WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حقوق العباد کی ادائیگی ایک اہم ذمہ داری، ازقلم:مولاناحبیب اللہ قادری انواری ،آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں ۔ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا ،حج و زکوٰۃ ادا کرنا وغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں ۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہاجاتا ہے ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی با شعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے ۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے ۔ حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندے کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں دونوں حقوق ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیو ں نہیں رکھتے؟۔جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں ۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جاے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے با وجود رحمت و مغفرت الہٰئ سے محرومی ہمارا مقدر بن جاے جیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ کی ایک حدیث اس پر شاہد ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے پوچھا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا :اللہ کے رسول !مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو آپ نے فرمایانہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوگا دنیا میں وہ نماز پڑھتا رہا ہوگا ،روزے رکھتا رہا ہوگا،زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوگا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مار ا پیٹا ہوگا{تو یہ سب مظلومین بارگاہ الٰہی میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد)دائر کریں گے چناں چہ اللہ کے حکم سے}اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی ،لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گےتو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے (یوں اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہو جاے گا اور اس کے پاس گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے بلکہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر ڈال دیا جاے گا ) پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا (مسلم شریف) –

ایسے بڑے خطرے اور نقصان سے بچنے کے لیے اور اپنا دامن حساب وکتاب سے صاف رکھنے کے لئے ہمیں اپنے معاملات کی صفائی کی بہت ضرورت ہے ۔مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضرور ی ہے ان میں کوتاہی سے ہمارای عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کی ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں ۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقو ق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں (یعنی نماز ،روزے کے پابند ہیں )مگر وہ معاملات ِزندگی میں کھوٹے ہیں ،اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ،اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو با قاعدہ دھیان نہیں دیتے (یعنی نماز روزے وغیرہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے ) لیکن اخلاق و کردار کے اچھے ،معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بہرہ ورتے ہیں ۔جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہوگی۔

حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ،ہر ذات و نسل ،ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ہم اپنے عزیزوں ،دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں، غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ،والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آشائش (آرام)ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں-

جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق)سے ہے جیسے نماز ،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادیے گا (انشاء اللہ ) ۔لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاًکسی شخص کا سامان چرایا ،یا کسی شخص کو کوئی تکلیف دی ،یا کسی شخص کا حق مارا ،کسی کی زمین جائداد پر نا جائز قبضہ کیا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اکثر علما و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے اس کا حق ادا کریں ،یا اس سے حق معاف کروائیں ۔پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ و استغفار کے لیے رجوع کریں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”شہید کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں مگر کسی شخص کا قرض “(مسلم شریف ج/۲ص/ ۱۳۵ مجلس برکات)یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کر دیا جاے گا و ہ ذمہ میں باقی رہے گا ،چاہے جتنا بھی نیک عمل کر لیا جاے مشہور محدث حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے (شرح مسلم)۔

لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری طرف سے بھی حقوق العباد ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہو رہی ہے ؟کہیں ہم بھی دانستہ (جان بوجھ کر)یا غیر دانستہ (انجانے میں)کسی کا حق تو نہیں مار رہے؟ کہیں اور کبھی کسی سے قرض لیا ہو اور ابھی تک اسے ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو؟یا کسی کی زمین ہتھیالی ہو؟

ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے،خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ،اگر کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فوراً صاف کرلینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئےاس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اولاد ادا کرے گی ۔ جائداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے ،یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بہن بھائی ہیں ،آپس کی بات ہے ،میدان محشر میں نہ کوئی کسی کا بیٹا ہوگا ،نہ بھائی بہن ،ہر شخص اپنی فکر میں پریشان و حیران ہوگا ،اسی طرح اگر کسی پر تہمت (الزام)لگائی ہے ،کسی کو پریشان کیا ہے ،کسی کی غیبت کی ہے ،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معاملا ت کو صاف کر لینا چاہیئے ،معاف کرائے یا اس کا حق اس کو دے-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ امت مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے ،اور حقوق العباد کی ادائیگی پر دھیان دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

زکوٰة احادیث کے آئینے میں- از:(علامہ)پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن اور اہم ترین مالی فریضہ ہے جس کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے دوسرے سال میں مسلمانوں پر زکوٰة کی فرضیت کا حکم نافذ فرما یا

زکوٰة کے لغوی معنیٰ پاکیزگی اور بڑھوتری کے آتے ہیں ، کیونکہ زکوٰۃ کے ادا کرنے سے مال میں خیر و برکت کی زیادتی اور پاکیزگی ہو جاتی ہے اس لیے ایسا مال جو ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے-

شرعی اِعتبار سے زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کے لیے چند شرطوں کے ساتھ واجب کیا جو سال گزرنے کے بعد مقررہ نصاب کے مطابق محتاجوں کو دیا جاتا ہے-

اسلام میں زکوٰۃ اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے کسی مسلمان فقیر کو اپنے مال میں سے مقررہ حصوں کے مالک بنا دینے کا نام ہے، لیکن زکوٰۃ کی رقم ہاشمی کو نہیں دی جا سکتی، نہ شوہر اپنی بیوی کو، نہ بیوی اپنے شوہر کو، نہ کوئی شخص اپنی اولاد یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کو دے سکتا ہے، نہ اپنی اصل یعنی ماں باپ دادا دادی وغیرہ کو دے سکتا ہے، بلکہ ان کی مدد و اعانت اپنی ذاتی مال سے کرنی ہوگی- (ردالمحتار ج/ ۲ ص/۶۳)

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن و احادیث میں زکوٰۃ دینے پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور زکوۃ کے نہ دینے پر بہت سی وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، صرف قرآن کے اندر بیسوں آیتوں میں زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے، حدیث کی کتابوں میں بھی جا بجا زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے جس سے زکوٰۃ کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت سمجھ میں آتی ہے-

آئییے زکوٰة کی ادائیگی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث[فرمودات وارشادات] ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہیں!★ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: کہ اپنے مال کی زکوۃ دے کہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردےگی،اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر، اور مسکین اور پڑوسی اور سائل کا حق پہچان- (مسند احمد)★ حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اسلام کا پورا ہونا اور مکمل ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں،اور جو زکوٰة نہ دے اس کی نماز قبول نہیں-(طبرانی) ★ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جو ان میں سے تین ادا کرے [استطاعت ہوتے ہوئے] وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک کہ پوری چاروں ادا نہ کریے، وہ چار چیزیں یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، ماہ رمضان کا روزہ، اور حج بیت اللہ-(مسند احمد) ★ حاکم مستدرک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور فرما دیا-★ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰة ادا کر کے اپنے مالوں کو مضبوط قلعہ میں محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور مصیبت نازل ہونے پر دعا اور عاجزی سے مدد مانگو-★حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازیں پابندی سے پڑھے، ماہ رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا- (نسائی شریف)زکوٰة مال کی حفاظت کا ذریعہ ہے: یہ ایک عجیب فلسفہ ہے کہ انسان مال کی زکوٰة دے اور اس کا مال محفوظ ہو جائے یعنی مال چوری ہونے سے بچ جائے،قدرتی آفتوں سے اسے نقصان نہ پہنچے،گویا ہر نقصان ہونے والے ذریعہ سے محفوظ رہے، یقین محکم اور ایمان کی پختگی ہے کہ جب مسلمان اللہ کی راہ میں حلال روزی ہی سے زکوٰۃ دے گا تو اللہ کی رحمت اس کے مال کو ہر آفت و بلا سے بچائے گی، ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ میں تشریف فرما تھے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص کا بڑا نقصان ہوگیا ہے، سمندر کی طغیانی نے اس کے مال کو ضائع و برباد کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگل ہو یا دریا، گویا کسی جگہ بھی جو مال ضائع وبرباد ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے، اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کر کے حفاظت کیا کرو اور اپنے بیماروں کی بیماری صدقہ سے دور کرو-زکوٰة نہ دینے والوں کےلیے وعیدیں:اب آئیے دیکھتے ہیں کہ صاحب نصاب [مال دار] ہوتے ہوئے اگر کوئی آدمی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو اس کے لیے کیسی کیسی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یوں تو قرآن مقدس میں زکوٰة نہ دینے والوں کے لیے مختلف مقامات پر شدید ترین وعیدیں نازل ہوئی ہیں جنہیں اگر ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہو جائے گی اس لیے صرف حضور کی حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں، زکوۃ نہ دینے والوں کے لیے وعیدوں وسزاؤں پر مشتمل کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں! حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو اللہ نے مال دیا اوراس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو اس کا یہ مال اس کے لئے گنجا سانپ بن جائے گا جس کی آنکھوں میں دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ سانپ قیامت کے دن اس کی گردن میں بطور طوق ڈال دیا جائے گا پھر سانپ منہ کے دونوں کناروں کویعنی باہوں کو پکڑ لے گا پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے “اور وہ لوگ جو بخیلی کرتے ہیں وہ گمان نہ کریں کہ اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ان کے لیے یہ اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بری چیز ہے، عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا”- (بخاری شریف)★ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا- (رواہ الطبرانی فی الاوسط)★ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خشکی اورتری میں جو مال تلف اور ہلاک ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ہلاک ہوتا ہے- (طبرانی)★رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار ہوگا جو اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا تھا یعنی زکوۃ نہیں دیتا تھا- (طبرانی) ★ فرمان نبوی ہے کہ معراج کی رات میں میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جنہوں نے آگے پیچھے چتھرے لگائے ہوئے تھے اور جہنم کا تھوہر،ایلوا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے، پوچھا: جبریل: یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے عرض کی: حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ [زکوٰة] نہیں دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا ہے-

عبرت کے لئے اوپر ذکر کی گئی حدیثیں ہی کافی ہیں ورنہ! قرآن مقدس وکتب احادیث میں اس کے علاوہ بھی بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جنہیں اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے- سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے

ہم رمضان المبارک کیسے گذاریں؟-از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے، یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایساانسان فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا کے بمصداق دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب وکامران ہوگا- یقیناً رمضان المبارک بڑی برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو خصوصی سہولیات ملتی ہیں اور اس کے خصوصی انعام دنیائے انسانیت پر ہوتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کے فیضان کے کیا کہنے،اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے،اس مبارک مہینے میں اجر وثواب بہت ہی بڑھ جاتا ہے،نفل کاثواب فرض کے برابر اور فرض کاثواب ستر گناکردیاجاتاہے، بلکہ اس مہینے میں تو روزہ دار کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتا ہے،عرش کے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں،اور ایک حدیث پاک کے مطابق “رمضان کے روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں” اس ماہ میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اور ان سے انوار و برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں،اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس ماہ کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔ قرآن و احادیث میں تو رمضان المبارک کے فضائل اتنی کثرت سے آئے ہیں کہ اگران سب کو رقم کردیا جائے تو ایک مسقل کتاب تیار ہوسکتی ہے- رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ منبر کے قریب آ جاؤ۔ جب لوگ قریب آ گئے تو آپ منبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: “آمین”- اس کے بعد دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا کہ “آمین”۔ اس کے بعد تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا “آمین”۔ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی جو کبھی نہیں سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جبرئیل (علیہ السلام) آ گئے اور انھوں نے کہا کہ برباد ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ ملا، لیکن وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا، تو میں نے کہا آمین۔ یہ ایک طویل روایت ہے۔ متعدد کتب احادیث میں مروی ہے۔ اس حدیث کے دو حصے اور ہیں لیکن اس کا پہلا حصہ خاص رمضان سے متعلق ہے۔ اس لیے یہاں اس کو ذکر کیا۔قابل غور بات یہ ہےکہ رمضان المبارک تو اللہ رب العالمین کا عطیہ ہے لیکن اس عطیہ سے بہرہ مند ہونے کی ذمہ داری خود انسان کی ہے۔ یعنی انسان کو کوشش کرکے اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے طور پر ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کی مغفرت کی شکل پیدا ہو سکے۔ اس نقطۂ نظر سے رمضان المبارک کی مبارک ساعات کو بہت احتیاط اور پورے دھیان سے گزارنے کی ضرورت ہے۔*ہماری خوش نصیبی:* بلاشبہ ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ *بزرگی کا معیار:* سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔ *حضور نبی اکرمﷺ کی ترغیب:*ایک مرتبہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتاہے اور تم پر رحمتیں نازل فرماتا ہے ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتاہے ، دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔اور فرمایا کہ یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ (رواہ الطبرانی)(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے)تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو گویا اللہ کے رسول نے ہمیں اس بات کی ترغیب دی کہ ہم رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جاؤں، جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ میں فرسٹ آجاؤں،اسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔*رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ:* صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہﷺ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔ پہلی بات…آپﷺ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپﷺ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی-دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔ تیسری بات…آپﷺ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔*ہم رمضان کیسے گزاریں:* اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑی بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دے گا۔*(۱) روزے کی حفاظت:* ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا: اَلصِّیَامُ جُنَّة مَا لَمْ یَخْرِقْھَا [روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]ڈھال سے مراد یہ ہے کہ روزہ انسان کےلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟حضورﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَه مِنْ صَیَامِهِ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]کیوں ؟ …اس لیے کہ اس نےروزہ بھی رکھا اور فلمی گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے یہاں اجر نہیں پاتا۔یہ تو صرف ریاکاری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا: منْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَل بِه فَلَیْسَ له حاجة فی اَنْ یَّضع طعامه وشرابه ۔ [جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کواس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواه نہیں ]کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔ *(۲)عبادت کی کثرت* ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ،نفلی عبادات، ذکر و اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔*(۳) دعاؤں کی کثرت:* رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ عطا کرناچاہتا ہے۔ اس لیے اس میں دعاؤں کی کثرت کرنی چاہییے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہوَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَةٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَةٍ [رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔] اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہییے نہ معلوم کون سی گھڑی میں دعا قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔احادیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا گیا ہے،جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا، تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘ اس لیے افطار کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺنے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے تو ہمیں افطار کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہییے؟ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کے لیے اپنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائےگا۔حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کو طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعاؤں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائےگا۔ *(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*رمضان المبارک کوقرآن پاک سے خاص نسبت ہی کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنَ (البقرۃ : ۱۸۵)(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسولﷺ سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ *سلف صالحین کے واقعات:* سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔*بزرگانِ دِین اور شوقِ تلاوت:* (1)ہمارے امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں مَع عیدُ الفطر 62 قرآنِ پاک خَتم کرتے(دن کوایک ، رات کوایک ، پورے ماہ کی تراویح میں ایک اور عید کے روز ایک)۔ [الخیرات الحسان ، ص۵۰] (2)حضرت امام شافعی رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ ماہِ رَمَضان میں 60قرآنِ پاک ختم کرتے تھے اور سب نمازمیں ختم کرتے۔ [حلیۃ الاولیاء ، الامام الشافعی ، ۹ / ۱۴۲ ، رقم : ۱۳۴۲۶] (3) حضرت اسود بن یزید رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر دو راتوں میں پوراقرآن پڑھتےاورصرف مغرب و عشاء کے درمیان آرام فرماتے تھے اور رَمَضانُ الْمُبارَک کےعلاوہ 6راتوں میں ایک ختمِ قرآن کر لیا کرتے تھے۔ [طبقات ابن سعد ، رقم : ۱۹۷۶ ، اسودبن یزید ، ۶ / ۱۳۶بتغیر قلیل۔ حلیۃ الاولیاء ، اسود بن یزید ، ۲ / ۱۲۰ ، رقم : ۱۶۵۲] (4)حضرت امام مالک اور حضرت سفیان ثوری رحمہمااللّٰہ تعالیٰ علیہما کے بارے میں بھی کتابوں میں یہ درج ہےکہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان المبارک میں اپنی دیگر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے اکثر اوقات تلاوت قرآن میں گذارتے تھے-تلاش وتحقیق کرنے پر سیکڑوں ایسے واقعات اکابر واسلاف کے ملتے ہیں جن کا رمضان المبارک کے پاک مہینے کا نزول ہوتے ہی عبادت وریاضت میں کثرت ہو جاتی،عام معمولات زندگی کو ترک کر کے اس خاص اور بابرکت مہینے کا پورا پورا لطف اٹھاتے-یہ ہے ہمارے کچھ بزرگوں کےرمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا شوق وذوق، ہمیں بھی چاہییے کہ ہم ان بزرگان دین کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے حتی الامکان تلاوت قرآن پاک زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں-یاد رکھنا چاہییے کہ بزرگوں کے یہ واقعات کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور محض کرامت نہیں بلکہ نفس واقعہ ہیں،اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے ،یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہہ دیاجائے،بلکہ اس لئے لکھے اور بتائے جاتےہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے،اور حتی الوسع پوراکرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع کمالات کا سچا مصداق ہیں،آپ ﷺ ہی کے مختلف احوال کا پرتو ہیں-*(۵)صدقہ وخیرات کی کثرت:* رمضان المبارک کاایک بڑا اور اہم عمل زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنا ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے،آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی”آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں اتنی زیادہ اور عام ہوتی جیسے تیز ہواہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ”(مفہوم حدیث)اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے صدقہ وخیرات کا زیادہ اہتمام کرناچاہییے، صدقہ وخیرات کا مطلب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے فقراء ومساکین،یتامیٰ وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا، بےلباسوں کو لباس پہنانا،بھوکوں کو کھانافراہم کرنا،بیماروں کا علاج ومعالجہ کرنا وکرانا،یتیموں وبیواؤں اور بے سہارالوگوں کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ کرنا،معذوروں وکمزوروں کا سہارابننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سےنجات دلانا اور اس طرح کے دیگر ضرورت مند افراد کےساتھ تعاون وہمدردی کرنا-*(۶)رمضان المبارک کااحترام کریں اور اس کی بےحرمتی سے بچیں:* شعائراسلام، مذہبی ودینی علامات اور نیکی وبھلائی کی قدراور احترام کرنا اور ان کی عظمت وحرمت کو گلے سے لگانا جس طرح نیکی اور سعادت مندی کی علامت ہے اسی طرح ان چیزوں کی ناقدری اور بےحرمتی کرنا انتہائی شقاوت وبدبختی کی بات ہے،رمضان المبارک کی عزت وتوقیر پر جہاں ڈھیروں نیکیاں ملتی ہیں وہیں اس کی بے حرمتی کرنے پر دردناک عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ “جس نے اس ماہ مبارک میں کوئی نشہ آور چیز پی یا کسی مومن پر بہتان باندھا یا اس میں گناہ کیا تواللّٰہ رب العزت اس کے ایک سال کے اعمال برباد فرمادے گا،پس تم ماہ رمضان میں کوتاہی کرنے سے ڈرو،کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے،اللّٰہ عزّوجل نے تمہارے لیے گیارہ مہینے کردییے کہ ان میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو اور لذت حاصل کرو اور اپنے لیے ایک مہینہ خاص کرلیا پس تم ماہ رمضان کے معاملہ میں ڈرو-[رمضان کے تیس اسباق ص/۳۱ بحوالہ: المعجم الاوسط ج/۲ ص/۴۱۴]حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “میری امت ذلیل ورسوا نہ ہوگی جب تک رمضان کاحق ادا کرتی رہےگی،عرض کیاگیا:یارسول اللّٰہ!رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل ورسوا ہونا کیا ہے؟فرمایا:اس ماہ میں ان کاحرام کاموں کو کرنا،پھرفرمایا جس نے اس ماہ میں زناکیا یاشراب پی تو اگلے رمضان المبارک تک اللہ رب العزت اور جتنے فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں،پس اگر یہ شخص اگلے رمضان کو پانے سے پہلے مرگیا تواس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچاسکے گی،پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو،کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے اعتبار سے نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں اسی طرح گناہوں کامعاملہ بھی ہے-[ایضاً ص/۳۲ بحوالہ:المعجم الصغیر للطبرانی ج/۵ ص/۶۰]حاصل کلام یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک کااحترام ہم سبھی مسلمانوں کے لیے بہت ہی ضروری ہے اور رمضان کے احترام کا مطلب یہ ہےکہ اس میں گناہوں سے بچا جائے، جھوٹ،غیبت وچغلی اور بدکلامی سے اپنے آپ کو بچایاجائے،جملہ منہیات شرعیہ سے بچتے ہوئے اوامر پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ صرف کھاناپینا بند کر دینے کو رمضان کا کامل احترام نہیں کہا جاسکتا،رمضان کے اصل مقصدکو حاصل کرنا ہی اصل میں رمضان کا احترام ہے-اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے احترام اور روزوں کی پابندی اور حفاظت کی توفیق بخشے،اور رمضان کے احترام کے ساتھ اس کی بے حرمتی سے بچائے-آمین ثمّ آمین-

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت، ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت

ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     الحمدللّٰہ ! پورے ہندوستان میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے، مشرقی ہندوستان ہو یا مغربی، ہر خطے میں مسلمان بچوں کی زبانوں سے “قال اللّٰه وقال الرّسول” کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سے جاری و ساری ہے، یہ انہی مدارس و مکاتب کا فیضان ہے کہ آج ہم آزادی کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اگر مدارس کے علما نے اپنی درس گاہوں سے نکل کر رسم شبیری نہ ادا کی ہوتی تو ہندوستان کا حال کچھ اور ہوتا، دینی مدرسوں کے علما و فضلا نے نہ صرف ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا بلکہ باشندگان ہند کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد بھی فرمائی

اور وہ بچے جو غریبی کی وجہ سے کچھ بھی تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے ان کے لیے بھی تعلیم کا بندوبست کیا، ہندوستان میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مدارس ومکاتب سے غریب مسلم طلبہ نے زیادہ استفادہ کیا جہاں انہیں نہ صرف یہ کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا بلکہ ان غریب و نادار طلبہ کے لیے کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام کیا گیا، اس کی واضح مثال مغربی راجستھان کی عظیم تعلیمی و تربیتی درس گاہ ” دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” اور اس جیسی دوسری درس گاہیں ہیں-
مسجد اللّٰہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا، چناں چہ ہر مومن مسجد میں اپنا سر اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا کر بندگی کا حق ادا کرتا ہے اور مدرسہ میں خدا کے گھر جانے اور سر جھکانے کا طریقہ سیکھتا ہے یہ دونوں اسلام کی شان اور اسلام کی عظمت کے نشان ہیں-
دینی مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے اسلام کے پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے یہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے-
مسجد نبوی شریف کے مقدس ننھے سےچبوترہ سے علوم وافکار کا جو سوتا پھوٹا تھا پوری دنیا اب تک اس کے آبشار سے سرشار ہو رہی ہے ہے- یہ مدارس و مکاتب اسی سمندر کے نہر کی بل کھاتی لہریں ہیں، اسی وجہ سے ان کی ایک الگ دنیا ہے، الگ فضا ہے، الگ شان ہے، الگ پہچان ہے،اور الگ تاثیر وتاثّر ہے-
جب بھی انسانی آبادی بے چارگی کا شکار ہوئی ہے تو مدارس اسلامیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں قوم وملت کے حوالے کی ہیں کہ ان کے دم قدم کی برکتوں سے صحرا میں بھی پھول کھل اٹھے وہ چاہے امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی، امام شافعی ہوں یا امام مالک وامام حنبل،خواجہ غریب نواز ہوں، یا رومی،سعدی،رازی وغزالی(علیہم الرّحمہ) ۔
امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ہوں یا حضور صدرالافاضل ،حضور مفتی اعظم ہند ہوں یا حضور صدرالشریعہ، تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا ازہری نوراللہ مرقدہ ہوں یا شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں،بحرالعلوم ہوں یا محدّث کبیر،شارح بخاری حضرت مفتی محمّدشریف الحق امجدی ہوں یا حضور فقیہ ملّت علیہما الرّحمہ، حضور مفتئ اعظم راجستھان علّامہ مفتی محمّد اشفاق حسین نعیمی علیہ الرّحمہ ہوں یاخیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی،محقّق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمّدنظام الدّین صاحب رضوی مدّظلّہ العالی ہوں یا علاقۂ تھار کی ممتاز وعظیم دینی دانش گاہ “دارالعلوم انوار مصطفی سہلاؤ شریف” کے مہتمم و شیخ الحدیث نورالعلما،شیخ طریقت حضرت علامہ سید نوراللّٰہ شاہ بخاری یہ سبھی حضرات مدارس اسلامیہ کے ہی پروردہ وفیض یافتہ ہیں-
احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں مسجد نبوی کے چبوترہ کے علاوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اولاد کو ضروریاتِ دین سکھلا دیاکرتے تھے عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی صحابۂ کرام کیا کرتے تھے، جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا- (حیاۃالصحابہ جلد /۱، باب النصرة)۔
پھر عہدِ صحابہ میں حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطور وظیفہ کے مقرر کردی- (معلّیٰ ابن حزم جلد/ ۸ صفحہ/۱۹۵)۔
جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید اجراءِ مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ” تم لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو”-( کتاب الاموال،صفحہ/۲۲۱)۔
دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں!
{۱}حاکم وامیر: ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے- {۲} مصحف: یعنی قرآن کی خریدوفروخت، ورنہ کتاب اللّٰہ کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا-
۔{۳} اور تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم ضروری ہے جو اجرت لے، ورنہ لوگ جاھل رہ جائیں گے- (تربیت الاولاد فی الاسلام ،جلد/۱صفحہ/۲۹۱)۔
بلاشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے، یہی مدارس ومکاتب ہیں کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں- وہ طلبہ جنہیں صحیح معنوں میں بولنے تک نہ آتاتھا تھا، مدارس نے انہیں بولنے کا شعور بخشا، چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کے گر بتائے،اسی لیے توکسی شاعر نے کہا ہے

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سےانساں بنائےجاتے ہیں
مذکورہ شعر بلاشبہ مدارس کی اہمیت و افادیت اور مدارس کے مقصد قیام کو اجاگر کر رہا ہے، آج سے کئی صدیاں پہلے مدارس کا قیام عمل میں آیا اور ان خرقہ پوشوں کا مقصد گلشن محمدی کو سرسبز و شاداب رکھنا تھا، دور حاضر میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد پیغامِ خداوندی و فرمان نبوی کو فروغ دے کر شجر اسلام کی آبیاری کرنا ہے تاکہ علوم مصطفویہ کے نور سے ہر گھر روشن و منور ہوجائے- انہی مدارس ومکاتب سے انسان سلیقۂ زندگی پاتا ہے -قوم وملّت کے ایمان وعقائد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگرمدارس و مکاتب نہ ہوں تو کما حقہ جلالِ کبریائی کا غلغلہ نہ ہو، مدارس کا وجود نہ ہو تو حق و باطل میں امتیاز مشکل ہے، یہیں سے انسان تاریکی سے نکل کر روشنی پاتا ہے- جب انسانیت ہلاکت کے گدھے میں گرنے لگتی ہے تو یہ مدارس ہی ہیں جن کے فارغین علما ان گرنے والوں کو ہلاکت سے بچاتے اور وادئیِ ظلمت سے نکال کر نور و ہدایت کی بزم گاہ میں لاکھڑاکرتے ہیں-
مدارسِ اسلامیہ ملک میں دینی و عصری علوم کے رواج اور تعلیم اور پڑھائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں، اگر یہ مدارس و مکاتب بند ہو جائیں تو ان لاکھوں نونہالانِ ملّت کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری حکومت کے سرآ پڑے گی اور حکومت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنےمہذّب،پُرسکون اور مفید ادارے نہیں چلاسکتی گویا یہ مدارس ملک میں تعلیمی شرح کے اضافہ کے ساتھ ہر سال اربوں روپیہ کا مالی فائدہ بھی کر رہے ہیں، سیاست کے کارندوں کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے-
ان مدارس کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لیے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے، کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لیے تنخواہ دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اوربری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو ،قتل و غارت گری کی جگہ امن وآشتی آئے،چوری اوررشوت کا جنازہ نکالا جائے ، زنا کاری اور بدکاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود جوں جوں دوا کی جارہی ہے مرض بڑھتا جارہا ہے، جب کی یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں مسجدوں میں، دینی جلسوں میں ،مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے ارباب نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لیے قابل افتخار سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف انہیں ملک و ملت کے لیے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈّہ سمجھاجانے لگا-(مدارس اسلامیہ تاریخ وحقائق کے اجالے میں صفحہ/۵۴،۵۳)۔
صرف انہی باتوں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلا یہ کہ —-” مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں”—-” مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کیے جاتے ہیں”—-” مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے”—-” مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے”—-” مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے”—- اور “مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں”—- وغیرہ وغیرہ
جب کی حقیقت میں معاملہ اس کا بالکل ہی برعکس واُلٹا ہے یعنی مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلاتفریقِ مذہب وملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتا ہے مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے-
مدارسِ اسلامیہ پر جو اس طرح کےغلط اور بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب غلط ہیں ،اس لیے کہ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں، امن و امان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکرو بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ “مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں”……اللّٰہ تعالیٰ مدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے- آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!

رمضان المبارک کا پیغام:امت مسلمہ کے ناماز:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

ماہ رمضان خیروبرکت اور نیکیوں ورحمتوں کاموسم بہار– از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

بلا شبہ ماہ رمضان المبارک اہل ایمان کے لیے بڑاہی بابرکت اور رحمتوں بھرا مہینہ ہے۔یہ ماہ عظیم نیکیوں کا موسم اور خیروبرکت سمیٹنے کا مہینہ ہے، اس ماہ معظم میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ نیکیوں کے ثواب میں اور دنوں کی بہ نسبت اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے پاپی بھی اس موسمِ رحمت میں خدا کی طرف رجوع کر کے اپنے دامنِ مراد کو بھرتے نظر آتے ہیں۔ نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، مساجد کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک پڑھنے اور سننے کا ماحول بن جاتا ہے۔ سروں پر ٹوپیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ صدقہ و خیرات کا بھی دور دورہ ہو جاتا ہے۔ اپنے غریب و محتاج بھائیوں کے ساتھ غم گساری کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اہلِ ثروت لوگ زکوٰۃ و صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔اس ماہ مبارک کی عظمت و بزرگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔اسی ماہ میں شبِ قدر ہے، جس کا قیام (عبادت و ریاضت) ہزار مہینوں کے قیام سے بہتر ہے۔ ہر ماہ میں عبادت کے لئے وقت مقرر ہے مگر اس ماہ میں روزہ دار کا لمحہ لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اس ماہ میں نیکیوں کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ماہ میں اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور بندوں کی جائز دعائیں بابِ اجابت تک بالکل آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اسی ماہ کی ایک تاریخ کو نازل ہوئے۔ توریت شریف اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ انجیل شریف بھی اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ فتح مکہ اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو ہوئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے،درمیان میں مغفرت ہے اور آخر میں آگ(جہنم)سے نجات ہے۔جوشخص اس ماہ مبارک میں اپنے غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرےگا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائےگا اور اسے عذاب سے چھٹکارا عطافرمائےگا (مفہوم حدیث) ۔حدیث مبارک میں ہے’’رمضان اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک ومسعود مہینے سے ربّ ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جداہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو( جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرے (نیک) بندوں کے لیے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پا ئیں گے‘‘۔پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے،قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم!کیاوہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا:نہیں،کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے‘‘(شعب الایمان ج/۳ ص/۳۰۳ حدیث:۳۶۰۳)۔رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت وریاضت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی بھی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔مگرافسوس صدافسوس! اس موسم رحمت میں بھی کچھ لوگ ہمیں ایسے ضرور نظر آتے ہیں جو ماہ رمضان کی حرمت کوتارتار کرتے نظر آتے ہیں،نیکیوں کے اس موسم بہاراں میں بھی ان کے لبوں پر دینی وایمانی باتوں اور قرآن کی تلاوت کے بجائے فلمی نغمے ہوتے ہیں، رات بسر کرنے کے لیے وہ موبائل کا بیجا استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔دن میں دنیابھر کے اطاعت گزار بندے حالت روزہ سے رہتے ہیں مگر کچھ شقی القلب لوگ بیڑی، سگریٹ کی کَش، چائے کی چْسکی اور بیماری کا بہانہ کرکے دن میں اعلانیہ کھاتے پیتے نظرآتے ہیں،گویاوہ پورا دن اللہ کے فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔نیکیوں کی امنگوں کایہ موسم اس لیے نہیں کہ بدمست ہاتھیوں کی طرح ہر طرف بہکتے پھریں۔اسی موسم جنوں انگیز میں تاریخ کے اوراق پر ایسے نوجوان ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے جغرافیہ کے نقشے بدل دیئے۔عین کالی گھٹاؤں میں میخانوں کی بنیادیں الٹ دیں اور رات کی تنہائیوں میں نغمہائے طرب سے نہیں تلاوت قرآن اور ذکرمصطفیٰ کے زمزموں سے اپنے جگرکی آگ بجھائی ہے۔ہوش کے ناخن لینا چاہئے ہمارے ان مسلم بھائیوں کو جو ایک تو روزہ نہیں رکھتے دوسرے چوری اور سینہ زوری کا یہ عالَم کہ ہوٹلوں پر اعلانیہ کھا پی کراور روزہ داروں کے سامنے ہی بیڑی وسگریٹ کے کش لگاتے،پان چباتے ہیں بلکہ بعض تو اتنے بے مروّت،بے باک اور ڈھیٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں کہ وہ سرعام پانی پیتے اور کھانا کھاتے بھی نہیں شرماتے ہیں۔اس طرح وہ روزہ کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے ناہنجار لوگوں کے لیے فقہی کتابوں میں سخت سزا کا حکم ہے۔ہم سبھی لوگوں کواپنے اپنے اعمال وافعال،سیرت وکردار اور ایمان کا محاسبہ کرناچاہئے۔دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ:ہم سبھی مسلمانوں کو ماہ رمضان المبارک کا احترام کرنےکے ساتھ اس ماہ کی رحمتوں،برکتوں اور فیضان سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے – آمین

تواضع و انکساری احادیث کی روشنی میں!از:سید نور اللہ شاہ بخاری-

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اورتعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیونکہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔ تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :حضور اکرم ﷺدین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺکی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺنے فرمایا :تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چنانچہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا ۔ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺمسجدِنبوی میں تشریف لے گئے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو ، یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺحد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ! تواضع بلندی کا ذریعہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مالدار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)تواضع کی بنیاد:حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو ،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کےبغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔تواضع کی توفیق:حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لئے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)تواضع و انکساری کا اجر:اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم ) اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ ) حضور نبی کریم کی شان ِتواضع :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺاپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺجب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے، اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂاقدس کی صفائی بھی فرماتے ،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶) حضور یہ سارے کام خود اس لئے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔

کسبِ حلال کے لیے جدّ و جہد کرنا اور حرام سے بچنا : احادیث کی روشنی میں–از:سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

مذہب اسلام نے جس طرح ظاہری آرائشِ جسم میں طہارت کی ترغیب دی ہے، بالکل اسی طرح بدن کی نشو و نما اور پرورش میں بھی طہارت کی ترغیب دلائی ہے۔ شریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ جب اللہ کا بندہ ،اللہ کے حضور حاضر ہو اور اپنی بندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہو، تو اس وقت جس طرح اس کا ظاہرِ بدن ، اسکے کپڑےاور مقامِ بندگی پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح بندے کا وہ بدن جس پر پاک کپڑے پہنے جاتے ہیں اور جو جسم اللہ کی بارگاہ میں جُھک کر عبد ہونے کا اعلان کرنے جا رہاہے۔ اس کا رزق حلال سے پلاہوا ہونابھی ضروری ہے ۔ اس عنوان کے تحت اگر دیکھا جائے تو کتب احادیث بھری پڑی ہیں (جن کے اندر رزق حلال کمانے کی ترغیب دلائی گئی ہےاور رزق حرام سے بچنے کی ترھیب بھی ہے) اُن میں سے چند احادیث مبارکہ ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں!٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًاوَّاِنَّ اللہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ“۔ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کو قبول نہیں فرماتاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو وہی حکم دیاہے جو حکم رسولوں کو دیاتھا۔ کہ ارشاد فرمایا:﴿یٰاَیُّھَاالرَّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾(المومنون:۵۱)”اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤاور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتاہوں“(کنزالایمان)۔ اور فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾(بقرہ: ۱۷۲) ترجمہ: ”اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی سُتھری چیزیںاور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“ (کنز الایمان)پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفرکرکے آیا ہو، اس کے بال غبار آلودہوں”یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ، یَارَبِّ “ (پھر اسی پریشانی کی حالت میں)اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر عرض کرےاے میرے رب! (لیکن) اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے (حرام کھاتا پیتاہے)اور اس کا لباس حرام ( کے پیسوں کا) ہے، ”وَغُذِیَ بِا الْحَرَامِ“اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا بڑھا ہے۔ ”فَاَنِّی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ؟“ تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔(مسلم، باب قبول الصَّدقۃ من الکسب الطیب، حدیث:۲۲۳۵/۱۰۱۵،ص:۴۶۱،مطبوعہ دار الفکر بیروت) مذکورہ بالا حدیث شریف میں رزق حلال کی ترغیب، حرام کی روزی سے بچنے کی ترھیب کے طور پر جس پریشان حال مسافر شخص کا مثالی ذکر کیا گیا ہے اس کے پاس بظاہر قبولیتِ دعا کے کافی اسباب مہیا ہیں ، جیسے : طویل سفر کا مسافر ہونا، پریشان حال ہونااور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا ئے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ پروردگار کو پکارنا۔ پھر بھی اس کی اجابت دعا پر سوالیہ نشان لگ رہاہے ، وجہ صرف ایک ہے ، اس بندے نے حلال رزق کی تلاش نہیں کی اور خود کو حرام سے بچایا نہیں۔٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ﴿یٰاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ:۱۶۸) اےلوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔(کنزالایمان) تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مستجاب الدعا (جس کی دعائیں قبول کی جائیں) بنادے۔ تو اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یَا سَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ“ اے سعد اپنا کھانا حلال بناؤ مقبول الدعا ہوجاؤگے۔ ” وَ الَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ “اس ذات با برکات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد(ﷺ) کی جان ہے”اِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ الْحَرامَ فِی جَوْفِہٖ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ عَمَلٌ اَرَبَعِیْنَ یَوْمًا“ بندہ جب ایک حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے، تو چالیس دن تک اس کا کوئی (نیک) عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہٗ مِنْ سُحْتٍ فَا النَّارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ اور جس بندے کا گوشت حرام روزی سے بنا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔(المعجم الاسط ۶/حدیث:۶۴۹۵مطبوعہ دارالحرمین، قاھرہ ) معلم کائنات ﷺ کے تعلیمی انداز اور متعلمین کے ذوق علم پر بار بار بعجز و نیاز قربان ہونے کو جی چاہتاہے۔ جب مجلس پاک میں ایسی آیت کریمہ پڑھی گئی جس میں جملہ انسانیت کو اللہ کا کلام رزق حلال کھانے کی تاکید فرما رہاہے عین اسی وقت حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کھڑے ہوکر مستجاب الدعوات ہونے کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کروانے کی عرضی پیش کرنا۔ظاہر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ خود اپنے لیے عرض کررہے ہیں مگر حقیقت میں معلم کائنات سے مذکور ہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کروادی اور ساتھ میں رزق حلال کی اہمیت اور حرام کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد پوچھ کر ہمارے لیے بے شمار اسباق مہیا کروادیے۔حدیث شریف کے اس جز کو جس میں آقا کریم ﷺ قسم اُٹھا کر ارشاد فرماتے ہیں ” بندہ جب حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتاہے“پڑھ کر گزر جانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بھی یہ عہد واثق کرلینی چاہیے کہ ’ان شاء اللہ‘اب حرام کےکبھی قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اور پھر حدیث شریف کا اگلا جز تو ہمیں نہایت ہی جھنجھوڑ کر تنبیہ کر رہاہے کہ اگر اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو حرام کی روزی سے دور رہنا ہوگا۔٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“ حلال روزی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۵، حدیث:۲، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّایُبَالِی الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِّنَ الْحَرَامِ“ترجمہ:لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا ہے(کمایاہے) وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے(مشکوٰۃ، ج:۱،کتاب البیوع،باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الاول، ص:۲۴۶، حدیث:۲۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاھور )غیب داں نبی ﷺ کا مذکورہ بالا فرمان جو کہ پیشین گوئی کی شکل میں بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے لوگ اور تو چھوڑو، یہ بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جس مال سے ہم حج جیسا اہم فریضۂ اسلام ادا کرنے کےلیے جارہے ہیں آیا وہ مال ہم نے حلال ذریعوں سے کمایا ہے یا حرام ذریعوں سے؟۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے ہیں’حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ”جومالِ حرام لے کر حج کو جاتاہے جب وہ لبیک کہتاہے فرشتہ جواب دیتاہے لَالَبَیْکَ وَلَا سَعْدَیکَ وَ حَجُّکَ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکَ حَتّٰی تَرُدَّ مَا فِیْ یَدَیْکَ نہ تیری حاضری قبول، نہ تیری خدمت قبول، اور تیرا حج تیرے مُنہ پر مردود، جب تک تو یہ حرام مال جو تیرے ہاتھ میں ہے واپس نہ دے“(فتاویٰ رضویہ ج:دہمص:۷۱۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن نظامیہ ،لاہور)۔٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَ کُلُّ لَحَّمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتْ نَارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ترجمہ: وہ گوشت جس نے حرام (روزی) سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ہر وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ہے، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ قریب ہے۔ (مشکوٰۃ، ج: ۱،کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثانی،ص:۲۴۷حدیث:۲۶۴۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاھور)٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ا للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ“ ترجمہ: حلال رزق کا ذریعہ تلاش کرنا فرض کے بعد فرض ہے۔ مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ، الفصل الثالث،ص۲۴۸، حدیث:۲۶۵۸، مطبوعہ مکتبہ (رحمانیہ ،لاھور نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کے بعد رزق حلال تلاش کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ بنیادی فریضہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، چونکہ جب بندے کے پیٹ میں رزق حلال ہوگا تبھی جمیع عبادات قبول ہوں گی۔٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِا لْحَرَامِ“۔ ترجمہ: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام روزی سے پلا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۸، حدیث:۲۶۶۴، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور )٭زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیا اور اُسے پسند فرمایا۔ پلانے والے سےدریافت فرمایا کہ یہ دودھ تو نے کہاں سے حاصل کیا؟ اُس نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تالاب پر گیا، جس کا نام اس نے لیا تو وہاں زکوٰۃ کے اُونٹ تھے جنہیں لوگ پانی پلارہے تھے۔ اُنھوں نے میرے لیے دودھ دوہا تو میں نے اپنے مشکیزے میں ڈال لیا، یہ وہی تھا۔ ’فَاَدْخَلَ عُمَر یَدَہٗ فَاسْتَقَاءَہ‘ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ مُنہ میں ڈالا اور اس دودھ کی قئےکردی (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص: ۹۱،حدیث:۲۷۸۶، مطبوعہ البشریٰ کراچی)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے”تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمٌ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ رَجُلٌ خَرَجَ ضَارِبًا فِیْ الْاَرْضِ یَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعُوْدُ بِہٖ اِلٰی عَیَالِہٖ“۔ اس دن وہ شخص عرش کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہوگا، جوشخص اللہ کا فضل(رزق حلال) تلاش کرنے کے لیے زمین میں نکلتاہےپھر اسے حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آتاہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال،ص:۲۲۷ مطبوعہ: دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ،فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادُہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُو السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَلٰکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ“ ترجمہ: اگر کوئی بندہ حرام مال کمائےپھر اس سے صدقہ کرے تو قبول نہیں کیا جائے گا، اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوگی، اور اگر وہ اس (مال ) کو ترکہ کی صورت میں (وارثوں کے لیے)چھوڑ جاتاہے تو بھی وہ اس کے لیے جہنم کا سبب بنے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۷، حدیث:۲۶۴۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ حلال کمانا جہاد ہے اور تمہارا اسے اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ تجارت سے کمایا ہوا ایک درہم دوسرے حلال ذرائع سے حاصل کیے ہوئے دس درہموں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال، ص:۲۲۷ مطبوعہ دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَاتَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْاَلَ عَنْ اَربَعٍ، عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَ عَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اَکْتَسَبَہٗ، وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہِ؟“۔ ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوجائے، عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کے بارے میں کہ کیسے گزاری (نیکی میں یا بدی میں)؟ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۰، مطبوعہ دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان)٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا حِلِّہٖ ، وَ اَنْفَقَہٗ فِیْ حَقِّہٖ اَثَابَہُ اللہُ عَلَیْہِ وَاَوْرَدَہٗ جَنَّتَہٗ“دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، جس نے اس میں حلال ذریعہ سے مال کمایااور حق کے راستے میں خرچ کیا، تو اللہ اسے اس کا ثواب عطا فرمائے گا اور اسے جنت تک پہنچا دے گا، ”وَمَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا مِنْ غَیْرِ حَلِّہٖ، وَاَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ اَحَلَّہُ اللہُ دَارَ الْھَوَانِ“اور جس نے دنیا میں مال ناجائز طریقہ سے کمایااور اس کو ناحق طریقہ سے خرچ کیا ، توا للہ تعالیٰ اسے ذلت کی جگہ تک پہنچادے گا، ”وَ رُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِیْ مَالِ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ لَہٗ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مال کو ہتیانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی﴿کُلَّمَاِخَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا﴾(الاسراء:۹۷)ترجمہ: (وہ آگ) جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(کنزالایمان)۔ الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۱، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر شب آواز دیتاہے کہ جو حرام کھاتاہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ سنت ۔(کیمیائے سعادت)٭عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شبہے کا ایک درہم جو اس کے مالک کو واپس کردوں وہ میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص حرام کھاتاہے اس کے ساتوں اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ نا فرمانی میں مبتلا ہونا چاہے یا نہ چاہے اور جو شخص حلال کھاتاہے اس کے اعضا نیک کام میں لگے رہتے ہیں اور اس کو خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کے کسب اور حرام سے اجتناب کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین

تکبر و گھمنڈ کی نحوست:احادیث کی روشنی میں – – از:۔سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

آج معاشرہ میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبّر (گھمنڈ) کی مذمّت کی ہے۔ خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“اس کے علاوہ قرآن مقدس میں بہت سی آیتیں ہیں جو تکبّر کی مذمّت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اِس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبّرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔ اب ذیل میں تکبر و غرور کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اِس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہو جائیگا کہ کبریائی اور بڑائی در حقیقت صرف ذات وحدہ لا شریک کے شایانِ شان ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی موت و حیات اور ہر ایک کی عزّت و ذلّت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ”اللہ ہی کے لیے بڑائی اور کِبریائی ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے“(مفہوم قرآن)اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا بھی قطعی علم حاصل ہوگا کہ کسی انسان کے لیے ہرگز ہرگز یہ مناسب نہیں کہ وہ کبریائی اور بڑائی کا دعویدار بنے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ غرور و گھمنڈ کا رویہ اپنائے۔ اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اللہ وحدہ لا شریک کا حریف بنتا ہے۔ اِس لیے ایسا شخص بہت بڑا مجرم ہوگا اور اُس کے لیے سخت ترین سزائیں ہوں گی ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کہ کِبریائی (بڑائی) اور عظمت میری خاص صفتیں ہیں جو مجھے ہی زیب دیتی ہیں جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا (یعنی عظمت و کبریائی اپنے لیے ثابت کرےگا) میں اُس کو آگ میں داخل کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”میں اُسے آگ میں پھینک دونگا” (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳) ٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائےگا (یعنی سخت ناراض ہوگا) اور نہ ہی انہیں پاک فرمائےگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی انہیں دیکھے گا۔ اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا فقیر مُتکبّر (گھمنڈی) (مشکوٰۃ ص: ۴۳۳)٭حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ ”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا “ (مسلم شریف ج :۱، ص:۶۵مشکوٰۃ ص:۴۳۳)٭حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اِختیار کرو کیونکہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ”جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبّر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رُسوا ہوتاہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتّے اور سُوّر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے“۔ (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳)اب آخر میں ایک تفصیلی حدیث شریف ملاحظہ کریں جو تکبّرکی رگوں کو کاٹ ڈالنے والی ہے، اور گھمنڈ کی عمارت کو ڈھانے والی۔٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”برا بندہ وہ ہےجو غرور (گھمنڈ) کرے اور اکڑ کر چلےاور بڑی شان والے رب کو بھول جائے۔برا بندہ وہ ہے جو ظلم و زیادتی کرے اور قہاراعلیٰ (رب) کو بھول جائے، برا بندہ وہ ہے جو غفلت سے کھیل میں لگ جائے اور قبر کو اور اُس میں سڑنے گلنے کوبھول جائے، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو حد سے گزرنے والا متکبّر اور سرکش ہو اور اپنی ابتدا اور انتہا (یعنی کیسے پیدا ہوا اور کہاں ٹھکانا ہوگا) کو بھول جائے، کتنا برا ہے وہ بندہ جو دین کو شبہات کے ذریعہ دھوکا دے (یعنی متّقی و پرہیز گار بن کر دیندار ظاہر کرے تاکہ لوگوں میں مقبول ہو، حالانکہ عمل خیر اللہ کے لیے ہونا چاہیے)، برا بندہ وہ بندہ ہے کہ ہوس اور لالچ اُس کو کھینچے لیے جا رہی ہے (یعنی وہ حرص و ہوس کا پابند ہو گیا ہو)، بڑا برا ہے وہ بندہ جسے خواہشات نفسانی گمراہ کرے، وہ بندہ بہت برا ہے جسے رغبتیں اور خواہشیں ذلیل کریں ۔ (ترمذی شریف ۔ مشکوٰۃ ص: ۴۳۴)تکبّر ہی وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ اُس کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ! تو ابلیس نے تکبّر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں ، کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے ہوئی ہے، لہٰذا اِس تکبّرانہ جواب پر اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت و ملامت کی، اور اُسے جنّت سے نکال کر جہنم اُس کا ٹھکانا کیا۔ اِس لیے انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ مردودِ بارگاہِ خدا ابلیس لعین کے نقش ِقدم پر نہ چل کر قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی اِس رزیل و ذلیل خصلت و عادت کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اترانے کے بجائے اپنے اندر انکساری و عاجزی، فروتنی و نرم خوئی پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے اِس بری عادت سے توبہ و اِستغفار کر لیں۔یوں تو قرآن و احادیث و دیگر کتابوں میں بہت سی جگہوں پر غرور و تکبّر کی شدید مذمّت کی گئی ہے اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں سے ڈرایا گیا ہے لیکن ہم نے صرف چند حدیثیں ہی پیش کی ہیں ۔ نہاں خانۂدل میں اگر حق و صداقت کی کچھ بھی روشنی ہوگی تو یقینًا یہی مذکورہ حدیثیں ہی عبرت کے لیے کافی ہوں گی ۔طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہدو بوند ہی بہت ہے اگر کچھ اثر کرےبارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو تکبر و گھمنڈ جیسی سبھی بیماریوں و برائیوں سے بچنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !