WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

منقبت در شان: تارک السلطنت، قدوۃالعارفین، آفتاب ولایت حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ، عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

◇◇◇~~◇◇◇~~◇◇◇
ہر دل میں تیری عظمت، اے والیِ کچھوچھہ
ہر لب پہ تیری مدحت، اے والیِ کچھوچھہ

باغِ ارم کی غیرت، آماج گاہِ عالم
بے شک ہے تیری تربت اے والیِ کچھوچھہ

تیرے حسب نسب میں صد آفریں، ہے شامل
بوے گلِ سیادت اے والیِ کچھوچھہ

پھولا پھلا جہاں میں لا ریب تیرے دم سے
گلزارِ اشرفیت اے والیِ کچھوچھہ

تانتا لگا ہوا ہے شیدائیوں کا در پر
ہے خوب مرکزیت اے والیِ کچھوچھہ

للہ ہو میسر مصباحِ معرفت سے
مشکوۃِ دل کو طلعت اے والیِ کچھوچھہ

ہو ساتویں صدی میں رحلت کی آج لیکن
ہر دل پہ ہے حکومت اے والیِ کچھوچھہ

چھائی ہے آشیاں پر بومِ الم کی شامت
بھیجو ہُماے فرحت اے والیِ کچھوچھہ

مدت سے مبتلا ہے آفاتِ جاں میں، کیجیے!
بیکس پہ چشمِ رحمت اے والیِ کچھوچھہ

ٹوٹا ہوا ملا ہے دہلیزِ آستاں پر
ہر اک طلسمِ کلفت اے والیِ کچھوچھہ

بہرِ صلاحِ ہستی نوری کو بھی عطا ہو
مرآتِ حسنِ سیرت اے والیِ کچھوچھہ
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۸/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۷/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: سنیچر

منقبت در شان حضرت بابا تاج الدین علیہ الرحمہ ۔۔از: سید خادم رسول عینی

سیدوں کے پیشوا ہیں شاہ تاج الاولیاء
چرخ عظمت کی ضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دنگ سارے ہوگئے انگریز ان کو دیکھ کر
باکرامت پرضیا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ حضرت عسکری کی منفرد اولاد ہیں
چہرہ دیکھو خوش نما ہیں شاہ تاج الاولیاء

دیکھنے سے جن کو یاد آئے خدائے دوجہاں
جذب کا وہ آئینہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

ایک ہی ہے وقت لیکن دو جگہ پر ہیں مقیم
سوچنا مت گمشدہ ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کی برکت ہے ایسی، نیم بھی میٹھا ہوا
سب نے دیکھا خوش ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ‌ کی موجودگی سے خوب تر ہے ناگپور
ایسے محبوب خدا ہیں شاہ تاج الاولیاء

دے دیا جب حکم تو مردہ بھی زندہ ہوگیا
غوث اعظم کی ادا ہیں شاہ تاج الاولیاء

آپ کے در سے کوئی خالی نہیں لوٹا کبھی
صاحب جود و سخا ہیں شاہ تاج الاولیاء

وقف کردی خدمت دیں کے لئے عمر تمام
خوب “عینی “باوفا ہیں شاہ تاج الاولیاء
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کلام طویل ۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

سرور کونین کے شہکار ہیں میرے حسین
واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں ،میرے حسین
نور سے معمور خوب افکار ہیں ، میرے حسین

کہتا ہے ہر شخص خوش گفتار ہیں میرے حسین
پرتو شہ حیدر کرار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ، ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

خیمہء باطل کو چھوڑا ، آگیے حق کی طرف
کہہ دیا حر نے مرے غمخوار ہیں میرے حسین

لے لیا دامن میں اپنے حر کو بھی شبیر نے
مہرباں ، مشفق، بہت دل دار ہیں میرے حسین

مل گئے شبیر تو سمجھو کہ آقا مل گئے
منزل مقصود راہ یار ہیں میرے حسین

منعقد اس واسطے کرتے ہیں محفل آپ کی
وجہ تسکیں آپ کے اذکار ہیں میرے حسین

کامیابی کا ہے باعث فلسفہ شبیر کا
آج کے بھی دور میں درکار ہیں میرے حسین

ہے شباب اہل جنت آپ کا پیارا لقب
خاندان شاہ کے شہکار ہیں میرے حسین

انتہائے ظلم بھی اور منتہائے صبر بھی
کہتے ہیں سب نازش صبار ہیں میرے حسین
۔
جس نے دیکھا آپ کو بے ساختہ وہ کہہ اٹھا
پرتو حسن و جمال یار ہیں میرے حسین

خطبے کو موقوف کردیں مصطفیٰ ان کے لیے
سرور کونین کے یوں پیار ہیں میرے حسین

اپنی جرآت کا انہیں وارث کہا آقا نے خود
اللہ اللہ وارث سرکار ہیں میرے حسین

دیں بشارت جن کی پیدائش کی خود شاہ زمن
خوش نصیب ایسے شبیہ یار ہیں میرے حسین

آپ کی ہے تربیت ایسی، شہادت کے لیے
عابد‌ بیمار بھی تیار ہیں، میرے حسین

راہ رخصت کے عوض قائم عزیمت پر رہے
ظالموں سے برسر پیکار ہیں میرے حسین

استعارہ حق کا ہے ذات مبیں شبیر کی
رہبری کے واسطے مینار ہیں میرے حسین

واسطے دیں کے کیا قربان سارا خاندان
دہر میں یوں حامل ایثار ہیں میرے حسین

کانپتے ہیں سامنے ان کے سبھی فسق و فجور
نور حیدر ، صاحب کردار ہیں میرے حسین

حکم دیں تو آب خود آجائے ان کے سامنے
اے یزیدی مت سمجھ لاچار ہیں میرے حسین

ذوالفقار حیدری کہتے ہیں جس کو دہر میں
ہاں وہی اسلام کی تلوار ہیں میرے حسین

دی اذاں خود سرور عالم نے ان کے کان میں
کس قدر فخر گل گلزار ہیں میرے حسین

دوش پر لے کر کریں تعریف جن کی مصطفیٰ
بہترین ایسے سوار یار ہیں میرے حسین

ابتدائی ہوگئی تعلیم شہہ کی گود میں
کہہ رہا ہے علم خود، سردار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد ، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

مجھ سے ہیں میرے حسین اور میں بھی ہوں شبیر سے
یہ کہا آقا نے ، یوں ضوبار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی’ و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں ، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

حکم آقا نے دیا جس کی حفاظت کے لئے
شرع کے سر کی وہی دستار ہیں میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئ نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ ، ہے حدیث
اس لیے اے” عینی” خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

منقبت در شان حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ ،،از قلم ،سید خادم رسول عینی قدوسی بھدرک اڈیشا

ہے آپ کی زباں پہ ثنا مصطفی’رضا
ہر دم ہے نعت شاہ ہدی’ مصطفی’رضا

بچپن میں ہی خلافت نوری ملی تمھیں
کیا خوب ہے یہ نوری ادا مصطفی’رضا

تعویذ آپ کے قلم ناز کا ہے خوب
ہے خلق کے لیے یہ شفا ، مصطفی’رضا

عالم کے وہ تھے مفتیء اعظم بھی وقت کے
سب مفتیوں کے راہ نما مصطفی’رضا

ملت میں اتحاد کے داعی رہے سدا
سب اس لیے ہیں تم پہ فدا ، مصطفی’ رضا

روشن ہیں ان سے عارف باللہ سینکڑوں
تقوی’ کے چرخ کی ہیں ضیا مصطفی’رضا

بند آنکھوں سے مرید نے دیکھا تھا غوث کو
جب تم نے اس کو حکم دیا، مصطفی’رضا

سنگم تھے علم ظاہر و باطن کے باکمال
آءینہء جمال رضا مصطفی’رضا

حامد رضا نے دیکے خلافت حبیب کو
مہکایا خوب باغ رضا ، مصطفی’ رضا

سامان بخشش آپ کی ، راحت کا ہے سبب
عینی کے واسطے ہے ردا ، مصطفی’رضا
۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

قرار شریعت ہیں صدر الشریعہ
بہار طریقت ہیں صدر الشریعہ

رضا نے دیا ان کو نور خلافت
مہ اعلیٰ حضرت ہیں صدر الشریعہ

بہار شریعت کے ہیں وہ مصنف
بہت بیش قیمت ہیں صدر الشریعہ

سدا آبیاری کی دیں کے شجر کی
یوں حامیء ملت ہیں صدر الشریعہ

یہ کہتی ہے تعداد شاگرد ہم سے
حفیظ شریعت ہیں صدر الشریعہ

ملا قاضیء شرع کا ان کو منصب
قضا کی امانت ہیں صدر الشریعہ

سبب وہ بنے کنز ایماں کا عینی
یوں فیض ہدایت ہیں صدر الشریعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حاکموں میں سب سے بہتر شاہ عالمگیر ہیں
عاشق حضرت پیمبر شاہ عالمگیر ہیں

گرچہ کرتے ہیں حکومت وہ سکندر کی طرح
پھر بھی اک مثل قلندر شاہ عالمگیر ہیں

رکھتے تھے ساری رعایا کا خیال بے مثال
درد مندی کے یوں مظہر شاہ عالمگیر ہیں

لکھ کے عالم گیری تحفہ دے دیا ہے قوم کو
عالم شرع مطہر شاہ عالمگیر ہیں

سادگی کا لیکے پیکر قبر انور ان کی ہے
شان و عظمت کا مقدر شاہ عالمگیر ہیں

خانقاہوں ، مسجدوں کی خوب تعمیریں ہوئیں
حامیء دین منور شاہ عالمگیر ہیں

ان کی تحریر و فرامیں سے ہے “عینی” واشگاف
کس قدر ماہر سخنور شاہ عالمگیر ہیں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس۔۔تبصرہ۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علماءے بلاغت نے کلام منظوم و منثور میں صنعت اقتباس کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے۔صنعت اقتباس کے استعمال سے کلام میں جاذبیت آجاتی ہے اور اشعار بہت ہی معتبر اور مستند ہوجاتے ہیں ۔۔صنعت اقتباس کیا ہے؟ اہل بلاغت نے صنعت اقتباس کا ڈیفینیشن یوں بیان کیا ھے:

اقتباس یہ ہے کہ کلام منظوم و منثور میں قرآنی الفاظ کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جایے۔

اقتباس یہ ہے کہ کلام کو قرآن یا حدیث کے کلمات سے مزین کیا جائے۔

اقتباس یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن ، حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے۔

اقتباس کی مثال میں حدائق بخشش سے حسان الہند سرکار اعلیٰ حضرت علامہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار لاجواب ملاحظہ فرمائیں:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کروں ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیھم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیداییء دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محروم ہے

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ماغبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

من رانی قد رای الحق جو کہے
کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

حضرت حجۃالاسلام علامہ حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں صنعت اقتباس کی خوبیاں ملاحظہ فرمائیں:
ھوا الاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر میں صنعت اقتباس کا جلوہ دیکھیں :

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

ڈاکٹر اقبال کے اشعار میں صنعت اقتباس کے مناظر خوشنما دیکھیں:

رنگ او ادنی میں رنگیں ہوکے اے ذوق طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطف ما خلقنا اور ہے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

صنعت اقتباس کے استعمال سے فائدہ یہ ہے کہ شاعر شعر میں مفہوم، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کردیتا ہے۔اس لیے شعر زیادہ معتبر و مستند ہوجاتا ہے۔ لیکن صنعت اقتباس کے استعمال کرنے میں احتیاط اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔عربی الفاظ کے تلفظ کو شعر میں بعینہٖ پیش کرنا ہے ، اگر حروف میں کمی یا بیشی کی گئی تو معنی میں فرق آجانے کا امکان رہتا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے چند شعرا کو دیکھا ہے جو صنعت اقتباس کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے ، کبھی الف گرادیتے ہیں تو کبھی ی ، کبھی واؤ کو حذف کردیتے ہیں تو کبھی الف ، واو یا ی کو کھینچ دیتے ہیں ۔ایسی غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے جب شاعر کے اندر شعر کہنے کی مہارت نہیں ہوتی یا علم عروض میں شاعر کو پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں شاعر ضرورت شعری کے نام پر بے احتیاطی کربیٹھتا ہے اور قرآنی الفاظ کے تعلق سے غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ ایسے شعرا کو ہم نے کئی بار مختلف واٹس ایپ گروپس میں تنبیہ بھی کی ہے۔بہر حال، اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی کے مجموعہاءے کلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتاہے کہ دور حاضر میں صنعت اقتباس پر مبنی سب سے زیادہ اشعار کہنے والے شاعر کا نام ہے علامہ قدسی۔آپ کے تقریباً ہر کلام میں صنعت اقتباس پرمبنی کم سے کم ایک شعر مل ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ/ تقدیسی کلام کے ہر شعر میں قرآن کی آیت کا حوالہ پیش کیا ہے یعنی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ‌ نے قرآنی آیات کا استعمال مکمل احتیاط سے کیا ہے، کہیں بھی عروضی خامی نظر نہیں آتی، کسی بھی قرآنی لفظ یا حدیث کے کلمے کا کوئی حرف گرتا ہوا نظر نہیں آتا ، نہ ہی کہیں آپ نے کسی حرف کو بڑھا کر شعر کو آؤٹ آف وے جاکر موزوں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے ، بلکہ یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آپ دور حاضر کے ایک جید عالم دین ہیں ، علم قرآن و حدیث سے اپڈیٹیڈ ہیں اور حامل وسعت مطالعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم قرآن و حدیث اور فن عروض کا بہترین استعمال تقدیسی شاعری میں بحسن و خوبی کرتے ہیں ۔

اب آئیے علامہ قدسی کے کلاموں میں سے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جن اشعار میں آپ نے صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں علامہ قدسی کا ایک تازہ ترین نعتیہ کلام نظر سے گزرا جس میں ردیف ہے:
محال است محال۔
اس ردیف میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو کلام میں آپ نے ایک طویل ردیف کا استعمال کیا ہے جو فارسی کلمات پر مشتمل ہے۔گویا یہ کلام دو زبانوں پر مبنی ہے، اردو اور فارسی۔لہذا اس کلام کو ذوالسانی کلاموں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ردیف میں آپ نے محال کو دوبار استعمال کرکے مفہوم کی اہمیت کو فزوں تر بنادیا ہے اور مضمون کی وقعت کو دوبالا کردیا ہے۔

کسی لفظ یا کسی فقرے کا دوبار استعمال کلام میں حسن تاکید کے لیے کیا جاتا ہے۔مثلا” سرکار اعلیٰ حضرت کا شعر دیکھیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے تو زندہ ہے واللہ فقرے کو دوبار استعمال کیا ہے تاکہ بیان میں فورس آجائے ۔ایسی تاکید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاعر مکمل وثوق کے ساتھ مفہوم کو بیان کررہا ہے اور شاعر کے پاس اپنے مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں ۔تبھی تو علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اس قسم کے حسن تاکید سے مزین اعلیٰ حضرت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف ان کی رسائی ہے صرف ان کی رسائی ہے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے واللہ کو دوبار استعمال کیا ہے اور صرف ان کی رسائی ہے کو بھی شعر/ مصرع میں دوبار لایا ہے

علامہ قدسی نے اپنے کلام کے ہر شعر میں مفہوم پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں : محال است محال۔
یعنی کہ آپ نے مکمل وثوق کے ساتھ مفاہیم‌ بیان کیے ہیں جن میں کسی قسم کے تردد کا شائبہ بھی نہیں ہے اور ان مفاہیم کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔
آپ کے اس کلام کے افاعیل ہیں:
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن/ فعلان۔
اور بحر کا نام ہے:
بحر رمل مثمن مزاحف مخبون محذوف مسبغ

اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال
اس شعر میں آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کونین میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن جیسی کتاب کا بھی ملنا دنیا میں محال ہے۔ان دونوں دعووں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس نقلی و عقلی دلائل موجود ہیں ، تبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں :
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال

اسی کلام میں ایک شعر ہے :
جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال
یہ شعر صنعت اقتباس پر مبنی ہے۔اس شعر میں مفہوم بیان کرنے کے لیے علامہ قدسی نے قرآن کی آیت (سورہء بقرہ / آیت ٧) کا حوالہ دیا ہے اور قرآنی آیت کو کووٹ کرکے صنعت اقتباس کا استعمال بہت عمدہ اسلوب سے کیا ہے۔وہ آیت یوں ہے :
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم
ترجمہ:
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ۔
(کنز‌ الایمان)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بنا پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالی’ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔اسی مفہوم کو علامہ قدسی نے ایک شعر کے ذریعہ بہت ہی دلکشی کے ساتھ اور مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کہتے ہیں:

جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا
اس شعر میں جس آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ورفعنا لک ذکرک۔
سورہ الم نشرح ، آیت ٤
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ نے اذان میں ، قیامت میں ، نماز میں ، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ھے۔یہی وجہ ہے کہ شہر شہر میں آپ کا چرچا ھے، نگر نگر آپ کا ذکر ہے۔جلوت میں بھی آپ کا ذکر ہے اور خلوت میں بھی ، عرب میں بھی آپ کا چرچا ہے اور عجم میں بھی ۔ آپ کا ذکر صرف خلیجی ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ ہند و پاک اور یوروپ و اسٹریلیا میں بھی آپ کا ذکر جمیل ہوتا ہے ۔ زمین میں بھی آپ کا چرچا ہے اور آسمانوں میں‌ بھی ۔آبادی کے علاقے میں بھی آپ کا چرچا ہے اور غیر آباد‌ علاقوں میں بھی الحمد لللہ۔اسی لیے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر
یہ شعر تلمیحی بھی ہے۔جنگ بدر میں ایک صحابیء رسول کی شہادت ہوئی اور دشمن اسلام نے ان کی زبان کاٹ دی ۔زبان کٹنے کے بعد بھی ان کی زبان سے یہ آواز آرہی تھی :
فزت بربی یعنی میں رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، کل قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا جائےگا کہ تمہاری زبان کہاں گئی تو میں فخر سے کہونگا کہ ناموس اسلام و رسالت کے لیے میں نے اپنی جان قربان کردی اور اپنی زبان بھی نذر کردی۔اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
آیت من‌ شعاءر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز
اس شعر میں جس آیت کا حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
ذالک ومن یعظم شعاءر اللہ فا نھا من تقوی القلوب۔
سورہء حج، آیت ٣٢
ترجمہ : بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔

اس آیت سے یہ ہدایت ملی کہ ہم اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کریں ۔مثال کے طور پر مناسک حج پر اگر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم حج کے دوران وہی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے کیا تھا ۔قربانی کرنا، جمرات پر کنکر مارنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا یہ سب ان کی سنتیں ہیں اور ہم بہت ہی احترام سے عمرہ/ حج کے دوران ان کی سنتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
اور ہمیں ناز ہے کہ ہم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی نشانیوں کی تعظیم دل سے کرتے ہیں۔اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں:
آیت من‌ شعائر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

اس شعر میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
واذا قری القرآن فاستمعو لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
سورہء اعراف ، آیت ٢٠٤
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جس وقت قرآن پڑھا جائے خواہ نماز میں ہو یا خارج نماز میں اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔اس مفہوم کو سہل ممتنع کے انداز میں علامہ قدسی نے کس حسین پیرائے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے، کہتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور وہ حدیث ہے:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔
یعنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء مبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت ملی ہے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زائرِ روضہء مطہر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔اس حدیث مبارکہ کو علامہ قدسی نے بہت ہی دلکش انداز سے شعر کا جامہ پہنایا ہے، کہتے ہیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں
یہ شعر جس حدیث کی سمت اشارہ کررہا ہے وہ یوں ہے:
افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ ایسی محبت جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، نفسیاتی خواہشات کی آمیزش نہ ہو افضل اعمال سے ہے۔ نماز ، روزہ ، زکاۃ، حج بھی الحب فی اللہ کی شاخیں ہیں کہ مسلمان صرف اللہ کی رضا کی خاطر ان اعمال سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے یہ اعمال صالحہ کرتا ہے جو عین ایمان و اصل ایماں کا تقاضہ ھے۔ اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں :
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں

ماہ رمضان کے ایام میں علامہ قدسی کی ایک نظم سوشل میڈیا میں بہت مقبول خاص و عام ہوئی تھی جس کا عنوان ہے: اصحاب بدر ۔
اس نظم میں کل نو اشعار ہیں ۔ان نو اشعار میں سے چار اشعار صنعت اقتباس کا حسن لیے ہوئے ہیں ۔آپ بھی ان اشعار کو ملاحظہ فرماءیے اور علامہ قدسی کے وسعت مطالعہ ، علمی تبحر، عروض دانی اور قادر الکلامی کی داد دیجیے:
اعملوا ہے حدیث شہ دیں گواہ
نور تقریر غفران اصحاب بدر
کہہ رہا ہے لکم آیۃ قول رب
راہ حق کے نگہبان اصحاب بدر
اقتدیتم ہے ارشاد شاہ زمن
ہیں ہدایت کی میزان اصحاب بدر
قدسی انتم اذلہ کا اعلان ہے
مشک اظہار احسان اصحاب بدر

اسی طرح علامہ قدسی کے سیکڑوں اشعار ہیں جس میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کو کووٹ کرکے مکمل وضاحت کے ساتھ ایمان افروز مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ان شا ء اللہ پھر کبھی دیگر اشعار کی تشریح پر مبنی مقالہ پیش کیا جائےگا۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ قدسی دور حاضر میں صنعت اقتباس کے بہت ہی عظیم شاعر ہیں جن کی تمثیل دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔

منقبت در شان حضرت ارشد ملت دامت برکاتہم العالیہ۔۔از: سید خادم رسول عینی،ناظم نشر و اشاعت،خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند٥ مئی ٢٠٢٢

رضا کی فکر پہ قربان ارشد ملت
ہیں سنیت کی عظیم آن ارشد ملت

حضور فیض اویسی بھی معترف ان کے
علوم دیں میں ہیں ذیشان ارشد ملت

شفا وہ دیتے ہیں روحانی سب مریضوں کو
ہیں ایسے مظہر لقمان ارشد ملت

وہ وقت کیسا مقدس تھا جب کہ آپ بنے
ابو النعیم کے مہمان ارشد ملت

اسیر ملت و مذہب نہ کیوں کہیں ان کو
عزائموں کے ہیں فاران ارشد ملت

ہیں ماہنامہء ارشدیہ کے وہی بانی
ادب کے یوں ہیں نگہبان ارشد ملت

مبارک آپ کو ! من جانب ابو الانوار
ملی خلافت ذی شان ارشد ملت

در کچھوچھہ و بغداد و نور طیبہ سے
ملا ہے آپ کو فیضان ارشد ملت

عبادت اور ریاضت ہیں آپ پر نازاں
کتاب‌ زہد کے عنوان ارشد ملت

تمھاری صحبت اقدس سے دہر میں لاکھوں
بنے ہیں صاحب عرفان ارشد ملت

ہیں آپ رشد و ہدایت کے مطلع پرنور
عظیم رب کے ثنا خوان ارشد ملت

تمھارے اسم گرامی سے سب مریدوں کا
تھما ہے درد کا طوفان ارشد ملت

وہ اپنے پیر کے “عینی “خلیفہء اعظم
ہیں باغ بخت کے ریحان ارشد ملت
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی،
ناظم نشر و اشاعت،
خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند
٥ مئی ٢٠٢٢

منقبت در شان والد مفتی اعظم اڑیسہ حضرت علامہ سید محمد علی علیہ الرحمہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ولی باکرامت‌ محمد علی ہیں
علی کی عنایت محمد علی ہیں

وقار سیادت محمد علی ہیں
قرار قیادت محمد علی ہیں

امین شریعت یہ کہتے تھے اکثر
بہار شجاعت محمد علی ہیں

خدا نے دیا ہے انھیں حسن ایسا
کہ جان وجاہت محمد علی ہیں

ہیں اقوال ان کے بہت کار آمد
جمال لطافت محمد علی ہیں

سخی ایسے، چرچا ہے ان کا ابھی تک
عروج سخاوت محمد علی ہیں

شہ دریا کے در سے آواز آئی
کہ میری امانت محمد علی ہیں

کتابوں کے انبار کہتے ہیں عینی
امین فصاحت محمد علی ہیں

از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ—از: سید خادم رسول عینی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و سنیت کے اے حامی تجھے سلام
بدعات و منکرات کے ماحی تجھے سلام

مداح مصطفائے گرامی تجھے سلام
حسان ہند ، وقت کے جامی تجھے سلام

علم حدیث و فقہ میں ہے لاجواب تو
اے وقت کے بخاری و شامی تجھے سلام

تجھ کو کہوں‌ مفکر اعظم زمانے کا
اے وقت کے امام غزالی تجھے سلام

تیرے کلام کی ہے زمانے میں دھوم دھام
اے ماہر سلام و رباعی تجھے سلام

تو محو عشق شاہ مدینہ میں تھا سدا
ہے معرفت میں ایسی رسائی ! تجھے سلام

اے شہرہء بسیط کے حامل سخن طراز
کہتے ہیں سب ردیف و قوافی تجھے سلام

“عینی”, کے دل میں ہے یہی ارمان جاگزیں
دے جاکے در پہ تیرے سلامی تجھے سلام
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی