WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

نعت سرکار کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


عرب کے ماہ کی شہرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
نبی کی خوبیء رفعت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں ہے محمد نام ان کا عرش پر احمد
مرے سرکار کی عظمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

پڑھو قرآں ، پڑھو توریت ، انجیل و زبور نور
شہ کونین کی مدحت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

قیادت کی ہے غزووں میں ، شفاعت ہوگی محشر میں
کہ محفوظ آپ سے امت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں وحی اتری ، دید رب ہوتی ہے اسریٰ میں
خدا سے آپ کی قربت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں والے نثار ان پر فلک والے بھی ہیں قربان
ہر اک کو شاہ سے الفت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

ہیں غاروں میں بھی غزووں میں بھی صدیق آپ ہی کے ساتھ
کہ ان کا جذبہء خدمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں پر کنکری بولے ، فلک میں چاند ہو ٹکڑے
اے عینی شاہ کی قدرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

جو بشر ان کی سیرت میں ڈھل جائےگا
سوۓ خُلدِ بریں وہ نکل جائےگا

جب رخ شاہ کی ہوگی ہم پر نظر
رخ مخالف ہوا کا بدل جائےگا

ان کی چشم شفاعت میں ہے یوں تپش
ہر گنہ میرا محشر میں جل جائےگا

ان کے فیضان کے کوہ کو دیکھ کر
کرب کا سارا لشکر دہل جائےگا

لائینگے دل میں تشریف جان جہاں
جب بھی شوق ملاقات ابل جائےگا

جس طرف ہے ادائے حبیب خدا
اس طرف ہی خیال غزل جائیگا

جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا

تو نے چھینا ہے حق تو ادا کر اسے
مت سمجھ توبہ سے ہی نکل جائےگا

جام عشق نبی عینی ہے جام وہ
جس کے پینے سے انساں سنبھل جائےگا
۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

میری آنکھوں میں ہے طیبہ کا نظارا باقی
جو فنا ہو نہ سکے ایسا ہے جلوہ باقی

دیکھتے ہی در ضوبار شہ عالم کا
دید جنت کی رہی پھر نہ تمنا باقی

رحمت دوجہاں آئے تو کھلا امن کا باب
اب نہ ہے شور کہیں اور نہ ہے غوغا باقی

بزم ایقاں کے شہنشاہ سے ہے ربط مرا
دل میں اب ذرہ برابر نہیں کھٹکا باقی

حسرت دید نبی ہو نہیں پائی پوری
ہے تمنا کا مگر خواب سہانا باقی

اہل بیت شہ کونین کی صورت اب بھی
بزم عالم میں ہے آقا کا اجالا باقی

سود سے بچتے رہو اور قناعت میں جیؤ
قبل از موت رکھو کچھ بھی نہ سودا باقی

ان کی جب یاد رہے درد کا درماں عینی
کیوں رہے دل میں مرے فکر مداوا باقی ؟
۔‌‌۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت مصطفی’صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت مصطفی’صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔

ان کی توصیف میں رب کا قرآن ہے
مصطفی’جان رحمت کی کیا شان ہے

آنکھ ان سے قتادہ کی واپس جڑی
دیکھ کر معجزہ آنکھ حیران ہے

جو ہے عنوان قرآں میں رحمان کا
میرے اشعار میں بس وہ عنوان ہے

باندھ کر اپنا ساماں چلے غم سبھی
یاد آقا وہ راحت کا سامان ہے

ان کی تبلیغ کا ہے یہ تاباں اثر
آج دھرتی کا انساں مسلمان ہے

تجھ کو گر چاہئیں شوکتیں زیست میں
اس پہ چل جو شہ دیں کا فرمان ہے

کہہ دیا، آپ محبوب ہیں جاں سے بھی
اب عمر کی بھی تکمیل ایمان ہے

عینی کہتا ہوں نعت شہ انبیاء
میرے مرشد مجاہد کا فیضان ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

مری زباں سے نبی کی ثنا نکلتی ہے
تو قدسیوں کے لبوں سے دعا نکلتی ہے

وہ باغبان ہے ایسا کہ اس پہ گل ہیں نثار
کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

خدا کے نام سے پڑھتے رہو مسلمانو
صدائے عالیء غار حرا نکلتی ہے

تمام راستے حق کے ہیں منسلک اس سے
نبی کی رہ سے ہی راہ ہدی’ نکلتی ہے

غموں کی دھوپ کا نام و نشاں نہیں رہتا
نبی کے چرخ کرم سے گھٹا نکلتی ہے

حضور زلف کو لہرا کے جب نکلتے ہیں
تو ایسا لگتا ہے جیسے گھٹا نکلتی ہے

نصیب گر نہ ہو دیدار سرور عالم
تو روح ہوکے بہت غمزدہ نکلتی ہے

ہمیشہ آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ ہے
ہمیشہ آپ کے رخ سے ضیا نکلتی ہے

ہے یہ نتیجہء درس مبین پیغمبر
کہاں یہ خود سے انا کی بلا نکلتی ہے ؟

ملی کسی کو اگر تربیت پیمبر سے
وہ ذات دہر میں سب سے جدا نکلتی ہے

نظر میں آتی ہے شبیر کی عزیمت جب
تو بات حق کی وہیں برملا نکلتی ہے

براۓ دین تھا کام ان کا معتبر ایسا
دلوں سے مدحت احمد رضا نکلتی ہے

نبی کے صدقے ہیں پھولوں میں خوشبوئیں عینی
انھی کے صدقے پھلوں سے غذا نکلتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

سید خادم رسول عینی اور نور مناقب۔۔۔۔۔۔۔از قلم : احسن امام احسن، بھوبنیشور اڈیشا

خادم رسول عینی کو ادبی گروپوں میں پڑھتا رہا ہوں ۔ پھر اس کے بعد رسالوں میں ان کی چیزیں نظروں سے گزرنے لگیں ۔ موصوف اپنی تخلیقات سے اہل ادب کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں موصوف خاکسار کے غریب خانے میں تشریف لائے اور نور مناقب جو منقبتی کلام کا مجموعہ ہے بہت ہی خلوص و محبت کے ساتھ موصوف نے میرے ہاتھوں پر رکھ دیا ۔

خادم رسول عینی نے اپنے تجربات اور احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے اور منقبتی شاعری میں ایک الگ مقام بنایا ہے۔ خادم رسول عینی خالص مذہبی آدمی ہیں۔
خانقاہ قدوسیہ سے تعلق ہے تو صوفیاے طریقت کے طور طریقے ان کے اندر مل جائینگے۔ سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہیں ۔ موصوف نعتیہ شاعری میں اتنے عمدہ اشعار نکالتے ہیں جس سے عقیدت کے پھول جھڑتے ہیں ۔ ان کی پوری شاعری عشق رسول سے سرشار نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ محسوس ہوگا کہ موصوف مرشد برحق کے چشم کرم سے مستفیض ہونے لگے اور ان کے فیضان سے مالا مال ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں نعتیہ و منقبتی شاعری کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی میں مشغول ہونے کے باوجود دنیاوی کاموں کو بھی بخوبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی تو ضروری ہے ہر حال میں ، ذکر الٰہی کرنا چاہیے ، اس کے علاوہ پاس انفاس کی تربیت ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

خادم رسول کی نعتیہ شاعری جس سے منقبتی شاعری کی ایک لکیر نکلتی ہے جو ان کی شاعری کے کمالات کو قاری کے آگے اس طرح پیش کرکے انھیں منقبتی شاعری کا شہنشاہ بناتا ہے ۔ابو البرکات محمد ارشد سبحانی صاحب کے چند کلمات کو آپ دعائیہ پھول بھی کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت رقم طراز ہیں :

” حضرت عینی نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی نعت و منقبت نگاری کی ہے ۔ عشق و ادب رسول اعظم میں ڈوب کر لکھی ہوئی نعتیں پڑھنے سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک اچھے ، پکے اور سچے عاشق رسول شاعر ہیں اور بہترین ذوق شاعری کے مالک ہیں ۔صحابہء کرام ، اہل بیت اطہار ، ازواج مطہرات، ائمہ کرام ، اولیاے کرام ، صوفیائے طریقت ، علمائے شریعت کی شان میں بے شمار مناقب تحریر فرمائے ہیں “.

خادم رسول عینی کے یہاں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ عشق رسول اور علمائے شریعت و اہل بیت کی مدح کے اظہار کے لیے ہے اور اس کا اظہار اپنے اشعار میں خادم رسول خوب صورتی سے کرتے ہیں ۔ دو اشعار شان اہل بیت پر دیکھئے :

ہوگیا تیار اک روشن قصیدہ دیکھیے
میرے فکر و فن میں ایسے جگمگائے اہل بیت

دین و دنیا میں مقام ان کا ہے اونچا کس قدر
حضرت سلمان فارس تھے فدائے اہل بیت

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سارے مناقب لکھے ہیں ۔سب سے ایک دو شعر دیکھیے:

احادیث میں ہیں مناقب علی کی
بہت خوب درجہ ہے شیر خدا کا

فضیلت مرتضیٰ کی دین میں کیا کیا میں گنواؤں
شہادت کا مہینہ بھی مقدس ماہ فرقاں ہے

جب مدینہ چھوڑ کر کوفہ گیے تو روپڑے
ایسی ہے آقا سے الفت حیدر کرار کی‌

اسی کے دم سے منور ہدی’ کے سیارے
ہدایتوں کا وہ سورج ہے نقش پائے علی

اسلام کی بقا کی علامت علی سے ہے
دین مبیں کا نور بصیرت علی سے ہے

پانی کے بلبلوں سے بھی پیدا ہو روشنی
اس فلسفے کا نور حقیقت علی سے ہے

خادم رسول عینی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کی محبت ، صوفیائے کرام سے دینی رغبت انہیں نعتیہ اور منقبتی شاعری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔آج کل زیادہ تر لوگ غزل کی طرف ہی رہتے ہیں ۔ موصوف نے اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت ، غوث اعظم ، وارث پاک ، خواجہ بندہ نواز ، سرکار مخدوم اشرف ،خواجہ معین الدین چشتی علیہم الرحمہ گویا کہ کسی بھی اولیا ، بزرگان دین کو نہیں چھوڑا ، سبھی کی شان میں نذرانہء عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم رسول ایک زود گو شاعر ہیں ، جو بھی کہتے ہیں مفکرانہ انداز اور اسلامی طریقے سے کہتے ہیں ، اس میں عقیدت کی لہریں بھی شامل ہوتی ہیں ، جو نذرانہء عقیدت کی عمدہ مثال ہے ۔کلیم احمد رضوی مصباحی یوں رقم طراز ہیں :

“شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سید خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں ۔ نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے ۔آپ کا لہجہء سخن بحمد اللہ
سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے ۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ۔”

حمد ، نعت ، مناجات ، منقبت ایک ایسا گلدستہ ہے جسے عینی صاحب نے تھام لیا ہے ۔ غزلیں بھی عمدہ کہتے ہیں جس پر الگ سے کبھی بات ہوگی ۔ان سب سے ان کی فنی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ان کا اپنا اسلوب جو نور مناقب میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ کتنے ہی دلوں کو منور و معطر کرتا نظر آتا ہے ۔اب چونکہ خادم رسول کی تقدیسی شاعری سنجیدہ مطالعہ چاہتی ہے ۔

خادم رسول عینی کے یہاں الفاظ پر عمدہ گرفت ہے۔ساتھ ہی زبان کا احترام بھی نظر آتا ہے۔ مضامین عمدہ باندھتے ہیں ۔ ساتھ ہی اسلامی نقطہء نظر کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ خادم رسول عینی جس طرح لفظوں کے چراغ جلاتے ہیں جس کی روشنی تقدیسی شاعری میں چمکتی ہے، سعید رحمانی صاحب نور مناقب پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“اس کے مطالعے سے صاف ظاہر ہے کہ عینی صاحب اولیائے کرام اور بزرگان دین سے گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں جس کا برملا اظہار ان کے منقبتوں میں ہوا ہے۔ عینی صاحب کے اشعار بلا شبہ ان کے جذب عقیدہ کے آئینہ دار ہیں ۔ غزل کے فارم میں ان کے رقم کردہ سبھی مناقب اہل بیت ، اولیائے کرام اور بزرگان دین سے ان کی گہری نسبت کا پتہ چلتا ہے”۔

سید خادم رسول عینی کا تعلق روحانی اور ادبی خانوادہ سے ہے۔ لہذا ان کے اندر تینوں چیزیں علمی ، روحانی اور ادبی یہ مل کر ایک معجون کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ادب میں اعلیٰ و ارفع نظر آتی ہے ۔ نور مناقب میں جناب تنویر پھول (امریکہ) یہ کہتے نظر آئے
:
“جناب خادم رسول عینی تقدیسی شاعری میں معتبر مقام کے حامل ہیں ۔ انھوں نے سترہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا کلام مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی منقبت کے طور پر سامنے آیا ۔وہ خود کو بنیادی طور پر منقبت کا شاعر کہتے ہیں ۔
نعت رسول کے ساتھ ساتھ وہ محبان رسول یعنی اہل بیت و صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی شان میں مناقب کہتے رہتے ہیں ۔”

عینی صاحب کی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز منقبت کے اشعار سے ہوا ۔ ان کی بلندی کا اندازہ ان کے کلام سے ہوتا ہے ۔ موصوف نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ انگریزی میں بھی نعتیہ شاعری کی ہے اور اچھی شاعری کی ہے ۔ “کچھ اپنی باتیں ” کے عنوان کے تحت خادم رسول عینی نے اپنی باتیں قاری کے گوش گزار کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

“جب میں نے شاعری باقاعدہ شروع کی تو نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ محبان رسول کی شان میں بھی منقبتیں لکھتا رہا ۔ مختلف مواقع پر بزرگان دین کے اعراس کے حوالے سے یا آپ کے یوم ولادت کے حوالے سے میں نے منقبتیں کہیں ۔ میں نے منقبت جب بھی کہی اشعار بزرگوں کی سیرت کی روشنی میں کہے۔
منقبت کا مقصد یہ رہا کہ بزرگان دین کی زندگی ، ان کی سیرت اور قوم و ملت کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کیا جائے اور دور حاضرہ کے انسان کو یہ ذہن دیا جائے کہ بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے سے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔”

سید خادم رسول عینی کے لہجے کی تازگی ، توانائی تقدیسی شاعری میں یہ بتاتی ہے کہ ان کے اندر منقبتی شاعری کرنے کا مادہ ہے ۔ افکار و خیالات کا دریا ان کے یہاں بہتا رہتا ہے۔ آپ شاعری کس معیار کی کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو نور مناقب کے مطالعہ کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔

سید خادم رسول عینی کی شاعری متاثر کرنے والی ہے ۔
جس میں ان کے محسوسات اور تجربات کو اشعار کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ خادم رسول صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں وہ مذہب اور طریقت کا ماحول ہے۔ جن حالات سے ان کا سابقہ پڑا ہے اس میں مذہبی خیالات شاعری میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
مگر جس انداز سے خادم رسول حمد ، نعت اور منقبت میں ادبی شعور کا استعمال کرتے ہیں وہ قابل قدر ،
قابل دید اور قابل مطالعہ ہے۔

احسن امام احسن ،
بھوبنیشور ،

٥ دسمبر ٢٠٢٢

منقبت در شان رئیس اڈیشا حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

حق کی وہ تبلیغ کرتا ہے بہت آرام سے
خوف کھاتا ہے مجاہد کب کہاں انجام سے

جس بشر کو قلب سے ہے انسیت اسلام سے
سرفراز اس کو کیا ہے آپ نے انعام سے

نائب اپنا حضرت صدر افاضل نے کیا
دنگ دشمن ہوگیا ہے تیرے استفہام سے

تو نے رخصت پر عزیمت کو سدا دی فوقیت
ہوگیا ثابت مجاہد ! تیرے استحکام سے

پیار سے پیش آتے تھے ہر شخص سے حضرت مرے
سنتے آیا ہوں ہمیشہ میں یہ خاص و عام سے

وصل کی خوشبو مجھے محسوس ہوتی ہے سدا
دور رہتا ہوں کہاں میں اپنے گل اندام سے

ان کے کردار و عمل سے سب پہ یہ ظاہر ہوا
کردیا ہے عام عشق مصطفیٰ پیغام سے

اک ولی کو اک ولی ہی جانتا ہے اصل میں
پوچھیے ان کی حقیقت حجۃ الاسلام سے

مفتیء اعظم اڑیسہ ، عبد رب ، حضرت نظام
آپ کے گلزار کے یہ پھول ہیں گلفام سے

اور کسی کے جام کی جانب نگہ اٹھتی نہیں
میں ہوں سیراب اس طرح تیری نگہ کے جام سے

آپ کے خدام بھی اہل سنن کے شیر ہیں
کوئی ٹکر لیکے دیکھے آپ کے خدام سے

تھا خلوص دیں پہ مبنی آپ کا ہر ایک کام
فائدہ دیں کو ہوا ہے آپ کے اقدام سے

مدرسے ، تبلیغ سیرت کے ہو بانی تم شہا
مسلک احمد رضا ہے خوش تمھارے کام سے

جو ہے حضرت کے مشن کا خون کرنے پر مصر
ہم کو مطلب ہی نہیں ہے ایسے خوں آشام سے

بیعت و ارشاد سے تم نے نوازا عینی کو
ہوگیا در سے تمھارے مالا مال اکرام سے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

پرکشش سید عالم کی ادائیں دیکھو
جانیں ان پر سبھی باغات لٹائیں دیکھو

زائرو خلد کی محسوس کرو خوشبوئیں
رہ کے جنت کی مدینے میں ہوائیں دیکھو

ہاتھ اٹھا شاہ کا، فطرت کے تقاضے بدلے
کتنی مقبول ہوئیں ان کی دعائیں دیکھو

سیرت شاہ کے جو رنگ میں ڈھل جاتے ہیں
ان کے ہاتھوں میں تقدس کی حنائیں دیکھو

حسن سرکار کی رنگت کا ہے دلکش یہ اثر
کتنی رنگین ہیں پھولوں کی عبائیں دیکھو

دشمنان شہ کونین نہ یوں اتراؤ
کیسی کیسی تمھیں ملتی ہیں سزائیں دیکھو

رحمت شاہ کے دریا کی ہیں موجیں ایسی
عینی بے ہوش ہوئیں ساری بلائیں دیکھو
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

منقبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


ہو آل جناب نبی غوث اعظم
ہو ہر اک ولی کے ولی غوث اعظم

ترے در پہ علم و ادب کی ہر اک شاخ
ادب سے ہے اب بھی کھڑی غوث اعظم

جو دیکھا تمھارے کرم کے فلک کو
مصیبت تھکی رہ گئی غوث اعظم

نبی و علی کے لعابوں کے صدقے
تمھیں مل گئی آگہی غوث اعظم

عبادت گزاری تمھاری تھی ایسی
کہ سکتے میں خود شب رہی غوث اعظم

ترے نام لیواوں پر حملہ آور
نہیں شیر ہوگا کبھی غوث اعظم

ہوئے طالبین اس کو آسودہ پڑھ کر
کتاب ایسی تم نے لکھی غوث اعظم

ہے قربان جنت کا بھی حسن جس پر
ہے ایسی تمھاری گلی غوث اعظم

جو قزاق تھے تجھ سے ملنے سے پہلے
بنے وہ ترے در ولی غوث اعظم

تمھاری عنایت کے دستے کے آگے
مصیبت کہاں ہے بڑی غوث اعظم

ولی جو ہیں دنیا میں ان کو ولایت
تمھارے ذریعہ ملی غوث اعظم

تمھیں دیکھ کر سارے باطل کی دنیا
تمھاری طرف جھک گئی غوث اعظم

یہ کہتا ہے اسلام ، تیری بدولت
اسے مل گئی زندگی غوث اعظم

صدی جو چھٹی گزری اس کے مجدد
ہو تم دین رب کے محی غوث اعظم

عشاء کے وضو سے پڑھی آپ نے فجر
ہیں یوں عابد و متقی غوث اعظم

تمھاری امامت میں پڑھ کر نمازیں
ہوئے مقتدی جنتی غوث اعظم

مجاہد نے ہم کو ملایا ہے تم سے
حبیبی ہیں سب قادری غوث اعظم

شفایابی اندھوں کو جب چاہو دے دو
کرامت تمھاری بڑی غوث اعظم

وہ وابستہ ہے سلسلے سے تمھارے
ہے قسمت کا “عینی” دھنی غوث اعظم
۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

اردو۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

آنکھ اردو کی کتنی پیاری ہے
شاعری اس پہ ہم نے واری ہے

اپنے اسلاف کی ہے یہ محنت
لہلہاتی جو اس کی کیاری ہے

اس کے باغات رکھتے ہو ویران
پھر بھی کہتے ہو یہ ہماری ہے ؟

جس کو دیکھو ، وہ اس کا گرویدہ
اک عجب اس میں سحر کاری ہے

وقت ہی اس پہ ہے نہیں قربان
ہم نے ہر چیز اس پہ واری ہے

یوم اردو ہے آج اے یارو
اک عجب جوش دل پہ طاری ہے

جو عطا کی ہے میر و غالب نے
آج بھی وہ مٹھاس جاری ہے

محفل غیر بھی فدا اس پر
اس کی دیوانی دنیا ساری ہے

کہہ رہی ہے زباں فصاحت کی
سب پہ اپنی زبان بھاری ہے

اعلیٰ حضرت کی ہے زباں اردو
اس لیے بھی یہ عینی پیاری ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی