۔
شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے
”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“
پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں
الکوثر،١٠٨۔٢
ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔
یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟
”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“
یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا
”سنة ابیکم ابراھیم“
تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔
”بکل شعرة حسنة٠٠“
ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔
بکل شعرة من الصوف حسنة ۔
اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“
ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)
بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
”قربانی کس پر واجب ہے“
قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔
”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”
اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)
حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔
قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔
”قربانی کا وقت“
قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “
جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)
اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
”فاعد ذبحک باخر“
دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔
”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“
”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔
جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥
اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔
”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“
سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩
نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“
بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.
جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:
اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)
قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے
قرآن مجید میں ہے:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
(الحج، 22: 37)
یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔
مسائل و احکام قربانی
جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔
(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)
شب عید کی فضیلت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘
(الترغيب والترهيب)
نویں ذی الحج کا روزہ
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:
’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘
(صحيح مسلم)
یوم عید کی سنتیں
صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔