WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category بہرائچ شریف یو پی

نعت پاکِ مصطفیٰ ﷺ غیر منقوط (صنعتِ مہملہ) رشحاتِ قلم، محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی


☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گھُٹ رہا ہے دم مسلسل گرمیِ آلام سے
دو سکوں اہلِ الم کو سردیِ اکرام سے

ہاں وہاں ہم کو عطا ہوگی مئے رحم و کرم
واسطہ ہم کو کہاں ہے وادیِ اوہام سے

ہم کو حاصل ہے حصارِ “سَلّمِ” مولاے کل
سو ارم کی راہ ہوگی ہم سے طے آرام سے

ہادیِ کل کی عطاؤں کا سراسر ہے کمال
ہے معطر سارا عالم وردۂ اسلام سے

لمحہ لمحہ مدح گوئیِ محمد کی مہک
آئے اے مولاے عالم! آہوے احرام سے

مہرِ گردوں کی دمک کو واسطہ کس طور ہو
مدحِ ممدوحِ امم کے مطلعِ الہام سے

در دلِ مداح ہے اک اہرمِ مہرِ رسول
حال اس کا اور ہی ہے مصر کے اہرام سے

کر گئے مردِ دلاور کارِ صمصامِ دو دم
مالکِ کل کے کرم سے، ڈال کی صمصام سے

اسمِ احمد کو مدارِ طائرِ ارواح کر
گھوم اسی کے گِرد آ کے سرحدِ اعلام سے

کر سحَر گاہِ ورَع اعمال کی ہر کوٹھڑی
ہو کے محکومِ الہی لولوے احکام سے

حصہ داری سے ہوئے سر معرکے امکاں سے دور
کام کوئی ہے ہوا ؟ ہٹ کے حدِ اِسہام سے


نوری اک امرِ مسلم، روحِ گل کی ہار، ہے
سرورِ ہر دو سرا کے کاکلِ کاللام سے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رشحاتِ قلم
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۷ / ذو القعدہ ۱۴۴۳ ہجری
۲۸ / جون ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

اگر ددورانِ حمل بچہ پیٹ میں مرجائے، تو کیا صفائی کرانے کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہوگا؟

السلام علیکم
کسی بہن کا 5 مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ کافی دن پہلے ہی مرچکا تھا
عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی
جب سونوگرافی(sonography) کرایا تو پتہ چلا
ڈاکٹر نے فوراً صفائی کی، اب سوال یہ ہے کہ صفائی کے بعد عورت آ رہا ہے تو وہ کب تک ناپاک رہے گی؟
یعنی اس خون کو حیض کا سمجھے یا نفاس کا؟
9 دن خون جاری رہا بیچ میں تین دن بند ہوا پھر شروع ہو گیا بس قطرہ ہی ہے،
مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں،
(f,z.noori
👆👇

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت۔لہذ ا جب جب پانچ ماہ ہونے کے بعد یہ منظر پیش آیا ہے تو وہ خون نفاس ہے,
۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف, 6 /رمضان المبار بروز جمعہ ۔1443

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔

کسی کو بھی ظل اِلٰہ بولنا کیسا ہے؟ کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ کسی کو بھی ظل الہ بولنا کیسا ہے

سائل محمد ابوالحسن قادری نیپال👆

👇الجواب بعون اللہ الوھاب اس طرح کسی کو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اسکا مفھوم ومعنی ہوتاہے خدا کا سایہ، (مجازاً: بادشاہ، بادشاہوں کا لقب اور اللہ تعالی ان چیزوں سے پاک ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔

کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔28 /مارچ 2022

نمازِ تراویح میں سجدۂ سہو کب واجب ہے؟ کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اگر تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام قعدہ کے لئے بیٹھ گیا پھر مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت پوری کیتو کیاآخر میں امام کو سجدۂ سہو کرنا پڑے گا(2) نیز جو تراویح میں دورانِ قرات امام کو بھولنے کی وجہ سے لقمہ ملتا ہے اس کے لئے بھی سجدۂ سہو ہے یا نہیںرہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

عرض گزارمحمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسؤلہ میں  اگر امام ابھی بیٹھا ہی تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک بیٹھ کر اٹھے تو سجدہ سہو واجب ہوگیاجیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ کوئی شخص بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گیا  اور تین بار سبحان الله  کہنے کے مقدار سے کم بیٹھ کر اٹھا  تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور تین بار سبحان الله کہنے کی مقدار تاخیر کر  کے اٹھا تو سجدہ سہو واجب ہے؛فتاوی عالمگیری جلد 1صفحہ  65ایسا ہی مسائل سجدہ سہو صفحہ 86 پر ہے ۔۔واللہ تعالی اعلم۔(2) سجدہ سہو واجب نہیں ہاں اگر بھولا اور اور تین مرتبہ سبحان الله کہنے کی مقدار چپ رہا تو سجدہ سہو واجب ہے، جیسا کہ سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :امام جب نماز میں یا قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتانا لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے خواہ نمازِ فرض ہو یا واجب یا تراویح یا نفل اور اس میں سجدہ سہو کی بھی کچھ حاجت نہیں ہاں اگر بھولا اور تین بار سبحان الله کہنے کی دیر چپ کھڑا رہا تو سجدہ سہو آئے گا، {فتاویٰ رضویہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۹ / رضا فاؤنڈیشن لاہور } واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری ۔مدرس المر کزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہرائچ شریف۔ 2/ رمضان المبارک 1443

روزہ نہ رکھنے والے کیا مسجد میں روزہ داروں کی افطاری کھا سکتے ہیں؟ کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔

کیا بے روزے دار کو روزے دار کی افطاری مسجد میں کھانا حرام ھے کوئی کہتا ہے کہ جو افطاری مسجد میں آتی ہے یہ مال وقف ہے اور مال وقف اسی میں استعمال ہو جسکے لیے وقف کیا گیا ہو لہذا آپ سب کے بارگاہ میں عرض ہے کہ اس مسئلے کو ضرور دیکھیں اور جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔۔۔۔ سائل۔۔۔محمد رضا دھلی۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسئولہ میں اگر افطار کرانے والے جانتے ہیں کہ سب آتے ہیں اور اس کی طرف سے اجازت بھی ہے تو سب افطاری کر سکتے ہیں اگر افطار کرانے والے کی طرف سے اجازت نہ ہو تو غیر روزہ دار کا کھانا جائز نہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ داربن کر شریک ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیک مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اورلینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کاکھانا حرام ہے۔وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا:انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا۔ ترجمہ:اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے۔ (پارہ 4 سورہ نساء آیت 10)۔ ہاں متولی دانستہ غیر روزہ دارکو شریک کریں تو وہ بھی عاصی ومجرم وخائن ومستحق عزل ہیں۔ رہا اکثر یاکل مرفہ الحال ہونا اس میں کوئی حرج نہیں۔ افطاری مطلق روزہ دار کے لئے ہے اگرچہ غنی ہو جیسے سقایہ مسجد کاپانی ہر نمازی کے غسل ووضو کو ہے اگرچہ بادشاہ ہو۔ انتظامات متولیوں کے ہاتھ سے ہوں گے جبکہ وہ صالح ہوں ۔ متولی معزول معزول ہے۔( جلد 16 صفحہ 487)واللہ تعالی اعلم۔

کتبہ احمدرضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔