WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category عیدِ میلاد النبی ﷺ

بارہ ربیع الاول شریف کی نسبت سے بارہ اشعار پر مشتمل خراجِ عقیدت ببارگاہِ نبئ اکرمﷺ.. از قلم.. محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

اٹھو غم کے مارو چلو بے سہارو مقدر جگانے، حضور آ رہے ہیں
مٹانے وہ نفرت کی تاریکیوں کو دلوں کو جلانے، حضور آ رہے ہیں

جو بھٹکے ہوئے ہیں انہیں راہ حق پر جو بہکے ہوئے ہیں انہیں دیں کا رہبر
جہاں میں جو کھوۓ ہوئے ہیں انہی کو خدا سے ملانے، حضور آ رہے ہیں

ہزاروں خداؤں کو کرتے ہیں سجدہ وہ جو چاند و سورج کو. کہتے ہیں مولیٰ
خدا ایک ہے اس کی کرئیے عبادت یہ سب کو بتانے، حضور آ رہے ہیں

نہ اب ہوگا کوئی بھی درگور زندہ سنا دیجیے بچیوں کو یہ مژدہ
دعا ان کی باب اجابت کو پہنچی انہیں اب بچانے، حضور آ رہے ہیں

سجائیں گے گلیاں منائیں گے خوشیاں گھروں میں بھی اپنے کریں گے چراغاں
چلیں بزمِ جاناں میں ہم اپنے گھر سے ہیں نعرہ لگانے، حضور آ رہے ہیں

ہے تاریخ بارہ یہ دن ہے دوشنبہ لگاتے ہیں جبریل کعبے پہ جھنڈا
چلی ہے فلک سے ملک کی سواری جہاں کو بتانے، حضور آ رہے ہیں

وہ آئیں گے چندہ کو ٹکڑے کریں گے وہ سورج کو صہبا میں واپس کریں گے
خدا کی خدائی کے جلوے وہ دیکھو جہاں کو دکھانے، حضور آ رہے ہیں

ہیں سنی کی قسمت پہ نازاں فرشتے یہ کرتے ہیں آقا کی مدحت کے چرچے
جلے کل بھی ابلیس اور اس کے چمچے انہیں پھر جلانے، حضور آ رہے ہیں

وہی جو تھے اول وہی ہوں گے آخر وہی جو تھے باطن وہی ہوں گے ظاہر
وہی طٰہٰ یٰسیں الف لام اور میم، سناؤ ترانے، حضور آ رہے ہیں

خبر جس کے آمد کی آدم نے دی تھی قسم جس کی موسیٰ و عیسٰی نے لی تھی
وہی آج بن کر دعاۓ خلیلی بتوں کو مٹانے، حضور آ رہے ہیں

لباس بشر ڈال کر اپنے تن پر زمیں پر لو آتے ہیں وہ نوری پیکر
سسکتے بلکتے تڑپتے ہوؤں کو خوشی سے ہنسانے، حضور آ رہے ہیں

سنائیں گے نعت نبی جو بھی اختر خدا بخش دے گا انہیں روز محشر
غلاموں کو اپنے وہ نار سقر سے لو دیکھو بچانے، حضور آ رہے ہیں

از قلم.. محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

بارہ ربیع الاول شریف کی نسبت سے بارہ اشعار پر مشتمل نعتیہ کلام… از قلم… محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

دونوں جہاں کے مالک و مختار آئیں گے، دلدار آئیں گے
گھر بار ہم سجائیں گے سرکار آئیں گے، دلدار آئیں گے

آمد یہ آج مقصد تخلیق کل کی ہے، ختم رسل کی ہے
دنیا میں آج نبیوں کے سردار آئیں گے، دلدار آئیں گے

مہر و مہ و نجوم بھی لینے کو روشنی، پانے کو چاشنی
اس پار سے یقیناً اس پار آئیں گے، دلدار آئیں گے

جس کو زمانے بھر میں کوئی پوچھتا نہیں، کوئی دیکھتا نہیں
کرنے وہ ایسے لوگوں سے بھی پیار آئیں گے، دلدار آئیں گے

حق، حقذدوں کو دینے وہ حقدار آ گئے سرکار آ گئے
بیواؤں کے یتیموں کے غمخوار آئیں گے، دلدار آئیں گے

تاریکیوں کا دور مٹے گا جہان سے وہم و گمان سے
کرنے وہ اس زمانے کو ضوبار آئیں گے، دلدار آئیں گے

ٹکڑے کریں گے چاند کو سورج پھرائیں گے، جلوے دکھائیں گے
جب آمنہ کے گھر شہ ابرار آئیں گے، دلدار آئیں گے

روشن کریں گے شمع ہدایت سے کل جہان، زمیں اور آسمان
باطل کا کرنے قلعہ وہ مسمار آئیں گے، دلدار آئیں

شجر و حجر کو کلمہ پڑھائیں گے مصطفیٰ، دکھائیں گے معجزہ
بن کے جہاں میں نائب غفار آئیں گے، دلدار آئیں

تمثیل ان کی دونوں جہاں میں نہیں کوئی، یہ جبریل نے کہی
شکل بشر میں نور کے شہکار آئیں گے، دلدار آئیں

ہر سو انہی کے ذکر کی محفل سجائیں گے، نعتیں سنائیں گے
بارہ ربیع النور کو دلدار آئیں، دلدار آئیں گے

اختر کو جو بھی کہنا تھا مطلع میں کہہ گیا، ہر ایک نے سنا
سرکار آئیں گے مرے سرکار آئیں گے، دلدار آئیں گے

از قلم… محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

بارہویں شریف کی نسبت سے بارہ اشعار پر مشتمل کلام.. از قلم… محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

انبیاء کا کہا ہو گیا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے
کتنا پرکیف دلکش سما ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

ظلم کا آج سے خاتمہ ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے
نور ہی نور کا دبدبہ ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

ان کے تلوؤں کی خیرات لینے آسماں سے ملک آ رہے ہیں
نوری کرنوں میں ڈوبی فضا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

سب کے سب منھ کے بل گر پڑے تھے بت جو کعبے میں رکھے گئے تھے
بہر تعظیم کعبہ جھکا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

بارہ تاریخ دن ہے دوشنبہ، ظاہراً جب ہوۓ آقا پیدا
سب کے لب پر ہی صلی علی ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

حور و غلماں نے بھی دی بشارت آمنہ بی کو وقت ولادت
کتنا دل سوز یہ مرحلہ ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

بزمِ امکاں سجائی گئی تھی خوب خوشیاں منائی گئی تھی
یہ حدیثوں میں لکھا گیا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

رسم باطل کو جڑ سے مٹانے شمع وحدت جہاں میں جلانے
ان کا تشریف لانا ہوا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

دفن ہوگا نہ اب کوئی زندہ بچیوں کو سناؤ یہ مژدہ
قوم کو ایسا رہبر ملا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

اہل ایمان خوشیاں منائیں، گھر گلی اور محلے سجائیں
ان کو تحفہ یہ رب سے ملا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

کل وہ مردود جل بھن گیا تھا، آج جلتے ہیں یہ اس کے چیلے
اہل ایماں کا چہرا کھلا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

لب پہ ہر اک کے نعت نبی ہے اور ان کی ہی محفل سجی ہے
اور یہ اختر بےنوا ہے، نور والے کی آمد ہوئی ہے

از قلم… محمد شعیب اختر قادری دھرم سنگھوا یوپی 7565094875

مدرسہ اہلسنت فیضان غریب نواز لدہے کا پار میں جشن میلادالنبی صلی الله تعالى عليه وسلم بحسن وخوبی اختتام پزیر… رپورٹر:۔برھان الدین قادری انواری خادم مدرسہ فیضان غریب نواز

ہر سال کی طرح امسال بھی ۱۱ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۸ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز یک شنبہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی تعلیمی شاخ مدرسہ اہل سنت فیضان  غریب نواز لدہے کا پار،تحصیل رامسر ضلع باڑمیر میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بڑی عقیدت و محبت اور ادب واحترام کے ساتھ "غلامان اھل بیت کمیٹی”کے زیر اہتمام منایا گیا-

اوّلاً اجتماعی قرآن خوان خوانی ہوئی جس میں فیضان غریب نوازکے سبھی طلبہ وطالبات اور قریہ کے نو جوانوں نے شرکت کی!
پھر مدرسہ فیضان غریب نواز کے وسیع وعریض میدان میں “مولود النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم” کے سلسلے میں ایک مجلس سعید منعقد کی گئی،جس کی شروعات تلاوت کلام اللّٰہ سے کی گئی-تلاوت قرآن پاک کرنے کے لئے دارالعلوم انوار مصطفی کے ایک متعلم قاری عبد الشکور صاحب انواری کو مدعو کیا گیا، بعدہ یکے بعد دیگرے دارالعلوم انوارمصطفیٰ و مدرسہ فیضان غریب نواز کے کئی طلبہ نے نعت رسول مقبول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سندھی و اردو زبان میں پیش کیں ، اور ساتھ ہی ساتھ کچھ طلبہ نے آمد سرکار۔و سیرت النبی صلی الله تعالی علیہ وسلم پر مشتمل تقریریں بھی کیں!
آخرمیں استاذ محترم حضرت علامہ خیر محمد صاحب قادری انواری مدرس مادر علمی دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شريف نے “ولادت نبوی کے پاکیزہ حالات وواقعات” کے عنوان پر مختصر مگر جامع و خصوصی خطاب کیا۔

نظامت کے فرائض حضرت قاری نظام الدین صاحب انواری۔ نے بحسن وخوبی نبھائی-

اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قادری
حضرت مولانا برکت علی صاحب انواری ،حضرت مولانا شیر محمد صاحب انواری خطیب وامام جامع مسجد سجن کا پار ،حضرت قاری اسلام الدین قادری امام جامع مسجد جمانیوں کی ڈھانی ، الحاج محمد حیات صاحب محمد کاپار، حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری، وغیرہم-بعدہ صلاة و سلام و حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب قادری کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹر:۔برھان الدین قادری انواری
خادم مدرسہ فیضان غریب نواز۔لدھے کا پار۔تحصیل:رامسر۔ باڑمیر (راجستھان)

حضرت محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔
از: رفعت کنیز، حیدر آباد
۔۔۔۔

عرب کا قدیم دور تھا۔ اس وقت جہالت عروج پر تھی جہاں بت پرستی بہت عام تھی۔ قدیم دور میں بہت سے قبیلے ہوا کرتے تھے ۔اک بہت ہی معزز شخص قبیلہ کا سردار تھا حس کا نام قصیٰ تھا حس پر کعبہ کی ذمّہ داری تھی۔ جب قصیٰ ضعیفی کو پہنچا تو اس نے سوچا کہ اپنے بیٹے مناف کو کعبہ کی ذمّہ داری دے مگر قصیٰ کے بھائ عبد الدار پر بھی کعبہ کی ذمّہ داری تھی لیکن کعبہ کے مکمل اقتدار کے لیے ان دونوں فریقین میں جھگڑا ہونے لگا یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئی ۔ پھر دونوں فریقین میں صلح ہو گئی اور قصیٰ کے بیٹے عبد مناف کے ہاتھ کچھ عہدے آئے جس کے تحت وہ حاجیوں کے آنے جانے کھانے پینے اور ان کے ٹھہرنے کے سارے انتظامات دیکھا کرتے تھے اور عبد مناف کے بیٹے ہاشم تھے آگے چل کر سارے انتظامات وہی دیکھتے رہے ہیں ۔ ہاشم ایک رحم دل انسان دردمند انسان تھے۔ انھونے مکّہ کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔
ہاشم رومی بادشاہ سے اجازت لیکر تجارت کے لئے نکلے ہاشم اپنی دیانتداری ایمانداری کے لئے بہت مشہور تھے اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا ۔وہاں انکی ملاقات سلمیٰ بنت عمرو سے ہوئی ۔سلمیٰ بہت ذہین ،خوبصورت اور معزز خاتون تھیں۔ ہاشم انکی ذہنی قوت پر اور صداقت پر قربان ہوگئے اور سلمیٰ سے شادی کا خیال ظاہر کیا .ہاشم کی بہادری اور دیانتداری کے قصّے سلمی’ نے بھی سن رکھے تھے فوراً ہاں کردیا اور دونوں کا نکاح ہو گیا۔ اس وقت رواج کے مطابق سلمی’ میکہ میں ہی رہی سلمی’ کو ایک لڑکا پیدا ہوا جو عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے جو مکّہ کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ عبدالمطلب نے حاجیوں کی سہولت کے لئے زمزم کا کنواں کھدوایا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے عبدالمطلب نے منّت مانگی تھی کہ اگر انھیں دس بیٹے ہونگے تو وہ کسی ایک کو قربان کرینگے اس منّت کے مطابق عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے چہیتے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں پھر تمام بیٹوں کو خواب سنایا تو تمام بیٹے قربان ہونے کے لئے راضی ہوے مگر عزیز تو عبداللہ ہی تھے اور عبداللہ کو سارے قبیلہ اور خاندان بہت محبّت کرتے تھے ان لوگوں نے عبداللہ کے بدلے اونٹنی کو فدیہ دینا چاہا اور اس کے لئے قرعہ ڈالا گیا اور اس طرح اللہ تبارک وتعالی نے سو اونٹنیوں کی قربانی کو قبول فرمایا عبداللہ کے عوض۔
پھر عبداللہ کی شادی قریش کے خاندان کی ایک نیک معزز پاک خاتون حضرت آمنہ سے ہوئی ۔ آمنہ کچھ دن میکہ میں ہی رہیں کچھ دنوں بعد عبداللہ کی حالت بگڑگئ اور وہ مدینہ میں ہی انتقال کر گئے تمام قبیلہ اور خاندان والوں کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور عبداللہ کی موت کا غم آمنہ اور عبدالمطلب پر پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑا۔
جب عبداللہ کا انتقال ہوا تو آمنہ امید سے تھیں۔حضرت محمّد صلہ اللہ علیہ وسلّم آپ کے پیٹ میں پل رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن اگیا
ک ہر طرف موسم بدلا ہوا تھا
صبح صادق کا وقت تھا سورج کی پرنور کرنیں ہر طرف پھیلی ہوی تھی سارے نظارے آپ صلہ اللہ علیہ وسلم کی آمدآمد کے لئے بکھرے ہوے تھے خوش گوار ماحول تھا جیسا کہ کائنات کا ہر ذرہ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا ہو آسماں سے لیکر زمیں تک نور کی لڑیاں نظر آرہی تھیں ۔ہر کوئی بے چین اور بے تاب تھا ۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر مہربان تھا بس کچھ ہی پل وہ سماں آگیا ،
صبح صادق کا وقت ہے دوشنبہ کا دن ہے ماہ ربیع النور ہے اور آسمان کا چاند زمین پر اترنے والا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ کی گود میں وہ نو نہال آگیا
آپ وہ حسین نو نہال ہیں کہ آمنہ کے لال ہیں
چاند جس سے شرماگیا ان کا وہ کف پا بے مثال ہیں

جسے سب نے سوچ رکھا تھا وہ خیال آگیا
بن کے عبداللہ و آمنہ کا لال آگیا

تھا رب کا ارادہ جو وہ پورا ہوگیا
محمّد کی آمد سے جہاں پر نور ہو گیا

عبدالمطلب کو ولادت کی خبر دی گئ عبدالمطلب دوڑے دوڑے آئے اور اپنے پوتے کو گود میں اٹھایا . سینہ سے لگایا. ماتھا چوما کعبہ پہونچے اور محمّد نام رکھا.
اس وقت رواج تھا کہ بچّوں کو دائیاں دودھ پلایا کرتی تھیں اور محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے حصّہ میں آئے دائی حلیمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر لے آئیں محمّد صلہ اللہ علیہ وسلم کے قدم سے حلیمہ کے گھر میں خیروبرکت ہونے لگے پانچ سال تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے گھر میں ہی رہے.پانچ سال بعد محمّد ﷺ آمنہ کے گھر پہنچا دیے گے ۔ آمنہ اپنے بیٹے کو دیکھکر بہت خوش ہوئیں اور دوسری طرف حلیمہ بہت دکھی تھیں۔ محمّد ﷺ کی جدائی پر پھر آمنہ اپنےبیٹے کو لیکر مدینہ آئیں اور وہ جگہ دکھایا جہاں عبداللہ پیاری نیند سو رہے تھے ۔
واپسی کے وقت آمنہ بیمار پڑ گئیں اور انکا انتقال ہوگیا۔ محمّد ﷺ پھر سے یتیم ہو گئے۔ ایک غم پہلے ہی تھا کہ دوسرا غم آپڑا آپ کو یتیمی کا ملال ہونے لگا آمنہ کی ایک کنیز تھیں “امّہ یمن “آپ نے محمّد ﷺ کو اپنی حفاظت میں رکھا اور محمّدﷺ دادا کے گھر مکّہ واپس بھیجادئیے گئے۔ آپ اپنے داداجان سے ملکر بلک بلک کر رونے لگے۔ عبدالمطلب کے دل میں باپ کی شفقّت ابل پڑی عبدالمطلب نے محمّد ﷺ کا پورا خیال رکھا .مگر جب محمّد ﷺ 8 سال کے تھے تو آپ کے داداجان کا بھی انتقال ہوگیا اور محمّد ﷺ اپنےچچا ابوطالب کی سرپرستی میں آگئے انھوں نے محمّد ﷺ کا پورا پورا خیال رکھا آپ جب بارہ سال کے ہوئے تو بکریاں چرانے لگے .بکریاں چرانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا ادھر بکریاں چرتی رہتیں ادھر آپ کائنات کے پر نور نظاروں میں کھوئے رہتے تھے. آپ کے اندر متانت اور سنجیدگی تھی پاکیزگی اور پاکبازی تھی آپ شرم وحیا کے پیکر تھے ایمانداری اور دیانت داری کے لئے پوری قوم میں مشہور تھے۔

آپ نے تیر اندازی سیکھی .فن سپہ گری میں مہارت حاصل کی کئ جنگوں میں آپ نے حصّہ لیا .آپ کھلی فضا میں مگن رہتے تھے انکھیں بکریوں کی حفاظت کرتی تھیں اور آپ کی روح قدرت کے کائنات کی وسعتوں میں پرواز کرتی تھی ۔
اس طرح آپ کے شب وروز گزرتے تھے جب آپ چوبیس سال کے ہوئے تو تجارت کی طرف دھیان دینے لگے. ابو طالب کے کہنے پر آپ نے حضرت خدیجہ کی تجارت میں حصّہ داری کی
حضرت خدیجہ اونچے اور رئیس گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں آپ نے محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں تجارت کا مال دے دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارت کے لئے ملک شام اور قصریٰ کا سفر کیا اور تجارت میں بہت زیادہ منافع حاصل کیا محمّد صلی اللہ علیہ و سلم تجارت کے لئے جہاں بھی جاتے وہاں سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عجیب وغریب واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس تجارت میں محمّد ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا ایک غلام “میسرہ” تھا جو ہمیشہ آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی رہتا تھا. جب آپ تجارتی سفر سے واپس آگئے تو میسرہ نے حضرت خدیجہ کو تمام واقعات اورحالات تفصیل سے سناۓ ۔ حضرت خدیجہ تجارت میں منافع اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی ایمانداری سے بہت خوشی ہوئیں اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے خیالوں میں ہی رہنے لگیں ۔ہر کسی سے محمّد ﷺ کا ذکر کرتی تھیں پھر حضرت خدیجہ کی خواہش پر محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوگئی اس وقت محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر 25 پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی۔

اس کے کچھ سالوں بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آنے لگی محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کو دین کے کام کے لئے اللہ تعلیٰ کی طرف سے پیغام آنے لگا آپ پر آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ شروع ہونے لگا آسمان سے جبرئیل نامی فرشتہ آتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا پیغام سناتا۔ وحی کے ذریعہ سے قراَنی  ایت اترتی رہتی تھی . ان آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دی جاتی تھی ۔کفر اور شرک کو مٹانے کی تاکید کی جاتی تھی .قوم کو راہ راست پر لانے کی تلقین کی جاتی تھی ۔محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو ہر فرمان کو اپنی قوم تک پہنچانا شروع کر دیا  .جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے وہ اللہ تعلیٰ پر ایمان لاتے تھے اور  آپ کے ہر فرمان کو مانتے تھے  اور جو آپ کے مخالف تھے وہ کئ طریقوں سے آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کو پریشان کرتے تھے آپ کے اس دینی مشن میں آپ کو کئ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت خدیجہ نے اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت مدد کی  اور کچھ معزز اشخاص جن کو ہم صحابہ کہتے ہیں انھوں نے بھی بہت مدد کی ‌۔کئ جنگیں بھی ہوئیں ، قبیلوں میں نااتفاقی اور ناراضگی بڑھتی گئ .محمّد صلی اللہ علیہ و سلم  اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لوگوں تک برابر پہنچاتے رہے .حق کی صدا دیتے رہے .یہ تو حالات زندگی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقت اور بھی بیان ہوتی ہے. آپ دونوں عالم کے لئے رحمت ہیں .بےکسوں، بےبسوں کا سہارا ہیں ،  آپ کے اشارے پر  چاند دو ٹکڑے ہوتا ہے سورج پلٹ آتا ہے پتھر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔آپ کی انگلیوں سے چشمۂ آب جاری ہوجاتے ہیں آپ کے دہن مبارک سے بیمار کو شفاء ملتی ہے ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں محفوظ ہونے لگتا ہے آپ صلی  اللہ علیہ وسلم سے جو بھی ملتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس امانتیں محفوظ رہتی ہیں

دونوں عالم میں چرچا ہے محمّد کا. اُدھر اسماں میں ادھر زمیں. ازل سے ابد تک آپ ہیں دونوں عالم کے وجود میں آپ ہیں آپ رحمت عالم ہیں آپ ہیں محبوب خدا وند۔ ہر جگہ آپ ہی کا نظارا ہے. آپ ساری مخلوق کا سہارا ہیں ۔ یہ تو قرآن کا بھی اشارا ہے ہم عاصیوں نے بھی آپ کو پکارا ہے زمین پر رہ کر عرش تک رسائ ہے یہ وہ راز ہے جو آج تک کوئ سمجھ نہیں پایا.آپ دونوں عالم میں موجود ہیں کیا بتائیں اس جہاں کو کہ کتنی عظمت ہے آپ کی ہر دور میں آپ کے ہی چاہنے والے ہیں آپ احد و طائف کے میدان میں ہیں ۔ آپکا فضل ہر طرف ہے حوض کوثر پر بھی اور میزان پر بھی ۔آپ ہیں ہر دل کے قرار ۔آپ امیروں کے آقا ہیں غریبوں کے داتا ہیں۔ صرف یہی نہی بلکہ آپ جس شہر میں رہتے ہیں وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دونوں جہاں کے خزانے وہاں موجود ہیں آج بھی وہاں جہاں آپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں جاری وساری ہیں ۔
آپ مزمّل ہیں آپ مدثّر ہیں آپ مبشّر ہیں آپ یسین ہیں آپ طٰہٰ ہیں۔ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں .آپ جیسا حسن کسی کو نہیں ملا اور نہ ملے گا کوئی خلیل ہیں کوئ حسن کے پیکر ہیں کوئی ذبیح ہے تو کوئی مسیح ہے پر آپ احمد ہیں اور احمد سے پیارا کوئی نہیں آپ کی گفتار شیریں ہے آپ من کے سچّے ہیں آپ کا جسم انور لطف پیکر ہے۔ آپ سے سارا جہاں روشن ہیں اور اپ کے وسیلہ سے جہاں میں نعمتیں جاری و ساری ہیں
جس کسی کو مرے نبی سے محبت ہے اس کو حاصل ایمان ہے غلاموں میں خاص اس کی پہچان ہے آپ سیّد کونین ہیں آپ محبوب حق ہیں آپ کی عظیم شان ہیں
یہ مرے رب کا ایک راز ہے
مرے رب کی ہی آواز ہے
آپ ہیں جہاں وہیں اٹھتے ہیں سبھی ۔
آپ سے ہی زندگی کا آغاز ہے
سب کی انکھوں کا تارا ہیں .عظمت مصطفیٰ ہر طرف سایہ کئے ہوئے ہے۔ تمام صحابہ آپ کے سفیر رفیق ہیں۔

زندگی ملے گر تو مصطفیٰ کے نام پر
تھا منشا حضور کا یہ کائنات کی تخلیق تھا صدقہ رسول کا
آپ جو آئے تو اتر آیا صحیفہ رسول کا
اصل میں قرآن کا ہے قصیدہ رسول کا
میں تو ہوں مدح خواں رسول کا
آپ نور منزّہ ہیں بشر کے لباس میں
اور لقب مدثر وطٰہٰ رسول کا

اب کسی عاصی کو دھوپ کیا جلا ئیگی 

ہر ایک نے پایا ہے وسیلہ رسول کا
لکھی ہے میں بے نعت تو حیراں کیوں
ازل سے عام ہے جاری چرچہ رسول کا
یہ تو حق ہے میرے رسول کی حقیقت ہے بیاں ہر ایک زمانے میں اب ہر کسی کو پتہ ملتا ہے رسول کا۔

      از قلم :رفعت کنیز حنہ

“میلاد مصطفی کتب سماوی کی روشنی میں”✒️ تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال..7030786828


یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ والانجیل (سورہ اعراف) اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو سید المرسلین و رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا آپ کی خاطر تمام کائنات منصہ وجود پر آئے آپ کی وساطت بابرکت سے تمام انبیاء کرام خلعت نبوت سے سرفراز ہوئے تمام انبیاء کرام سے آپ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا میثاق لیا گیا و اذ اخذ اللہ میثاق(سورہ آل عمران) اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تمام انبیاء کرام کی مسلم و تصدیق شدہ حقیقت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سردار انبیاء اور نبئ آخر الزماں ہیں اور آپ کی سیادت اور خاتم النبیین کی نبوت کا سکہ تمام انبیاء کرام
کے مقدس گروہ پر چلتا ہے حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وسیلہ سے دربار الہی میں اپنی خطا کی معافی مانگی اور ان کا توبہ قبول ہوا
۔۔قرآن مجید برھان رشید–
( 1) حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یا اللہ ! میری اولاد میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو لوگوں کو تیری آتیں پڑھ کر سنائے ان کے نفس کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے.. یہ تھی دعائے خلیل جو رسول اللہ صلی اللہ کی بعثت کی صورت پوری ہوئ نیز اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بھی شرکت تھی حدیث نبوی میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں (المستدرک للحاکم جلد 2)
۔۔تورات شریف۔۔
(2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت : – حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہیں خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا دس ہزار قدسیوں کے ساتھ اس داہنے ہاتھ میں ان کیلئے آتش شریعت تھی وہ بیشک اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے.. اس میں موسی علیہ السلام نے تین انبیاء کرام کی پیشن گوئی فرمائ آن میں سے ایک خود جنہیں حق کا جلوہ
سینا نظر آیا دوسرے حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں یہ شرف سعیر کے قرب و جوار میں حاصل ہوا تیسرے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سید المرسلین جو فاران سے جلوہ افروز ہوا اور اس کے جگمانے سے مراد قرآن کریم کا نزول ہے
اور دس ہزار قدسیوں سے مراد دس ہزار مقدس صحابہ کرام ہیں جو اس فاران سے آنے والے نورانی پیکر کے ساتھ شہر خلیل میں داخل ہوئے اور آتشین شریعت سے مراد اشدآء علی الکفار اور محبت سے مراد رحمآء بینھم ہے اس طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت پوری ہوئ
۔۔زبور شریف۔۔
( 3) حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت :- حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت نہایت صاف اور صریح لفظوں میں دی ہے ترجمہ اور جب عیسی علیہ السلام نے کہا کہ بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور جو مجھ سے پہلے جو تورات آئ ہے اسکی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد احمد نام کا ایک پیغمبر کی خوش خبری لے کر آیا ہوں
۔۔انجیل شریف۔۔
( 4) حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت
حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت اس طرح ہے فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں وہ سدا تیری تعریف کریں نگے مبارک ہیں وہ آدمی جس کی قوت تجھ سے ہیں وہ وادئ بکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں پہلی بارش اسے طاقت کر دیتی ہے وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں ظاہر ہے کہ وادئ بکا سے مراد مکہ ہے قرآن کریم میں بھی مکہ کو بکہ کہا گیا ہے بارش سے مراد غزوۂ بدر ہے امت محمدیہ کی طاقت دن بدن بڑھتی ہے وہ ہمیشہ خدا کی تعریف میں سرگرم ہیں اور دیگر انبیاء کرام نے بشارتوں کا تذکرہ کیا ہے صحابہ کرام اور تابعین میں جن لوگوں کو تورات سے واقفیت تھی یا علمائے یہود میں سے جو لوگ گزشتہ صحف انبیاء میں مذکور ہے. قیصر روم نے بھرے دربار میں کہا تھا کہ ختنہ والے رسول کی پیدائش کا زمانہ قریب ہے شاہ مصر کے دربار میں جو قاصد نبوی خط لے گیا تھا وہ بھی یہ جواب لایا کہ ہاں ہم بھی یقین تھا کہ ایک پیغمبر آنے والے ہیں