انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلم حقیقت ہے ،اس کی تکمیل کے لئے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے، خود پیغمبراسلام حضور نبی اکرم ﷺ نے علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے، یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معلم انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے “(مشکوٰۃ ص /۳۴ )
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنا اور کونسا علم سیکھنا فرض ہے ؟ تو اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کرسکے، اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کر سکے ،اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کر سکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہوتاکہ ان سے بچا جا سکے۔ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے حلال و حرام میں فرق ہو سکے ۔اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد عورت کے لئے لازم ہے، جو درسگاہوں میں پڑھ کر مسجدوں و دینی جلسوں میں سن کر علماکی صحبت اختیار کر کے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہو سکتا ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ اتنا علم اور اتنی دینی تعلیم ہر مسلمان مرد وعورت کے لئےبےحد ضروری ہے جن سے دین پر صحیح طور پر عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو پورا کر کے نگاہ شریعت میں معتبر بن سکیں ،پھر خدا اور رسول ﷺ کے محبوب بندے اور غلام بن کر اپنی عاقبت سدھار کر زندگی گزار سکیں ۔
جس طرح ہر مسلمان شخص پر فرض ہے کہ وہ خود ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف ہو اسی طرح ہر مسلمان ماں باپ پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیمات سے واقف کرائیں اور اس بابت بالکل غفلت نہ کریں کیونکہ والدین کے اوپر بچوں کے اہم حقوق میں سے ایک ان کو دینی و اسلامی تعلیم دلانا بھی ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کی طرح کی غفلت وکوتاہی اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے اور دینی و اسلامی تعلیم سے محروم بچہ خود اپنے والدین کی اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے دن شکایت کرےگا اور ایسا بچہ والدین کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہوگا ۔
لیکن دور حاضر میں افسوس کی بات یہ کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلکہ ان کی اکثریت خود اسلامی تعلیمات اور اس کی اہمیت سے نا واقف ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں بہت سارے ماں باپ اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلانے کے لئے بہت زیادہ دوڑ بھاگ کر تے ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی اسکول، کالج اور یونورسٹی اور ساتھ ہی ساتھ ٹیوشن کا بھی الگ سے انتظام و اہتمام کر تے ہیں جب کہ دوسری طرف انہیں ماں باپ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم و تربیت کے تئیں بالکل ہی غفلت و بے توجہی کے شکار رہتے ہیں ، ان کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کےاوپر اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلانا بھی ضروری ہے ،بلکہ اولین فریضہ ہے، اور اگر ہمارے کچھ بھائیوں کو دینی تعلیم و تربیت کا کچھ احساس بھی ہے تو معمولی ،یہی وجہ ہے کہ وہ دینی تعلیم کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جتنی عصری تعلیم کو دیتے ہیں لہٰذا وہ دینی تعلیم پر اتنا خرچ بھی نہیں کرتے جتنا خرچ عصری تعلیم پر کرتے ہیں اور نہ ہی دینی تعلیم کےلئے الگ سے کوئی استاذ وغیرہ رکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں، جب کہ ایک مسلمان کا معاملہ اس کے بر عکس ہونا چاہیے کہ ہمیں دینی تعلیم کے بارے میں عصری تعلیم سے کچھ زیادہ ہی اہتمام اور توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں یہ ہماری سعادت کا باعث ہے، میرے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم نہ دلائیں یا اس سے انہیں محروم کر دیں، نہیں !بلکہ آج کے دور میں تو اس کی بھی سخت ضرورت ہے اورہر اس عصری علم کا طلب کرنا مسلمانوں پر واجب ہے جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے اور اسلامی سماج کے لئے مفید ہے جیسے انجینیرنگ ،فزکس، کیمسٹری، بائیلو جی ،طب ، فارمیسی، نرسنگ ،ریاضیات، کمپیوٹر وغیرہ بلکہ میرے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم عصری تعلیم کی موجودہ ضرورت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر ظلم نہ کریں بلکہ اس کو عصری تعلیم سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور خود اپنے اور اپنی اولاد کے اوپر دینی تعلیم سے غفلت برتنے کا ظلم نہ ڈھائیں-
دینی تعلیم سے بے توجہی: افسوسناک صورت حال:۔ آج دینی تعلیم سے بے توجہی و بے رغبتی بڑھتی ہی جارہی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں و عورتوں کے لئے فرض قرار دیاہو اور جس مذہب میں علم و حکمت سے پر قرآن جیسی کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی اقرا یعنی تعلیم سے ہوئی ہو اسی مذہب کے ماننے والے دینی و مذہبی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہوں تعجب کی بات ہے ، قانونِ وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول ﷺ کی امت میں اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔
کہتے ہیں کہ ”ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتا ہے “اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے …اگر گھر کے بڑے بزرگ ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے ؟ مسلمانوں کے گھروں میں دینی تعلیم کی کمی افسوسناک حد تک ہے، آج مسلمانوں اور ان کے بچوں کو قرآن و حدیث کے پڑھنے اور اس کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں ،لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے جو زندگی گزار نے کے لئے ضروری ہے ،ہر طرف دیناوی علوم کے حصول کاشورہے …ہر فرد اسی تاک میں ہے کہ کیسے اعلی دنیاوی تعلیم حاصل کر کے نوکری (جوب ) کرلے اورزیادہ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرے… اسلام اسکی راہ میں حائل نہیں ہے، بےشک یہ بھی اچھی پیش رفت ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم توبنیاد ہے اور عصری تعلیم دیواریں ،بنیاد کے بغیر دیوار کا تصور احمقانہ تصور کہلائے گا ۔
دینی تعلیم سے غفلت کا انجام : موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بے زاری بڑھتی جارہی ہے، جب کہ اللہ وحدہ لا شریک نے ان افرادکی مذمت بیان کی ہے جو آخرت کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں جیسا کہ اللہ عز وجل کا فرمان عالی شان ہے”یعلمون ظاہرا من الحیاۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غافلون“ترجمہ: وہ تو دنیاوی زندگی کے کچھ ظاہر کا علم رکھتے ہیں جب کہ آخرت (کے علم ٌ) سے بالکل بے خبر ہیں (سورۂروم :۷) لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار کی طرح صرف دنیاوی علم کو اہمیت نہ دیں بلکہ سب سے پہلے لازمی دینی علم کو اہمیت دیں یا کم از کم دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھیں ۔
دینی علم سے غفلت برتنے والا اور محض دنیوی علم کو اہمیت دینے والا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اللہ عزوجل کی محبت سے محروم اور اللہ عزوجل کی ناپسندگی کا شکار بھی جیسا کہ رسول ْﷺ نے ارشاد فرمایا : ”ان اللہ یبغض کل عالم بالدنیا جاہل بامر الآخرۃ“ترجمہ: یقینا اللہ عزوجل ہر اس آدمی کو نا پسند کرتا ہے جو دنیا کا علم تو اپنے پاس رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے (دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور حصول علم کے آداب ص/۲۱)
علم دین کی ضرورت کیوں؟ یہ ایک اہم سوال ہے ،صاحبان علم و دانش نے شرح و بسط کے ساتھ اس کے بہت سارے جوابات تحریر کئے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ علم دین کی ضرورت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آ رہا ہے ”وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون“(طور ۵۲/۵۶ ) ترجمہ : اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں …اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق عبادت کے لیے کی گئی ہے اور علم کے بغیر عبادت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے علم کا حاصل کرنا فرض ہوا ۔ نیز قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے”ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا “ترجمہ : جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کے پاس دینی تعلیم نہیں ہوگی تو وہ نہ تو آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا سکتا ہے اور نہ ہی منع کی ہوئی باتوں سے خود کو روک سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہوا کہ علم حاصل کرے تاکہ حضور ﷺ کی اتباع و فرماں برداری کر سکے ( علم دین کی اہمیت ص/ ۵ )
دینی تعلیم سے بیزاری کیوں؟ آج ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مظبوطی سے قائم ہیں اور ہم مسلمان بحیثیت مسلمان کہا ں جارہاہے ہیں ؟ ہماری منزل کہاں ہے؟ ہمارا انتخاب کیا ہے؟ ہمارا نصب العین کیا ہے؟ اور کیاہونا چاھئے کچھ پتہ نہیں ،دینی تعلیم سے بےزاری کا گلہ کس سے کیا جائے ؟کیاہماری بربادی، تنزلی اور مغلوبیت کا باعث دینی علوم کا ترک نہیں ہے ؟ہم نے یہ سوچنا کیوں چھوڑ دیا کہ دینی تعلیم ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی سے تنگ و تاریک دل کشادہ اور روشن ہو جاتے ہیں ۔ہم یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ دینی تعلیم کی بساط پر ہی ہماری دنیا وآخرت سنور سکتی ہے۔ ہم کیوں نہیں یقین کرتے کہ دینی تعلیم کے بل پر ہی ہماری نیا منجھدار سے نکل کر ساحل سکون پر لگ سکتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اللہ عزوجل کے فضل سے روزی روٹی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہو جائے گا ۔ ہم دینی تعلیم کے بغیر شریعت کے تقاضے ،مطالبات اور پیغامات کو کیسے سمجھیں گے ؟کیا ہمیں قرآن کو قرٓآن کی طرح پڑھنے کی فکر نہیں کرنی چاہئے ؟کیا ہم دینی تعلیم کے بغیر نماز و روزے او ردیگر عبادات کی روح کو سمجھ سکتے ہیں ؟کیا ہم دینی علوم کے بغیر حلال و حرام کے درمیان صحیح فرق کرسکتے ہیں؟ نہیں !ہر گز نہیں۔ اس کے باوجود قوم مسلم دینی تعلیم سے بیزار کیوں ہے ؟جب کہ قوم مسلم کی دینی تعلیم سے بے توجہی و بےزاری کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک پوری نسل ہی دین سے ہی بے زار نظر آتی ہے، ان کو اپنے دین کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہے، وہ صرف نام کے مسلمان ہیں، خوف ِخدا ان کے اندر سے مفقود ہے ، فرائض پر عمل کرنا ان کے لئے بارگراں ہے چہ جائے کہ وہ سنتوں اور نوافل پر عمل پیرا ہوں ،اور دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو سمجھیں اور علم دین خود سیکھیں اور اپنے بچوں اور متعلقین کو بھی ضروری و بنیادی دینی تعلیم دلانے کے لئے اُتنی ہی محنت کریں بلکہ اس سے زیادہ محنت کریں جتنی محنت ہم عصری تعلیم دلانے کے لئے کرتے ہیں، اور دینی تعلیم کی نشرو اشاعت اور اسے گھر گھر پہچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس جذبۂ محبت کے ساتھ کہ ؎
یہی ہے آرزوکہ تعلیم قرآں عام ہو جائے
ہر ایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے
چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سےجہل کی تاریکیاں مٹائیں گے