WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حجاب،اسلام کا لازمی حصہ نہیں- ہائی کورٹ:-📝حسن نوری گونڈوی

اس فیصلے کو پڑھنے کے بعد چند سوالات ذہن فقیر میں آئے ہیں کوئی بھائی اس کا جواب تلاش کریں

1) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ ہوگا اسے کورٹ اسکول و کالج میں کرنے دے گی؟

2) کیا ہندو، جین، بودھ، سکھ وغیرہ کے مذہبی معاملات کو یہی کہہ کر اسکول و کالج و یونیورسٹی سے خارج کیا جائے گا؟

3) کیا جو اسلام کا لازمی حصہ نہیں اسے اپنی مرضی سے کرنے پر روک لگایا جائے گا؟

4) کیا ہندوستان میں بسنے والے تمام دھرم کے لوگ اب وہی کر سکتے ہیں جو دھرم کا لازمی حصہ ہو؟

5) یہ کیسے معلوم ہوگا کہ فلاں کام یا فلاں عمل دھرم کا لازمی حصہ نہیں؟؟

6) کیا دھارمک پستکوں اور مذہبی اسکالر کے علاوہ کوئی اور شخص کسی دھرم کے بابت یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں کام دھرم کا لازمی حصہ ہے اور فلاں نہیں؟

7) جس کا کا حکم کوئی دھرم دے لیکن اس دھرم کے لوگ اس میں غفلت برتیں(یعنی کوئی کرے اور کوئی نہ کرے) کیا اسے دھرم کا لازمی حصہ نہیں مانا جائے گا؟؟

8) ہَوَن جو ہندو دھرم میں ایک عظیم عبادت ہے اسے اکثر ہندو نہیں کرتے کیا اسے دھرم سے نکالا جائے گا؟

9) اگر اسکول، کالج، یونیورسٹی میں اسلامی وضع قطع سے روک لگایا جا رہا ہے تو آخر، تلک لگانا، بھجن گانا، پراتھنا کرنا، مخصوص دھرم کی تعلیم دینا، پگڑی پہن کر آنا، جنیو اور چوٹی رکھ کر آنے پر کب روک لگایا جائے گا؟

10) “آئین ہند” میں جو یہ کہا گیا کہ ” رنگ و نسل، ذات پات کی تفریق نہ کی جائے گی

نوٹ: یہ سوالات کسی بھی دھرم کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نہیں ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورٹ، دھرم گرو سے سوال کرتی دھارمک کتابوں پر گفتگو کرتی

ذکر معراج میں ہے تصور نمازکا۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

”رجب المرجب “اسلامی سال کا ساتوا ں مہینہ ہے جس کی حرمت وعظمت اس سے ظاہر ہےکہ یہ” اشھر حرم“ سے ہے اس کی فضیلت واہمیت پر خود شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقدس کلام ،حدیث پاک میں ارشاد فرمایا”رجب شھراللہ ،شعبان شھری ورمضان شھر امتی“ یعنی رجب اللہ کا مہینہ،شعبان میرا مہینہ اور رمضان شریف میری امت کا مہینہ ہے۔اس حدیث پاک میں رجب کی نسبت ذات باری عز اسمہ کی طرف ہونا اس کی رفعت شان کی دلیل ہے اور ایساہونا بتقاضاۓ عقل و فہم ہے کیو ں کہ آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے” رجب“کی ستائیسویں شب کے ایک حصے میں مسجد حرام {مکہ مکرمہ}سے مسجد اقصی تک پھر یہاں سے آسمانوں کا سفر مسعود ہوتا ہوا سدرة المنتھی اور ملاء اعلی تک پہونچ کردیدار خداوندی سے مشرف ہونے کا شرف حاصل کیا، دیدار وہم کلامی کے اس تقدس مآب کیفیت کو پوری دنیا ”معراج مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم “کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔اسی کی ترجمانی کرتے ہوۓ حضرت حسن بریلوی نےکیا خوب فرمایا ہے شعر۔بنا آسماں منزل ابن مریمگۓ لا مکاں تاجدار مدینہیہ معراج کس قدر بلند شان ہے کہ محب{اللہ جل شانہ} حبیب کو خود طلب کر دولت دیدار سےمشرف فرماتاہے جب کہ کلیم خود طالب دیدار ہوتے ہیں،اعلی حضرت فرماتے ہیں شعرتبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی۔کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے۔معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم، علو رتبہ کی وہ تشریح ہےجہاں ساری رفعت اور بلندی ہیچ ہے ،یہ مقام رفیعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو حاصل ہوا نہ ہوگا،اس زاویہ سےبھی” رجب المرجب“کی اہمیت وافضلیت ظاہرہے کہ واقعئہ معراج اسی کی آغوش بابرکت میں فروکش ہے جس سے رجب کا حسن ملاح فزوں تر ہے۔اس آن میرا مطمح نظر یہ ہے کہ ذکر معراج تصور نماز سے غایت درجہ ملصق ہے گویا تصور نماز ،ذکر معراج کا جزء لا ینفک ہے۔یہی وجہ ہے کہ سفر معراج دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور دوسرا وہاں سے عرش اعظم تک۔معراج جو ”عروج “ بلندی پر چڑھنے سے عبارت ہے اس کی حقیقی شکل یہی ”مسجد اقصی“ سے عرش اعظم تک کا سفر مسعود ہی ہے، اس سفر کی ابتدا آپ کی امامت نماز اور تمام انبیا علیہم السلام کی اقتدا سے ہوتی ہے اوراختتام بھی من جانب اللہ بتوسل نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بندگان الہیہ کے لۓ تحفئہ نماز پنجگانہ پر ہوتا ہے ۔یہ دونوں واقعات زباں زد خلائق ،خزینئہ اذہان اہل علم ہیں یا محفوظات اوراق کتب ہیں ۔اس لۓ یہ کہا جاسکتاہے کہ” ذکر معراج میں ہے تصور نماز کا“ مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں بتائ ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر بابرکت راتوں کی طرح اس رات میں بھی نوافل کااہتمام کریں اور بکثرت عبادات نافلہ سے اپنے دامن مراد کو پر کریں ۔نوافل نمازوں کی زیادتی سے جبیں سائ کے ذریعے رب کی رضا کے حقدار بنیں۔ آمین

محترمہ مسکان صاحبہ کے نام۔۔۔۔۔!!!⁦✍️⁩ آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ] 6306397662📲

عزیزم محترمہ مسکان صاحبہ سب سے پہلے میں آپ کی ہمت و استقلال کو داد و تحسین دیتا ہوں۔ کہ تن تنہا شیرنی بن کر کیسے ان گیدڑ بھبکیوں پر دہاڑا تھا، آج بھی وہ منظر نگاہوں کے نہاخانے میں ان مٹ ہیولیٰ بن کر گردش کررہا ہے۔ یقیناً آپ کے والدین بھی لائق مبارکباد ہیں، جنھوں نے نازیبا حالات کے دھارے کو موڑنے کا سنہرا ہنر سکھایا ہے۔ آپ کی غیرت و حمیت نے صنف نسواں میں نئی روح پھونک دی۔ قوم مسلم کی بچیوں کے لیے آپ ایڈیئل ہی نہیں بنی ہیں بل کہ باب نسواں میں ہمت و بہادری کے حوالے سے ایک اور سنہرے نام کا اضافہ ہو گیا ہے، تاریخ ہند کو جس پر ناز ہے۔ پوری دنیا سے آپ کے جزبات کو خوب پزیرائی مل رہی ہے، یہی آپ کی جیت کی نشانی ہے۔ دور حاضر کے اندر تاریخ نسواں کے باب میں کہیں کہیں ایسی ہستیوں کا ذکر ملتا ہے جو تن تنہا دشمنوں کے نرغے میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلک شگاف نعرے بلند کرکے انہیں مبہوت کردیا ہو۔ ورنہ تو اکثر بچیاں ایسے ماحول میں اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں، انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ایسی صورت حال مجھے کیسا کردار اپنانا چاہئے۔ آپ کی جرأت و بہادری نے ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر فخر کا غازہ باندھا ہے ۔ کیوں کہ آپ بے سروسامانی کے عالم میں صبر کے ساتھ ہمت و استقلال کی ایسی جبل شامخ بنی رہیں جسے دیکھ کر پوری دنیا کا ہندو سماج ذلت و پستی کے بہت نچلے پائیدان پر پہنچ چکا ہے۔ اور ان کے خانۂ قلب میں برابر زلزلہ برپا ہے۔ اس دور پر آشوب میں مسلمانوں کے حالات پس پشت نہیں ہیں تو ایسی صورت حال میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی بچیوں کو آپ کے حوصلے سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کبھی خدا نخواستہ زعفرانی آتنکی سے مڑبھیڑ ہوجاۓ تو مسلم بچیاں احساس کمتری کا شکار ہوکر اپنے حوصلے کو مجروح نہ کریں بل کہ حالات کے اعتبار سے مکمل ہمت و بہادری سے کام لیں، جیسا کہ محترمہ مسکان صاحبہ نے کر دکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ خاص و عام سب نے عزت و شرف کا سہرا ان کے سر پر باندھا ۔ محترمہ مسکان صاحبہ لوگوں نے اپنے اپنے ذوق و شوق اور ظرف کے اعتبار سے مبارک بادیاں دے کر مزید آپ کے حوصلے کو بلند کئے۔ اس وقت ہند و پاک نیز دگر ممالک کے نیوز چینلوں کی کیفیت واقعی قابل دید تھی۔ قوس و قزح کی طرح متنوع قلم کاروں کی تخلیقات بھی واقعی قابل مطالعہ تھی۔ ین آر سی کے خلاف ثابت قدم اور سینہ سپر ہوکر حکومت کے جبڑے اکھاڑنے والی حوصلہ مند مسلم خواتین کے بعد میرے علم کے مطابق آپ (مسکان) پہلی شہزادئ اسلام ہیں، جنھوں نے زعفرانی حکومت کے پلوں کو دن میں تارہ دکھائی ہیں۔ محترمہ مسکان صاحبہ اس مصرعے سے آپ کے شوق جنوں کو سلام کرتاہوں۔ ع وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل جہاں ہیں فاطمہ و عائشہ کے نقش قدم

ہاں! ہم نے بھی نقاب میں انقلاب دیکھا ہے۔ از، آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

روۓ زمین انقلاب برپا کرنے والوں سے خالی نہیں ہے۔ مرد و زن سے لے کر ننھے بچوں اور بچیوں تک سب نے اپنی اپنی قوت فکر سے انقلاب کی تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن مسلم انقلاب ہمیشہ امتیازی شان و شوکت والا رہا ہے۔ حال فی الحال میں “مسکان” نامی طالبہ نے تن تنہا دشمنان اسلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو صداۓ “اللہ اکبر” بلند کی ہے ایوان کفر تو ایوان کفر ہے کافروں کے کلیجے تک میں بھی زلزلہ برپا ہوگیا۔ زعفرانی گیدڈ بھبکیوں کی ریوڑ میں اب اتنی سکت نہیں بچی تھی کہ اس جرأت و استقلال کے جبل شامخ سے مقابلہ کر سکیں‌۔ تاریخ اسلام میں ایسے ہزاروں کم سن بچے اور بچیوں کی بہادری کی تاریخ ملتی ہے کہ عین حالات جنگ میں چشم زدن میں ان کے ناپاک ارادوں کو خاکستر کر کے رکھ دیا ہے۔ اور آئیندہ اس طرح کی ہزاروں مسکان صفحہ دہر پر جنم لیتی رہیں گی۔ تاکہ کفر کو اپنی اوقات کا علم ہوتا رہے۔ ایسی ان گنت خواتین کا ذکر اوراق تاریخ میں آپ زر سے رقم شدہ ملتا ہے کہ مسلم خواتین نے نا صرف حجاب میں رہ کر تعلیم و تعلیم جیسے اہم مشغلہ کو جاری رکھا، بل کہ زمام حکومت کے ساتھ تخت شاہی پر بھی جلوہ افروز ہوئی ہیں۔ اور مکمل شاہی آن بان شان کے ساتھ ضابطۂ سلطانی کو عدل کے ساتھ چلاتی رہیں۔ اور وقت پڑنے پر حجاب کے ساتھ دوسرے ممالک کا دورہ بھی فرمائی ہیں۔”ریاست بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم نے حجاب اور پردے میں رہ کر بے مثل و بے مثال حکومت کی۔ آپ کی تعلیمی لیاقت کا ندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کی پہلی وائرس چانسلر بننے کا تمغہ حاصل کیا۔ یہیں پہ بس نہیں بل کہ آپ کی دینی خدمات کا جزبہ بھی حجاب اور پردے میں پروان چڑھا، آپ بھوپال میں لال مسجد اور موتی مسجد نامی بڑی حسین و جمیل خانۂ خدا تعمیر کروائیں جو آج بھی اپنی اصل ہیئت پر قائم ہے۔” زعفرانی آتنک وادیوں کو چاہئیے کہ پہلے ہماری تاریخ کا مطالعہ کریں پھر کہیں سوالیہ نشان لگائیں۔

دبئی میں ہندوستانی مسلمان لڑکیوں کی حالت پر صلاح الدین انصاری کی رپورٹ

میں نے لڑکیوں کو دبئی ٹور کے دوران ہوٹلوں ، ریستورانوں ،ڈانس ہالوں میں کام کرتے دیکھا ، جب بھی میں ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا ، وہ خوفزدہ ہو جاتیں کہ رات کو باہر جاتے وقت ان کے ساتھ 1-2 نگراں موجود تھے ، میں نے کئی بار کوشش کی ، پھر میں نے ایک پٹھان ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے نگراں کو کچھ رقم دے کر ان لڑکیوں سے بات کرنے پر آمادہ کیا۔

اور ہم 1 انڈین ریسٹورنٹ ساگر رتنا میں ملے تمام لڑکیاں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اچھے مسلمان خاندانوں سے ہیں اور کسی نے اپنے خاندان سے بغاوت کی تھی اور اپنے گھر سے زیورات اور نقدی چرا لی تھی اور اپنے ہندو عاشق کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور کچھ مہینے اپنے عاشق کے ساتھ گزارےتھے۔ دبئی جانے کے لیے ہندو لڑکوں نے ان کو رات رکھنے کے بعد بیچ دیا تھا۔ کچھ نے بتایا کہ اس کا ہندو شوہر دبئی میں ہی کام کرتا ہے اور اسے ساتھ رکھنے کے لیے لایا تھا لیکن اسے یہاں بیچ دیا گیا۔

ان میں سے 3 ایسی لڑکیاں تھیں جنہیں ایک ہی ہندو لڑکے نے مختلف جگہوں پر شادی کرنے کے بعد یہاں بیچ دیا ، ان لڑکیوں نے بتایا کہ ہمارے علاوہ بھی بہت سی لڑکیاں ہیں جو حوس کے گھروں میں مختلف ہوٹلوں میں جہنم کی زندگی گزار رہی ہیں۔ زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ انہوں نے گھناؤنا جرم کیا ہے۔ اور وہ سب اس کی سزا کے طور پر جہنم بھگت رہی ہیں۔

میں نے ان سے ہندوستان میں اپنے گھر واپس جانے کو کہا پھر سب نے انکار کر دیا ، اب ان کے لیے بھارت میں کچھ نہیں ، نہ ہم خاندان اور معاشرے کو اپنا چہرہ دکھانے کے قابل ہیں ، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ تھا جس سے جینا اور کھانا کرسکتے۔اب ھم کو اس جہنم میں رہنا ہے اور پھر اللہ جانتا ہے کہ جب عمر ختم ہو جائے گی تو کیا ہوگا۔

تقریباً تمام لڑکیوں نے اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی،اسکول کالج کی پڑھائی کے دوران پیار ہو گیا اور ہندو لڑکوں سے شادی کر لی، حالانکہ پورے ہندوستان کی لڑکیاں ان غیر مذہبی دہشت گردوں کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں ، لیکن زیادہ تر اتر پردیش سے آئی ہیں۔ . 1 لڑکی دہلی کے ایک مسلمان سرکاری افسر کی بیٹی تھی ، اور زیادہ تر لڑکیاں مسلم انصاری معاشرے سے تھیں ، حالانکہ یہ تمام لڑکیاں نام کے لیے ہوٹل-ریسٹورنٹ بار میں کام کرتی تھیں ، لیکن وہاں آنے والے گاہکوں کو خوش رکھنے کے لیے تھی۔ کاروبار کرنے پر بھی پابند تھی،

دہلی کی 2 لڑکیاں میری درخواست پر اپنے خاندان کا پتہ اور فون نمبر دینے پر راضی ہو گئیں۔ میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا کہ آپ کا خاندان آپ کو قبول کرے گا اور آپ اس جہنم سے باہر آئیں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان میں واپس رہیں۔ میں ان کے اہل خانہ سے ملنے دہلی گیا۔ اور ان کو ان کی بیٹی کی حالت سے آگاہ کیا لیکن دونوں کے خاندان نہیں چاہتے کہ لڑکیاں واپس آئیں۔ وہ اب ان کے لیے مر چکی ہیں۔ یقینا روح پہلے ہی مر چکی ہے۔ لیکن جسم زندہ ہے

میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ اپنے گھروں کے بچوں کے اردگرد ایسی درندوں کو منڈراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ ہوشیار رہیں اور بچوں کو بھی آگاہ کریں ، تاکہ ہماری بیٹیاں ان دہشت گردوں کے جال میں نہ پھنسیں۔

صلاح الدین انصاری

یہ افسانہ نہیں سچی کہانی ہے۔

اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو،،از :- آصف جمیل امجدی

آج (29/جنوری 2022؁ء)نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے ہر دن کی طرح گنے چنے چند لوگ آۓ ہوۓ تھے(جیسا کہ بیشتر جگہوں کا حال ہے) جنہیں باسانی انگلیوں کے انامل پر گنا جا سکتا تھا۔ انہی نمازیوں کے ساتھ ایک ننھا بچہ بھی آیا ہوا تھا اس ننھی سی جان کے چہرے پر جہاں معصومیت نے غلاف ڈال رکھا تھا، وہیں کچھ سچی نیت سے کر گزرنے کا جذبۂ شوق بھی خوب عیاں تھا۔ پہلے تو بچے نے مسجد میں اپنی طبیعت بھر خوب تفریح کی۔ پھر یکلخت میرے قریب آ کر مسکراتے ہوۓ کہتا ہے “حافظ جی میں بھی نماز پڑھوں گا” ابھی میں کچھ کہہ بھی نہیں پایا تھا کہ بچے نے جلدی سے ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہا کہ “مجھے تو کچھ آتا بھی نہیں، میں اب کل پڑھوں گا اپنی امی سے پوچھ کر آؤں گا تب۔ اچھا جی! (آواز بڑی پیاری لگ رہی تھی صاحبزادے کی)۔ میں نے کہا بیٹا آۓ ہو تو میرے ساتھ پڑھ لو۔ حافظ جی کہا نا کہ مجھے کچھ نہیں آتا(شاید صاحبزادے کو میرے اصرار کرنے پر بہت جلال آ گیا تھا)میں نے کہا ” اچھا جیسے میں پڑھ رہا ہوں ویسے تو آپ پڑھ ہی سکتے ہو نا؟”۔ جی! ۔۔۔۔۔۔۔ میں نیت باندھ کر پڑھنے لگا۔ بچہ میری نقل کرتا ہوا اپنی نماز مکمل کرلی۔ میں دعا مانگنے لگا تو بچے کی دعا سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ دھیمی دھیمی آواز میں اپنے رب سے کہہ رہا تھا۔ “اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو”۔ بچہ بڑی لگن اور معصومیت سے اس دعا کو کئے جا رہا تھا۔ میں اس بچے کی دعا میں آہستہ آہستہ آمین کہتا ہوا شامل ہوگیا۔ جب بچے کی دعا ختم ہوئی۔ تو میں نے پوچھا منی کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟بیٹا۔۔۔۔!!!! حافظ جی وہ میری بہن ہے ، وہ نانی کے یہاں ہے۔ میرے ابو خوب زیادہ پیسہ لائیں گے تو اپنی منی کی دوا لینے جاؤں گا ۔ میں بھی نانی کے یہاں جاؤں گا ۔ بچے نے جب اپنی بات ختم کی۔ تو میں نے پوچھا بیٹا منی کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ حافظ جی بیمار ہے منی میری، آپ دعا کرو نا حافظ جی میری منی کے لیے۔(آواز غم سے بہت نڈھال لگ رہی تھی، شاید منی کافی دن سے بیمار تھی) ہاں بیٹا دعا کروں گا ان شاءاللہ۔ پھر آگے ہمت نہ پڑی کہ بچے سے غم کی داستاں کچھ اور سنوں۔ یہ آواز اب بھی میرے کان میں گونج رہی ہے اللہ پاک میری منی کوصحیح کردو” بچے کی عمر تین سے چار سال کے آس پاس رہی ہوگی۔ اور اس کی چھوٹی بیمار بہن جسے بچہ محبت سے منی کہہ کر اپنے رب سے شفا کی بھیک مانگ رہا تھا، اس کی عمر تقریبا ڈیڑھ سے دو سال ہوگی۔(یااللہ اس بچے کی منی کو شفاء کاملہ و عاجلہ عطا فرما۔ آمین)

شریک غم

آصف جمیل امجدی

ہم جشن یوم جمہوریہ کیوں مناتے ہیں؟از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

بلاشبہ وطن عزیز [ہندوستان] کی تاریخ میں دو دن بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں, ایک 15اگست [یوم آزادی]جس دن ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزادہوا, دوسرا 26جنوری[جسے یوم جمہوریہ یا ری پبلک ڈے Republic Day یا گن تنتر دِوس کہا جاتا ہے] جس دن ملک جمہوری ہوا, یعنی اپنےملک میں اپنےلوگوں پراپناقانون لاگو ہوا-
آزادہندوستان کااپنادستور بنانے کیلئےڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکرکی صدارت میں29اگست 1947کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کوملک کاموجوده دستورمرتب کرنےمیں 2سال 11ماه اور18دن لگے, دستورسازاسمبلی کےمختلف اجلاس میں اس نئےدستورکی ہراک شق پر کهلی بحث وتمحیص ہوئی،پھر 26 نومبر1949کواسےقبول کرلیاگیا, اور24جنوری 1950 کوایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نےنئےدستور پردستخط کیا, اور 26جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگوکرکے پہلا “یوم جمہوریہ” منایاگیا،[اسی دستور اور آئین کی بنیاد پر اپنے ملک کو جمہوری ملک کہاجاتاہے]اب ہرسال تمام باشندگانِ ہند وبرادرانِ وطن 26جنوری کو “یوم جمہوریہ “کے طور پرپورے جوش وخروش اور دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں اور15اگست 1947کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اوریادگاری دن بن گئی-
26جنوری کوجشن کےطور پہ کیوں مناتے ہیں؟ توآئیے تاریخ کےاوراق کامشاہدہ کرتےچلیں, جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملا,اس کیلئےبڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں,لاکھوں جانوں کےنذرانےپیش کرنے پڑے,تب جاکر 26جنوری کو جشن منانے کایہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہوا, انگریزوں کاپہلاقافلہ1601 میں دورجہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتها ,اس حساب سے ہندوستان سےانگریزوں کاانخلاء 1947میں 346سال بعد ہوا, اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئ جس کاہرصفحہ ہندوستانیوں کےخون سے لالہ زارہے، جذبۂ آزادی سےسرشار اورسرپرکفن باندھ کروطن عزیز اوراپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں جہاں ہمارے دیگر برادارنِ وطن نے حصہ لیا وہیں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ مسلمان سب سے پیش پیش تھے,جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں توہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل ہی نہ ہوگی،بہرحال 26جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لیے جو دستور مقرر کیا اس کے آغاز میں ہی ایک بہت ہی خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی،سیاسی،انصاف،آزادئِ خیال، اظہاررائے،آزادئِ عقیدہ ومذہب وعبادات،مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا”
یقیناً دستور ہند کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملک کے تمام مذاہب و نظریات رکھنے والوں کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ ملک میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں، اپنےجائز افکار و نظریات کی تبلیغ وترسیل کر سکتے ہیں، اپنے تشخصات و روایات کے ساتھ ملک میں اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں، اپنی زبان، تہذیب، کلچر و ثقافت پر عمل کرنے میں مکمل آزاد ہیں،کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے مذہب، اس کی تہذیب، زبان اور ثقافت سے چھیڑچھاڑ کرے، اس کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنائے یا اس کے پرسنل لا سے چھیڑچھاڑ کرے،اس اعتبار سے “ھندوستانی جمھوری نظام” ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں،ہندوستان ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات،رنگ ونسل اور رسم ورواج کے چاہنے والے رہتے ہیں،صدیوں سے یہاں گنگا جمنی تہذیب وتمدن کی فضا رچی بسی ہے،دوستی، محبّت،بھائی چارگی، یکجہتی،مساوات واخوت یہاں کی خاص پہچان ہے، 26 جنوری کو اسی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لیے “جشن یوم جمہوریہ” مناکر ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ملک کے آئین کے بانی و مرتبین کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے،اور اس دن پورے ملک میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تعلیم گاہوں اور سرکاری اداروں میں “جشن یوم جمہوریہ” کا پروگرام منعقد کی جاتی ہے،تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کاانعقاد کیاجاتاہے،اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتاہے،لوگ جوق درجوق گھروں سے باہر آجاتے ہیں،مدارس اسلامیہ،اسکول، کالج،چوراہوں، سرکاری ونجی عمارتوں پرقومی پرچم لہرائے جاتے ہیں،رہائشی علاقوں،ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیراہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں،مساجد ومدارس میں ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی اور آپسی بھائی چارہ، نیز بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر آنے کی توفیق اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں، حبّ الوطنی پر مشتمل ترانے پڑھےجاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے،سیکولرازم کے عنوان پر بیانات ہوتے ہیں،اور ہمارے مفکرین ودانشوران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کی بقا رہنی چاہیے، ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہونی چاہئے، سب کو رہنے اور کھانے پینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہیے اسے ان کو حکومتی سطح پر دیاجاناچاہییے،خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو مسلم سکھ عیسائی اور ہندوستان کے تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنا چاہیے، ملک کی حفاظت اور اِس کی ترقی کے لیے سبھی بردران وطن کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے-ہم سبھی لوگوں کو ملک کے آئین ودستور کا پاس ولحاظ رکھنا چاہییے،مگر پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں ایک خاص فکر کے حاملین برادران وطن نے جس طرح ملک کے دستور کی دھجیاں اڑائی ہیں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، فرقہ پرستی کو فروغ دیا ہے، مذہب اور دھرم کے نام پر جو سیاسی کھیل کھیلا ہے، فرقہ وارانہ فسادات میں جس طرح حکومت کی پشت پناہی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور اب مسلمانوں کے مذہبی مسائل اور عائلی قوانین میں جس طرح مداخلت کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اب باقاعدہ جمہوریت ہی باقی نہ رہی، ایک خاص فکر کے حاملین نے ملک کی جمہوریت کو اپنے خونی پنجوں سے جس طرح دبوچ لیا ہے اور آئے دن ملک کے جمہوری تقدس کو پامال کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ارادے نیک نہیں، یہ جمہوریت کے دشمن ہیں، آئین کے قاتل ہیں، دستور کے لٹیرے ہیں، یہ لوگ بڑی بے باکی کے ساتھ اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں شب و روز تگ و دو کر رہے ہیں، حکومت جو جمہوریت کی محافظ ہے وہ بھی جمہوریت کے ان لٹیروں کا ساتھ دے رہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ تمام برادران وطن مل کر ان چند فرقہ پرستوں کے خلاف اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دینے والی حکومت کے خلاف جمہوریت کی بقا اور آئین کی سلامتی کے لیے متحدہوکرانہیں ان کے منصوبوں میں ناکام بنائیں، تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں، اور یوم جمہوریہ مناتے ہوئے خوشی خوب خوب خوشی ومسرت محسوس کریں-
اس بار ہم 73 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ پورے ملک کے مدارس،کالجز،اسکول ودفاتر میں بھی موجودہ وبائی بیماری کے مدّنظر حفاظتی اقدامات کے ساتھ”جشن یوم جمہوریہ”منایا جائے گا،کاش کہ اس جشن زریں کے موقع پر حکمرانوں کے ذریعہ آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیا جاتا اور اس پر عمل بھی کیا جاتا، نفرت بھرے ماحول کو امن وآشتی،اخوت و بھائی چارہ سے بدلنے کی بات کی جاتی، مساویانہ آئینی حقوق کو یقینی بنایا جاتا، ملک دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں امتیاز نہیں برتا جاتا، گنگا جمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پرلگام لگایا جاتا گئورکچھا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو طوق سلاسل پہنایا جاتا،لوجہاد اور گھر واپسی کے نام پر آتنک کاراج قائم کرنے والوں کو تختۂ دار تک پہنچایا جاتا، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے نعرہ کو سب کے لئے عملی جامہ پہنایا جاتا، تو “یوم جمہوریہ” کے معماروں کےلیے یہی سچی خراج عقیدت ہوتی!