خادم رسول عینی کو ادبی گروپوں میں پڑھتا رہا ہوں ۔ پھر اس کے بعد رسالوں میں ان کی چیزیں نظروں سے گزرنے لگیں ۔ موصوف اپنی تخلیقات سے اہل ادب کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں موصوف خاکسار کے غریب خانے میں تشریف لائے اور نور مناقب جو منقبتی کلام کا مجموعہ ہے بہت ہی خلوص و محبت کے ساتھ موصوف نے میرے ہاتھوں پر رکھ دیا ۔
خادم رسول عینی نے اپنے تجربات اور احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے اور منقبتی شاعری میں ایک الگ مقام بنایا ہے۔ خادم رسول عینی خالص مذہبی آدمی ہیں۔
خانقاہ قدوسیہ سے تعلق ہے تو صوفیاے طریقت کے طور طریقے ان کے اندر مل جائینگے۔ سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہیں ۔ موصوف نعتیہ شاعری میں اتنے عمدہ اشعار نکالتے ہیں جس سے عقیدت کے پھول جھڑتے ہیں ۔ ان کی پوری شاعری عشق رسول سے سرشار نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ محسوس ہوگا کہ موصوف مرشد برحق کے چشم کرم سے مستفیض ہونے لگے اور ان کے فیضان سے مالا مال ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں نعتیہ و منقبتی شاعری کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی میں مشغول ہونے کے باوجود دنیاوی کاموں کو بھی بخوبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی تو ضروری ہے ہر حال میں ، ذکر الٰہی کرنا چاہیے ، اس کے علاوہ پاس انفاس کی تربیت ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
خادم رسول کی نعتیہ شاعری جس سے منقبتی شاعری کی ایک لکیر نکلتی ہے جو ان کی شاعری کے کمالات کو قاری کے آگے اس طرح پیش کرکے انھیں منقبتی شاعری کا شہنشاہ بناتا ہے ۔ابو البرکات محمد ارشد سبحانی صاحب کے چند کلمات کو آپ دعائیہ پھول بھی کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت رقم طراز ہیں :
” حضرت عینی نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی نعت و منقبت نگاری کی ہے ۔ عشق و ادب رسول اعظم میں ڈوب کر لکھی ہوئی نعتیں پڑھنے سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک اچھے ، پکے اور سچے عاشق رسول شاعر ہیں اور بہترین ذوق شاعری کے مالک ہیں ۔صحابہء کرام ، اہل بیت اطہار ، ازواج مطہرات، ائمہ کرام ، اولیاے کرام ، صوفیائے طریقت ، علمائے شریعت کی شان میں بے شمار مناقب تحریر فرمائے ہیں “.
خادم رسول عینی کے یہاں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ عشق رسول اور علمائے شریعت و اہل بیت کی مدح کے اظہار کے لیے ہے اور اس کا اظہار اپنے اشعار میں خادم رسول خوب صورتی سے کرتے ہیں ۔ دو اشعار شان اہل بیت پر دیکھئے :
ہوگیا تیار اک روشن قصیدہ دیکھیے
میرے فکر و فن میں ایسے جگمگائے اہل بیت
دین و دنیا میں مقام ان کا ہے اونچا کس قدر
حضرت سلمان فارس تھے فدائے اہل بیت
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سارے مناقب لکھے ہیں ۔سب سے ایک دو شعر دیکھیے:
احادیث میں ہیں مناقب علی کی
بہت خوب درجہ ہے شیر خدا کا
فضیلت مرتضیٰ کی دین میں کیا کیا میں گنواؤں
شہادت کا مہینہ بھی مقدس ماہ فرقاں ہے
جب مدینہ چھوڑ کر کوفہ گیے تو روپڑے
ایسی ہے آقا سے الفت حیدر کرار کی
اسی کے دم سے منور ہدی’ کے سیارے
ہدایتوں کا وہ سورج ہے نقش پائے علی
اسلام کی بقا کی علامت علی سے ہے
دین مبیں کا نور بصیرت علی سے ہے
پانی کے بلبلوں سے بھی پیدا ہو روشنی
اس فلسفے کا نور حقیقت علی سے ہے
خادم رسول عینی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کی محبت ، صوفیائے کرام سے دینی رغبت انہیں نعتیہ اور منقبتی شاعری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔آج کل زیادہ تر لوگ غزل کی طرف ہی رہتے ہیں ۔ موصوف نے اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت ، غوث اعظم ، وارث پاک ، خواجہ بندہ نواز ، سرکار مخدوم اشرف ،خواجہ معین الدین چشتی علیہم الرحمہ گویا کہ کسی بھی اولیا ، بزرگان دین کو نہیں چھوڑا ، سبھی کی شان میں نذرانہء عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم رسول ایک زود گو شاعر ہیں ، جو بھی کہتے ہیں مفکرانہ انداز اور اسلامی طریقے سے کہتے ہیں ، اس میں عقیدت کی لہریں بھی شامل ہوتی ہیں ، جو نذرانہء عقیدت کی عمدہ مثال ہے ۔کلیم احمد رضوی مصباحی یوں رقم طراز ہیں :
“شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سید خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں ۔ نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے ۔آپ کا لہجہء سخن بحمد اللہ
سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے ۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ۔”
حمد ، نعت ، مناجات ، منقبت ایک ایسا گلدستہ ہے جسے عینی صاحب نے تھام لیا ہے ۔ غزلیں بھی عمدہ کہتے ہیں جس پر الگ سے کبھی بات ہوگی ۔ان سب سے ان کی فنی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ان کا اپنا اسلوب جو نور مناقب میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ کتنے ہی دلوں کو منور و معطر کرتا نظر آتا ہے ۔اب چونکہ خادم رسول کی تقدیسی شاعری سنجیدہ مطالعہ چاہتی ہے ۔
خادم رسول عینی کے یہاں الفاظ پر عمدہ گرفت ہے۔ساتھ ہی زبان کا احترام بھی نظر آتا ہے۔ مضامین عمدہ باندھتے ہیں ۔ ساتھ ہی اسلامی نقطہء نظر کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ خادم رسول عینی جس طرح لفظوں کے چراغ جلاتے ہیں جس کی روشنی تقدیسی شاعری میں چمکتی ہے، سعید رحمانی صاحب نور مناقب پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“اس کے مطالعے سے صاف ظاہر ہے کہ عینی صاحب اولیائے کرام اور بزرگان دین سے گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں جس کا برملا اظہار ان کے منقبتوں میں ہوا ہے۔ عینی صاحب کے اشعار بلا شبہ ان کے جذب عقیدہ کے آئینہ دار ہیں ۔ غزل کے فارم میں ان کے رقم کردہ سبھی مناقب اہل بیت ، اولیائے کرام اور بزرگان دین سے ان کی گہری نسبت کا پتہ چلتا ہے”۔
سید خادم رسول عینی کا تعلق روحانی اور ادبی خانوادہ سے ہے۔ لہذا ان کے اندر تینوں چیزیں علمی ، روحانی اور ادبی یہ مل کر ایک معجون کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ادب میں اعلیٰ و ارفع نظر آتی ہے ۔ نور مناقب میں جناب تنویر پھول (امریکہ) یہ کہتے نظر آئے
:
“جناب خادم رسول عینی تقدیسی شاعری میں معتبر مقام کے حامل ہیں ۔ انھوں نے سترہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا کلام مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی منقبت کے طور پر سامنے آیا ۔وہ خود کو بنیادی طور پر منقبت کا شاعر کہتے ہیں ۔
نعت رسول کے ساتھ ساتھ وہ محبان رسول یعنی اہل بیت و صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی شان میں مناقب کہتے رہتے ہیں ۔”
عینی صاحب کی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز منقبت کے اشعار سے ہوا ۔ ان کی بلندی کا اندازہ ان کے کلام سے ہوتا ہے ۔ موصوف نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ انگریزی میں بھی نعتیہ شاعری کی ہے اور اچھی شاعری کی ہے ۔ “کچھ اپنی باتیں ” کے عنوان کے تحت خادم رسول عینی نے اپنی باتیں قاری کے گوش گزار کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
“جب میں نے شاعری باقاعدہ شروع کی تو نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ محبان رسول کی شان میں بھی منقبتیں لکھتا رہا ۔ مختلف مواقع پر بزرگان دین کے اعراس کے حوالے سے یا آپ کے یوم ولادت کے حوالے سے میں نے منقبتیں کہیں ۔ میں نے منقبت جب بھی کہی اشعار بزرگوں کی سیرت کی روشنی میں کہے۔
منقبت کا مقصد یہ رہا کہ بزرگان دین کی زندگی ، ان کی سیرت اور قوم و ملت کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کیا جائے اور دور حاضرہ کے انسان کو یہ ذہن دیا جائے کہ بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے سے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔”
سید خادم رسول عینی کے لہجے کی تازگی ، توانائی تقدیسی شاعری میں یہ بتاتی ہے کہ ان کے اندر منقبتی شاعری کرنے کا مادہ ہے ۔ افکار و خیالات کا دریا ان کے یہاں بہتا رہتا ہے۔ آپ شاعری کس معیار کی کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو نور مناقب کے مطالعہ کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔
سید خادم رسول عینی کی شاعری متاثر کرنے والی ہے ۔
جس میں ان کے محسوسات اور تجربات کو اشعار کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ خادم رسول صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں وہ مذہب اور طریقت کا ماحول ہے۔ جن حالات سے ان کا سابقہ پڑا ہے اس میں مذہبی خیالات شاعری میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
مگر جس انداز سے خادم رسول حمد ، نعت اور منقبت میں ادبی شعور کا استعمال کرتے ہیں وہ قابل قدر ،
قابل دید اور قابل مطالعہ ہے۔
احسن امام احسن ،
بھوبنیشور ،
٥ دسمبر ٢٠٢٢