں

ابن کثیر میں ہے “اختلف المفسرون فی الحروف المقطعۃ اللتی فی اوائل السور فمنہم من قال ھی مما استاثر الله بعلمہ فردوا علمہا الی اللہ ولم یفسروھا”
اوائل سور میں جو حروف مقطعات ہیں ان کے باب میں مفسرین مختلف ہیں بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس کے علم کو اپنے لیے خاص کر لیا تو انہوں نے اس کا علم الله تعالٰی کی طرف پھیر دیا اور اس کی تفسیر نہیں کی

اتقان میں ہے “و جمہور اھلِ السنۃ منہم السلف واھل الحدیث علی الایمان بہا وتفویض معناھا المراد منھا الی اللہ تعالی ولا نفسرھا “
جمہور اہل سنت ہمارے اسلاف اور محدثین کا مذہب یہی ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کے معنی مراد کا علم الله تعالٰی کے سپرد کر دیں اور ہم اس کی تفسیر نہ کریں

اتقان میں ہے “واما ما لایعلمہ الا الله تعالٰی فھو یجری مجری الغیوب نحو الآی المتضمنۃ قیام الساعة وتفسیر الروح و الحروف المقطعۃ وکل متشابہ فی القرآن عند اھل الحق فلا مساغ للاجتہاد فی تفسیرہ”
جن کا علم اللہ ہی کو ہے وہ غیوب کی منزل میں ہیں جیسے وہ ایات جو مشتمل ہیں قیام الساعہ پر اور روح، حروف مقطعات اور جملہ متشابہات قرآنیہ کی تفسیر تو ان کی تفسیر میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں

راسخون فی العلم اور آیات متشابہات

امامِ شافعی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک راسخون فی العلم کے لیے متشابہات کے معانی کا علم ثابت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنیہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم الخَ میں الراسخون اسم جلالت پر معطوف ہے

اتقان میں ہے “اختلف ھل المتشابہ مما یمکن الاطلاع علی علمہ اولایعلمہ الا الله علی قولین منشؤھما الاختلاف فی قولہ والراسخون فی العلم ھل ھو معطوف ویقولون حال او مبتدأ خبرہ یقولون والواؤ للاستیناف ” کیا متشابہ کے علم پر خلق کی اطلاع یابی ممکن ہے؟ کیا اس کا علم اللہ کے لیے خاص ہے؟ یہ مختلف فیہ ہے اختلاف کا منشا یہ ہے کہ کیا الراسخون فی العلم اسم جلالت پر معطوف ہے اور یقولون حال ہے یا الراسخون مبتدا ہے جس کی خبر یقولون ہے اور واؤ مستانفہ ہے

اسی میں ہے “وعلی الاول طائفۃ یسیرۃ منہم مجاھد وھو روایۃ عن ابن عباس فاخرج ابن المنذر من طریق مجاھد عن ابن عباس فی قولہ وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم قال انا ممن یعلم تاویلہ “
پہلا مذہب (کہ راسخون علم رکھتے ہیں) ایک قلیل جماعت کا ہے ان ہی میں حضرت مجاہد ہیں عبد اللہ ابن عباس سے بھی یہ ایک روایت ہے ابن منذر نے ابن عباس سے بہ طریق مجاہد تخریج کی وما یعلم تاویلہ الا الله والراسخون فی العلم کے متعلق ابنِ عباس نے فرمایا میں انہی میں سے ہوں جو اس کی تاویل جانتے ہیں

اسی میں ہے “واختار ھذا القول النووی فقال فی شرح مسلم انہ الاصح لانہ یبعد ان یخاطب الله عبادہ بما لاسبیل لاحد من الخلق الی معرفتہ وقال ابن الحاجب انہ الظاہر”
امامِ نووی نے اسی قول کو اختیار کیا شرح مسلم میں فرمایا یہی اصح ہے کیوں کہ یہ بعید ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے اس طرح خطاب فرماۓ کہ کسی کو اس کی معرفت حاصل نہ ہو سکے ابنِ حاجب نے کہا یہی ظاہر ہے

اس کے برخلاف اکثر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ راسخون فی العلم بھی متشابہات کے معانی کا علم نہیں رکھتے

اتقان میں ہے ” واما الاکثرون من الصحابة والتابعین واتباعہم ومن بعدھم خصوصاً اہل السنۃ فذھبوا الی الثانی وھو اصح الروایات عن ابن عباس قال ابن السمعانی لم یذھب الی القول الاول الا شرذمۃ قلیلۃ واختارہ العتبی” صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اکثر مشائخین بالخصوص اہلِ سنت دوسرے قول (راسخون نہیں جانتے) کی طرف گئے یہی ابنِ عباس سے اصح روایت ہے ابنِ سمعانی نے کہا قول اول کی طرف مٹھی بھر لوگ گئے ہیں یہی امامِ عتبی کا مختار ہے

ترجیح مذہب __

یہ جو دوسرا قول ہے جو اکثر مشائخ کا مذہب ہے یہی راجح ہے اس کی ترجیح متعدد دلائل سے ظاہر ہے

اتقان میں ہے ” ویدل لصحۃ مذہب الاکثرین ما اخرجہ عبد الرزاق فی تفسیرہ والحاکم فی مستدرکہ (وھو صحیح) عن ابن عباس انہ کان یقرأ وما یعلم تاویلہ الا ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ فھذا یدل علی ان الواؤ للاستیناف “
مذہب اکثرین کی صحت کی دلیل وہ حدیث ہے عبد الرزاق نے اپنی تفسیر اور حاکم نے مستدرک میں جس کی تخریج کی (وھو صحیح ) ابن عباس سے مروی ہے وہ وما یعلم تاویلہ الا الله ویقول الراسخون فی العلم آمنا بہ پڑھتے تھے یہ حدیث واؤ کے مستانفہ ہونے پر دلیل ہے

اسی میں ہے “ویؤید ذلک ان الآیۃ دلت علی ذم متبعی المتشابہ ووصفہم بالزیغ وابتغاء الفتنۃ وعلی مدح الذین فوضواالعلم الی اللہ تعالی وسلموا الیہ کما مدح الله المؤمنین بالغیب وحکی الفراء ان فی قرأۃ ابی ابن کعب ایضا ویقول الراسخون”
اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ آیت میں متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کی مذمت کی گئی کہا گیا کہ وہ کجی اختیار کرنے اور فتنہ چاہنے والے ہیں اور آیت میں ان کی مدح کی گئی جنہوں نے اس کا علم اللہ تعالی پر چھوڑ دیا جیسا کہ اللہ نے مومنین بالغیب کی مدح فرمائی اور فراء نے حکایت کی کہ ابی ابنِ کعب کی قرات میں بھی ہے ویقول الراسخون

اسی میں ہے “واخرج ابن ابی داوُد فی المصاحف من طریق الاعمش قال فی قراۃ ابنِ مسعود وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ”
مصاحف میں ابنِ ابی داوُد نے بطریق اعمش تخریج کی کہا ابنِ مسعود کی قرات میں ہے وان تاویلہ الا عند الله والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ

اسی میں ہے ” واخرج الشیخان وغیرہما عن عائشۃ قالت تلا رسول الله ﷺ ھذہ الآیۃ ھو الذی انزل علیک الکتاب الی قولہ اولوالالباب قالت قال رسول الله ﷺ فاذا رأيت الذین یتبعون ما تشابہ منہ فاولئک الذین سمی اللہ فاحذرھم”
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے یہ آیت پڑھی ھو الذی انزل علیک الکتاب اولوالالباب تک فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب تو متشابہ کے پیچھے پڑنے والوں کو دیکھے (تو جان لے ) یہی وہ ہیں جن کو اللہ نے بیان کیا پھر تو ان سے مجتنب رہ

اسی میں ہے ” عن عائشۃ قالت کان رسوخہم فی العلم ان آمنوا بمتشابہ ولا یعلمونہ”
حضرت عائشہ فرماتی ہیں ان کا رسوخ فی العلم یہ تھا کہ وہ متشابہ پر ایمان لائے اور انہیں اس کا علم نہیں

دلائل عقلیہ سے بھی علم متشابہات ممکن نہیں

اتقان میں ہے ” واما اثبات المعنی المراد فلایمکن بالعقل لان طریق ذلک ترجیح مجاز علی مجاز وتاویل علی تاویل وذلک الترجیح لایمکن الا بالدلیل اللفظی والدلیل اللفظی ضعیف لایفید الا الظن والظن لایعول علیہ فی المسائل الاصولیۃ القطعیۃ فلھذا اختار الائمۃ المحققون من السلف والخلف بعد اقامۃ الدلیل القاطع علی ان حمل اللفظ علی ظاہرہ محال ترک الخوض فی تعیین التاویل “
عقل سے معنی مراد کا اثبات ممکن نہیں کیوں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مجاز کو دوسرے مجاز اور ایک تاویل کو دوسری تاویل پر ترجیح دیں اور یہ دلیل لفظی ہی سے ممکن ہے اور دلیل لفظی ضعیف ہے جو ظن کا فائدہ دے گی جب کہ مسائل اصولیہ قطعیہ میں ظن پر اعتماد نہیں اسی لیے ائمۂ محققین نے اس بات پر قطعی دلیل قائم ہوجانے کے بعد کہ لفظ کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا محال ہے تاویل کی تعیین میں ترکِ غور و خوض کو مختار جانا

صورت تطبیق_

حضرت ملا جیون رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ھذا نزاع لفظی لان من قال یعلم الراسخون تاویلہ یریدون یعلمون تاویلہ الظنی ومن قال لایعلم الراسخون تاویلہ یریدون لایعلمون التاویل الحق الذی یجب ان یعتقد علیہ”
یہ لفظی نزاع ہے جنہوں نے کہا کہ راسخون فی العلم اس کی تاویل جانتے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ ظنی تاویل جانتے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ یہ تاویل نہیں جانتے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاویل حق واجب الاعتقاد کا علم نہیں رکھتے

مذکورہ جملہ عبارات کو دیکھیں پڑھیں اور سمجھیں تو یہ واضح ہے کہ متشابہات کی تاویل جو قطعی یقینی واجب الاعتقاد ہو راسخون فی العلم پر بھی روشن نہیں
یہی وجہ ہے کہ مقطعات کی تاویلات میں مفسرین کی آرا مختلف ہیں

ابنِ کثیر میں ہے”ومنہم من فسرہا واختلف ھؤلاء فی معناہا فقال بعضہم ھی اسماء السور قال الزمخشري وعلیہ اطباق الاکثر وقیل ھی اسم من اسماء اللہ تعالی “
بعض نے مقطعات کی تفسیر کی مگر بیانِ معنی میں ان کے درمیان اختلاف ہوگیا ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں زمخشری نے کہا اکثر کی یہی رائے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں

خازن میں ہے “وقال آخرون من اھل العلم ھی معرفۃ المعانی ثم اختلفوا فیھا فقیل کل حرف منھا مفتاح اسم من اسماء اللہ تعالی،،،،،،، وقیل ھی اسماء اللہ مقطعۃ لوعلم الناس تالیفہا لعلموا اسم اللہ الاعظم وقیل اسماء السور وبہ قال جماعۃ من المحققین وقال ابن عباس ھی اقسام “
بعض اہلِ علم نے فرمایا یہ معانی کی معرفت ہے پھر ان میں باہم اختلاف ہوا کہا گیا ان میں سے ہر حرف کسی نامِ خدا کے لیے مفتاح ہے __ ایک قول یہ ہے کہ یہ اسماۓ الہیہ ہیں جدا جدا اگر لوگ اس کی تالیف جان لیں تو وہ اسمِ اعظم جان لیں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سورتوں کے نام ہیں محققین کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے ابنِ عباس نے فرمایا یہ قسمیں ہیں

اتقان میں ہے “عن مجاہد قال فواتح السور اسماء من اسماء الرب ” مجاہد سے مروی ہے فرمایا فواتح السور اسماۓ الہیہ سے ہیں

اسی میں ہے “قیل انھا اسم الاعظم الا انہ لانعرف تالیفہ منھا” ایک قول یہ ہے کہ یہ اسمِ اعظم ہیں مگر ہم کو ان کی تالیف معلوم نہیں

اسی میں ہے “عن ابنِ عباس الم طسم و ص واشباھہا قسم اقسم اللہ تعالی بہ وھو من اسماء اللہ” ابنِ عباس سے مروی ہے کہ الم طسم ص اور اس کے نظائر قسم ہیں جو اللہ تعالی نے یاد فرمائی اور وہ اسماۓ الہیہ سے ہیں

اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للقرآن کالفرقان والذکر اخرجہ عبد الرزاق عن قتادۃ واخرجہ ابن ابی حاتم بلفظ کل ھجاء فی القرآن فھو اسم من اسماء القرآن ” ایک قول یہ ہے کہ یہ بھی فرقان اور ذکر کی طرح قرآن کے نام ہیں اس کی تخریج عبد الرزاق نے قتادہ سے کی اور ابنِ ابی حاتم نے ان الفاظ کے ساتھ تخریج کی کہ قرآن مجید میں حرفِ ہجا قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے

اسی میں ہے ” وقیل ھی اسماء للسور نقلہ الماوردی وغیرہ عن زید بن اسلم ونسبہ صاحب الکشاف الی الاکثر وقیل ھو فواتح للسور”
ایک قول یہ ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں ماوردی وغیرہ نے زید ابنِ اسلم سے اسے نقل کیا صاحبِ کشاف نے اسے اکثر کی طرف منسوب کیا ایک قول یہ ہے کہ یہ فواتحِ سُوَر ہیں

(۱) یہ اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ سورتوں کے نام ہیں
(۳) یہ اساسمِ اعظم ہیں
(۴) یہ قسمیں ہیں
(۵) یہ قرآن کے نام ہیں
مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے یہ مختلف اقوال ہیں جو ابھی ہم نے ذکر کیے
اتقان میں ہے “وقد تحصل لی فیھا عشرون قولاً وازید ولااعرف احدا یحکم علیہا بعلم”
اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو

یعنی مقطعات کے ذیل میں مفسرین کے اقوال حتمی اور قطعی نہیں ہیں بھلا قطعیت کہاں سے آۓ جب ان کا علم راسخون فی العلم کو بھی نہیں

یس اور طہ بھی مقطعات سے ہیں اسی سے ظاہر ہے کہ ان کے معانی کا قطعی علم کسی کو نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ ان کے معانی کے بیان میں بھی مفسرین کی آرا مختلف ہیں

اتقان میں ہے “فقیل ان طہ و یس بمعنی یارجل او یا محمد او یا انسان وقیل ھما اسمان من اسماء النبی قال الکرمانی فی غرائبہ ویقویہ فی یس قرأۃ یسین بفتح النون قولہ ال یاسین وقیل طہ ای طأ الارض فیکون فعل امر والھاء مفعول”
ایک قول ہے کہ طہ اور یس کا معنی ہے یا رجل یا یا محمد یا یا انسان ایک قول یہ ہے کہ دونوں اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں کرمانی نے غرائب میں کہا اور اس کی تقویت یس میں اس کی قرات یسین بفتحِ النون اور ال یاسین کے قول سے ہوتی ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے طأ الارض تو طا فعل امر ہے اور ھا مفعول

اسی میں ہے “عن ابنِ عباس طہ ھو کقولک افصل وقیل طہ ای یا بدر لان التاء متسعۃ والھاء بخمسۃ فذلک اربعۃ عشر اشارۃ الی البدر لانہ یتم فیھا وقیل فی قولہ یس ای یا سید المرسلین”
ابنِ عباس سے مروی ہے کہ طہ وہ تیرے قول افصل کی طرح ہے ایک قول یہ ہے کہ طہ کا معنی ہے یا بدر اس لیے کہ ط کا نمبر 9 ہے اور ہ کا نمبر 5 تو یہ ہوا 14 اس سے بدر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ چودہویں شب میں مکمل ہوتا ہے یس میں ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی ہے یا سید المرسلین

کشاف میں ہے ” قلت وذکر الماوردی عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان اللہ تعالی اسمانی فی القرآن سبعة اسماء محمد و احمد و طہ و یس و المزمل و المدثر و عبد اللہ قالہ القاضی و حکی ابو عبد الرحمن السلمی عن جعفر الصادق انہ اراد یا سید مخاطبۃ لنبیہ ﷺ وعن ابنِ عباس یس یا انسان اراد محمدا ﷺ وقال ھو قسم وھو من اسماء الله سبحانہ وقال الزجاج معناہ یا محمد وقیل یا رجل وقیل یا انسان وعن ابن الحنفیہ یس یا محمد وعن کعب یس قسم اقسم اللہ تعالی بہ قبل ان یخلق السماء والارض بالفی عام قال یا محمد انک لمن المرسلین ثم قال و القرآن الحکیم “
میں کہتا ہوں ماوردی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ میں نے سرکار دوعالم ﷺ کو سنا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں میرے سات نام بیان کیے محمد، احمد، طہ، یس، مزمل، مدثر اور عبد اللہ قاضی نے یہ بات کہی ابو عبد الرحمن سلمی نے حضرت امام جعفر صادق سے حکایت کی کہ یاسید مراد ہے ابنِ عباس سے مروی ہے کہ یس یعنی اے انسان مراد آقا ﷺ ہیں اور کہا وہ قسم ہے اور اسماۓ الہیہ سے ہے زجاج نے کہا اس کا معنی ہے اے محمد ایک قول یہ ہے کہ یا رجل اور ایک قول ہے یا انسان اور ابنِ حنیفہ سے مروی ہے یس یعنی اے محمد اور کعب سے مروی ہے یس قسم ہے جو اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دوسو سال قبل یاد فرمائی کہا اے محمد بیشک تو مرسلین سے ہے پھر کہا و القرآن الحکیم

اسی میں ہے ” وجعلہ سیبویہ اسما للسورۃ وقد جاء فی تفسیرہا یا رجل وروی ابن عباس وابن مسعود وغیرھما ان معناہ یا انسان “
سیبویہ کے نزدیک یہ سورہ کا نام ہے اور اس کی تفسیر میں یا رجل بھی وارد ہے ابنِ عباس اور ابنِ مسعود وغیرھما سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے اے انسان

ان عبارات سے یس اور طہ کے درج ذیل معانی کا علم ہوا
(۱) یہ دونوں اسماۓ الہیہ سے ہیں
(۲) یہ دونوں اسماۓ نبی سے ہیں
(۳) یہ دونوں قسم ہیں
(۴) طہ کا معنی ہے طأ الارض
اس صورت میں طأ فعل امر ہوگا اور ھا مفعول
(۵) طہ کا معنی ہے اے بدر
(۶) یس کا معنی ہے اے سید
(۷) ان دونوں کے معانی ہیں اے مرد اے محمد اے انسان
اخیر کی تین صورتیں تسلیم کی جائیں تو ظاہر ہے کہ طہ میں نام اقدس صرف ھا ہے اور طا حرف ندا اسی طرح یس میں نام اقدس صرف س ہے اور یا حرف ندا

مواہب شریف میں ہے “مفسرین کا یس کے معنی میں اختلاف ہے اور اس سلسلے میں چند اقوال ہیں قول اول یہ ہے کہ اے انسان یہ قبیلہ بنو طے کی لغت ہے اور حضرت ابنِ عباس، حضرت حسن، حضرت عکرمہ، ضحاک اور سعید ابنِ جبیر کا یہی قول ہے بعض نے کہا یہ حبشہ کی لغت ہے کہا گیا کہ بنو کلب کی لغت ہے اور کلی نے کہا یہ سریانی زبان میں ہے_
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے کہا اس کی تقریر یہ ہے کہ انسان کی تصغیر انیسین آتی ہے گویا اس کا حرف اولین حذف کرکے پچھلا حصہ لے لیا گیا اور یس پڑھا گیا اس صورت میں نبی کریم ﷺ کو خطاب ہوگا جس پر انک لمن المرسلین کے الفاظ دلالت کررہے ہیں_”
ابوحبان نے اس تفسیر کو رد کردیا جس کی ایک وجہ مواہب شریف میں بیان کی گئی کہ ان اسماء میں تصغیر جائز نہیں کیوں کہ اس میں تحقیر کا معنی پایا جاتا ہے اور حق نبوت میں یہ بات منع ہے

مواہب شریف میں ہے ” کہا گیا کہ یس کا معنی یا محمد ہے ابنِ حنیفہ اور ضحاک نے یہ بات کہی ایک قول کے مطابق جو ابو العالیہ نے کہا اس کا معنی یا رجل ہے ایک قول یہ ہے کہ یہ قرآن کے پاک ناموں میں سے ایک نام ہے یہ حضرت قتادہ کا قول ہے حضرت ابو وراق سے منقول ہے کہ اس کا معنی یا سید البشر ہے حضرت جعفر صادق سے مروی ہے کہ اس سے یاسید مراد ہے نبی کریم ﷺ سے خطاب کیا گیا “

اسی میں ہے “حضرت طلحہ حضرت ابنِ عباس سے روایت کرتے ہیں کہ یہ ایک قسم ہے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ قسم یاد کی اور یہ اللہ تعالی کے ناموں میں سے ہے __ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے دوہزار سال قبل اس کے ساتھ قسم یاد کی کہ اے محمد بےشک آپ رسولوں میں سے ہیں پھر فرمایا و القرآن الحکیم انک لمن المرسلین “

مواہب شریف کی مذکورہ عبارات سے یس کے چند معانی کا علم ہوا
(۱) اے محمد
(۲) اے مرد
(۳) اے سید البشر
(۴) اے انسان
(۵)یہ قرآن مجید کا ایک نام ہے
(۶) یہ ایک قسم ہے
(۷) اللہ تعالی کا نام ہے

طہ کی تفسیر میں بھی مفسرین کا یوں ہی اختلاف ہے_
جلالین میں ہے “طہ الله اعلم بمرادہ بذلک”
اس کے حاشیہ پر ہے” ای ان ھذہ حروف مقطعۃ استاثر الله بعلمھا وقیل ان طہ اسم لہ ﷺ حذف فیہ حرف الندا وقیل فعل امر اصلہ طاھا ای طأ الارض بقدمیک معا خوطب بہ “
یعنی یہ حروف مقطعہ ہیں ان کے علم کو اللہ نے اپنے لیے خاص کرلیا ایک قول یہ ہے کہ یہ حضور ﷺ کا نام ہے یہاں حرف ندا محذوف ہے ایک قول یہ ہے کہ فعل امر ہے اس کی اصل طاھا ہے یعنی ایک ساتھ دونوں قدم زمین پر رکھیں اس سے مخاطب حضور ﷺ ہیں_

یس کے اول کے چار معانی پر غور کریں، اس سے ظاہر ہے کہ حضور اقدسﷺ کا نام پاک یس نہیں بلکہ س ہے کیونکہ یس کی ی حرف ندا ہے اور س منادی ہے

یس اور طہ کی تفسیر کے ذیل میں کشاف کی عبارت بھی فقیر کے پیش نظر ہے اس کا حاصل بھی قریب قریب یہی ہے جو ابھی ذکر کیا

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ طہ، یس اور مقطعات کے باب میں مفسرین کے یہ اقوال “بہ زمرۂ تاویلات” ہیں اور ان تاویلات میں سے کوئی تاویل قطعی نہیں ہے
اعلی حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا “تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں”
الاتقان کی عبارت گزر چکی”قد تحصل لی فیھا عشرون قولاً او ازید ولا اعرف احدا یحکم علیھا بعلم ” اس تعلق سے مجھے بیس سے زائد قول ملے مجھے نہیں معلوم کہ کسی معنی پر کسی نے قطعیت کے ساتھ حکم لگایا ہو_

تفسیر وتاویل کے درمیان فرق_

خازن میں ہے ” فالتفسیر اصلہ فی اللغۃ من الفسر وھو کشف ما غطی وھو بیان المعنی المعقولۃ فکل ما یعرف بہ الشئی ومعناہ فھو تفسیر وقد یقال فیما یختص بمفردات الالفاظ وغریبھا تفسیر واما التاویل فاشتقاقہ من الاول وھو الرجوع الی الاصل والمراد منہ بیان غایتہ المقصودۃ منہ فالتاویل بیان المعنی والوجوہ المستنبطۃ الموافقۃ للفظ الآیۃ “
تفسیر لغت میں فسر سے مشتق ہے اور وہ کشف مبہم ہے اور وہ معانی معقولہ کا بیان ہے تو جس سے شئی اور اس کے معنی کی معرفت ہو وہ تفسیر ہے ایک قول یہ ہے کہ مفرد اور غریب الفاظ کی شرح تفسیر ہے اور تاویل اول سے مشتق ہے اور وہ اصل کی طرف رجوع ہے اور اس سے مراد اس کی غرض مقصود کا بیان ہے تو تاویل ان مختلف معانی و وجوہ مستبطہ کا نام ہے جو لفظ آیت کے موافق ہوں۔

اسی میں ہے ” والفرق بین التفسیر والتاویل ان التفسیر علی النقل المسموع والتاویل یتوقف علی الفہم الصحیح واللہ اعلم”
تفسیر وتاویل کے درمیان فرق یہ ہے کہ تفسیر کی اساس نقل مسموع پر ہے اور تاویل فہم صحیح پر موقوف ہے__

اسی میں ہے “فاماالتاویل وھو صرف الایۃ علی طریق الاستنباط الی معنی یلیق بھا محتمل لما قبلہا وما بعدھا وغیر مخالف للکتاب والسنۃ فقد رخص فیہ اھل العلم فان الصحابة قد فسروا القرآن واختلفوا فی تفسیرہ علی وجوہ ولیس کل ما قالوا سمعوہ من النبی ﷺ
تاویل آیت کو بطریق استنباط ایسے معنی پر محمول کرنا ہے جو اس کے شایان ہو اپنے ماقبل و مابعد کے موافق ہو اور کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو اہلِ علم نے ایسی تاویل کی اجازت دی صحابہ نے قرآن کے معانی بیان کیے اور بیان معنی میں بوجوہ باہم مختلف ہوۓ یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے جو کہا تو اسے نبی کریم ﷺ سے ضرور سنا ہی ہو_

ان عبارات سے ظاہر ہے کہ مغلقات کی تشریح مفردات و غرائب کی وضاحت اور معانی معقولہ کا بیان تفسیر ہے جس کی بنا نقل مسموع پر ہوتی ہے اور تاویل کی یہ شان نہیں_

طہ اور یس کے جو معانی ماقبل میں بیان کیے گئے ان کی بنا نقل مسموع پر نہیں اسی لیے ہم نے کہا کہ یہ سب اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں

اصولِ تفسیر کی تفہیم سے یہ مسئلہ مزید روشن ہوجاتا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں تفسیر کے بعض اصول بیان کردئیے جائیں

اتقان میں ہے ” للناظر فی القرآن لطلب التفسیر ماخذ کثیرۃ امہاتہا اربعۃ الاول النقل عن النبی ﷺ وھذا ھو الطراز المعلم لکن یجب الحذر من الضعیف منہ والموضوع فانہ کثیر ولھذا قال احمد ثلث کتاب لا اصل لہا المغازی والملاحم والتفسیر قال المحققون من اصحابِہ مرادہ ان الغالب انہ لیس لہ اسانید صحاح متصلۃ والا فقد صح من ذلک کثیر _ قلت الذی صح من ذلک قلیل جدا بل اصل المرفوع منہ فی غایۃ القلۃ ” بہ غرض تفسیر قرآن میں غور وفکر کرنے والے کے لیے کثیر ماٰخذ ہیں جن میں سے چار اصل ہیں _ اول نبی کریم ﷺ سے نقل معلم کا یہی طریقہ ہے لیکن احتیاط واجب ہے کہ یہاں ضعیف اور موضوع بہ کثرت ہیں اسی وجہ سے امام احمد نے فرمایا تین کتابیں ہیں جن کی اصل نہیں مغازی ملاحم اور تفسیر امام احمد کے اصحاب محققین نے فرمایا مراد یہ ہے کہ اکثر وہ حدیثیں ہیں جن کی صحیح متصل اسانید نہیں ہیں ورنہ تو بہت سی حدیثیں صحیح السند بھی ہیں_ میں کہتا ہوں وہ جو صحیح السند ہیں بہت کم ہیں بلکہ اصل مرفوع انتہائی کم ہیں_

اسی میں ہے “الثانی الاخذ بقول الصحابی فان تفسیرہ عندہم بمنزلۃ المرفوع الی النبی ﷺ کما قالہ الحاکم فی مستدرکہ”
دوم صحابی کے قول کو اخذ کرنا کہ ان کی تفسیر احادیثِ مرفوعہ کی منزل میں ہیں جیسا کہ امام حاکم نے مستدرک میں فرمایا_

اسی میں ہے ” ثم قال الزرکشی وفی الرجوع الی قول التابعی روایتان عن احمد واختار ابن عقیل المنع و حکوہ عن شعبۃ لکن عمل المفسرین علی خلافہ فقد حکوا فی کتبھم اقوالہم لان غالبھا تلقوھا من الصحابة “
پھر زرکشی نے کہا تابعی کے قول کی طرف رجوع کرنے میں امام احمد سے دو روایتیں ہیں ابنِ عقیل نے منع کو مختار کہا انہوں نے امام شعبہ سے اسی کی حکایت کی لیکن مفسرین کا عمل اس کے بر خلاف ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ان کے اقوال کی حکایت کی کیوں کہ تابعین نے زیادہ تر صحابہ ہی سے حاصل کیا_

اسی میں ہے ” الثالث الاخذ بمطلق اللغۃ فان القرآن نزل بلسان عربی وھذا قد ذکرہ جماعۃ و نص علیہ احمد فی مواضع “
سوم مطلق لغت سے اخذ کرنا کیوں کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ایک جماعت نے اسے ذکر کیا اور امام احمد نے چند مقامات پر اسی کی تنصیص کی _

اسی میں ہے “الرابع التفسیر بمقتضی من معنی الکلام والمقتضب من قوۃ الشرع “
چہارم مقتضائے کلام اور پختہ دلائل شرع سے تفسیر کرنا

تفسیر کے یہ چار مآخذ ہیں
مقطعات کے ذیل میں جو مفسرین کے اقوال ہیں ان کے مآخذ کیا ہیں ؟ غور کیجیے تو یہ عقدہ کھل جائے گا اور یہ دعویٰ روشن ہوجاۓ گا کہ یہ اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں_

یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بسا اوقات تاویلات تفسیر بالرائے کی حد میں داخل ہوجاتی ہیں اتقان شریف میں تفسیر بالرائے کی پانچ صورتیں بیان کی دوسری صورت کا بیان ان لفظوں کے ساتھ کیا ” الثانی تفسیر المتشابہ الذی لا یعلمہ الا الله ” ان آیات متشبھت کی تفسیر کرنا جن کا علم اللہ ہی کو ہے تفسیر بالرائے ہے_

اشکال اور اس کا جواب_

اشکال اول
یہاں آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ طہ اور یس کے متعلق مفسرین نے جو یہ کہا کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں تو یہ تفسیر ہے تاویل نہیں کہ یہ نقل سے ثابت ہے _
اول _ ماقبل میں تفسیر کشاف کے حوالے سے ماوردی کی حدیث گزری کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں میرے سات نام بیان کیے محمد احمد طہ یس مزمل مدثر اور عبداللہ یہ حدیث روح البیان میں بھی ذکر کی گئی

مطالع المسرات میں ہے فروی النقاش عنہ ﷺ انہ قال لی فی القرآن سبعة اسماء فذکر منہا طہ
نقاش نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا قرآن مجید میں میرے سات نام ہیں پھر حضور ﷺ نے ان میں طہ کا ذکر کیا

اسی میں ہے فاخرج ابن عدی فی الکامل عن علی و جابر واسامۃ بن زید وابن عباس و عائشۃ وابو نعیم فی الدلائل وابن مردویہ فی تفسیرہ عن ابی الطفیل رضی اللہ تعالی عنہم عن رسول اللہ ﷺ انہ قال لی عند ربی عشرۃ اسماء ذکر منہا یس

ابن عدی نے حضرت علی، حضرت جابر، حضرت اسامہ بن زید، حضرت عباس اور حضرت عائشہ سے کامل میں تخریج کی اور ابو نعیم نے دلائل میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں تخریج کی کہ حضرت ابو طفیل نے حضور ﷺ سے روایت کی فرمایا میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں پھر انہیں میں یس کا ذکر کیا

دوم _ در منثور میں ہے” عن اشھب قال سئلت مالک بن انس اینبغی لاحد ان ینتسمی بہ یس فقال مااراہ ینبغی یقول اللہ یس و القرآن الحکیم یقول ھذا اسمی تسمیت بہ”
حضرت اشہب سے مروی ہے فرمایا میں نے حضرت مالک بن انس سے دریافت کیا کیا کسی کا نام یس رکھنا مناسب ہے؟ فرمایا میں مناسب نہیں سمجھتا اللہ تعالی فرماتا ہے یس و القرآن الحکیم فرماتے ہیں یہ میرا نام ہے میں اس سے پکارا گیا

سوم__ در منثور میں ہے “عن ابی الطفیل قال قال رسول اللہ ﷺ ان لی عند ربی عشرۃ اسماء قال ابو الطفیل حفظت منہا ثمانیۃ محمد احمد ابو القاسم والفاتح والخاتم والماحی والعاقب والحاشر وزعم سیف ان ابا جعفر قال الاسمان الباقیان طہ و یس”
ابو الطفیل سے مروی ہے کہا رسول الله ﷺ نے فرمایا یقیناً میرے رب کے پاس میرے دس نام ہیں محمد احمد ابو القاسم فاتح خاتم ماحی عاقب حاشر سیف نے گمان کیا کہ ابو جعفر نے کہا دو باقی نام ہیں طہ اور یس

ظاہر ہے کہ جب نقل موجود ہے تو طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا تفسیرا ثابت ہوا نہ کہ تاویلا__

جواب
یہاں صرف اتنا کہ دینا کافی نہیں کہ نقل موجود ہے بلکہ اس سے آگے اب اس کی سند کی تحقیق بھی لازم ہے

اتقان میں ہے “واعلم ان القرآن قسمان قسم ورد تفسیرہ بالنقل وقسم لم یرد والاول اما ان یرد عن النبی ﷺ او الصحابة او روؤس التابعین فالاول یبحث فیہ عن صحۃ السند والثانی ینظر فی تفسیر الصحابی فان فسرہ من حیث اللغۃ فھم اہل اللسان فلا شک فی اعتمادہم او بما شاہدہ من الاسباب والقرائن فلا شک فیہ والا وجب الاجتہاد واما مالم یرد فیہ نقل فھو قلیل و طریق التوصل الی فہمہ النظر الی مفردات الالفاظ من لغۃ العرب و مدلولاتہا واستعمالہا بحسب السیاق “
جان لیجیے قرآن دو قسم ہیں اول جس کی تفسیر نقل سے وارد ہے ثانی جس میں نقل وارد نہیں
اول یا تو نقل نبی کریم ﷺ سے وارد ہے یا صحابہ سے یا روؤس تابعین سے برتقدیر اول سند کی صحت سے بحث کی جاۓ گی بر تقدیر ثانی صحابی کی تفسیر میں نظر کی جاۓ گی اگر تفسیر بحیث اللغۃ ہو تو وہ اہلِ زبان ہیں اس لیے یہ تفسیر مقبول ہوگی یا ان کی یہ تفسیر اسباب و قرائن کے مشاہدہ پر مبنی ہوگی تو بلاشبہ یہ بھی مقبول ہے ورنہ معنی تک رسائی کے لیے اجتہاد واجب ہے
ثانی جس میں نقل وارد نہیں یہ کم ہیں اس کے فہم تک رسائی کا طریقہ یہ ہے کہ مفردات الفاظ میں نظر کریں سیاق کے اعتبار سے لغت، اس کے مدلولات اور اس کے استعمال پر غور کریں__

یہ اصول محکمات سے متعلق ہیں گمان غالب ہے اور یہ گمان بہ درجۂ یقین ہے کہ مقطعات کے باب میں کسی ایسی نقل مرفوع صحیح السند کا وجود نہیں جو ان کے معانی بیان کریں پھر بھی اگر کوئی اس کے خلاف کا مدعی ہے تو اسی اصول کے تحت یہ سوال قائم ہوگا کہ اس کی سند کیا ہے کیا وہ صحیح السند ہے؟

اتقان میں علوم قرآن کی تین قسمیں بیان کی گئیں دوسری قسم کے تعلق سے کہا گیا ” ما اطلع اللہ علیہ نبیہ من اسرار الکتاب واختصہ بہ وھذا لایجوز الکلام فیہ الا لہ اولمن اذن لہ قال واوائل السور من ھذا القسم وقیل من القسم الاول”
دوسری قسم اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو جن اسرار پر مطلع فرمایا اور اس کو ان کے لیے خاص کیا اس میں کلام کرنا انہی کے لیے جائز ہے یا ان کے لیے جن کو آپ نے کلام کی اجازت دی فرمایا اوائل سور اسی قسم سے ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ قسم اول سے ہے_

تو اگر یہ دعویٰ ہے کہ طہ اور یس کا اسماۓ نبی ﷺ سے ہونا نقل سے ثابت ہے تو اس نقل کی سند کی تحقیق ضروری ہے اگر وہ صحیح السند ہے فبہا ورنہ ان میں کلام کی اجازت نہیں ہوگی

مطالع المسرات میں یس کے متعلق مذکور حدیث کے تعلق سے فرمایا وفی سندہ مقال

فقیر نے اس کے علاوہ دیگر مذکورہ احادیث کی سند کی تحقیق کے لیے متعدد اکابر مفتیان عظام و علماء کرام سے سوال کیا علمی فقہی گروپ پر استفسارا پوسٹ کیا خود بھی انتھک کوشش کی مگر اب تک سند کی تحقیق نہیں ہوسکی اہلِ علم سے فقیر کی عرض ہے کہ اس باب میں اگر آپ کسی نتیجے تک پہونچتے ہیں تو ضرور آگاہ کریں ان اللہ لایضیع اجر المحسنین

اشکال دوم
فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے “یس و طہ نام رکھنا منع ہے کہ وہ اسماۓ الہیہ اور اسماۓ مصطفی ﷺ سے ایسے نام ہیں جن کے معنی معلوم نہیں کیا عجب کہ ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا اور رسول میں صادق نہ آسکیں تو ان سے احتراز لازم”

صدر الشریعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” طہ یس نام بھی نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں اور بعض علماء نے اسماۓ الہیہ سے کہا بہر حال جب معنی معلوم نہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو “
ان عبارات سے ظاہر ہے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں_

جواب_ اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ تعالی کی عبارات کا حاصل صرف یہ ہے کہ طہ اور یس نام نہ رکھے جائیں اس میں کہیں کوئی جملہ یا لفظ ایسا نہیں جو طہ اور یس کے اسماۓ نبی ﷺ سے ہونے پر قطعیت کے ساتھ دال ہو بلکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ذرا ان جملوں پر غور کریں ان کے معنی کسی کو معلوم نہیں
_ کیا عجب ان کے وہ معنی ہوں جو غیر خدا ورسول میں صادق نہ آسکیں یہ مقطعات قرآنیہ سے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں
ظاہر یہ ہے کہ یہ اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں _ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو حضور ﷺ یا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو
” طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں ” کیا مذکورہ جملے اس دعویٰ کی قطعیت کے بجائے اس کے بہ قبیل ظنیات ہونے کی مؤید نہیں؟

 اعلی حضرت اور صدر الشریعہ رحمہما اللہ کی عبارات سے اشکال اول کا یک گونہ جواب بھی ملتا ہوا نظر آرہا ہے اگر وہ احادیث جن کا اشکال اول کے تحت ذکر کیا گیا مرفوع صحیح السند ہوتیں تو امام اہلِ سنت اور صاحب بہار شریعت رحمہما اللہ قطعیت کے ساتھ فرماتے کہ طہ اور یس اسماۓ نبی ﷺ سے ہیں فتدبر

خلاصۂ کلام
طہ اور یس مقطعات سے ہیں مقطعات متشابہات کی قسم ہیں جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں_ _ طہ اور یس کے تحت مفسرین کے اقوال بہ زمرۂ تاویلات ہیں
_ متشابہات کی تاویلات ظنی ہیں قطعی نہیں _ متشابہات کی کہیں تفسیر کی گئی ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہوگی
ان دلائل کی روشنی میں ظاہر ہے کہ نعتیہ اشعار میں حضور ﷺ کے لیے یس اور طہ کے اطلاق سے ممانعت ہونی چاہیے حضور صدر الشریعہ رحمہ اللہ کے طرز استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس کے ایسے معنی ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہو لیکن ہم منع اس لیے نہیں کہتے کہ دلائل الخیرات شریف میں طہ اور یس کو اسماء النبی ﷺ سے شمار کیا گیا اس کتاب کی مقبولیت اور صاحب کتاب کے مقام رفیع کے سامنے فقیر کی معروضات کی حیثیت کیا؟ البتہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں کم از کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ حضور ﷺ کے لیے طہ اور یس کے اطلاق سے اجتناب برتا جائے

اعلی حضرت، مفتی اعظم ہند استاد زمن اور حضور تاج الشریعہ کے اشعار میں کہیں حضور ﷺ کے لیے یس یا طہ کا اطلاق نظر نہیں آیا یہ اسی غایت احتیاط کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے

اللہ تعالی ہمیں اور جملہ افراد اہل سنت کو اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے سرکار دوجہاں ﷺ کی محبت میں جلاۓ اور انہیں کی محبت پر موت عطا فرمائے آمین

بندۂ عاجز
کلیم احمد رضوی مصباحی
خادم التدریس والافتا
دارالعلوم رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف سیتامڑھی

تبصرہ۔۔از قلم : حضرت علامہ کلیم رضوی مصباحی

رحمت و نور کی برکھا

شاعر جدت طراز سید خادم رسول عینی زید مجدہ کا اولین نعتیہ مجموعہ ہے_ سید صاحب قبلہ کی مہربانی کہ نور و نکہت اور عشق و عرفان میں ڈوبا ہوا نعتوں کا یہ حسین گلدستہ فقیر کے لیے سامان راحت ہوا فقیر نے بالاستیعاب ہر شعر کی قرات کی خوب محظوظ ہوا _ اس مبارک مجموعے میں ذات ممدوح علیہ السلام کے محاسن و فضائل ، اوصاف و کمالات اور خصائص و معجزات کے بیان کی جو چاندنی چھٹکی ہوئی ہے ان کے جلوؤں سے دل کی آنکھیں منور ہوئیں اچھی اور دلکش شاعری سحر سے کم نہیں، خوبصورت الفاظ دلکش و دلاویز تراکیب گلستان خیالات کے لیے اساسی عنصر ہیں تو استعارات و تشبیہات کا جمال اس چمنِ کے لیے بہار کی نوید ہیں جب گلستان خیالات پر بہار چھا جائے تو اس کا ہر منظر سحر خیز ہوتا ہے بحمداللہ ایسی دلفریب سحر خیزیاں اس حسین مجموعۂ نعت کے امتیازات میں سے ہیں_

روایت پسندی ہماری نظر میں معیوب نہیں _ ہاں! اگر قدِ فکر پر وہی فرسودہ اور کہنہ پیراہنِ الفاظ رکھے جائیں جس کے نظارے ہم تقریباً ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں تو یہ یقیناً معیوب ہے زبان و بیان پر اگر قدرت نہ ہو تب ایسی بے چارگی نظر آتی ہے بحمداللہ عینی صاحب کی زبان و بیان پر قدرت مسل٘م ہے آپ زمینِ سخن پر فکرِ مدحت کی کاشت کا اعلیٰ شعور رکھتے ہیں شعر کیا ہے اسی شعور کا نتیجہ ہے شعور کے بغیر شعر کی اپج ممکن نہیں_ روایتی مضامین کو بھی سید صاحب قبلہ نے اس قدر دلکش و دلاویز پیرائے میں باندھا ہے کہ جواب نہیں یہاں روایت جدت کے رنگ سے مزین ہوکر جیسے شعریات کا ایک نیا در وا کر رہی ہو جیسے نئے آفاق کی جستجو منزل رسا ہوگئی ہو_

ہر شجر ان کی یادوں کا ہے پرکشش
جس میں راحت کی ہیں ٹہنیاں لاجواب

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

رحمت رسول کے سبب
حشر ساز گار ہوگیا

دے گئے آب جود سے اپنے
نخل ہستی کو تازگی آقا

ان کے صدقے امن کا ہے سائباں
زیست میں اب دھوپ کا جنگل نہیں

عجب کشمکش میں ہیں زائر کی آنکھیں
زمین حرم ہے کہ خلد بریں ہے

نبی کے اسم گرامی میں ہے شفا ایسی
ہماری زیست کے سب زخم بھرنے لگتے ہیں

دیکھ کر ان کو چرخ کے تارے
بھول جاتے ہیں روشنی اپنی

ان کی چشم کرم رہے جب تک
پھول کھوۓ نہ تازگی اپنی

لیے دید شاہ دوعالم کی خواہش
کھڑی ہیں دلوں میں کسک کی قطاریں

سورۂ حمد سے سورۂ ناس تک
ان پہ نازل ہوئے سلسلے نور کے

دیکھ رہے ہیں آپ! کیا سلاست ہے کیسی روانی ہے جیسے صاف و شفاف چشمے رواں ہو جیسے کو ثر الفاظ اور سلسبیل معانی مکمل جوش پر ہو بندش کا اسلوب کس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کے حسن و جمال کے جلوؤں سے جیسے آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں روایتی مضامین کو اتنی آسانی کے ساتھ پیراہن سحر اور لباس جدت عطا کرنا سید صاحب کے لیے مشکل نہیں

سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اس شعر سے واضح ہے کہ جب بات مدحت رسول ﷺ کی آۓ تو موضوعات کی کمی نہیں نئے آفاق کی کمی نہیں احتیاط حد کا متقاضی ہے ادب و احترام رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ناعت عظمت ممدوح کے پیش نظر بے جا غلو سے کام نہ لے اس حد کے باوصف بھی نعت کے لیے کوئی حد نہیں کہ فضائل و خصائص مصطفی کا شمار نہیں اگر ہر درخت قلم ہوجاۓ اور ہر سمندر کا پانی روشنائی تب بھی مظہر باری تعالیٰ کے اوصاف و کمالات کا بیان ختم نہیں ہوسکتا جس کا مطالعۂ سیرت ناقص ہو اس کے لیے موضوعات مدحت محدود ہوسکتے ہیں مگر جس کا مطالعہ وسیع ہو اس کے لیے موضوعات مدحت کی کوئی حد نہیں رحمت و نور کی برکھا میں مضامین کا تنوع اور خیالات کی رنگا رنگی سید صاحب قبلہ کی وسعت مطالعہ کا حسین ترین اشاریہ یے بات تشنۂ دلیل نہ رہ جائے اس لیے یہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں

آمد مصطفی__
ان کے دم سے جہاں میں بہار آگئی
بے مثال ان کا فیض قدم بولیے

آمد سرکار کا دیکھو اثر
بن میں بھی گل کا بچھونا آگیا

مولد مصطفی_
جان کعبہ کی جس میں ولادت ہوئی
ہے وہ مکہ میں عینی مکاں لاجواب

جمال مصطفی__
عارضی ہے اجالا سورج کا
ہے رخ مصطفی سدا روشن

گفتار مصطفی_
پڑھ کے دیکھو بخاری و مسلم
عینی ان کا ہے ہر کہا روشن

ان کی باتیں رہیں پر اثر اس قدر
موم بنتا گیا خود بشر سنگ دل

کردار مصطفی_
ان کی اخلاق کی تلوار کے آگے ہردم
مات کھاتا ہوا پندار نظر آتا ہے

کرم و سخاوت مصطفی_
لا نہیں کہتے ہیں سائل کو کبھی
شاہ بطحا کی نوازش کیا کہیں

اختیار مصطفی__
کردیں تبدیل حرمت کو حلت میں آپ
یوں شریعت میں با اختیار آپ ہیں

اک گواہی خزیمہ کی دو ہوگئی
اختیار شہ دوسرا بے مثال

علم مصطفی__
ماکان، مایکون کا رکھتے ہیں علم وہ
واضح یہ ہوگیا ہے خدا کی کتاب سے

رحمت مصطفی_
وہ جہاں کی اصل ہیں بنیاد ہیں عالم کی وہ
ملتی ہے ہر ایک کو رحمت رسول اللہ کی

رحمت بنا کے بھیجا ہے پروردگار نے
سارا جہاں رسول زمن کی اماں میں ہے

شفاعت مصطفی_
باذن خدا وہ کریں گے شفاعت
نجات امم کی یہ صورت رہے گی

بے مثالیِ مصطفی_
دانائے سبل ختم رسل قاسم کوثر
القاب ہیں بے مثل، کوئی ان سا ہوا ہے؟

نورانیت مصطفی__
نور سے ان کے بنی ہر ایک شئی کونین کی
سب خواص ان کے لیے ہیں سب عوام ان کے لیے

ان کے سوا رزم و بزم نبی، معجزات نبی، معراج نبی، علو و شان نبی، شہر نبی اور اس کا تقدس اور وہ سب کچھ ہے جس کی امید ایک قادر الکلام ناعت سے کی جاسکتی ہے معجزات کے ذیل میں معراج النبی ﷺ کا الگ الگ رنگ میں بیان اپنی مثال آپ ہیں یہ بو قلمونی یہ تنوع آپ کی شاعری کا اختصاص ہے چمن کی دلربائی کے لیے لازمی ہے کہ اس میں ہر طرح اور ہر رنگ کے پھول کھلے ہوں ہر پھول کی خوشبو جداگانہ اور منفرد ہو بحمداللہ رحمت و نور کی برکھا ایک ایسا ہی چمنستان سخن ہے جس میں ہر طرح کے پھول کھلے ہوۓ ہیں جن کی خوشبوؤں سے مشام جان ایمان یقیناً معطر ہوگا__

اس مجموعے کو جہان ادبیات میں یقیناً ایک گراں قدر اضافہ کہا جائے گا کہ یہ مجموعہ محاسن شعری جواہر ادبی کا حسین مرقع بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ مجموعہ فکر رضا کا مبلغ و ناشر بھی ہے بہت سے شعرا بدمذہبوں کے رد سے یہ کہہ کر مجتنب نظر آتے ہیں کہ یہ نعت کا حصہ نہیں _ حالانکہ ایسا نہیں ہے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شعری روایت یہی رہی کہ دشمنانِ مصطفی کا بہ بانگ دہل رد ہو امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں بد مذہبوں کا خوب خوب رد کیا ہے لہجے کا یہ تیکھا پن در اصل عشقیہ لہجے کی شناخت بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی یہ سوچ کر کہ عقیدت و عقیدے میں یہ تصلب اور اس کا شعری اظہار ان ناقدین کے دربار نقد تک ہمارے ادبی شہ پارے کو پہونچنے نہیں دے گا جو مسلکاً اور عقیدتاً ہمارے مخالف ہیں رد کے اشعار کہنے سے بچنا ہماری نظر میں مداہنت ہے ادب کی پرکھ اس کی ادبیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ ادیب نظریاتی اور فکری اعتبار سے ناقد کا مخالف کیوں نہ ہو اگر نقد کا پیمانہ ادب و ادبیت کی جگہ عقیدت و عقیدہ ہو جائے تو ایسے ناقد کی پرواہ بھی نہیں کی جانی چاہیے_ علامہ عینی کا جو عقیدہ ہے اس کو انہوں نے چھپایا نہیں ہے آپ مفتی اعظم اڑیسہ حضرت مفتی عبد القدوس علیہ الرحمہ کے فرزند جلیل ہیں خانقاہ قدوسیہ بھدرک سے آپ کا تعلق ہے اس طرح آپ پر رضویات کا رنگ غالب ہے _ آپ نے اپنے عقیدے کو بھی سلک نظم میں پرویا ہے اور کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پربیشتر شعرا کے یہاں سطحیت و ابتذال کا ناگفتہ بہ منظر نظر آتا ہے مگر علامہ عینی کے یہاں اس باب میں بھی نشان ترفع جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے__

اللہ نے مختار جہاں ان کو بنایا
اے باغیو سرکار کو مجبور نہ سمجھو

ان کے عدو کو کھل گیا، حاسد تھا جل گیا
بزم سلام سے وہ اچانک نکل گیا

عدوۓ سرور کونین کی تذمیم کرتے ہیں
نبی کے ہوگئے جو ان کی ہم تکریم کرتے ہیں

سرکار کی عظمت کے اے منکر یہ بتاؤ
کیوں معجزۂ شق قمر یاد نہ آیا

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

جہاں تک صنائع و بدائع کی بات ہے تو بحمداللہ یہ مجموعۂ نعت اس زاویے سے بھی قابل ستائش و پزیرائی ہے علامہ محمد حسین مشاہد رضوی فرماتے ہیں ” عینی نے اپنے کلام میں صنائع کے نجوم چمکاۓ ہیں بدائع کے مہر و ماہ جگمگاۓ ہیں ” اس مجموعۂ نعت میں صنعت اقتباس و تلمیح کی جلوہ گری عام ہے مضمون کی طوالت کا خوف اگر نہیں ہوتا تو اشہب قلم کی لگام چھوڑ دی جاتی پھر ہمیں فکر و خیال کے خوبصورت موتیوں سے مزید نور کشید کرنے کا موقع فراہم ہوتا_

علامہ قدسی نے حق فرمایا ہے کہ علامہ عینی کا یہ مجموعہ شرعی سقم سے منزہ ہے _ البتہ ایک جگہ سہو کتابت سے مفہوم کیا سے کیا ہوگیا ہے_
اصحاب نے نبی کا مقدر بنادیا
ان کو جہاں میں فضل کا اختر بنادیا
اول مصرعہ در اصل یوں تھا
اصحاب کا نبی نے مقدر بنادیا

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس نعتیہ شعری مجموعہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور علامہ عینی کو مع الخیر سلامت رکھے

از قلم
کلیم احمد رضوی مصباحی
خلیفۂ حضور قائد ملت
خادم التدریس والافتا
جامعہ رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف

ایک دلچسپ مکالمہ۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔

بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:

“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “

بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:

“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔

بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس‌ کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام‌ بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)

دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)

معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔

میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :

“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”

میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:

مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے

نظم کا‌ معاملہ نثر سے جدا ہے ۔

تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔

نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔

تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو

اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔

تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے ‌کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔

تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔

تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔ ‌

تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔

مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم

لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔

ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :

محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ

تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔

پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔

حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح‌ غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔

حجۃالاسلام کی نعتیہ شاعری۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی۔

۔اعلیٰ حضرت کے خلف اکبر، مجاہد ملت کے مرشد خلافت حجۃالاسلام حضرت علامہ مفتی سیدی حامد رضا علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین، مفتیء شرع متین ، فقیہ اسلام ، مناظر اہل سنت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم‌ ادیب اور باکمال شاعر بھی تھے۔آپ نے حمد، نعتیں اور منقبتیں کہی ہیں جنھیں پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور قلب کو قرار ملتا ہے۔حجۃ الاسلام کی نعتیہ شاعری میں فصاحت و بلاغت کا حسن ہے تو تشبیہات و استعارات کی رعنائی بھی۔ الفاظ و محاورات کا جمال ہے تو صنایع و بدائع کی خوب صورتی بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام دیگر شعرا کے کلام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔”معارف رضا “میں سرکار حجۃالاسلام کا ایک نعتیہ کلام نظر سے گزرا۔اس کلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور مستفید و محظوظ ہوں :ہے عرش بریں پر جلوہ فگن محبوب خدا سبحان اللہ

اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف

پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ

سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن و الفت کے

خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ

اس کلام کے ارکان ہیں :فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

اور اس بحر کا نام ہے :بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثلم بحر متقارب مثمن مضاعف مزاحف اثرم مسکن گویا آپ نے اس کلام میں زحاف ثلم، ثرم، تسکین کا استعمال کیا ہے اور چند مقامات پر زحاف تسبیغ کا بھی استعمال فرمایا ہے۔اشعار کے مختلف مقامات پر، صدر، ابتدا، حشو ، ضرب، عروض میں اتنے سارے زحافات کا استعمال کرنا حجۃالاسلام کے استادانہ کمال اور مہارت در علم عروض کا پتہ دیتا ہے۔ حجۃالاسلام کے اس کلام میں صنعت تلمیح بھی ہے اورصنعت اشتقاق بھی، صنعت عکس بھی ہے اور صنعت تجنیس زائد بھی۔صنعت تضاد بھی ہے اور صنعت تنسیق الصفات بھی۔صنعت تفویت بھی ہے اور صنعت تہذیب و تادیب بھی ،صنعت ترتیب بھی ہے اور صنعت طباق بھی۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور صنعت مراعاۃ النظیر بھی۔ صنعت فرائد بھی ہے اور صنعت کنایہ بھی۔

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔یہ جملہ خبریہ ہے اور صدق خبر بھی، کیونکہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اک آن میں مکہ سے بیت المقدس، پھر آسمان، سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں تشریف لے گیے اور واپس کرہء ارض پر تشریف بھی لے آئے ۔اس مصرع میں برق کا استعمال اپنے موقف میں شدت پیدا کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور یہ مقتضیء حال کے مطابق بھی ہے ۔ سائنس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں سب سے تیز جو شیء حرکت کرتی ہے وہ روشنی ہے اور روشنی کی ایک شکل ہے برق ۔ برق کی رفتار کتنی ہے ؟ برق کی رفتار ہے ١٨٦٠٠٠ میل فی سیکنڈ ، جبکہ آواز کی رفتار ہے ٣٤٣ میٹر فی سیکںڈ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بجلی پہلے دکھائی دیتی ہے اور گرج کی آواز بعد میں سنائی دیتی ھے۔ نظر کی رفتار روشنی / برق سے بھی کم ہوتی ہے۔کرہء ارض سے سورج تک دوری ہے ٩٣ ملین میل۔سورج ، کرہء ارض سے سب سے نزدیک کا ایک ستارہ ہے ۔اگر سورج کی دوری ٩٣ ملین میل ہے تو اندازہ لگائیں ساتوں آسمان، پھر سدرۃ المنتہٰی ، پھر لامکاں کی دوری کتنی ہوگی۔ اور حضور صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک آن میں لامکاں جاکے تشریف لے آئے۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کے سامنے نظر/ روشنی/ برق کی رفتار کی کیا حیثیت ؟اس لیے حجۃالاسلام نے کہا:

حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر۔اس مصرع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی رفتار کو نظر اور برق سے تشبیہ دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ ہے تیزی ۔ برق کے استعمال سے بصری پیکر تراشی کا حسن بھی جلوہ گر ہوگیا ہے ۔

راکب نے کہا اللہ غنی مرکب نے کہا سبحان اللہ

۔اس مصرع میں راکب کے ساتھ ساتھ مرکب کے استعمال نے شعر کے حسن کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہاں راکب سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مرکب سے مراد براق/ رف رف ۔حجۃالاسلام ایک اور نعتیہ کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

نہ کوئی ماہ وش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوب خدا تم ہو ۔حجۃالاسلام نے اس شعر کے ذریعہ تشبیہات و استعارات جن سے عموما” مجازی فضا تیار کی جاتی ہے ان کو رد کیا ہے اور رد کرتے ہوئے ممدوح گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی توصیف بیان کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔اس قبیل کے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں:

زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ و خورشید سیاروں ستاروں کی ضیا تم ہو

وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا

اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو

نہ ہوسکتے ہیں دو اول نہ ہوسکتے ہیں دو آخر

تم اول اور آخر ابتدا تم انتہا تم ہو

تم ہو حبیب کبریا پیاری تمھاری ہر ادا

تم سا کوئی حسیں بھی ہے گلشن روزگار میں ؟

صنعت اقتباس کے حسن سے مزین یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ھوالاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن

بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں

عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

سرکار حجۃالاسلام کے اشعار میں پیکر تراشی کے جلوے ملاحظہ فرمائیں:

ماہ تری رکاب میں نور ہے آفتاب میں

بو ہے تری گلاب میں رنگ ترا انار میں

گاہ وہ آفتاب ہیں گاہ وہ ماہتاب ہیں

جمع ہیں ان کے گالوں میں مہر و مہ تمام دو

سارے بہاروں کی دلھن ہے میرے پھول کا چمن

گلشن ناز کی پھبن طیبہ کے خار خار میں

سوسن و یاسمن سمن سنبل و لالہ نسترن

سارا ہرا بھرا چمن پھولا اسی بہار میں

ان کی جبین نور پر زلف سیہ بکھر گئی

جمع ہیں ایک وقت میں ضدین صبح و شام دو

حجۃالاسلام کے ان اشعار میں بصری پیکر تراشی بھی ہے اور سماعی پیکر تراشی بھی، لمسی پیکر تراشی بھی ہے اور مشامی پیکر تراشی بھی۔ در حقیقت حجۃالاسلام کے کلاموں میں لفظوں کی ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے کہ جس کے سبب قاری کے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں اور اس کا قلب جمالیاتی چاشنی سے بھر جاتا ہے۔سرکار حجۃالاسلام نے خاتم الاکابر حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ کی شان اقدس میں ایک طویل منقبت کہی ہے جسے پڑھ کر قلب میں ایک عجب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور دل و دماغ میں ایک روحانی فضا قائم ہوجاتی ہے۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

فانی ہوجاؤں شیخ میں اپنے

ہو بہو ہو ادائے آل رسول

حقہ حق ہو ظاہر و باطن

حق کے جلوے دکھائے آل رسول

دل میں حق حق زباں پہ حق حق ہو

دید حق کی کرائے آل رسول

پھر الی اللہ فنائے مطلق سے

پورا سالک بنائے آل رسول

ان اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشق رسول اور محبت آل رسول ہی وہ محور ہیں جن کے گرد حضرت حجۃالاسلام کی پاکیزہ نعتیہ و منقبتیہ شاعری حرکت کناں نظر آتی ہے ۔

واہ! حرکت وعمل کی تصویر بننا کوئی آپ سےسیکھے۔(یقیناً لائق مبارکباد ہیں سہ ماہی پیام بصیرت کے علماء)آصف جمیل امجدی {انٹیاتھوک،گونڈہ} 6306397662

اقوام عالم میں یہ نایاب روش صدیوں سے اصحاب قرطاس و قلم اور تاریخ نویسوں کی مرہون منت رہی ہے۔ کہ قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے جن بااثر شخصیتوں نے اپنی رفاہی خدمات کی بدولت ان مٹ نقوش قدم کو اپنے اصحاب کے دلوں پر مہر ثبت کیا، تو ان کی ذات و ستودہ صفات کو تابندہ رکھنے کے لیے اسلاف شناسی کا ایک جہاں آباد کردیا ہے، تاکہ نسل نو ان کی شش جہات شخصیت سے بھر پور استفادہ حاصل کر سکے۔ (اور یہ حسن عمل صبح قیامت سے چلتا رہے گا۔) اسی راہ مستقیم کے مسافر “سہ ماہی پیام بصیرت” کے کاروان قرطاس و قلم بھی ہیں۔ جن کی ملی، اصلاحی اور اسلاف شناسی کی خدمات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم و ملت کے لیے شب و روز کس قدر کوشاں رہتے ہیں۔ جماعت رضائے مصطفے شاخ سیتامڑھی کے زیر سایہ سہ ماہی پیام بصیرت حضرت مولانا محمد فیضان رضا علیمی صاحب مدیر اعلیٰ و مولانا محمد عامر حسین مصباحی صاحب نائب مدیر اور مولانا محمد شفاء المصطفی مصباحی صاحب معاون مدیر نیز مجلس ادارت علمی ٹیم کے دیرینہ خواب بنام “حیات خواجہ کی ضیاباریاں” گزشتہ سال عرس خواجہ کے حسیں موقع پر شرمندہ تعبیر ہوکر آج بھی بارگاہ خواجہ غریب نواز میں عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کررہا ہے۔جسے حلقۂ ارباب و دانش میں خوب پزیرائی ملی۔ اس دور ترقی میں ہر مشکل محاذ پر ذرائع ابلاغ کی فراوانی نے صرف آرام اورسہولت ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ کام کو برق رفتاری سے کرنے کی مستحکم فکر بھی عطا کی ہے۔اسی کو غنیمت جانتے ہوئے سہ ماہی پیام بصیرت کے متحرک علماۓ کرام نے ایک ضخیم مجلہ بنام “جہان فقیہ اسلام” جلد ہی دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مذہب اسلام کی متعدد عظیم المرتبت شخصیتوں کی حیات و خدمات پر مشتمل قارئین کی مطالعاتی میز پر پیش کرنے میں نایاب کامیابی حاصل کرنے جا رہے ہیں۔(خدا کرے مقبول بارگاہ علماء ہو) یہیں پر بس نہیں بل کہ ماضی قریب میں وفات پانے والی تین اہم شخصیت (کنزالدقائق مفتی حسن منظر قدیری صاحب، فقیہ اہل سنت استاذ مکرم مفتی آل مصطفے مصباحی صاحب، اور معمار قوم وملت علامہ شبیہ القادری علیہم الرضوان) پر ایک خصوصی سہ ماہی رسالہ منظر عام پر لانے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے بحمدہ تعالیٰ۔ قارئین کرام اس رسالے میں مذکورہ عظیم شخصیت کی خدمات دینیہ و ملیہ سے متعلق ماہر قلم کاروں کی تخلیقات کو کشادہ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرماکر اپنے خزان علم میں مزید اضافے کا سبب گردانیں گے(ان شاءاللہ)۔”حیات خواجہ کی ضیابار یاں” : آج جملہ کاروبار سے لے کر تعلیم و تعلم تک جمیع اشیاء ڈیجیٹل ہوتی چلی جارہی ہیں۔آنے والا وقت خدا ہی بہتر جانے کیسا ہوگا۔ ڈیجیٹل دنیا کی کہکشاؤں میں میں اپنے تعلیم و تعلم کے حوالے سے مصروف عمل تھا تبھی مذکورہ رسالہ قندیل فروزاں بن کر میری زندگی کو مزید رمق عطا کردیا۔ ٹائیٹل ورق قوس و قزح کی طرح متنوع دیدہ زیب رنگوں سے مزین ہے جسے دیکھ کر ہی پڑھنے کا دل کرنے لگے۔خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی تبلیغ دین اور فروغ نظام مصطفیٰ کے حوالے سے آپ کی حالات زندگی کو مختلف موضوعات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔(1) حضرت خواجہ غریب نواز نے وادئ کفر و شرک کو ضیاء ایمان سے منور فرمایا۔(2) حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی درویشانہ زندگی کی رمق ۔(3) خواجہ غریب نواز تاریخ کے آئینے میں۔(4) ایک فقیر! دنیا جسے کہتی ہے سلطان۔ (5) اور آپ علیہ الرحمۃ کی تبلیغی مشن کے حوالے سے حضرت علامہ و مولانا مفتی وجہ القمر رضوانی(اڑیشا) کی ایک بصیرت آمیز نایاب تحریر بھی شامل اشاعت کی گئی ہے۔ جس کا ایک چھوٹا اقتباس نظر قارئین کر رہا ہوں، تاکہ عشق خواجہ سے دلوں کو جلا ملے۔”اہل ہند کی زبوں حالی پر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اس کی بیدار بختی کا سامان ارض بطحاء کے شہنشاہ عرب و عجم کے رہنما سید الانبیاء کی بارگاہ ناز وعرش ذی جاہ میں فروکش معین الدین کی صورت میں ہویدا ہوا۔حضرت خواجہ کے لیے وہ لمحات نہایت بیش قیمت جاں بخش اور کیف آگہی تھے جو جوار رحمت کے قریب میں گزر رہے تھے۔ عاشق رسول کے لیے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری سے زیادہ مسرت خیز لمحہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی دوراۓ ہے ہی نہیں کہ حضرت معین الدین ایک بہت ہی عالی مرتبت خدا رسیدہ ولی کامل، درویشی میں باکمال ملک و قوم کے بہترین مبلغ اور مصلح تھے۔انہی کی جد و جہد اور کاوش کا نتیجہ ہے۔کہ ارض ہند پر مساجد کے مینارے نظر آتے ہیں۔جہاں سے روزآنہ نماز پنج گانہ کے لیے صداۓ اذان بلند ہوتی ہے۔ آپ نے کفر و نفاق کی رو سیاہی پر اسلام کا تابندہ غازہ مل دیا۔ شرک و بت پرستی کے جاہلانہ طوفانی زد پہ شمع اسلام فروزاں کیا۔ اوہام کے پجاریوں کے دلوں کو نور ایمان سے منور و مجلی کردیا۔عشق نبی کا ایسا مست و شیریںجام پلایا کہ جو تیری بزم سے اٹھا سرشار اٹھا،کیا بتاؤں وہ کن کن خوبیوں کے حامل تھے۔ جو زمین سے آۓ تھے وہ خوبیوں والے آقا کے جوار آمین سے بہت ساری خوبیاں لے کر آۓ تھے۔