اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن فقیر میں آئے ہیں کوئی بھائی اس کا جواب تلاش کریں
1) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ ہوگا اسے کورٹ اسکول و کالج میں کرنے دے گی؟
2) کیا ہندو، جین، بودھ، سکھ وغیرہ کے مذہبی معاملات کو یہی کہہ کر اسکول و کالج و یونیورسٹی سے خارج کیا جائے گا؟
3) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ نہیں اسے اپنی مرضی سے کرنے پر روک لگایا جائے گا؟
4) کیا ہندوستان میں بسنے والے تمام دھرم کے لوگ اب وہی کر سکتے ہیں جو دھرم کا لازمی حصہ ہو؟
5) یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں کام یا فلاں عمل دھرم کا لازمی حصہ نہیں؟؟
6) کیا دھارمک پستکوں اور مذہبی اسکالر کے علاوہ کوئی اور شخص کسی دھرم کے بابت یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں کام دھرم کا لازمی حصہ ہے اور فلاں نہیں؟
7) جس کا کا حکم کوئی دھرم دے لیکن اس دھرم کے لوگ اس میں غفلت برتیں(یعنی کوئی کرے اور کوئی نہ کرے) کیا اسے دھرم کا لازمی حصہ نہیں مانا جائے گا؟؟
8) ہَوَن جو ہندو دھرم میں ایک عظیم عبادت ہے اسے اکثر ہندو نہیں کرتے کیا اسے دھرم سے نکالا جائے گا؟
9) اگر اسکول، کالج، یونیورسٹی میں اسلامی وضع قطع سے روک لگایا جا رہا ہے تو آخر، تلک لگانا، بھجن گانا، پراتھنا کرنا، مخصوص دھرم کی تعلیم دینا، پگڑی پہن کر آنا، جنیو اور چوٹی رکھ کر آنے پر کب روک لگایا جائے گا؟
10) “آئین ہند” میں جو یہ کہا گیا کہ ” رنگ و نسل، ذات پات کی تفریق نہ کی جائے گی
نوٹ: یہ سوالات کسی بھی دھرم کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نہیں ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورٹ، دھرم گرو سے سوال کرتی دھارمک کتابوں پر گفتگو کرتی