WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حجاب چھوڑئیے صاحب! یہاں تو پستان چھپانا بھی جرم عظیم تھا۔{موج فکر}از✍️آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ

آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلے والی بی جے پی اپنی شرم ناک حرکتوں کے ذریعہ جب زمام حکومت سنبھالی تھی، اسی وقت ظاہر ہو چکا تھا کہ ہندو مسلم میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والی یہ پارٹی مذہبی عداوتوں کی فصل اک دن ضرور کاٹے گی۔ لیکن وہ اس میں اتنی جلد بازی کرے گی اس کا اندازہ ہرگز نہیں تھا۔ مذہب و شریعت میں دخل اندازی کرکے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر رکھی ہے۔ شب و روز بے چینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی ہے۔ خصوصی طور پر جب اسمبلی انتخابات قریب آتا ہے تو ہندو مسلم کے مابین نفرت کی کوئی نا کوئی بیج ضرور ڈالی جاتی ہے۔ زعفرانی پلے (पिल्ले) ابھی حالیہ اسلامی قانون حجاب کے خلاف واویلا مچاۓ ہوۓ تھے۔ جس پر میری قوم کی غیرت مند ننھی شہزادی “مسکان خان “نے اپنی ہمت و بہادری کا جوہر دکھاتے ہوۓ زعفرانی گیدڑ بھبکیوں کو آن واحد میں ان کی اوقات یاد دلا دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان آتنکیوں کے خانۂ فکر میں مسلسل بھونچال برپا ہے۔ 2022؁ء کا حجابی سانحہ تاریخ ہند میں جلی حرفوں سے رقم کردیا گیا ہے۔ تاکہ نسل نو یہ جان سکے کہ ظالم حکمراں نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیسا جانب رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ کاش آر یس یس کے زہریلے زعفرانی خمیر اسلام پر شب خوں مارنے کی بجائے تاریخ ہند کا مطالعہ کئے ہوتے تو شاید دانتوں تلے انگلی داب لیتے اور ایسی نازیبا حرکتوں سے آئین ہند کو داغ دار نہ کرتے۔ 1729؁ء کی بات ہے کہ بھارت کے نقشے میں ٹراونکوڑ کی سرزمین پر دل سوز آنکھوں کو نمناک کر دینے والا درد ناک ناقابل بیان سانحہ تاریخ ہند میں بادشاہ وقت مرتھنڈ ورما کے دور حکومت میں ملتا ہے۔ کہ بادشاہ مرتھنڈ ورما زمام حکومت کے ساتھ تخت شاہی پر بیٹھتے ہی قدیم بادشاہوں کی ریت رواج کے مطابق اپنا حکم نامہ نافذ کرتا ہے۔ کہ فلاں فلاں اشیاء پر آپ لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا فہرست ضوابط میں ایک ایسے ٹیکس کا ذکر تھا جسے انسانی کان کبھی سنا تھا اور نہ ہی ذہن انسانی نے اسے بھول کر بھی کبھی سوچا ہوگا۔ “پستان ٹیکس/ بریسٹ ٹیکس” کے حوالے سے قانون لکھا ہوا تھا ، جو نچلی قوم (دلت، او بی سی وغیرہ وغیرہ) کی خواتین پر خصوصی نافذ کیا گیا تھا۔ کہ ان کے لیے اپنا پستان چھپانا سب سے بڑا جرم ہوگا، خلاف ورزی کی صورت میں ٹیکس (تاوان) دینا ہوگا۔ ظلم کی انتہا اسی پر بس نہ ہوئی بل کہ بادشاہ کا حکم نامہ رعایا کو سنایا گیا کہ میری حدود سلطنت میں رہنے والے مرد و عورت کو حیات مستعار گزارنے کےلیے بادشاہ کےقانون پرعمل پیرا ہونا لازم و ضروری ہوگا۔(نچلی قوم اسلامی حکمرانوں کے علاوہ بل کہ ہر دور حکمرانی میں کچلی گئیں ذلیل و رسوا کی گئیں) ظالم بادشاہ مرتھنڈ ورما کا خود ساختہ گھناؤنا قانون یہ تھا کہ نچلی ذات کی خواتین خالص کمر سے لےکر پیر تک کے اعضاء کو چھپا سکتی ہیں۔ پستان کو چھپانے کی انہیں قطعی کوئی اجازت نہیں ہے۔ اسی کھلے سینےکے ساتھ ضرورت پڑنے پر خواتین کوٹ کچہری کا چکر بھی لگاتی تھیں۔ عظیم عہدے دار اور اعلیٰ افسران کی آمد پر عورتوں کو اپنا پستان کھول کر بات کرنی پڑتی تھی‌۔ اس قانون سے باہر نکل کر زندگی گزارنے کا گویا تصور ہی مفقود ہو چکا تھا، کیوں کہ بادشاہ کے ڈر سے عام صورت حال میں بھی اسی طرح عورتیں رہنے لگی تھیں۔ شرم و حیا اس وقت دم بخود ہوکر رہ گئی جب کوئی خاتون غیرت کے مارے اپنا کھلا پستان چھپاتی اور وہ بڑا ہوتا تو اس جرم میں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔ اور اگر پستان چھوٹا ہوتا تو ٹیکس کم دینا پڑتا۔(یہ بادشاہ وقت کا فرمان تھا کہ جس کا پستان بڑا ہوگا اس کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا، باقاعدہ پستان کو ناپا جاتا تھا) ٹیکس افسران (Tex officer)کی ٹیم بلاناغہ ہر ہفتے ناڈر (nadar) و ایزوا (ezhava) قوم کے پاس ٹیکس لینے آتی تھی۔ ٹیکس کو کیلے کے پتے پر رکھ کر دینا ہوتا تھا۔ آخر بادشاہ مرتھنڈا ورما کا یہ ظالمانہ کالا قانون کب تک چلتا ایک نہ ایک دن تو بھسم ہونا ہی تھا 1803؁ء میں ایزوا (ezhava) ذات(ایزوا نیچے ذات کو کہتے ہیں ) میں نانگیلی نامی ایک بہادر خاتون کی تاریخی سوانح حیات ملتی ہے کہ اس خاتون نے تنے تنہا نہایت ڈھٹائی سے بادشاہ وقت کے غلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ نانگیلی اپنے پستان کو ڈھک کر چلنے لگی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اب میں اسی طرح رہوں گی اور بریسٹ ٹیکس بھی نہیں دوں گی ۔سماج میں یہ بات بڑی تیزی سے پھیلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لمحوں میں یہ بات ٹراونڈ راجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ راجہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے کہ کون ہے میری رعایا میں جس کی اتنی بڑی جرأت ہوئی کہ وہ میرے فرمان کے خلاف من مانی کرنے لگی۔ اور فورا ٹیکس اصولی کرنے والے اعلیٰ افسران کو طلب کرکے ہدایت کرتا ہے کہ جاؤ اور اس سے ہر حال میں ٹیکس لے کر آؤ۔ دوپہر کے وقت ٹیکس افسران ٹراونکوڑ میں نانگیلی کے گھر پہنتے ہیں اور ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن نانگیلی اور ان کے شوہر چرکنڈن دونوں با یک زبان ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ لہذا افسران اور نانگیلی کے بیچ کافی بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور نانگیلی کو نچلی ذات ہونے کی وجہ سے افسران نے بہت ٹارچر بھی کیا۔ بلآخر یہ کہہ کر کہ “لا رہی ہوں ٹیکس” نانگیلی گھر کے اندر جاتی ہے اور پھر اپنا “ایک پستان کاٹ کر کیلے کے پتے پر رکھ کر افسران کے سامنے پیش کردیتی”۔ یہ دیکھ کر موجودہ افسران کے ساتھ ٹراونکوڑ کی جنتا حواس باختہ ہوجاتی ہے۔ اور نانگیلی کے جسم سے برابر خون جاری تھا جس سے موقع پر اس کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ٹراونکوڑ کے راجہ مرتھنڈ ورما پر جگہ جگہ سے بہت پریشر پڑتا ہے کہ بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا جاۓ۔ احتجاج اتنا شدیدتھا کہ بادشاہ کےکنٹرول سے باہر ہو چکا تھا۔ لہذا بادشاہ کو اعلان کرنا پڑا کہ آج سے ایزوا ذات کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس ہٹایا جارہا ہے اور اب وہ اپنے بدن کو ڈھک کر رہ سکتی ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ 1729؁ء میں مرتھنڈ ورما راجہ نے یہ بریسٹ ٹیکس جیسا کالا قانون لگایا تھا جو کہ 1803؁ء تک چلا۔ اور نانگیلی کی بے مثال قربانی کی وجہ سے ایزوا ذات کی خواتین کو 1803؁ء میں بریسٹ ٹیکس دینے سے نجات ملی۔ اور انہیں پستان ڈھک کر چلنے کی اجازت دے دی گئی۔(آج بھی نانگیلی کی پوجا ٹراونکوڑ میں کی جاتی ہے۔) لیکن ٹراونکوڑ میں ابھی نادر (nadar) کمیونٹی کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس کا قانون ہٹایا نہیں گیا تھا۔ ناڈر قوم کی تاریخ بھی بہت تاریک تھی (اختصار سے پیش کر رہاہوں) ناڈرکمیونٹی نے جب دیکھا کہ ایزوا کمیونٹی سے بریسٹ ٹیکس کو ہٹالیا گیا۔ تو پوری ناڈرکمیونٹی نے اپنے حق کے لیے اس کالے قانون کے خلاف ایسا احتجاج کیا جو ایک تاریخی احتجاج بن گیا اور یہ کئی دن تک لگاتار چلتا رہا۔ 1859؁ء میں برٹش حکومت اور ٹراونکوڑ کے راجہ کے بیچ نادر قوم کے احتجاج کو لے کر کافی بات چیت ہوئی۔ اس وقت مدراس کے گورنر “چارلس ٹویلئن” (Charles trevelyan) تھے آپ نے ورتھنڈ ورما پر کافی پریشر ڈالا تو بادشاہ نے ناڈرکمیونٹی سے بھی بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا پھر بھی خفیہ طور پر ٹیکس لیا جاتا رہا۔ 1924؁ء میں جب آزادئ ہند کی لڑائی پورے چرم سیما پر تھی تب اس وقت اس کالے قانون (بریسٹ ٹیکس) سے نجات ملی تھی۔

! सुबह का बेहतरीन नाश्ता✍️ आसिफ जमील अमजदी

#अगर आप सेहत मंद रहना चाहते हैं तो सुबह का नाश्ता जितना बेहतर लेंगें दिन भर उतना ही चाक चौबंद रहेंगे,घर में बनने वाले ट्रेडिशनल नाश्ते को छोड़ें और अंकुरित दालें खाना शुरू करें कुछ दिन में ही इसका असर नज़र आने लगेगा,इसमें,चना,मूंग,मोमफली, मेथी,को भिगो कर अंकुरित कर लें इस से दालों की ताक़त कई गुना बढ़ जाती है।अब जो लोग चाहें इसमें *बादाम,किशमिश,कद्दू,खीरा, खरबूज,और तरबूज के मगज़ भी शामिल कर लें,इस अंकुरित दालों में कोई ऐसा विटामिन और मिनरल नहीं जो न पाया जाता हो,यह आप के जिस्म में नया खून बनाएगा,कैल्शियम की कमी दूर होगी,जिस्म को तारो ताज़ा रखेगा,मर्दों के लिए बेहतरीन है टेस्टोस्टेरोन के लेवल को बढ़ाता है।बच्चों और औरतों के लिए भी शानदार नाश्ता साबित होगा,फाइबर से भरपूर होने की वजह से क़ब्ज़,गैस,एसिडिटी को दूर करेगा,टेस्ट के लिए आप सेंधा नमक,प्याज़,अदरक,टमाटर डाल सकते हैं,औरतें बच्चे नीबू भी डाल कर खा सकते हैं अगर मुमकिन हो तो इसी में एक चमची वर्जिन ओलिव आयल भी डाल सकते हैं।मर्दों को नीबू से बचना चाहिए,यह नाश्ता आप को डॉक्टरों से बचाएगा,यह बात याद रखें आप का खाना और नाश्ता जितना हाइजेनिक और नैचरल होगा आप उतना ही सेहतमंद रहेंगे।

مختصر تعارف حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)از ::-منظور احمد نوری بانی و مہتمم جامعہ امام المرسلین

عالم نبیل فاضل جلیل استاذ الامام الاعظم والامام المالک
ابو عبداللہ حضور سیدی وسندی سرکار حضرت امام جعفر صادق وطاہر رضی اللہ عنہ 17 ربیع الاول شریف 80/ 83 ہجری میں مدینہ منورہ شریف میں پیدا ہوئے

آپ کا نام حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) ہے
آپ کی کنیت ابو عبداللہ و ابو اسماعیل ہے۔ اور آپ کا لقب مبارک، صادق ،فاضل،طاہر، ہے۔ آپ نے جلیل القدر صحابۂ کرام حضرت انس بن مالک اور حضرت سہل بن سعد (رضی اللہ عنہما) سے ملاقات کی۔ آپ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سےآپ کے شہزادے حضرت امام موسیٰ کاظم، امام اعظم ابو حنیفہ،حضرت امام مالک، حضرت سفیان ثوری (رضی اللہ عنہم اجمعین) ہیں۔
امام مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آپ (امام جعفر صادق) رضی اللہ عنہ کو 3 تین کاموں سے بڑا شغف تھا (1) نماز (2) قرآن کی تلاوت (3) روزہ۔فرماتے ہیں جب بھی میں نے حضرت امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے ملاقات کی تو انھیں میں میں سے کسی ایک میں مصروف پایا۔
آپ کا وصال 15 رجب المرجب 148 ھجری مدینہ منورہ میں کسی بد بخت کے زہر دینے سے ہوئی، آپ جنت البقیع میں اپنے والد گرامی حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) کے بغل میں مدفون ہیں۔ اور یہی آپ کے عرس کی تاریخ ہے۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ کونڈے کی فاتحہ 15 رجب کو کرانا چاہئے ۔
اگر کوئی دوسرے دنوں میں کرائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
۔گدائے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ

منظور احمد نوری
مہتمم جامعہ امام المرسلین آستانۂ عالیہ حضرت سید پھول شاہ (رحمۃ اللہ علیہ) چینی میل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

مفتی محمد سفیرالحق رضوی کی کتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح”منظر عام پرنام کتاب:عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح مولف:حضرت مولانا مفتی محمدسفیرالحق رضویناشر:مکتبہ فقیہ ملت دہلی صفحات:۳۶۸قیمت:۲۶۰سن اشاعت:۱۴۴۳ھ/۲۰۲۱ءتبصرہ نگار:محمدشمیم احمدنوری مصباحی

اس وقت احقر کے پیش نظر “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح”نامی کتاب ہے-جسے محبّ گرامی حضرت مولانا مفتی محمدسفیرالحق رضوی نے انتہائی محنت وجستجو اور جانفشانی کے ساتھ ترتیب دیا ہے- دور حاضر میں عوام الناس میں طرح طرح کے بے بنیاد خیالات،غلط مسائل،جہالت و نحوست پر مبنی غلط تصوّرات و توہّمات اور بدشگونیاں عام اور مشہور و معروف ہیں جن کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت اور اصل شرعی نہیں، جبکہ عوام نے ان مسائل کا غلط طور پر ایسا یقین کرلیا ہے کہ ان کو اس میں کچھ شبہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ علماء سے ان مسائل کی تحقیق وتفتیش کریں اور بعض علماء کو بھی ان غلطیوں میں عوام کے مبتلا ہونے کی اطلاع نہیں ہو پاتی کہ وقتاًفوقتاً علمائے کرام ہی ان کا ازالہ کرتے رہیں- البتہ میری معلومات کی حد تک کچھ علمائے کرام بالخصوص حضرت مولانا تطہیر احمد صاحب بریلوی،حضرت مولانا کوثر امام صاحب قادری،حضرت مولانا محمداسلم رضاقادری اشفاقی اور مولانا محمد حنیف اختر صاحب نے اس طرح کےموضوعات پر اچھا کام کیا ہے-چنانچہ انہیں علمائے کرام کی روش کو اپناتے ہوئے محبّ گرامی حضرت مولانا مفتی محمد سفیر الحق صاحب رضوی استاد: دارالعلوم غریب نواز الہ آباد نے علمائے اہل سنت کی معتبر و مستند کتب و رسائل اور درجنوں معتمد کتب فقہ و فتاویٰ کی مدد سے سے ایسے بہت سارے مسائل کو زیر نظر کتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح” میں جمع کر دیا ہے جو عوام میں غلط طور پر مشہور مروّج ہیں- ساتھ ہی ساتھ ان کے مسئلہ اصلیہ وشرعیہ کو بھی کتب فقہ وفتاویٰ کے حوالے سے انتہائی عام فہم انداز میں درج کر دیا ہے- یوں تو حضرت مفتی محمد سفیرالحق صاحب رضوی نے اس موضوع پر احقر کی تحریک اور پیر طریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف کی فرمائش پر دارالعلوم انوار مصطفیٰ میں [۱۴۳۴ ھ میں] اپنے زمانۂ تدریس میں ایک مختصر کتابچہ ترتیب دیا تھا جو کسی صاحب خیر کی طرف سے بیک وقت اردو ہندی اور گجراتی میں چھپ کر مقبول عوام وخواص ہوا- پھر آپ نے ان مسائل اور کچھ دیگر مسائل کواہل سنّت کےترجمان” ماہنامہ کنزالایمان” دہلی میں طباعت کے لیے بھیجنا شروع کیا جو کئی سالوں تک مسلسل اور گاہے بگاہے “فقہی احکام و مسائل” کے کالم میں شائع ہوتا رہا،جسے ملک و بیرون ملک کے دینی ذوق رکھنے والے قارئین نے بہت پسند کیا اور بہت سے اکابر علماء نے دعاؤں کےساتھ حوصلہ افزا کلمات سے بھی نوازا اور اسے باضابطہ کتابی شکل میں ترتیب و اشاعت کی گزارش و فرمائش کی- خود احقر نے آپ سے کئی بار اس کی ترتیب و اشاعت کی گزارش کی اور ساتھ ہی ساتھ اسے فقہی ابواب کے طرز پر ترتیب دینے کی گزارش کی- چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے فقیر کے اس مشورہ ودیگر علماء ودانشوران کی گزارش و فرمائش پر سوال و جواب کی شکل میں بڑی حکمت و دانائی کے ساتھ مستند کتب فقہ وفتاویٰ کے حوالوں سے مزین کرکے شوق و تجسس کو ذریعہ بناکر زیرنظرکتاب “عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح” کو ترتیب دیا ہے- اس کتاب میں آپ نے جہاں نہایت ہی مفید و دلچسپ فقہی مسائل کو درج کیا ہے وہیں آپ نے ایسے بہت سارے موضوع اور بے اصل روایات کو بھی جمع کر دیا ہے جن کو پیشہ ور مقررین و واعظین اور بعض خطباء اپنی علمی افلاس کے باعث بڑے زور و شور سے بیان کرکے قوم کی واہ واہی لوٹتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم نے تبلیغ دین کا اہم فریضہ ادا کر دیا حالانکہ فرضی اور موضوع روایات کا بیان کرنا اور سننا ناجائز و حرام ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں کہ “روایات موضوعہ پڑھنا بھی حرام،سننا بھی حرام، ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کمال ناراض ہیں، ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور اس حال سے آگاہی پا کر بھی حاضر ہونے والا سب مستحق غضب الہی ہیں”…( فتاوی رضویہ مترجم ج/۲۳ ص/۷۳۵،رضا فاؤنڈیشن لاہور) اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند تحریر فرماتے ہیں کہ “وہ لوگ جو من گڑھت موضوعات بکتے ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو عالم بتائیں ہرگز منبر کے مستحق نہیں، نہ ان کی روایات کاذبہ ذکر، نہ ان کا سننا جائز”… (فتاویٰ مصطفویہ ص/۴۳۷)__ ایسے میں موضوع اور من گھڑت روایات کی نشاندہی کس قدر ضروری ہے یہ اہل علم پر مخفی نہیں-کتاب کے شروعات میں آپ نے اپنے مادرعلمی”دارالعلوم غریب نواز الہ آباد”کے سابق پرنسپل شفیق ملّت حضرت علّامہ مفتی شفیق احمدشریفی کے تقریظ جلیل اور حضرت علّامہ مفتی مجاہد حسین صاحب رضوی مصباحی کے تقریظ جمیل جب کہ شہزادۂ فقیہ ملّت حضرت مفتی ابراراحمد صاحب امجدی کے کلمۂ تحسین کو شامل کیا ہے-ان سبھی حضرات نے اپنی تقریظات وتاثرات میں مرتب کتاب کی تحسین وتبریک کے ساتھ کتاب کو لائق مطالعہ اور معلوماتی بتایا ہے-کتاب کے آخر میں آپ کے شاگردعزیز حضرت مولانا ارشادالقادری مصباحی نے “حالات مصنّف” کے عنوان سے آپ کی حیات وخدمات پر بالاختصار روشنی ڈالی ہے-حالات مصنّف کے مطالعہ اور دوسالہ تدریسی مرافقت ومصاحبت سے احقر اس نتیجہ پر پہنچا کہ بلاشبہ حضرت مفتی محمدسفیرالحق صاحب رضوی ایک راسخ العلم مدرس،بالغ نظر مفتی اور خوش بیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس،متدین،خوش مزاج اچھے اخلاق واوصاف سے مزین،سنجیدہ اور سلجھے ہوئے عالمِ باعمل ہیں- ۳۶۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب یقیناً اپنے محتویات کے اعتبار سے عوام و خواص کے لیے یکساں طور پر نفع بخش ثابت ہوگی- احقر پوری کتاب پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت مفتی محمد سفیرالحق صاحب رضوی نے شرعی مسائل کےان بکھرے موتیوں کو حوالہ جات کے ساتھ جس عرق ریزی اور حزم و احتیاط سے جمع کیا ہے وہ یقیناً لائق تحسین و تبریک اور قابل تحسین ہے-اس کتاب کی طباعت واشاعت پردرج ذیل درج علمائے کرام نے حضرت مفتی صاحب کو اپنی دعاؤں سے نوازنے کے ساتھ مبارکباد بھی پیش کی-حضرت مفتی شفیق احمد صاحب شریفی قاضی شہر الہ آباد،حضرت مفتی مجاہد حسین رضوی مصباحی نائب قاضی شہر الہ آباد،صاحب زادہ فقیہ ملت مفتی ابرار احمد امجدی اوجھا گنج بستی،علامہ خورشید انور نظامی استاذ دارالعلوم غریب نواز الہ آباد،علامہ محمود عالم سعدی پرنسپل دارالعلوم غریب نواز الہ آباد،مفتی نہال احمد نظامی معین الافتاء غریب نواز الہ آباد،مفتی غلام ربانی شرف نظامی الہ آباد،مولانا باقر حسین قادری برکاتی سہلاؤشریف، مولانامحمّداسماعیل نوری امجدی، مولانازین العابدین مصباحی، مولانا حافظ منوّرعلی قادری، مولانا اسلام الدین قادری،مولانا عبدالحلیم قادری انواری،مولانا جمیل الرحمن مصباحی کلکتہ،مولانا حفیظ الرحمن کرنا ٹک،مولانا حبیب الرحمن سبحانی کٹرہ الہ آباد،مفتی شاہ جمال الہ آباد،مولانا منصور عالم پونہ،مولانا منصور عالم ،مولانا ابو صالح ریوا ایم پی ومولانا جمال الدین صاحب دربھنگہ وغیرہم-اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں!7860587171

✒️محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

” سہ ماہی عرفان رضا” ٭ “فکر رضا” کی کہکشاؤں میں۔آصف جمیل امجدی

امام اہل سنت سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ذات وستودہ صفات علمی کہکشاؤں میں اپنی ایک الگ جہاں آباد کئے ہے۔ جہاں پر لوگوں نے عقیدت و محبت کا نذرانہ اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ اسی سلسلتہ الذہب کی ایک نایاب کڑی “سہ ماہی عرفان رضا” ہے۔ جو بزرگوں کی مقبول دعاؤں کے ساۓ میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کو “عرفان رضا” کے نام سے رسالے کی صورت میں عوام اہل سنت تک پہنچانے کی اس کے جملہ مدیر اور علمی ٹیم شب و روز مصروف عمل رہتے ہیں ۔ آج کل میرے دن کا چوتھائی حصہ ڈیجیٹل دنیا میں ہی گزرتا ہے، کیوں کہ میں ریسرچ سینٹر لکھنؤ کا ایک طالب علم ہوں۔ ایسی صورت میں زندگی کی زلف برہم کو سنوارنے میں ڈیجیٹل دنیا بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ وہیں پر مجھے متعدد دینی،ادبی و ثقافتی رسائل بھی بصر نواز ہوتے رہتے ہیں۔ انہی متنوع رسائل کی جھرمٹ میں حضرت مولانا محمد نفیس القادری امجدی صاحب کے توسل سے ایک پی ڈی یف بنام “فقیہ اہل سنت نمبر” بھی نظر نواز ہوئی۔ دیکھ کر بحمدہ تعالیٰ بڑی خوشی محسوس ہوئی اور عرفان رضا کی پوری ٹیم کے لیے دل سے دعا نکلی کہ “اللہ عزوجل آپ سبھی حضرات کو خوب خوب کامیابی عطا فرمائے آمین” (یوں ہی فکر رضا کی ضیاباریوں کو عرفان رضا کے ذریعہ عام کرنے میں سرگرم رہیں۔) اسلاف شناسی کا یہ طریقہ نسل نو کی ذہن سازی میں بہت مفید ثابت ہوگا۔ عرس رضوی کے حسین موقعے پر “مصلح اعظم نمبر” جو کہ سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ذات و شخصیت اور آپ کے احوال و کوائف پر مشتمل اسلاف شناسی کے نایاب سلسلے کا آغاز خصوصی شمارہ کے طور پر کیا گیا تھا۔ جس کو حلقۂ ارباب و دانش میں خوب پزیرائی ملی دوسرا خصوصی شمارہ بنام “فقیہ اہل سنت نمبر”فقیہ اہل سنت استاذ گرامی وقار حضرت علامہ و مولانا مفتی آل مصطفے مصباحی صاحب علیہ الرحمہ کی گراں قدر و بے لوث دینی و ملی، فقہی و تدریسی اور تصنیفی و تحریری خدمات و کارناموں پر مشتمل مختلف قلم کاروں کی تخلیقات سے مزین ہوکر جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔ ایسی صورت میں سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے ذریعہ وابستگان قرطاس و قلم کو باضابطہ دعوت تحریر دی جا چکی ہے۔ اس رسالے کے مدیر اعلیٰ مولانا محمد نفیس القادری امجدی صاحب مرادآبادی و مدیر اعزازی مولانا محمد ناظر القادری مصباحی صاحب و مدیر معاون مولانا محمد شہباز مصباحی صاحب و مدیر مسؤل مولانا محمد افتخار امجدی صاحب و مشیر اعلیٰ مفتی مشتاق احمد امجدی صاحب و تزئین کار مولانا محمد رضاء المصطفے امجدی صاحب اور کمپوزر مولانا مطلوب خان نوری صاحب نیز مجلس مشاورت و مجلس معاونت سہ ماہی عرفان رضا علمی ٹیم کی صلاحیت،بالغ نظری اور ملی شعور و حمیت کے ساتھ اپنے ہم عصر علماء میں امتیازی شان و شوکت رکھتے ہیں۔ میں عرفان رضا کی سبھی علمی ٹیم کو خصوصی شمارہ بنام “فقیہ اہل سنت نمبر” نکالنے پر صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

ماہ رجب تاریخ اسلام کے ساۓ میں،، از:- آصف جمیل امجدی {انٹیاتھوک،گونڈہ}

ماہ رجب کو قبل از ظہور اسلام حرمت والے مہینے کا درجہ حاصل ہے۔ تاریخ اسلام میں ماہ رجب کے اندر کئی تاریخی واقعات کا ذکر ملتا ہے۔★ اسلام کے چوتھے خلیفہ اور داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی ماہ کی 13/ تاریخ کو دنیاۓ فانی میں تشریف لائے۔آپ کی ولادت کی تاریخی سال کتب تواریخ میں 30؁ھ عام الفیل ملتا ہے۔★ حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال کتب تواریخ میں ماہ رجب کی 9؁ھ تاریخ مل رہی ہے۔یاں تک کہ پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام از خود اطلاع پا کر اپنے اصحاب کی معیت میں غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی الحمدللہ۔★ 9؁ھ میں پیش آنے والا عظیم غزوہ ، غزوۂ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا۔ جسے غزوۂ ذات العسرہ کا نام دیا گیا، یہی وہ غزوۂ ہے جس میں سیدنا امیرامؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر بار خالی کرکے تن من دھن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا۔ اور امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ نے تہائی لشکر کا ساز و سامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ حاصل کیا۔★ ہجرت حبشہ اولی مسلمانوں کے لیے بہت دل سوز ہجرت تھا۔ جب مسلمان کفار مکہ کی سختیاں برداشت نہ کر سکے تو باذن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عازم حبشہ ہوۓ۔اس مقدس مختصر سے قافلے میں 12/مرد اور 4/ عورتیں تھیں (باختلاف روایات) امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قافلۂ سالار مہاجرین تھے ، یہ 5؁ نبوی کا دل سوز سانحہ تھا۔★ سریہ عبد اللہ بن جحش الاسدی یہ سریہ بھی اسی مقدس ماہ یعنی ماہ رجب میں پیش آیا تھا۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت، پہلاخمس، پہلاشہید، اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا۔★ دمشق کی تاریخی فتح 14/ہجری 635؁ء میں مقدس ماہ رجب میں ہویی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جو ربیع الثانی 14/ہجری سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوۓ تھے۔ بفضلہ تعالیٰ بڑی شان و شوکت والی فتح ملی، اس کے بعد اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو من و عن منظور کر لی گئی۔★ سلطان صلاح الدین ایوبی رضی اللہ عنہ نے 583/ ہجری سن 1187/ عیسوی میں رجب ہی کے مہینہ میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدۂ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔★ ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل اعلان نبوت بے پناہ مصائب سے گھرا ہوا تھا۔ تو اللہ کریم نے ماہ رجب کی 27/ تاریخ کو اپنے محبوب سے ملاقات کا اہتمام فرمایا۔ آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنی گوناگوں نشانیوں کا مشاہدہ بھی کرایا۔ اسی کو معراج النبی کہا گیا۔ (1)سفر معراج شریف کا پہلا مرحلہ مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک کا زمینی سفر رہا۔ (2) سفر معراج شریف کا دوسرا مرحلہ مسجداقصیٰ سے لے کر سدرت المنتہٰی تک کا ہے یہ کرۂ ارض سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے ماشاءاللہ۔ (3) سفر معراج شریف کا تیسرا مرحلہ سدرت المنتہٰی سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا سفر ہے۔ چوں کہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا۔ اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہذا اس روداد محبت کو گوشۂ راز میں رکھا گیا۔

♻️Ⓜ️♻️ ♥️ والدین سے درخواست ♥️✅ نکاح آسان کرو، یہاں تک کے زنا مشکل ہو جائے ۔!

جنسی  بے راہ روی اور جھوٹے عشق و محبت کے تعلقات کو فروغ ملنے میں سب سے بڑا کردار ان والدین کا ہے جنہوں نے ایک تو اپنے بچوں کی تربیت قرآن و سنت کے‌مطابق نہیں کی، اور دوسری یہ کہ لڑکے، لڑکیوں کے مقررہ مدت میں رشتے کرنے میں دیری کی کیونکہ نکاح ایک فطری عمل ہے اگر شریعت کے مطابق بلوغت کو پہنچنے پر لڑکے، لڑکیوں کا انکے مناسب جوڑ کے لحاظ سے نکاح نہیں کروایا گیا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہونگے اور اسکا وبال والدین پر ہوگا، آج رشتہ کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ لڑکا کتنا ہی آوارہ قسم کا کیوں نہ ہو، اس میں دینداری نام کیلیے بھی باقی نہ رہے، اس کے بغیر نکاح کے جنسی تعلقات کئ کئی فاحشہ عورتوں سے ہو، بد اخلاق بد کردار ہو، تعلم یافتہ نہ بھی ہو، نہ کوئی ہنر ہاتھ میں ہو، پھر بھی لڑکی والوں کا رشتہ تلاش کرنے کا معیار یہ بن چکا ہے کہ اسکی دولت، زمین، کھیتی، پیسہ، بنگلہ، گاڑی، اسٹیٹس، دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی دین داری اور اخلاق کی بات کریں تو اسے یہ کہے کر خاموش کردیا جاتا ہے کہ اللہ ہدایت دینے والا ہے سدھر جائے گا، اور وہی اگر کسی مڈل کلاس کے با اخلاق با کردار لڑکے کا رشتہ آجائیں تو اسے خالی ہاتھ واپس کردیا جاتا ہے کہ ہماری لڑکی کے خرچے بہت ہیں یہ برداشت نہیں کر پائے گا، یہ کیسا اندھا انصاف ہے اور کیسا معیار معاشرے میں رواج عروج پارہا ہے کیا اللّٰه تعالیٰ قادر نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے تو کیا وحدہُ لا شریک اس دیندار میڈل کلاس لڑکے کو مال و دولت سے نہیں نواز سکتا اصل چیز تو آخرت ہے اللہ اتنا مہربان ہے کہ آخرت کی کامیابی دے رہا ہے دنیا کونسی بڑی بات ہے اور دنیا کا نظام تو اللہ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہیں جب چاہے حالات تبدیل کر دیتا ہے، اور پھر اگر لڑکا، لڑکی ایک دوسرے کو پسند بھی کرلیں تو وہاں والدین آڑ بن جاتے ہے حالانکہ کے یہ انکا حق ہے کے ایک دوسرے کو  ایک نظر دیکھیں تاکہ آگے چل کر کوئی پریشانی یا رشتہ میں دراڑ کا سبب نہ بن جائے ایسے بہت سے حادثات ہماری اطراف میں دیکھنے میں آتے ہیں کہ ماں باپ لڑکی پسند کرنے جاتے ہیں اور رشتہ بھی طے کرلیتے ہے لڑکے کو لڑکی نہیں بتائی جاتی اور لڑکی کو لڑکا نہیں بتایا جاتا، اور والدین سمجھتے ہے کہ ہم گھر کے بڑے ہے ہم نے جو طے کرلیا وہی ہوگا، اور پھر کچھ ہی دنوں یا مہینے میں وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر معیار پر دونوں خاندان اتر بھی گے تو ذات اور برادری کو دیکھا جاتا ہے ایسے بہت سے عمدہ رشتہ ذات و برادری کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں میں ایسے عمدہ رشتہ جانتا ہوں کہ لڑکی مفتیہ ہے اور لڑکا بھی تھوڑا بہت دینی تعلیم سے آراستہ مگر کیا برادری دونوں کی مختلف ہے بس پھر کیا اسی بے حس معاشرہ کے نظام کی نظر چڑھ گئے حالانکہ رشتے طے کرنے کا معیار یہ ہے کہ لڑکی کی دینداری دیکھی جائے نا کے حسن اور مال و دولت کو، دونوں طرف سے اگر یہ شریعت کے مطابق باتیں پائی جاتی ہے تو نکاح میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔

نکاح کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شوہر لڑکی کا کھانے پہنے رہنے کا خرچ اٹھانے کے قابل ہو، ایسی کئی احادیث نکاح کی تعلق سے ملتی ہے جس میں نکاح میں جلدی کرنے کیلیے کہا گیا ہے، آج معاشرے میں بگاڑ کا سبب خود والدین بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہی لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنے‌ معیار کے مطابق رشتے تلاش کرنے میں اپنے بچوں کی جوانیاں برباد کررہے ہیں، آج لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جاتی ہے میرا کہنے کا‌مقصد تعلیم سے روکنا نہیں ہے لیکن جو آج اعلیٰ تعلیم کے نام پر لڑکیوں کی عمریں شادی کی عمر سے تجاوز کر جاتی ہے اور پھر اخبارات اور ویب سائٹ، پر اشتہارات دیے جاتے ہیں اور پھر کوئی لڑکا نہیں ملتا جو ان تعلم یافتہ لڑکیوں سے شادی کریں یا پھر انکے معیار کا لڑکا نہیں مل پاتا جو انہیں اپنا سکے، ایسی ہزاروں لڑکیاں گھروں میں سسکیاں لے کر مر‌ رہی ہے، اور‌ معاشرے کا یہ رواج بن گیا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکیوں سے نکاح نہیں کیا جاتا بیوہ خواتین سے نکاح نہیں کیا جاتا اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیواؤں سے نکاح کیا۔

معاشرہ جنسی استحصال کا شکار ہورہا ہے، لڑکے لڑکیوں کے بروقت نکاح نہ کرنے کی بنا پر بے حیائی (فحاشی)، درندگی بڑھتی جارہی ہے۔

آج حالات یہ بنے ہوئے ہیں کے لڑکے لڑکیاں نکاح کی عمر کو پہنچ جاتے ہے اور کالجوں یونیورسٹیوں میں غیر محرموں سے تعلقات قائم کرلیتے ہے یہاں تک کے لڑکوں سے لڑکیاں عشق و محبت کے نام پر اپنے والدین اور دین و ایمان  کو خیرباد کہہ دیتی ہیں ایسی کئ خبریں مل چکی ہیں۔والدین سمجھتے ہیں لڑکی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں وہ بلا تحقیق بھروسے پر گاؤں سے شہروں کی طرف اپنی بچیوں کو ہاسٹل میں داخل کراتے ہیں، اور وہ غیروں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔

آج یہ معاشرہ اور ہمارے نوجوان جس میں اکثر یونیورسٹیوں کے لڑکے لڑکیاں موجود ہوتی ہے جو ایسی  پارٹیوں کو شان سے سلیبریٹ کرتے ہیں جس میں ناچ گانا ہوتا ہے جہاں پر بنت حوا عشق و محبت کے جھوٹے بندھن میں پھنس کر اپنی عصمتیں گنوا دیتی ہیں اور پھر عمر بھر پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچتا، یہ حالات اس وجہ سے عروج پارہے ہیں کیونکہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بالغ ہونے پر نکاح میں دیر کی جارہی ہیں اور وہ اپنی حوس کو مٹانے کیلیے ایسے غیر شرعی راستے اپناتی ہے بہت کم ایسے لڑکے لڑکیاں ہوتے ہے جو ایسے حالات میں خود پر قابو رکھ پاتے ہیں لیکن والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بالغ ہونے پر جوڑ کا رشتہ دیکھ کر فوراً نکاح کردیں، اگر صحیح اسلامی طریقہ پر فطری عمل کو پورا نہیں کیا گیا تو انسان کی فطرت ہے وہ غلط راستہ اختیار کرسکتا ہی اس لیے ضروری ہےکہ رشتوں کو اپنے اپنے معیار پر نہ پرکھے اور نا ہی اناؤ ذات پات برادری کے بت باندھ کر رکھے بلکہ شریعت کے معیار پر رشتہ کو ترجیح دیں اور نکاح کو آسان بنائیں تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔

یا اللّٰه ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔
ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما۔ ہمیں گمراہی کے راستے سے بچا۔ آمین۔

नाते नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम:- कारी तौसीफ रजा तहसीनी

मलजा नज़र में और वह मावा नज़र में है
यानी कि सब रसूलों का दूल्हा नज़र में है

दुनिया नज़र में और न उक़बा नज़र में है
हर लम्हा हर एक आन मदीना नज़र में है

दुनिया का हुसन मेरी निगाहों में हेच है
हुसने रसूले पाक समाया नज़र में है

फज़ले खुदा से आंखें हैं रौशन इसी लिए
मुख़तारे कायनात का जलवा नज़र में है

इश्क़े रसूले पाक में कूऐ रसूल को
परवाज़ फिक्र करती है तैबा नज़र में है

हम को नसीब ग़ौस का मुर्गा है रोज़ो शब
नजदी वहाबीओं की तो कौआ नज़र में है

महसूस हो रहा है बदन का महकना क्यूँ ?
तौसीफ शहरे तैबा का कांटा नज़र में है

نعتِ پاک:- از قلم :- حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب

زمیں تاعرش دنیا خوب صورت ہونے والی ہے

جہاں میں آمد ماہ نبوت ہونے والی ہے

بفضل رب کہوں گا ایک دن ، امید ہے مجھ کو

رسول اللہ کے در کی زیارت ہونے والی ہے

بشارت دینے آئے ہیں فرشتے آمنہ بی کو

کہ تیرے گھر محمد کی ولادت ہونے والی ہے

خیال مصطفے آنا نمازوں میں سند ہے یہ

کہ مقبول حضورِ رب عبادت ہونے والی ہے

بہت ہی شادماں زیرِ کفن ہے ان کا دیوانہ

کہ اس کو قبرمیں شہ کی زیارت ہونے والی ہے

بہت پہلے ہی آقا نے بتایا تھا کہ کربل میں

مرے پیارے نواسے کی شہادت ہونے والی ہے

میں نعت مصطفے صل علی لکھنے لگا صفدر!

مجھےلگتا ہے اب معراجِ قسمت ہونے والی ہے

از ـ محمد آفتاب عالم صفدرکیموری بہار ثم جونپور یوپی