WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category باڑمیر (راجستھان)

سرکارکی آمد مرحبا سے گونج اٹھا پورا علاقۂ تھار……رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

……………………………………………………
مرکزی جلوس محمدی گاگریا وعلاقۂ گپن سے سہلاؤ شریف تک شان وشوکت سے نکلا!
…………………………………………………………
سہلاؤشریف میں عظیم الشان سالانہ جلسۂ عیدمیلادالنبی کا اہتمام
…………………………………………………………
سالہائے گذشتہ کی طرح امسال بھی حضور نبی رحمت ﷺ کی یوم ولادت باسعادت بہت ہی دھوم دھام،شان وشوکت اور عقیدت واحترام کےساتھ منایاگیا،یوں تو ماہ ربیع النورشریف کا چاند نظر آتے ہی عاشقان رسول ﷺ اپنے دوکان مکان گلی اور چوراہوں بالخصوص مساجد ومدارس اور درگاہوں کو رنگ برنگے جھنڈوں برقی قمقموں ،روشنیوں اور جھرمٹوں سے سجاکر پرکشش بنادیتے ہیں مگر ربیع النور کی باریویں شب وروز کے مناظر تو کچھ اور ہی دیدہ زیب ودل آویز مناظر پیش کرتے ہیں بارہویں شب میں عموما مسلم آبادیوں میں جلسۂ عید میلادالنبی ﷺ کا شایان شان طریقے پرانعقاد کیا جاتا ہے جب کہ بارہ ربیع النور شریف کو جلوس عیدمیلادالنبی ﷺ نکالنے کا باقاعدہ انتظام وانصرام ہوتا ہے،جلسۂ عید میلادالنبی ﷺ میں علمائے کرام سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں جب کہ جلوس عید میلادالنبی میں نعرہائے تکبیر ورسالت،آقا کی آمد مرحبا جیسے نعروں ،صلوٰة وسلام اور ذکر واذکار سے گلی محلے اور راستے گونج اٹھتے ہیں چنانچہ علاقۂ تھار کے اکثر گاؤں وقصبات جیسے سیڑوا،ہرپالیہ، سینہار، تالسر، کونرا، دیراسر،میکرن والا،دیتانی، کھڈانی،راناسر،گفن ناڈی،کھاریا راٹھوران،لدہے کاپار، بینڈے کاپار وغیرہ کے مسلمانوں نے جلسہ وجلوس عیدمیلادالنبی کا اہتمام کیا-مگر مرکزی جلوس گاگریا و علاقۂ گپن سے سہلاؤشریف تک نکالا گیا ان دونوں جلوسوں میں ہزاروں فرزندان توحید نے شرکت کی-
ان دونوں مرکزی جلوسوں [جس میں علاقہ کھاوڑ کے مختلف جلوس راستے میں ضم ہوجاتے ہیں] کے علاقۂ تھار کی مرکزی دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ درگاہ حضرت پیرسید حاجی عالی شاہ بخاری پچھمائی نگر،سہلاؤشریف پہنچنے ہر دارالعلوم ودرگاہ شریف کی انتظامیہ کمیٹی اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ وعلاقے کی عوام نے شاندار استقبال کیا-
جلوس میں شامل سبھی حضرات نے سب سے پہلے اجتماعی طور پر آستانہ قطب تھار حضرت پیرسید حاجی عالی شاہ بخاری پر حاضری دی پھر صلوٰة وسلام پڑھ کر اجتماعی دعا کی گئی-
بعدہ اس جلوس نے جلسۂ عید میلادالنبی ﷺ کی شکل اختیار کرلی، اور جلسۂ عیدمیلادالنبی کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی بعدہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں نعت رسول پیش کرنے کے لیے ثنا خوان رسول حضرت قاری محمدعرس سکندری انواری کودعوت دی گئی،قاری صاحب نے بہترین نعت رسول پڑھ کر مجمع میں وجد کی سی کیفیت طاری کر دی، پھر صرف ایک خصوصی تقریر ماہر زبان وبیان، خطیب باوقار حضرت علامہ مفتی محمدسفیرالحق صاحب رضوی استاذ ومفتی دارالعلوم غریب نواز الہ آباد[سابق مدرس:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف] کی ہوئی-
آپ نے محبوب خدا،وجہ وجود کائنات،خاتم الانبیاء، رحمة للعٰلمین حضور نبی رحمت ﷺ کی سیرت طیبہ بالخصوص حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے حالات وواقعات نہایت عمدہ پیرایہ وانداز میں بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات وپیغام عدل وانصاف و بھائی چارگی پر عمل کرنےاور حضور کے صحابۂ کرام کے سوانح وحالات سے سبق لینے کی تاکید کی-
صلوٰة وسلام اور حضرت مفتی صاحب کی دعا پر یہ جلسۂ عید میلادالنبی ﷺ اختتام پزیر ہوا-

آخر میں سہلاؤشریف کے ایک اہم وبااثر شخصیت عالی جناب الحاج فتح محمدصاحب صدر ضلع گانگریس کمیٹی باڑمیر نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے ناظم اعلیٰ وشیخ الحدیث نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری [جو فی الحال زیارت حرمین طیبین (عمرہ) کے لیے تشریف لے گیے ہیں] وجملہ ارکان واساتذہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ وانتظامیہ کمیٹی درگاہ حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری کی طرف سے جلسہ وجلوس عید میلادالنبی میں شامل سبھی حضرات بالخصوص غلامانِ بخاری کمیٹی گاگریا[علاقہ:کھاوڑ] وعلاقۂ گپن کا شکریہ ادا کیا جن کے بینر تلے یہ دونوں مرکزی جلوس پرامن طریقے پر اپنے متعینہ مقامات سے ہوتے ہوئے درگاہ گراؤنڈ میں بخیر وعافیت پہنچے-

پیرطریقت حضرت علامہ سید نوراللہ شاہ بخاری زیارت حرمین طیبین کے لیے روانہ.. رپورٹ: محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

یقیناً کسی بھی مسلمان کی زندگی کا سب سے مبارک ومسعود اور مقدس سفر اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ حج و عمرہ کا سفر ہی ہے۔ جلال خداوندی سے منوّر “مکہ مکرمہ” اور جمال محمدی ﷺ سے معمور “مدینہ منوّرہ” سے قلبی لگاؤ ہر مسلمان کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کو ہر نماز کے لیے دی جانی والی اذان حضورنبی کریم ﷺ کی یاد دلاتی ہے تو ہر نماز کے لیے قبلہ کا رخ کعبۃ اللہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے شب و روز اللہ جل جلالہ اور رسول رحمت ﷺ کے احکامات کے آئینہ دار ہوں ۔اللہ اور رسول سے تعلق ،قرآن و سنت سے تعلق کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن اور سنت کی پیروی ہمیں سرزمینِ حجاز کی یاد دلاتی ہے ،جہاں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی اور جہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ گزری۔فطری طور پر ایک بندۂ مؤمن کے دل میں یہ تمنا ضرور ہوتی ہے کہ اس مقدس سرزمینِ حرمین شریفین کی زیارت کی جائے جہاں پر قرآن کریم ناز ل ہوا اور رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مبارک زندگیاں گزریں۔ اسلام نے اس آرزو کی تکمیل کے لیے “استطاعت کی شرط” کے ساتھ بیت اللہ کے حج اور عمرہ کو عبادات میں شامل کردیا ہے۔یقینا دور حاضر میں حج کے لیے جو استطاعت مطلوب ہے وہ ہر مسلمان کے بس کی بات نہیں ہوتی، البتہ عمرہ کے سفر کا قصد کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سال بھر مکہ اور مدینہ معتمرین (عمرہ کرنے والوں)سے آباد رہتے ہیں-چنانچہ عمرہ کرنے ودیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کی غرض سے آج بتاریخ 9 ربیع النور شریف 1444 ھ مطابق 6 اکتوبر 2022 عیسوی بروز جمعرات علاقۂ تھار کی مرکزی دینی درسگاہ کے شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ پیرطریقت نورالعلماء حضرت علّامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی و آپ کے خلیفۂ خاص محب گرامی محبوب العلماء والمشائخ حضرت مولانا باقر حسین صاحب قادری برکاتی انواری اور مخیرقوم عالی جناب امتیاز علی عرف لالہ بھائی گجرات حرمین طیبن کے لیے روانہ ہوئے،اس موقع پر حضرت قبلہ پیر صاحب کے مریدین ومتوسلین اور دارالعلوم وشاخہائے دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف کے مدرسین وملازمین وعزیز طلبہ سمیت دیگر بہت سارے اکابر علماء ومشائخ اورعوام اہلسنت نے مبارکباد پیش کی-
اللّٰہ تعالیٰ آپ اور آپ کی معیت میں اس مقدس سفر پر جانے والے سبھی حضرات کے سفر کو آسان بنائے اور عمرہ کے جملہ ارکان کی بحسن و خوبی ادائیگی اور مقامات مقدسہ کی زیارت اور حرمین طیبین کے اندر خوب خوب عبادت وریاضت کی توفیق بخشے اور ان مقدس مقامات کے صدقے ان حضرات کی مانگی ہوئی دعائیں قبول فرمائے-

مدرسہ اہل سنت فیض سروری آساڑی سندھیان میں حضرت نوح سرور علیہ الرحمہ کی یاد میں جلسۂ سروری کا انعقادکیا گیا… رپورٹ:نہال الدین انواری خادم:مدرسہ اہلسنت فیض سروری آساڑی سندھیان،تحصیل: گڈرا روڈ،ضلع:باڑمیر [راجستھان]

21 صفر 1444 ھ مطابق 19 ستمبر 2022 عیسوی بروز دوشنبہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی تعلیمی شاخ مدرسہ اہلسنت فیض سروری آساڑی سندھیان تحصیل گڈراروڈ،ضلع باڑمیر میں جملہ مسلمانان اہلسنت بالخصوص سروری جماعت کی طرف سے قطب زماں حضرت شاہ لطف اللہ المعروف حضرت مخدوم نوح سرور ہالائی علیہ الرحمہ کی یاد میں ایک عظیم الشان اصلاحی کانفرنس بنام “جلسۂ سروری” کا انعقاد کیا گیا-
جلسہ کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی-
بعدہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف اور اس کی تعلیمی شاخ مدرسہ اہلسنت فیض سروری کے کچھ ہونہار طلبہ نے نعت وغزل [سندھی نعت منقبت] اور تقاریر پر مشتمل اپنا دینی ومذہبی پروگرام پیش کیا،جسے لوگوں نے خوب پسندکیا اور بچوں کو داد ودہش وانعام واکرام سے نوازکر بچوں کی حوصلہ افزائی کی-
افتتاحی خطاب حضرت حافظ وقاری محمداحسان صاحب اشفاقی سروری جیسلیمری نے کیا،بعدہ خطیب خصوصی عالم باعمل حضرت علامہ ومولانا عبدالغفور صاحب اشفاقی سروری خطیب وامام جامع مسجد سُمیرپور،پالی مارواڑ وخطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے یکے بعد دیگریے حضرت مخدوم نوح سرور علیہ الرحمہ کی حیات بارزہ کے مختلف گوشوں اور اصلاح معاشرہ میں اولیائےکرام کے عنوان پر عمدہ خطاب کیا-
خصوصی نعت و منقبت خوانی کاشرف واصف شاہ ہدیٰ حضرت مولاناقاری محمدجاوید صاحب سکندری انواری مدرس دارالعلوم قادریہ انوار شاہ جیلاں دیراسر ومعروف ثناخوان مصطفیٰ حضرت حافظ وقاری عطاؤالرحمٰن صاحب قادری انواری جودھپور نے حاصل کیا-
آخر میں صدارتی خطاب سرپرست اجلاس پیرطریقت رہبر راہ شریعت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب کے دوران لوگوں کو شریعت مطہرہ پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے اور منہیات شرعیہ سے گریزاں ہونے کی تاکید وتلقین کرتے ہوئے علاقہ میں مروجہ کچھ غیرشرعی مراسم سے لوگوں کو بچنے کی سخت تاکیدکرنے کے ساتھ شیطانی وسوسوں سے بچنے اور نمازپنجگانہ باجماعت اداکرنے،صاحب استطاعت ہونے پر حج وزکوٰة کی ادائیگی اور ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی بھی تاکیدکی-آخر میں دینی جلسوں کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ بزرگان دین کے ناموں پر مجلسوں کے انعقاد کا مقصد اصلی یہی ہے کہ آپ تک دینی وشرعی پیغام پہنچایاجائے،اور ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ بزرگان دین کی مبارک زندگیوں کو پڑھ اور اپنے علمائےکرام سے سن کر انہیں کی زندگیوں کی طرح اپنی زندگی گذارنے کی کوشش کریں،آپ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ شریعت اسلامیہ پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونا اور اس پر استقامت ہی اصل ولایت کا معیار ہے، اور اگر کوئی کیسا ہی کرشمہ کیوں نہ دکھائے،اور کتنے ہی محیرالعقول اعمال اپنے آپ سے صادر کرے مگر اس کے اعمال اگر شریعت اسلامیہ کے خلاف ہوں تو وہ ولی توکجا صحیح معنوں میں مسلمان بھی نہیں ہو سکتا،اس لیے کہ ولایت کے لیے عالم شریعت بھی ہوناضروری ہے،ہم اور آپ جس بزرگ کے نام سے یہ جلسہ کررہے ہیں وہ اگر ایک طرف اللّٰہ کے مقدس ولی تھے تو دوسری طرف وہ عالم ربانی بھی تھے، آپ نے اپنی زندگی میں دینی خدمات کے ساتھ قرآن مقدس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے،آپ کی اس اور اس طرح کی دیگر خدمات جلیلہ کی وجہ سے رہتی دنیا تک آپ کانام باقی رہےگا-
آپ کےخطاب سےقبل حضرت مولانامحمدیوسف صاحب قادری نے سندھی زبان میں کچھ اشعار گنگنائے-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور قبلہ نورالعلماء حضرت علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس جلسہ میں خصوصیت کےساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
ادیب شہیر حضرت مولانامحمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانا باقرحسین صاحب قادری برکاتی انواری دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولانا عطاؤالرحمٰن صاحب قادری انواری ناظم اعلیٰ مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا،حضرت قاری محمدیعقوب صاحب ناظم اعلیٰ مدرسہ مدرسہ فیض پاگارا روضے دھنی،بریاڑا، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب قادری خطیب وامام جامع مسجد آگاسڑی،مولانا محمد حمزہ صاحب قادری انواری سولنکیا، مولاناعبدالمطلب صاحب انواری، مولاناعبدالرؤف انواری،سرپنچ مولانافتح محمد صاحب انواری،قاری ارباب علی صاحب انواری،مولانا محمد عرس سکندری انواری،خلیفہ محمدبخش صاحب سروری خادم خاص درگاہ عبن شاہ پیرکی جال،سانچور،جناب مصری جنیجا بانی سروری یوا فاؤنڈیشن اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ، جناب مٹھار فقیر خلیفہ سروری جماعت،جناب جمال فقیر صاحب آگاسڑی وغیرہم-

مدرسہ اہلسنت عطائے غوثیہ کولیانہ میں حضرت غوث بہاؤالحق زکریا ملتانی کا 783 واں عرس غوثیہ منایا گیا… رپورٹ:محمدشبیر قادری انواری خادم:مدرسہ اہلسنت عطائےغوثیہ متصل جامع مسجد کولیانہ تحصیل: سیڑوا،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

حسب سابق امسال بھی غلامان بہاؤالدین زکریا ملتانی کمیٹی وغوثیہ جماعت کولیانہ کی طرف سے مدرسہ اہلسنت عطائے غوثیہ کولیانہ میں 20 صفرالمظفر 1444 ھ مطابق 18 ستمبر 2022 عیسوی بروز اتوار [دوشنبہ کی رات] انتہائی عظیم الشان پیمانہ پر جلسۂ غوثیت کا اہتمام عقیدت واحترام کے ساتھ کیا گیا-
جلسہ کی شروعات مولوی محمدمشرف متعلم دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے ذریعہ تلاوت کلام پاک سے کی گئی،بعدہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف ومدرسہ اہلسنت عطائے غوثیہ کولیانہ کے ہونہار طلبہ نے نعت وغزل [سندھی نعت ومنقبت] اور تقاریر پر مشتمل دینی ومذہبی ہروگرام پیش کیا-
پھر افتتاحی خطاب مولانا محمد اکبر سہروردی نے عظمت اولیائے کرام کے عنوان پر کیا،بعدہ یکے بعد دیگرے خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدردارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف وشہزادۂ مفتئ تھر حضرت مولاناعبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوار غوثیہ سیڑوا نے اولیائےکرام واصلاح معاشرہ سے متعلق بہترین خطاب کیا-
آخر میں خصوصی وصدارتی خطاب پیرطریقت رہبرراہ شریعت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے عرس اولیائے کرام ودینی مجالس کی اصلیت اور ان کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ عرس اولیائے کرام کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم سبھی لوگ ان کی مبارک زندگیوں کو اپنی نظروں میں رکھتے ہوئے ان کے نقوش قدم پر چلیں اور انہون نے ہمیں جو پیغامات دییے ہیں ان پر عمل پیرا ہوں،ارکان اسلام بالخصوص نماز پنجگانہ کی پابندی کریں،اپنے دلوں میں خشیت الٰہی پیداکرنے کی کوشش کریں-آپ نے اپنے ناصحانہ خطاب کےدوران سرتاج الصوفیاء والشعراء حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی علیہ الرحمہ کے عارفانہ کلام کی ایسی دلنشیں انداز میں تشریح وتوضیح کی کہ لوگ خوب محظوظ ہوئے-
خصوصی نعت خوانی کاشرف مدّاح رسول واصف شاہ ہدیٰ حضرت مولانا قاری محمدجاویدسکندری انواری مدرس دارالعلوم قادریہ انوارشاہ جیلاں دیراسر نے حاصل کیا-جب کہ نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانامحمدحسین صاحب قادری مدرس دارالعلوم انوارمصطفیٰ وحضرت مولانا خالدرضاصاحب سہروردی انواری مدرس مدرسہ فیض غوثیہ تالسر نے مشترکہ طورپر بحسن وخوبی نبھایا-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائے کرام شریک رہے-
حضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی ،حضرت مولاناباقرحسین صاحب قادری برکاتی انواری دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولاناعبداللطیف صاحب قادری، حضرت مولانا دوست محمد صاحب سہروردی انواری،حضرت مولانا محمدصدیق سہروردی،مولانا محمد حاکم صاحب انواری،مولانامحمدشمار انواری،مولانا کبیراحمد سہروردی، مولانا نیازمحمد انواری،مولانا محمد عمرالدین سہروردی،قاری ارباب علی قادری،مولانامحمدعرس سکندری انواری وغیرہم

اپنے آپ کو علم کے ساتھ عمل کےزیور سے آراستہ کریں……مولاناحافظ اللّٰہ بخش اشرفی.. رپورٹ:باقرحسین قادری برکاتی انواری خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

سہلاؤشریف،باڑمیر [پریس ریلیز]


16 صفر 1444 ھ/14 ستمبر 2022 عیسوی بروز بدھ سنی تبلیغی جماعت باسنی کے جنرل سکریٹری اور نگینہ مسجد کے خطیب وامام مشہورومعروف عالم باعمل حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری اللہ بخش صاحب اشرفی صدرالمدرسین مدرسہ غوثیہ کلاجماعت خانہ باسنی ناگور شریف کی علاقۂ تھار کی مرکزی وراجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں قبل نماز مغرب آمد ہوئی-اس موقع پر بعد نماز مغرب دارالعلوم کی عظیم الشان غریب نواز مسجد میں طلبہ کو نصیحت کرنے کی خاطر ایک مختصر مجلس رکھی گئی-جس کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئ،بعدہ دارالعلوم کے ایک خوش گلو طالب علم نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا،پھر وقت کی قلت کومدنظر رکھتے ہوئے دارالعلوم کے اساتذہ کی خواہش پر بلا کسی تاخیر کے پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا حافظ وقاری اللّٰہ بخش صاحب اشرفی دار العلوم انوار مصطفیٰ کے طلبہ کو اپنے قیمتی نصائح سے نوازنے کے لیے تشریف لائے اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:آپ حضرات کا دینی تعلیم کےحصول کے لیے یہاں دارالعلوم میں داخلہ لے کر تحصیل علوم میں مصروف رہنا اللہ کی جانب سے ایک عظیم انتخاب ونعمت ہے اور آپ یہ یاد رکھیں کسی بھی دینی ادارے میں آپ کا داخلہ اور آپ کا اس میں تعلیم حاصل کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت کی دلیل ہے، یعنی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’من یرد اللّٰہ به خیرًا یفقه فی الدین‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین میں فقاہت (سمجھ) عطا فرماتا ہے‘‘۔۔۔۔۔ وحی منقطع ہوچکی ہے، جس کے ذریعہ یقینا من جانب اللہ غیب سے قانون الٰہی اترتا تھا، لیکن آپ کے سامنے قرآن کریم موجود ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے، ان کے ذریعہ آپ اللہ پاک کی رضا معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات میں سے آپ کاانتخاب فرماکرآپ کو ادھر متوجہ کیا ۔ یہ آپ لوگوں کے لیے وہ نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیاکی ہرنعمت ہیچ ہے۔ اس لیے آپ اس دین کوسمجھ کر پڑھیں اور آخرت کا اجر وثواب سامنے رکھ کر محنت کریں۔ اس نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ آپ محنت کریں۔تحصل علوم دینیہ کے لیے خوب سعی وکوشش کریں،اوقات کی پابندی کریں۔اپنے ان قیمتی اوقات کی خوب قدر کریں کیونکہ بقول حضول حافظ ملت”تضییع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے” اس لیے اپنے اوقات کو منظم کرکے اپنے مکمل اوقات کو تحصیل علم اور اس کے ذرائع ہی میں استعمال کریں، اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھیں۔ غور سے بات سنیں۔ آپ کی آنکھ، کان اور دماغ پوری طرح استاذ کی طرف متوجہ ہو۔ اور اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہو جو آپ دن میں پڑھ رہے ہیں، رات کو اس کا مطالعہ کرلیں۔آپس میں علمی تکرار کریں، کیونکہ اگر آپ متعلقہ سبق پڑھنے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ اسے مطالعہ کرلیں اور پڑھتے وقت غور سے استاذ کی بات کو سنیں اور پڑھنے کے بعد بھی کم ازکم ایک مرتبہ پھر مطالعہ اور تکرار کرلیں تو ان شاء اللہ! اس طرح کرنے سے پھر کبھی سبق نہیں بھولے گا-اور علم ہرمقام پرادب کامتقاضی ہے جیساکہ آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ علم ادب چاہتا ہے: اپنے استاذ کا ادب، اپنے ادارے کا ادب اور اپنے سے بڑے کا ادب، یہ ادب بہت کچھ دیتا ہے۔یادرکھو خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’من لم یرحم صغیرَنا ولم یوقر کبیرَنا ولم یعرف شرفَ علمائنا فلیس منا۔‘‘ ’’جو ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں کرتا، علماء کی قدر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ اس لیے آپ حضرات ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کیونکہ آپ کا یہ ادب دوسرے مسلمانوں پربھی اچھا اثر ڈالے گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ دیکھو دین پڑھنے والے طلبہ ایسے ہوتے ہیں-آپ نے اپنی نصحتوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:کہ کوئی طالب علم ہو یا عالم دین ، یا ان کے علاوہ کوئی بھی دینی مشغلہ رکھنے والا شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بشارتیں ہیں،جیساکہ ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لن یشبع الموٴمن من خیر سمعه حتّٰی یکونَ منتہاہ الجنّة“ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام واسلاف ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے،ہمیں اور آپ کو بھی چاہییے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھیں، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔

ایک موقعہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کےلیےنکلا تو وہ جب تک واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیونکہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالب علم بھی احیاء دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلب علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالب علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ کیونکہ حصول علم کے بعد اب وہ عالم دین ہوگیا، اور عالم دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔طلب علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَةً لِمَا قَضٰی“ یعنی طلب علم کی وجہ سے ماضی میں کیے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلب علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے، مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔اتنی ساری فضیلتوں کے باوجود اگر ہم اور آپ علم دین کے حصول میں باقاعدہ کوشاں نہ ہوں تو یہ ہماری اور آپ کی حرماں نصیبی ہی ہوگی،

لہٰذا طلبۂ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ عمل بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بغیر عمل کے علم بے فائدہ ہے جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ
علم چنداں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل درتو نیست نادانی
اور غالباً حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم یا کسی بزرگ کا فرمان ہے”العلم بلاعمل وبال والعمل بلاعلم ضلال والجمع بینھما کمال”…جب کہ بہت سے لوگ صرف علم حاصل کرنے کوہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر کوئی محض علم حاصل کرلے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا علم بےکار وبےفائدہ ہے،علم بغیر عمل کے ایسا ہی ہے جیسے انسانی جسم بغیر روح کے ہو،جس طرح روح کے بغیرجسم بے کار ہوتا ہے اسی طرح علم اور عمل کا جوڑ ہے،آپ نے اپنی ناصحانہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کو مخاطب کر کے فرمایا-
قابل احترام اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ ! ہم سب جانتے ہیں کہ علم کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے اور علم پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے کائنات کی ہر شے بخشش کی دعائیں مانگتی ہےجیساکہ حدیث مبارکہ میں آتاہے وہ مچھلیاں جو پانی کی تہوں میں تیر تی ہیں اور چیونٹیاں جو اپنے بلوں میں رہتی ہیں حتٰی کہ کوئی شے ایسی نہیں جو علم والوں کے لیے دعائیں نہ مانگتی ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے راستے میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔اس سے زیادہ سعادت وعظمت اور کیا ہوسکتی ہے اس لیے اللہ نے فرمایاہے :
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
مگر یہ سعادت یہ درجات اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب علم و عمل یکجا ہوجائیں تو پھر درجات کی بلندی شروع ہوجاتی ہے اور اگرصرف علم ہو اور عمل نہ ہوتو ایسے علم کو علم نافع نہیں کہا جاسکتا، اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺجب دعا مانگتے تو یہ فرماتے:اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا (سنن ابن ماجه (1/ 289)
’’اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتاہوں‘‘
اور فرماتے:اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذبک مِن عِلم لایَنفَعُ
’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘‘

علم نافع وہ ہے جس کے مطابق عمل بھی ہو اور جس علم پر عمل نہ ہو وہ علم نافع نہیں اور جب علم و عمل جمع ہوجائیں تو نور علی نور ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔

جب ہم ائمہ اور محدثین کی زندگی و سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نظر آتاہے کہ وہ جو لکھتے پڑھتے تو اس پر عمل بھی کرتے ۔
اور ذخیرۂ احادیث کی سب سے پہلی کتاب موطاء امام مالک ہے جب وہ جمع ہوئی تو امام مالک رحمہ اللہ بہت خوش تھے پوچھنے والوں نے پوچھا امام صاحب کتاب کےمکمل ہونے پر خوش ہیں؟ جواب میں فرمایا:اس کے جمع ہونے پر تو خوش ہوں لیکن حقیقی خوشی اس بات کی ہے کہ اس کتاب میں کوئی حدیث ایسی نہیں جس پر میں نے عمل نہ کیا ہواور بطور مثال فرمانے لگے کہ جب میں حجامہ (سنگی لگانا) کی حدیث لکھنے لگا میری غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ حدیث لکھوں جبکہ میں نے حجامہ نہیں لگوایا تھا لیکن حدیث پر عمل کی خاطر باوجود اس بات کے کہ مجھے حاجت نہ تھی لیکن حجامہ والے کو بلاکر حجامہ لگوایا۔

اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے بارے میں آتاہے کہ وہ ایک دریا کےکنارے احادیث لکھنے بیٹھا کرتے تھے ایک دن وہاں تشریف فرماتھےکہ ایک کشتی کا گذر ہوا اس میں سوار ایک شخص کو چھینک آئی اس نے الحمدللہ کہا امام صاحب نے اس کی چھینک کی آواز بھی سنی اور اس کا الحمدللہ کہنا بھی سنا لیکن خیال نہ رہاکہ جواب میں یرحمک اللہ کہیں اور وہ کشتی گذر گئی، جب خیال آیا تو اپنے آپ سے فرمانے لگے اے داؤد نبی کریم ﷺ کی حدیثیں لکھ رہے ہو اور حدیث پر عمل نہیں کیاکنارےپے ایک کشتی کھڑی تھی اس کشتی والے کو کہا وہ جو کشتی ابھی گزری ہے مجھے اس تک پہنچانے کی کتنی اجرت لوگے اس نے کہا تین دینار،آپ اس میں سوار ہوگئے اور جب وہ کشتی ساتھ آگئی تو جس شخص کو چھینک آئی تھی اس کی طرف منہ کر کے کہا ’’یرحمک اللہ ‘‘یہ بولنے کے بعد کشتی والے کو کہا مجھے واپس کنارے پے لے چلو، جب واپس پلٹے تو آواز غیبی آئی:

یاابا داؤد اشتریت جنتک بثلاثة دنانیر

’’اے ابو داؤد تم نے اپنی جنت تین دیناروں کےعوض خرید لی‘‘
یہ ہے علم و عمل میں مطابقت-

آئیے امام بخاری رحمہ اللہ کو دیکھیئے جو امیر المومنین فی الحدیث ہیں وہ فرماتے ہیں :

’’مجھےاللہ پر سوفیصد یقین ہے کہ اللہ قیامت کےدن مجھ سے اس بات کا حساب نہیں لے گا کیونکہ جب سے میں نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ غیبت حرام ہے تو میں نے کسی کی غیبت نہیں کی‘‘

کیاہم میں سے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتاہے؟ اسے کہتے ہیں علم وعمل میں مطابقت کہ جو سیکھا اس پرپہلے خود عمل کیا۔

میری آپ لوگوں سے التجاہے کہ علم میں پختگی حاصل کریں لیکن عمل کی طرف سے بھی غافل نہ ہو ں اس پر بھی پوری توجہ ضروری ہے۔

آج کے اس دور میں علماء کی کمی نہیں ہے کوتاہی اگر ہے تو عملی پہلو مفقود ہوگیا ہے ، کمی اگر ہے تو وہ عملی زندگی میں ہے ،آئییے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ:
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا”
آپ نے اپنے اختتامی جملوں میں اساتذہ وطلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا ریت کے ان دھوروں کے درمیان دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف ودیگر سنی اداروں کی تعلیمی وتدریسی، دینی ومذہبی خدمات بہت ہی مستحسن اور وعمدہ ہیں اور ان اداروں کے مدرسین ومعاونین اور ذمہ داران لائق ستائش ہیں کہ اس طرح کے پریشان کن سنگلاخ وریگستانی علاقے میں دین وسنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں،خصوصیت کے ساتھ آپ نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے ناظم اعلیٰ نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری کی خدمات کو خوب سراہا-
صلوٰة وسلام اور دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

بزرگان دین کے اعراس کا اصل مقصد لوگوں تک بزرگوں کی قیمتی باتیں اور دینی پیغام پہنچانا ہے……سیدنوراللہ شاہ بخاری : رپورٹ:قائم الدین انواری خادم:مدرسہ اہلسنت فیضان شاہ رکن عالم متصل مدینہ مسجد سالاریہ، تحصیل:سیڑھوا،ضلع: باڑمیر[راجستھان]

مدرسہ اھل سنت فیضانِ شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ میں جلسۂ غوث العٰلمین منایاگیا-



حسب سابق امسال بھی 15 صفرالمظفر 1444 ھ/13 ستمبر 2022 عیسوی بروز منگل مدرسہ اہل سنت فیضان شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ، سیڑھوا میں ایک اصلاحی جلسہ بنام “جلسۂ غوث العالمین حضرت غوث بہاؤالحق المعروف بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرّحمہ” عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا-
تلاوت کلام ربابی سے جلسہ کی شروعات ہوئی، بعدہ مدرسہ فیضان شاہ رکن عالم کے طلبہ وطالبات نے اپنا دینی ومذہبی پروگرام نعت، غزل[سندھی نعت] ومکالمہ کی شکل میں پیش کیا-پھر خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے “اصلاح معاشرہ میں بزرگان دین کا کردار” کے عنوان پر عمدہ خطاب کیا-
آپ کے خطاب کے بعد شہزادۂ مفتئِ تھر حضرت مولاناعبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑھوا نے “محبت رسول واولیاءِ کرام” کے عنوان پر بہترین خطاب فرمایا-
آخر میں خصوصی وصدارتی خطاب خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجاہ نورالعلماء پیرطریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب میں جگہ جگہ جو بزرگان دین کے نام پر جلسے کیے جاتے ہیں ان جلسوں کا اصل مقصد بتاتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرات جن بزرگان دین کے ناموں سے یہ جلسے کرتے ہیں اگر صحیح معنوں میں ان کے فیوض وبرکات حاصل کرنا چاہیں تو آپ حضرات ان کی مبارک زندگیوں کو مطالعہ کرکے انہیں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کریں، ان کے جو ارشادات ومواعظ اور ملفوظات ہیں ان پر عمل پیرا ہوں،انہوں نے اپنی مکمل زندگی لوگوں تک دینی پیغام پہنچایا اور شریعت اسلامیہ کے وہ مکمل طور پر عامل رہے تو اگر ہم اور آپ ان سے محبت کے دعویٰ دار ہیں تو ہمیں بھی شریعت اسلامیہ کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ منہیات شرعیہ سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہییے-آپ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے پیری مریدی کے آداب اور اس کی اصلیت پر بھی عمدہ گفتگو کی- اور ساتھ ہی ساتھ سبھی مرشدان طریقت کے مریدین کو مخاطب کرکے اس علاقے میں جملہ سلاسلِ طریقت میں جو ذکر واذکاررائج ہیں ان پر مدوامت کی تاکید کی-
خصوصی نعت خوانی کاشرف مداح رسول مولانامحمدعرس سکندی انواری نے حاصل کیا،اور نظامت کے فرائض مونا محمدریاض الدین سکندری انواری نے بحسن وخوبی نبھایا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے!
حضرت پیر سیدداون شاہ بخاری، حضرت مولانامحمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات دارالعلوم انوارمصطفیٰ، حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،قاری محمدہاشم انواری وغیرہم-

قوم مسلم کے اندر تعلیمی بیداری پیداکرنا انتہائی ضروری:سیدنوراللہ شاہ بخاری:- رپورٹ:(مولانا)عطاؤالرحمان قادری انواری![ناظم اعلیٰ]مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی متصل درگاہ حضرت مخدوم درس قطب علیہ الرحمہ،میکرن والا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر[راجستھان]


مدرسہ انوارقادریہ میکرن والا میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس منایا گیا


علم اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ، رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل  فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے،
اور خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصول علم پر کافی زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے نامساعد حالات میں بھی دارارقم میں علم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا پھر ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں باضابطہ ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جسے “صفہ” کہاجاتا ھے اس درسگاہ نبوی سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علوم حاصل کیا اور پھر پوری دنیا میں اس علم کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا جس اسلام اور پیغمبر اسلام نے حصول علم پر اتنا زور دیا مگر آج وہی امت مسلمہ تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے رہ گئی جواس وقت کا سب سے بڑا المیہ ھے آج امت مسلمہ جہاں عصری علوم میں پچھڑی ھوئی ھے وہیں دینی علم کے حصول میں بھی ناکام ھے آج کی صورت حال یہ ھے کہ مسلم نونہالوں کو نہ توحید ورسالت کے بارےمیں واقفیت ھے، نہ طھارت ونماز ،روزہ و زکوٰة، حقوق والدین وحقوق العباد جیسے ضروری مسائل کا علم ھے،حدتو یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کو ڈھنگ سے کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا جس سےمعاشرہ پر بہت برے اثرات مرتب ھو رہے ہیں
ان خیالات کااظہار علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ پیرطریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے میکرن والا، باڑمیر میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرّحمہ کے سالانہ عرس مبارک ومدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے سالانہ تعلیمی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران کیا، اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر خصوصی زرو دیا کہ آج قوم مسلم میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے،اور اہل ثروت حضرات کو اپنے مال ودولت کو فضولیات سے بچانے اور نیک کاموں میں خرچ کرنےکی جانب پیش رفت کرنے کی از حد ضرورت ھے، خطاب کاسلسلہ جاری رکھتے ھوئے سرپرستوں سے بھی اپیل کی کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر ،انجنیر ، سائنسداں ضرور بنائیں یہ بھی وقت کا تقاضا ھے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علوم کے سیکھنے کی ترغیب دی ھے جس کی کئی مثالیں سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان علوم کے حصول سے پہلے اپنے بچوں کو کتاب وسنت ،عقائد و دینی فرائض کی تعلیم دلائیں اور کم از کم اس قدر دینی علم ضرور پڑھائیں کہ وہ اپنی مفروضہ عبادت اداکرسکے اور تلاوت قرآن کرسکے تاکہ ان کا ایمان مضبوط ھوسکے اور اس دور الحاد میں کوئی ان کے ایمان پر حملہ نہ کرسکے -اور آپ نے فرمایا کہ اس دور میں اگر کوئی علم حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی ہیں اس کے باوجود جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہیں گویا وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے لوگوں کو پابندی کےساتھ نماز پنجگانہ باجماعت اداکرنے،اپنے مالوں کی زکوٰة نکالنے ودیگر ارکان اسلام کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت،بزرگوں کی تعظیم وتکریم، چھوٹوں پر شفقت،جملہ برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کے کرنے کی تاکید وتلقین کی،گویا آپ نے جملہ منہیات شرعیہ سے بچنے اور اوامر شرعیہ پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی-
آپ کے ناصحانہ وصدارتی خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے عمدہ خطاب کیا اور واصف شاہ ہدیٰ، شاہکارترنم حضرت حافظ وقاری عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور ومدّاح رسول مولانا محمدیونس صاحب انواری نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے- جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف و مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے چند ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقریر پر مشتمل اپنا دینی و علمی پروگرام پیش کیا-
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری نے بحسن وخوبی انجام دیا-
صلوٰة وسلام اور قبلہ نورالعلماء حضرت علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت پیرسید غلام محمدشاہ بخاری،حضرت پیرسیدداون شاہ بخاری،ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین دارالعلوم انوارمصطفیٰ، مولاناحبیب اللہ قادری انواری،مولانا فخرالدین انواری، مولانااسلام الدین قادری انواری، مولانا شیر محمدانواری،حافظ برکت علی قادری،مولانامحمدعلی انواری، مولانامحمدقاسم انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناروشن دین سہروردی انواری،مولاناشہاب الدین انواری،مولانامحمدعرس سکندری انواری وغیرہم

ایمان سب سے بڑی دولت ونعمت،اس کی حفاظت کی فکرکریں:-سیدنوراللہ شاہ بخاری.. رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری خادم:مدرسہ گلشن غوثیہ ہینڈیا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان سب بڑی دولت ونعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے،اس لیےہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکرکرنی چاہییے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ ساری نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت” ایمان” کی نعمت ہے، روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت  موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش وسہولت، آرام وراحت اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشااور فرمایا : آج میں نے تمہارے لیے تمھارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)اور اسی نعمت پراپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرمایا:دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(الحجرات:)

اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے  اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان ومذاہب کےدرمیان منتخب فرمایاہے-
ایمان کی دولت دین و دنیا کا سب سے بہترین متاع اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ایمان ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد،فلاح و کامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:مفہوم:’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے،انہیں ضرور زمین کی (سلطنت) خلافت عطاکرےگا‘‘۔(سورۂ نور)
الحمدللہ،ہم مسلمان ہیں،مسلمان ہونا بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں،ایمان کی نعمت جسے مل جائے،وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے، اس نعمت کا حق اگر ہم ادا کرتے رہیں تو یہ نعمت ہمارے دین کے لیے تو نصرت وکامیابی کی دلیل ہے ہی،دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی علامت ہے۔اہل ایمان کو اس نعمت کی برکت سے ایسا عظیم اعزاز عطا فرمایا گیا کہ اسے بادشاہت کی نوید سناکر روئے زمین کا خلیفہ بنادیا۔
ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی، وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم ﷺہمیشہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت اور تاکیدکرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ۔ایسا صرف اس لئے کیونکہ شرک سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے،اللہ ناراض ہوتا ہے اور بنا توبہ کئے اگر شرک ہی پر بندے کا انتقال ہو جائے تو جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(سورۃ المائدہ)
اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں،بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگتے رہیں۔
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے ہینڈیا، باڑمیر میں 8 صفر 1444 ھ/06 ستمبر 2022 عیسوی کو ایک صوفی بزرگ حضرت ہالا فقیر علیہ الرحمہ کے عرس کی تقریب کے موقع پر جلسۂ اصلاح معاشرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہیں-
آپ نے اپنے اپنے خطاب کے دوران علاقۂ تھار میں مروجہ کچھ اہم وغلط رسوم کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگوں کو ان سے بچنے کی تاکید وتلقین کی، بالخصوص قبر بلا مقبور کی زیارت اور اس کی تعظیم وتوقیر سے سختی سے منع فرمایا،اور کچھ نام نہاد صوفی بلکہ حدتو یہ ہے کہ کچھ عورتیں جو یہ کہہ کر لوگوں کا علاج ومعالجہ [جھاڑ پھونک] کرتی ہیں اور بظاہر ان کے کچھ معاملات حل کرتی ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان کے اوپر فلاں بزرگ کا سایہ آتا ہے اس کے غیر شرعی ہونے اور شیطانی اعمال سے ہونے پر بہت ہی عمدہ، پراثر اور دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی اور لوگوں کو اس طرح کے جملہ خرافات سے بچنے کی تاکید وتلقین کی،اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گذارنے کی اپیل کی-
آپ کے خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف نے سندھی زبان میں “اصلاح معاشرہ” کے عنوان پر بہت ہی عمدہ خطاب کیا،جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے کچھ ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور نورالعلماء حضرت علامہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائے کرام شریک ہوئے-
ادیب شہیرحضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولانا دلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین:دارالعلوم انوارمصطفیٰ،مولاناباقرحسین قادری برکاتی،مولاناحبیب اللہ قادری انواری، مولانا احمدعلی انواری،قاری مہرالدین انواری،مولانا محمد ایوب، قاری ارباب علی قادری انواری، مولانانیاز محمد انواری وغیرہم-

اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت ،از :روشن القادری انواری فاضل :دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)


اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اے مومنو! تم لوگ اللہ کی رسی کو اکٹھا ہوکر مضبوطی سے پکڑ لو “(مفہوم قرآن)اللہ تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو یہ حکم دیا کہ اے میرے بندو ! جب تم لوگ کوئی نیک کام کرنا چاہو تو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کرو،اس فرمان خداوندی سے اتفاق و اتحاد کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺکی بہت سی حدیثیں بھی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن سے آپسی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جائے گی ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ سارے مومنین ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی ایک آنکھ بیمار ہوئی تو وہ تمام بیمار ہیں (مسلم شریف )
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے اس کا بعض بعض کو طاقت پہنچاتا ہے پھر حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائی یعنی یہ جس طرح ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہیئے (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (ایضاً)
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چار گی کی کیا اہمیت ہے؟۔
بڑا مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ مسلمانوں میں وحدت اسلامیہ اور اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کا سچا جذبہ موجود تھا اور وہ آپس میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مدد گار تھے، ان کی تعداد اگر چہ کم تھی لیکن بڑی بڑی طاقتیں ان کے خوف سے لرزتی تھیں اور کسی کی مجال نہ تھی جو ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ،تاریخ کے اوراق میں اس مقدس عہد ِمحبت کا ذکر موجود ہے جو مدینہ کی پاک زمین پر ہجرت کے پہلے سال میں مسلمانوں میں قائم ہوا ۔رسول ﷺنے جب اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بہت سے فرزندان ِاسلام نےحضور ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اور اپنے گھر بار ،دوست واحباب اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے مال وزر کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ کا رُخ کیا ،جب یہ بے سرو سامان جماعت مدینہ پہنچی تو ان میں سے اکثر کی حالت صحیح نہ تھی، نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندو بست تھا ،نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی انتظام تھا ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عہد محبت کو قائم کیا ،جب اس عہد کی تکمیل ہو گئی تو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے انتہائی ایثار و محبت سے کام لیا ،جس انصاری کےپاس دو مکان تھے اس نے اپنا ایک مکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اور جس کے پاس پانچ سو دینار تھے اس نے ڈھائی سو دینار اپنے مہاجر بھائی کو دے دیئے ،اور جس کے پاس دو باغ تھے اس نے ایک باغ دے دیا ،جس کے پاس دو بیویاں تھی اس نے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے بھائی مہاجر سے کہا کہ تم اس سے نکاح کرلو ۔
ایک انصاری کا نام حضرت عبد الرحمٰن بن عاصم تھا وہ نہایت غریب تھے اور ان کے پاس سوائے ایک چادر کے کچھ نہ تھا لیکن ایمان و ایقان کی دولت ان کے پاس کسی سے کچھ کم نہ تھی انہوں نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اس قسم کے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جن سے پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی سچی محبت اور سچی ہمدردی، مخلصانہ دوستی اور آپسی اتفاق و اتحاد ظاہر ہوتا ہے ،اور یہ وہ چیز ہے جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی اور کامیابی کی اعلیٰ اور بلند منزل پر پہنچا دیا تھا اور اقوام ِعالم کے دلوں میں ان کا ایک خاص وقار اور رعب قائم کر دیا تھا ،لیکن آہ !آج یہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی مسلمانوں میں نہیں ہے ،آج ان کی تعداد دنیا میں کروڑوں ہے لیکن اقوام عالم کے دلوں میں ان کا وقار اور کو ئی احترام نہیں، ہر قوم اور ہر جماعت ان کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے اور ان کی کمزوریوں کو محسوس کرکے ان کی ہستی کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
اسلام کادعویٰ کرنے والو! تمہیں معلوم ہے ؟کہ آج یہ ذلت و رسوائی کیوں تمہارے لئے مخصوص ہے ؟اس لئےاور صرف اس لئے کہ تم میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی نہیں ہے ،تم نے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کو نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا اور تم نے ان تعلقات کو جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث تھے اپنی نفس پرستیوں کے حوالے کردیا ہے، آج تمہارے اختلاف و انتسار کی کوئی انتہا نہیں ہے، تم اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی امداد و اعانت کو ضروری نہیں سمجھتے ہو ،تم اپنے بھائیوں کو آپس میں دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہو، تم ذرا ذرا سی باتوں پر مشتعل اور جھگڑ جاتے ہو، تم اپنے نفس پرستیوں میں مصروف ہو اور تمہیں خبر نہیں ہے کہ دوسری قومیں تمہاری ہستی کو مٹانے کے لئے کس قدر خوف ناک اور جدو جہد سے کوشش کر رہے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی غفلتوں و کوتاہیوں کو دور کردو !اسلامی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی اپنے اندر پیدا کر لو! تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تجارت و صنعت کا ایک بڑا حصہ تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے، مسلمان ان شعبوں میں بہت کمزور ہیں ،ضرورت ہے کہ تم اپنے مسلم بھائیوں کی امداد و اعانت کرو اور ان کو تجارت و صنعت کے شعبوں میں کامیاب بناؤ ،اگر تمہارے دل میں ملت ِاسلامیہ کا کچھ بھی درد ہے اور تم مسلمانوں کی کچھ بھی تباہی نہیں چاہتے ہو تو خدا کے لئے آج ہی سے اپنے دل میں عہد کر لو کہ تم ہر اعتبار اور ہر حیثیت و نوعیت سے مسلمانوں کی مدد کرو گے ،اتفاق و اتحاد اور آپسی بھائی چارگی اور امدادو اعانت کا معاملہ کروگے ،مساوات و انصاف کا آپس میں برتاؤ کرو گے اگر تم نے ایسا کیا تو تم کامیاب و فائزالمرام ہو جاؤگے ۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے سبھی مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا فرمائے ! آمین

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین