WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives March 2022

استقبال رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داریاں__از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

یقیناً ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ایک بار پھر ماہ رمضان المبارک کی سعادت نصیب ہونے والی ہے، ہمارے بہت سے دوست احباب، اعزاء واقرباء ایسے ہیں جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں اور بعض ایسے بھی ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا،اللّٰہ تعالیٰ اگلارمضان بھی ہمیں دیکھنا اور اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہونا نصیب کرے- دنیا کا یہ اصول ہے کہ اگر مہمان اپنے آنے سے قبل آمد کی اطلاع دے دے تو سنجیدہ معاشرہ اس کا دل وجان سے استقبال کرتا ہے،رمضان المبارک بھی اللّٰہ کامہمان ہے اور اپنے آمد کی خبر ماہ رجب سے ہی دیناشروع کردیتا ہے،ماہ رمضان اخروی مہمان ہے، دنیوی مہمان کی آمدپراگربروقت تیاری نہ کی جائے تو جس قدر سبکی وشرمندگی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ رب کے مہمان کی آمد پر اگر کماحقہ تیاری نہ کی جائے تو کس قدر افسوس اور خسارے کی بات ہے،اس لیے ہمیں چاہییے کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے استقبال اور طلب کے لیے دل سے آمادہ ہوکر ذوق و شوق کے ساتھ رمضان کے احکام ومسائل کا علم حاصل کرنے کا اہتمام کریں-جس طرح ہم اپنے کسی محبوب ومحترم مہمان کی آمدپر اہتمام اور تگ ودو کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ رمضان کی آمدپر ہمارے لیے ظاہری وباطنی تیاری ضروری ہے تاکہ ہمارا روحانی رشتہ اپنے خالق ومالک [رب] سے جڑ جائے،کیونکہ یہ اشتیاق براہ راست رب کائنات کی رضامندیوں، رحمتوں اور مغفرتوں کے حصول کا ہی اشتیاق ہے-اور ویسے بھی مہمان کی آمدہر تیاری کی جاتی ہے اور مہمان جتنابڑااور اہم ہوتا ہے تیاری بھی اسی لحاظ سے کی جاتی ہے مثلا گھر صاف کیاجاتاہے، فرش کی صفائی کی جاتی ہے، دروازوں اور دریچوں کے پردے تبدیل کیے جاتے ہیں،گلدستوں سے گھر کو آراستہ کرکے گھر کی رونق بڑھا دی جاتی ہے،رمضان بھی ایک مہمان ہے اس کی بھی تیاری ہونی چاہییے، گھر کی صفائی کی طرح دل کی صفائی ہو،فرش کی صفائی کی طرح عقائد واعمال کی درستگی اور اصلاح ہو،گھر کو آراستہ کرنے کی طرح اخلاق وکردار کو سنوارناچاہییے، رمضان ہمارا انتہائی معزز مہمان ہے ہمیں اپنے اس معزز مہمان کی خوب خوب قدر کرنی چاہییے اور اپنے اعضاء وجوارح کو اللہ کی معصیت و نافرمانی سے محفوظ رکھ کر اس ماہ کاتقدس باقی رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہییے-ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی تیاری اور استقبال خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا ہے بایں طور کہ دیگر مہینوں کے مقابل اس ماہ میں زیادہ عبادت وریاضت کے لیے مستعدی کا اظہار فرمایا ہے۔اور اپنےاہل خانہ کو بھی اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار فرمایاکرتے تھے-جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں (ترجمہ) جب رمضان المبارک شروع ہوتاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے اور جب تک رمضان گزر نہ جاتا آپ بستر پر تشریف نہ لاتے (شعب الایمان)۔اس کے علاوہ اور بھی احادیث مبارکہ اس امر پردال ہے کہ مالک کونین آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان بلکہ رجب سے ہی رمضان کےاستقبال کےساتھ اس کے برکات و حسنات حاصل کرنے کےلیے تیار ہوجاتےاور شدت سےاس کی آمد کا انتظار فرماتے۔اوربارگاہ الہی میں دعائیں کرتے ”اَللّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَان“ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما۔( مجمع الزوائد وغیرہ)حاصل کلام یہ ہے کہ استقبالِ رمضان حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان وعمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو، کیونکہ جب دل ودماغ کی زمیں زر خیز ہوگی، قبولِ حق کے لیے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا‘ اعمالِ خیر کی طرف رغبت ہوگی اور شجرِ ایمان ثمر آور اور بار آور ہوگا ـویسے عام زندگی میں سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی تیاری کی جاتی ہے-چنانچہ رمضان المبارک بھی تقویٰ،تزکیۂ نفس اور اللہ کو راضی کرنے کے اہم ترین سفر پر مشتمل ایک بابرکت مہینہ ہے-لہٰذا رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اس کی تیاری کریں-اپنے روزمرّہ مشاغل ابھی سے کم کرکے زیادہ وقت عبادت وریاضت، تلاوت قرآن،ذکر واذکار اور دعاؤں کے لیے فارغ کریں نیز عیدالفطر کی تیاری اور شاپنگ ابھی سے کرلیں تاکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی قیمتی راتیں بازاروں کی نذر نہ ہوجائیں-رمضان المبارک یہ بڑا عجیب مہمان ہے۔ اس کی آمد کا طریقہ تو عجیب تر ہے۔ دبے پاﺅں تحفوں، نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لدا پھندا چپ چاپ ہماری زندگی میں چند ساعتوں کے لیے آتا ہے۔ جس نے اس کو پہچان لیا اور آگے بڑھ کر اس کا پرجوش خیرمقدم کیا، اس پر تو وہ اتنی بے حساب نعمتیں برساتا اور تحفے نچھاور کرتا ہے کہ جل تھل کردیتا ہے اور جس نے تن آسانی، سستی اور غفلت سے اس کا نیم دلانہ استقبال کیا، تو یہ پیکرِ جود سخا، دو چار چھینٹیں اس پر بھی چھڑک ہی جاتا ہے۔ اسی لیے اس میخانے کا محروم بھی محروم نہیں کہلاتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے مہینے میں میری امت کو پانچ ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ اول: رمضان کی پہلی رات میں اللہ ان پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر اللہ نظر کرم کرتا ہے، اسے کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔ دوم: فرشتے ہر رات اور اور ہر دن اس کے لیے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔ سوم: اللہ اس کے لیے جنت واجب کردیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے کہ روزہ دار بندے کی خاطر خوب آراستہ وپیراستہ ہوجاﺅ تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔ چہارم: روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ پنجم: رمضان کی آخری رات روزہ دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔رمضان کی یہ ساری نعمتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو حقیقی معنوں میں روزے دار ہوں۔ حقیقی روزے دار کون ہوتا ہے؟ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے کھانے پینے چھوڑنے سے غرض نہیں۔ رمضان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑدے اور باقی خرافات میں لگا رہے۔ روزہ اصل میں زبان کا بھی ہو، ہاتھ کابھی ہو اور پاﺅں کا بھی ہو۔ آپ نے فرمایا روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ گالی گلوچ اور فضول گوئی چھوڑنے کا نام ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ جھگڑنے لگے تو تم کہو میں روزے سے ہوں۔“ جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار کو چاہیے بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔ روزہ معاشرے کے غربا اور فقرا سے تعلق پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرکے معاشرے میں امیر وغریب کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب امیر کے درمیان جو دوری پیدا ہوئی ہے، وہ معاشرے کے امن وامان اور بھائی چارے کے لیے زہر قاتل ہے۔ روزے کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجتماعی افطار وسحر اور مل جل کر کھانے پینے کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان میں نمازوں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ نماز محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح زکوٰة کی ادائیگی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ سحری، افطاری اور تراویح مسلمانوں پر اللہ کی ایسی خاص عنایات ہیں جو مسلمان معاشرے کو ایک الگ ممتاز حیثیت دلاتی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا استحصال ہو۔*رمضان المبارک کے استقبال کے لیے کچھ اہم ہدایات:* (۱)رمضان المبارک میں راتوں کی عبادت (تراویح تہجد وغیرہ) کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اس لیےان عبادات کو اچھے انداز میں بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں مشکل پیش نہ آئے۔ (۲)رمضان المبارک میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے آج کل انٹرنیٹ و سوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں لہذا رمضان المبارک سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں۔ (۳)رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے لہذا ابھی سے اپنے آپ کو دعائیں مانگنے کا عادی بنائیں نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کو زبانی یاد کیا جائے کیونکہ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے اور قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ (۴)رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے، خوش نصیب لوگ اس ماہ میں تلاوت کی کثرت کا معمول بناتے ہیں لہٰذا ابھی سے تلاوت قرآن کو زیادہ وقت دینا شروع کردیں قرآن پاک صحیح مخارج کے ساتھ آرام آرام سے غنہ مد وغیرہ کو اچھی طرح ادا کرکے پڑھیں تاکہ رمضان المبارک کی آمد تک آپ کثرت سے اور اچھی طرح تلاوت کرنے کے عادی بن جائیں اگر آپ حافظ قرآن ہیں تو ابھی سے قرآن پاک دہرانا شروع کردیں۔(۵)چونکہ رمضان المبارک کا ایک اہم مقصد “گناہوں کی بخشش” ہے،اسی لیے اسے “شھرالمغفرة” کہا جاتاہے اور ایک مشہور حدیث میں اس انسان کے لیے بددعا کی گئی ہےجورمضان المبارک پائے اور اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراپائے-چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس سے وہی انسان لطف اٹھا سکتا ہے جو گناہوں سے تائب ہو اور اس نے اپنے آپ کو موسم بہار سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنایا ہو اس لیے رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اپنے گناہوں کی مغفرت کرانی چاہییے اور اس کے لیے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوکر بصدق دل توبہ واستغفار کرنی چاہییے-(۶)رمضان المبارک سے پہلے ایک اور اہم بلکہ سب سے اہم کام رمضان المبارک کے احکام ومسائل سیکھنا ہے-یعنی رمضان المبارک کی تمام عبادات کے فضائل واحکام،روزہ رکھنے کے لیے کون سی چیزیں ضروری ہیں؟روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے مکروہ ہوجاتاہے؟تراویح کا کیا حکم ہے اور تراویح کی ادائیگی کاصحیح طریقہ کیا ہے،تراویح میں ختم قرآن کی کیا اہمیت وفضیلت ہے اور تراویح میں کل کتنی رکعتیں ہیں؟اعتکاف کا طریقہ کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟اعتکاف کے دوران مسجد سے نکلنا کن حالات میں جائز ہے؟اعتکاف کب اور کیسے فاسد ہوجاتاہے؟ان کے علاوہ اور بھی رمضان المبارک کے بہت سے ایسے احکام ومسائل ہیں جن کا علم نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ بہت سارے حضرات وہ چیزیں کر گذرتے ہیں جن سے روزہ،تراویح یا اعتکاف فاسد ہوجاتاہے اور پھر مسئلہ معلوم کرتے ہیں حالانکہ اب اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں،عقلمندی تو یہ ہے کہ ان عبادات کے آنے سے پہلے ان کے احکام ومسائل سیکھیں-بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ: ہم سبھی مسلمانوں کو بار بار ماہ رمضان المبارک نصیب کرے، اور اس کے فیضان سے مستفیض فرمائے-

ایک دلچسپ مکالمہ۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔

بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:

“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “

بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:

“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔

بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس‌ کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام‌ بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)

دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)

معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔

میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :

“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”

میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:

مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے

نظم کا‌ معاملہ نثر سے جدا ہے ۔

تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔

نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔

تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو

اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔

تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے ‌کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔

تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔

تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔ ‌

تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔

مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم

لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔

ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :

محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ

تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔

پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔

حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح‌ غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔

تواضع و انکساری احادیث کی روشنی میں!از:سید نور اللہ شاہ بخاری-

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اورتعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیونکہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔ تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :حضور اکرم ﷺدین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺکی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺنے فرمایا :تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چنانچہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا ۔ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺمسجدِنبوی میں تشریف لے گئے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو ، یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺحد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ! تواضع بلندی کا ذریعہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مالدار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)تواضع کی بنیاد:حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو ،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کےبغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔تواضع کی توفیق:حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لئے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)تواضع و انکساری کا اجر:اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم ) اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ ) حضور نبی کریم کی شان ِتواضع :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺاپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺجب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے، اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂاقدس کی صفائی بھی فرماتے ،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶) حضور یہ سارے کام خود اس لئے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک–از:- محمد کہف الوری مصباحی

گلوں میں آج آ گئی ہے رنگت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رتوں میں بھی آ گئی ہے زینت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

لبوں پہ ان کا ہی تذکرہ ہے ہر ایک خوش دل یہ کہ رہا ہے

دلوں میں آج آ گئی ہے راحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

زمیں یہ شاداب ہو گئی ہے سما کی رونق بھی بڑھ گئی ہے

فضاؤں میں آ گئی ہے فرحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

انہیں سے گلزار نور مہکے انہیں سے مہتاب و خور چمکے

ستاروں میں آ گئی ہے طلعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رضائے مولی کے در کھلے ہیں عطا و بخشش کے سلسلے ہیں

جہاں کو ملتی ہے جن سے نعمت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

مسرتوں میں ہیں لاکھوں لذت ہر ایک لذت میں ان کی جلوت

ہے جلوتوں میں بھی جن کی لمعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

یگانہ گلشن یگانہ گل ہیں حسیں چمن میں حسین کل ہیں

ہر ایک نے جن سے پائی نکہت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

اسیر ان کا ہر اک یہاں پر خلوص کی ڈالیاں سجا کر

چلا ہے جن کی وہ کرنے مدحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

نہ ثانی ان کا نہ کوئی ہم سر بیان کیا کیا کرے یہ ازہر

ہے جن کے قدموں میں شان و شوکت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل نیپال

نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال

کسبِ حلال کے لیے جدّ و جہد کرنا اور حرام سے بچنا : احادیث کی روشنی میں–از:سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

مذہب اسلام نے جس طرح ظاہری آرائشِ جسم میں طہارت کی ترغیب دی ہے، بالکل اسی طرح بدن کی نشو و نما اور پرورش میں بھی طہارت کی ترغیب دلائی ہے۔ شریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ جب اللہ کا بندہ ،اللہ کے حضور حاضر ہو اور اپنی بندگی کا فریضہ انجام دے رہا ہو، تو اس وقت جس طرح اس کا ظاہرِ بدن ، اسکے کپڑےاور مقامِ بندگی پاک ہونا ضروری ہے اسی طرح بندے کا وہ بدن جس پر پاک کپڑے پہنے جاتے ہیں اور جو جسم اللہ کی بارگاہ میں جُھک کر عبد ہونے کا اعلان کرنے جا رہاہے۔ اس کا رزق حلال سے پلاہوا ہونابھی ضروری ہے ۔ اس عنوان کے تحت اگر دیکھا جائے تو کتب احادیث بھری پڑی ہیں (جن کے اندر رزق حلال کمانے کی ترغیب دلائی گئی ہےاور رزق حرام سے بچنے کی ترھیب بھی ہے) اُن میں سے چند احادیث مبارکہ ہدیۂ قارئین ہے ملاحظہ فرمائیں!٭سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ اللہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًاوَّاِنَّ اللہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ“۔ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کو قبول نہیں فرماتاہے اور بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو وہی حکم دیاہے جو حکم رسولوں کو دیاتھا۔ کہ ارشاد فرمایا:﴿یٰاَیُّھَاالرَّسُلُ کُلُوا مِنَ الطِّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ط اِنِّیْ بِمَاتَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ ﴾(المومنون:۵۱)”اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤاور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتاہوں“(کنزالایمان)۔ اور فرمایا: ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾(بقرہ: ۱۷۲) ترجمہ: ”اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی سُتھری چیزیںاور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔“ (کنز الایمان)پھر ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفرکرکے آیا ہو، اس کے بال غبار آلودہوں”یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ، یَارَبِّ “ (پھر اسی پریشانی کی حالت میں)اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر عرض کرےاے میرے رب! (لیکن) اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے (حرام کھاتا پیتاہے)اور اس کا لباس حرام ( کے پیسوں کا) ہے، ”وَغُذِیَ بِا الْحَرَامِ“اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا بڑھا ہے۔ ”فَاَنِّی یُسْتَجَابُ لِذَالِکَ؟“ تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔(مسلم، باب قبول الصَّدقۃ من الکسب الطیب، حدیث:۲۲۳۵/۱۰۱۵،ص:۴۶۱،مطبوعہ دار الفکر بیروت) مذکورہ بالا حدیث شریف میں رزق حلال کی ترغیب، حرام کی روزی سے بچنے کی ترھیب کے طور پر جس پریشان حال مسافر شخص کا مثالی ذکر کیا گیا ہے اس کے پاس بظاہر قبولیتِ دعا کے کافی اسباب مہیا ہیں ، جیسے : طویل سفر کا مسافر ہونا، پریشان حال ہونااور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا ئے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ پروردگار کو پکارنا۔ پھر بھی اس کی اجابت دعا پر سوالیہ نشان لگ رہاہے ، وجہ صرف ایک ہے ، اس بندے نے حلال رزق کی تلاش نہیں کی اور خود کو حرام سے بچایا نہیں۔٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: ﴿یٰاَیُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا﴾ (البقرۃ:۱۶۸) اےلوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے۔(کنزالایمان) تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مستجاب الدعا (جس کی دعائیں قبول کی جائیں) بنادے۔ تو اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” یَا سَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابُ الدَّعْوَۃِ“ اے سعد اپنا کھانا حلال بناؤ مقبول الدعا ہوجاؤگے۔ ” وَ الَّذی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ “اس ذات با برکات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد(ﷺ) کی جان ہے”اِنَّ الْعَبْدَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَۃَ الْحَرامَ فِی جَوْفِہٖ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ عَمَلٌ اَرَبَعِیْنَ یَوْمًا“ بندہ جب ایک حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے، تو چالیس دن تک اس کا کوئی (نیک) عمل قبول نہیں کیا جاتا ہے”وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہٗ مِنْ سُحْتٍ فَا النَّارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ اور جس بندے کا گوشت حرام روزی سے بنا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔(المعجم الاسط ۶/حدیث:۶۴۹۵مطبوعہ دارالحرمین، قاھرہ ) معلم کائنات ﷺ کے تعلیمی انداز اور متعلمین کے ذوق علم پر بار بار بعجز و نیاز قربان ہونے کو جی چاہتاہے۔ جب مجلس پاک میں ایسی آیت کریمہ پڑھی گئی جس میں جملہ انسانیت کو اللہ کا کلام رزق حلال کھانے کی تاکید فرما رہاہے عین اسی وقت حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا کھڑے ہوکر مستجاب الدعوات ہونے کے لیے اللہ کے حبیب ﷺ سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کروانے کی عرضی پیش کرنا۔ظاہر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ خود اپنے لیے عرض کررہے ہیں مگر حقیقت میں معلم کائنات سے مذکور ہ آیت کریمہ کی تفسیربھی کروادی اور ساتھ میں رزق حلال کی اہمیت اور حرام کے نقصانات اور اس سے بچنے کے فوائد پوچھ کر ہمارے لیے بے شمار اسباق مہیا کروادیے۔حدیث شریف کے اس جز کو جس میں آقا کریم ﷺ قسم اُٹھا کر ارشاد فرماتے ہیں ” بندہ جب حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جاتاہے“پڑھ کر گزر جانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیں بھی یہ عہد واثق کرلینی چاہیے کہ ’ان شاء اللہ‘اب حرام کےکبھی قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اور پھر حدیث شریف کا اگلا جز تو ہمیں نہایت ہی جھنجھوڑ کر تنبیہ کر رہاہے کہ اگر اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے تو حرام کی روزی سے دور رہنا ہوگا۔٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“ حلال روزی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۵، حدیث:۲، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّایُبَالِی الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ اَمِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِّنَ الْحَرَامِ“ترجمہ:لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ جو(مال) اس نے حاصل کیا ہے(کمایاہے) وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے(مشکوٰۃ، ج:۱،کتاب البیوع،باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الاول، ص:۲۴۶، حدیث:۲۶۳۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاھور )غیب داں نبی ﷺ کا مذکورہ بالا فرمان جو کہ پیشین گوئی کی شکل میں بالکل صحیح ثابت ہو چکا ہے ۔ موجودہ زمانے کے لوگ اور تو چھوڑو، یہ بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ جس مال سے ہم حج جیسا اہم فریضۂ اسلام ادا کرنے کےلیے جارہے ہیں آیا وہ مال ہم نے حلال ذریعوں سے کمایا ہے یا حرام ذریعوں سے؟۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں لکھتے ہیں’حدیث شریف میں ارشاد ہوا: ”جومالِ حرام لے کر حج کو جاتاہے جب وہ لبیک کہتاہے فرشتہ جواب دیتاہے لَالَبَیْکَ وَلَا سَعْدَیکَ وَ حَجُّکَ مَرْدُوْدٌ عَلَیْکَ حَتّٰی تَرُدَّ مَا فِیْ یَدَیْکَ نہ تیری حاضری قبول، نہ تیری خدمت قبول، اور تیرا حج تیرے مُنہ پر مردود، جب تک تو یہ حرام مال جو تیرے ہاتھ میں ہے واپس نہ دے“(فتاویٰ رضویہ ج:دہمص:۷۱۶ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن نظامیہ ،لاہور)۔٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ وَ کُلُّ لَحَّمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتْ نَارُ اَوْلیٰ بِہٖ“ترجمہ: وہ گوشت جس نے حرام (روزی) سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ہر وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ہے، جہنم کی آگ ہی اس کے زیادہ قریب ہے۔ (مشکوٰۃ، ج: ۱،کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثانی،ص:۲۴۷حدیث:۲۶۴۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ،لاھور)٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ا للہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ“ ترجمہ: حلال رزق کا ذریعہ تلاش کرنا فرض کے بعد فرض ہے۔ مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ، الفصل الثالث،ص۲۴۸، حدیث:۲۶۵۸، مطبوعہ مکتبہ (رحمانیہ ،لاھور نماز،روزہ، حج اور زکاۃ کے بعد رزق حلال تلاش کرنا ایک اہم دینی فریضہ ہے بلکہ بنیادی فریضہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، چونکہ جب بندے کے پیٹ میں رزق حلال ہوگا تبھی جمیع عبادات قبول ہوں گی۔٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ” لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِا لْحَرَامِ“۔ ترجمہ: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام روزی سے پلا ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۱، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۸، حدیث:۲۶۶۴، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور )٭زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دودھ پیا اور اُسے پسند فرمایا۔ پلانے والے سےدریافت فرمایا کہ یہ دودھ تو نے کہاں سے حاصل کیا؟ اُس نے آپ کو بتایا کہ میں ایک تالاب پر گیا، جس کا نام اس نے لیا تو وہاں زکوٰۃ کے اُونٹ تھے جنہیں لوگ پانی پلارہے تھے۔ اُنھوں نے میرے لیے دودھ دوہا تو میں نے اپنے مشکیزے میں ڈال لیا، یہ وہی تھا۔ ’فَاَدْخَلَ عُمَر یَدَہٗ فَاسْتَقَاءَہ‘ پس حضرت عمر نے اپنا ہاتھ مُنہ میں ڈالا اور اس دودھ کی قئےکردی (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص: ۹۱،حدیث:۲۷۸۶، مطبوعہ البشریٰ کراچی)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتےہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے”تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمٌ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّہٗ رَجُلٌ خَرَجَ ضَارِبًا فِیْ الْاَرْضِ یَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللہِ یَعُوْدُ بِہٖ اِلٰی عَیَالِہٖ“۔ اس دن وہ شخص عرش کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہوگا، جوشخص اللہ کا فضل(رزق حلال) تلاش کرنے کے لیے زمین میں نکلتاہےپھر اسے حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آتاہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال،ص:۲۲۷ مطبوعہ: دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”لَا یَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ،فَیَتَصَدَّقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ، وَلَا یُنْفِقُ مِنْہُ فَیُبَارَکُ لَہٗ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکُہٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادُہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُو السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَلٰکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ“ ترجمہ: اگر کوئی بندہ حرام مال کمائےپھر اس سے صدقہ کرے تو قبول نہیں کیا جائے گا، اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوگی، اور اگر وہ اس (مال ) کو ترکہ کی صورت میں (وارثوں کے لیے)چھوڑ جاتاہے تو بھی وہ اس کے لیے جہنم کا سبب بنے گا۔ (مشکوٰۃ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، الفصل الثالث،ص:۲۴۷، حدیث:۲۶۴۸، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،لاھور)٭حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کا فرمان عالیشان ہے کہ حلال کمانا جہاد ہے اور تمہارا اسے اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ تجارت سے کمایا ہوا ایک درہم دوسرے حلال ذرائع سے حاصل کیے ہوئے دس درہموں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (مسند امام زید کتاب البیوع باب: البیوع و فضل الکسب من الحلال، ص:۲۲۷ مطبوعہ دارالکتب علیمہ ، بیروت لبنان)٭حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”مَاتَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْاَلَ عَنْ اَربَعٍ، عَنْ عُمْرِہٖ فِیْمَ اَفْنَاہُ؟ وَ عَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ اَبْلَاہُ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اَکْتَسَبَہٗ، وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَاذَا عَمِلَ فِیْہِ؟“۔ ترجمہ: قیامت کے دن بندے کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوجائے، عمر کے بارے میں کہ اس نے کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کے بارے میں کہ کیسے گزاری (نیکی میں یا بدی میں)؟ اور مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟۔ (الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۰، مطبوعہ دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان)٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:”الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا حِلِّہٖ ، وَ اَنْفَقَہٗ فِیْ حَقِّہٖ اَثَابَہُ اللہُ عَلَیْہِ وَاَوْرَدَہٗ جَنَّتَہٗ“دنیا سرسبز و شاداب اور شیریں ہے، جس نے اس میں حلال ذریعہ سے مال کمایااور حق کے راستے میں خرچ کیا، تو اللہ اسے اس کا ثواب عطا فرمائے گا اور اسے جنت تک پہنچا دے گا، ”وَمَنِ اکْتَسَبَ فِیْھَا مَالًا مِنْ غَیْرِ حَلِّہٖ، وَاَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّہٖ اَحَلَّہُ اللہُ دَارَ الْھَوَانِ“اور جس نے دنیا میں مال ناجائز طریقہ سے کمایااور اس کو ناحق طریقہ سے خرچ کیا ، توا للہ تعالیٰ اسے ذلت کی جگہ تک پہنچادے گا، ”وَ رُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِیْ مَالِ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ لَہٗ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ “اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے مال کو ہتیانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہوگی﴿کُلَّمَاِخَبَتْ زِدْنَاھُمْ سَعِیْرًا﴾(الاسراء:۹۷)ترجمہ: (وہ آگ) جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے(کنزالایمان)۔ الترغیب و الترھیب کتاب البیوع، الترغیب فی طلب الحلال و الاکل منہ،ص:۳۴۸، حدیث:۲۱، مطبوعہ: دار الکتب علیمہ بیروت، لبنان )٭بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر شب آواز دیتاہے کہ جو حرام کھاتاہے اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ سنت ۔(کیمیائے سعادت)٭عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شبہے کا ایک درہم جو اس کے مالک کو واپس کردوں وہ میرے نزدیک ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص حرام کھاتاہے اس کے ساتوں اعضاء نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ نا فرمانی میں مبتلا ہونا چاہے یا نہ چاہے اور جو شخص حلال کھاتاہے اس کے اعضا نیک کام میں لگے رہتے ہیں اور اس کو خیر کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ (کیمیائے سعادت)اللہ رب العزت ہم سبھی مسلمانوں کو مذکورہ بالا احادیثِ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کے کسب اور حرام سے اجتناب کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین

تکبر و گھمنڈ کی نحوست:احادیث کی روشنی میں – – از:۔سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)

آج معاشرہ میں تکبر و گھمنڈ کی برائی عام طور پر پائی جا رہی ہے ہر سماج میں یہ ناسور بنتا جا رہا ہے اور اس برائی کی وجہ سے آپسی اتفاق و اتحاد پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ جب کہ یہ بہت ہی نا پسندیدہ و قبیح برائی ہے اس سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسلام نے بڑی تاکید سے غرور و تکبّر (گھمنڈ) کی مذمّت کی ہے۔ خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”بیشک اللہ تعالیٰ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“اس کے علاوہ قرآن مقدس میں بہت سی آیتیں ہیں جو تکبّر کی مذمّت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور حضورﷺ نے مختلف انداز میں اِس کی قباحتوں و برائییوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور انسانوں کو اس سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، نیز متکبّرین (گھمنڈیوں) کے لیے سخت ترین سزائیں بھی بتائی ہیں۔ اب ذیل میں تکبر و غرور کے متعلق کچھ ایسی حدیثیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اِس بات کا یقینی طور پر اندازہ ہو جائیگا کہ کبریائی اور بڑائی در حقیقت صرف ذات وحدہ لا شریک کے شایانِ شان ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی موت و حیات اور ہر ایک کی عزّت و ذلّت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ”اللہ ہی کے لیے بڑائی اور کِبریائی ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے“(مفہوم قرآن)اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کا بھی قطعی علم حاصل ہوگا کہ کسی انسان کے لیے ہرگز ہرگز یہ مناسب نہیں کہ وہ کبریائی اور بڑائی کا دعویدار بنے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ غرور و گھمنڈ کا رویہ اپنائے۔ اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی حقیقت کو بھول کر اللہ وحدہ لا شریک کا حریف بنتا ہے۔ اِس لیے ایسا شخص بہت بڑا مجرم ہوگا اور اُس کے لیے سخت ترین سزائیں ہوں گی ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کہ کِبریائی (بڑائی) اور عظمت میری خاص صفتیں ہیں جو مجھے ہی زیب دیتی ہیں جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا (یعنی عظمت و کبریائی اپنے لیے ثابت کرےگا) میں اُس کو آگ میں داخل کر دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”میں اُسے آگ میں پھینک دونگا” (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳) ٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائےگا (یعنی سخت ناراض ہوگا) اور نہ ہی انہیں پاک فرمائےگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ہی انہیں دیکھے گا۔ اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا فقیر مُتکبّر (گھمنڈی) (مشکوٰۃ ص: ۴۳۳)٭حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ۔ ”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ شخص جنّت میں داخل نہیں ہوگا “ (مسلم شریف ج :۱، ص:۶۵مشکوٰۃ ص:۴۳۳)٭حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا:اے لوگوں! عاجزی و انکساری اِختیار کرو کیونکہ میں نے رسولﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ”جو رضائے الٰہی کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلند فرما دیتا ہے، وہ تو خود اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نگاہوں میں بڑا ہوتا ہے۔ اور جو تکبّر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے گرا دیتا ہے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و رُسوا ہوتاہے،وہ اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن وہ لوگوں کی نگاہوں میں کتّے اور سُوّر سے بھی زیادہ ذلیل ہو جاتا ہے“۔ (مشکوٰۃ شریف ص: ۴۳۳)اب آخر میں ایک تفصیلی حدیث شریف ملاحظہ کریں جو تکبّرکی رگوں کو کاٹ ڈالنے والی ہے، اور گھمنڈ کی عمارت کو ڈھانے والی۔٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ”برا بندہ وہ ہےجو غرور (گھمنڈ) کرے اور اکڑ کر چلےاور بڑی شان والے رب کو بھول جائے۔برا بندہ وہ ہے جو ظلم و زیادتی کرے اور قہاراعلیٰ (رب) کو بھول جائے، برا بندہ وہ ہے جو غفلت سے کھیل میں لگ جائے اور قبر کو اور اُس میں سڑنے گلنے کوبھول جائے، کیا ہی برا ہے وہ بندہ جو حد سے گزرنے والا متکبّر اور سرکش ہو اور اپنی ابتدا اور انتہا (یعنی کیسے پیدا ہوا اور کہاں ٹھکانا ہوگا) کو بھول جائے، کتنا برا ہے وہ بندہ جو دین کو شبہات کے ذریعہ دھوکا دے (یعنی متّقی و پرہیز گار بن کر دیندار ظاہر کرے تاکہ لوگوں میں مقبول ہو، حالانکہ عمل خیر اللہ کے لیے ہونا چاہیے)، برا بندہ وہ بندہ ہے کہ ہوس اور لالچ اُس کو کھینچے لیے جا رہی ہے (یعنی وہ حرص و ہوس کا پابند ہو گیا ہو)، بڑا برا ہے وہ بندہ جسے خواہشات نفسانی گمراہ کرے، وہ بندہ بہت برا ہے جسے رغبتیں اور خواہشیں ذلیل کریں ۔ (ترمذی شریف ۔ مشکوٰۃ ص: ۴۳۴)تکبّر ہی وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ اُس کو جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ! تو ابلیس نے تکبّر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہوں ، کیونکہ میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے ہوئی ہے، لہٰذا اِس تکبّرانہ جواب پر اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت و ملامت کی، اور اُسے جنّت سے نکال کر جہنم اُس کا ٹھکانا کیا۔ اِس لیے انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ مردودِ بارگاہِ خدا ابلیس لعین کے نقش ِقدم پر نہ چل کر قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی اِس رزیل و ذلیل خصلت و عادت کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اترانے کے بجائے اپنے اندر انکساری و عاجزی، فروتنی و نرم خوئی پیدا کرکے ہمیشہ کے لیے اِس بری عادت سے توبہ و اِستغفار کر لیں۔یوں تو قرآن و احادیث و دیگر کتابوں میں بہت سی جگہوں پر غرور و تکبّر کی شدید مذمّت کی گئی ہے اور آخرت میں ملنے والی سزاؤں سے ڈرایا گیا ہے لیکن ہم نے صرف چند حدیثیں ہی پیش کی ہیں ۔ نہاں خانۂدل میں اگر حق و صداقت کی کچھ بھی روشنی ہوگی تو یقینًا یہی مذکورہ حدیثیں ہی عبرت کے لیے کافی ہوں گی ۔طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہدو بوند ہی بہت ہے اگر کچھ اثر کرےبارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو تکبر و گھمنڈ جیسی سبھی بیماریوں و برائیوں سے بچنے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !

قوم بے حس ترے کردار پہ رونا آیا—از:- محمد کہف الوری مصباحی

فضول باتیں کرو نہ ہم سے ہمارا بھیجا پکا ہوا ہے

سوال بے جا کی سوزشوں سے دماغ میرا تپا ہوا ہے

جہالتوں کی ہے مارا ماری علوم سے اب کسے ہے یاری

جدھر بھی دیکھو گلی گلی میں فتن کا میلہ لگا ہوا ہے

مخالفت کے شرارے دل میں موافقت کے ڈھکوسلے ہیں

لباس رہبر میں آج رہزن سماج سیوک بنا ہوا ہے

بہار تنقید کی جوانی پہ بوکھلوں نے ہے پھیرا پانی

پڑھا تھا جن سے’الف’ ‘با’ ‘عم’ انہیں کا ابا بنا ہوا ہے

بڑا مہذب خلیق اعظم سخن چیں یوں کہ فدا ہو عالم

زباں پہ اللہ چھری بغل میں کسے خبر یہ بکا ہوا ہے

زبانی دعوائے اعتدالی لبوں پہ ان کے حسین گالی

کسے بتائیں ہم ان کے نخرے گلے پہ چاقو دھرا ہوا ہے

بتائے سب کو بڑا فسادی کسی کو حاسد کھلا عنادی

صلاح دیتا ہے سب کو علمی جہل کا امرت پیا ہوا ہے

زنانی زلفیں گھنیراسرمہ ولی کی صف میں کھڑا بے دھرما

دھرم کو سنکٹ ہوا ہے جس سے وہی تو اگوا بنا ہوا ہے

شرافتوں کے ہیں جبے قبے زباں پہ سیٹھوں کے لمبے خطبے

شرارتوں کا وہ ہے مجسم شریف لیبل لگا ہوا ہے

ملی جو پیری جناب والا خزانوں کا کھل گیا ہے تالا

بنا کے چیلہ امیروں کو خود مرید ان کا بنا ہوا ہے

موالی غنڈوں کا بھی ہے دادا مرید کم ہیں مریدہ زیادہ

کسی نے مانگا نہ منہ سے پانی مرا جو اس کا ڈسا ہوا ہے

خلافت ان کی سراپا آفت سراپا ان کا سراپا زحمت

فریب کو وہ کہے کرامت خرافتوں میں گھرا ہوا ہے

بنا مدرسوں کا ناظم الہڑ نظام گھٹیا پڑھائی گڑ بڑ

خبر نہیں ہے مدرسوں کی صدر مدرس بنا ہوا ہے

حکیم ہے حکمتوں سے خالی دوائیں اس کی بڑی نرالی

کھرل میں کوٹے وہ گھاس بھوساکہے یہ نسخہ جچا ہوا ہے

ہمہ کارہا کے حوصلے ہیں فقط دکھاوے کے چونچلے ہیں

ترقی ان کی ثری میں پہنچی بلند پرچم کیا ہوا ہے

ہر ایک شعبے میں ہے ملاوٹ اندھیر نگری ہے راج چوپٹ

ہر ایک ٹیچر پھٹیچروں کے ستم کا دھندا بنا ہوا ہے

بہت نا ہانکو تعلی ازہر کہانی تیری ہے سب کو ازبر

ذرا سا تاکو تم اپنے اندر گریباں تیرا پھٹا ہوا ہے

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپال

موبائل نمبر:-9779814516787+

حضرت شیر اہل سنت کے ساٹھ سالہ یوم ولادت کے پر مسرت موقع پر سید خادم رسول عینی ناظم نشر و اشاعت خانقاہ قدوسیہ کی جانب سے عظیم منظوم پیش کش ——

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

رسول ہاشمی کی آل کا یوم ولادت ہے

مبارک ہو بلند اقبال کا یوم ولادت ہے

ہے جس کی زندگانی پر ہمیشہ غوث کا سایہ

اک ایسے عاشق ابدال کا یوم ولادت ہے

غریبوں بے سہاروں کا رہا حامی جو بچپن سے

اک ایسے ماحیء اشکال کا یوم ولادت ہے

نہیں لاتا ہے جو خاطر میں غم کو اور حوادث کو

مبارک ہو کہ اس خوش حال کا یوم ولادت ہے

بنائی خانقاہ خیر جس نے خوب محنت سے

اک ایسے صاحب افعال کا یوم ولادت ہے

بھلائی کی بقا کے واسطے آواز اٹھائی ہے

ہے نازک جس سے شر کا حال کا یوم ولادت ہے

وہ جس کے قول پر دانائی کو ہے فخر اے عینی

خوشا کہ ایسے خوش اقوال کا یوم ولادت ہے

صوفی اور تصوف۔۔از: سید خادم رسول عینی


صوفی اور تصوف – – – – – – – –

صوفی کی عظمت کا اعتراف زمانہ کرتا ہوا آیا ہے ۔تصوف کے حامل کو صوفی کہتے ہیں ۔تصوف کسے کہا جاتا ہے ؟ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔

صوفی وہ ہے جو نفس کی آفتوں اور اس کی برائیوں سے دور رہتا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو ہدایت کے نیک راستے پر چلتا رہتا ہے۔ صوفی وہ ہے جو حقائق کو گرفت میں لیے ہوتا ہے۔صوفی وہ ہے جو راہ سلوک کو طے کر چکا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو مقصود حقیقی کو پاچکا ہے۔مسلسل ریاضت کے ذریعہ صوفی کا نفس شکستہ ہوجاتا ہے۔اس کی دنیاوی خواہشات زائل ہوجاتی ہیں ۔اس کی دنیاوی آرزوئیں اور تمنائیں نابود ہو جاتی ہیں۔صوفی اپنے نفس کو مجاہدہ اور ریاضت میں لگادےتا ہے۔صوفی جو کام کرتا ہے وہ آخرت کی غرض سے کرتا ہے۔صوفی نوافل کے ذریعہ قرب حق حاصل کرتا ہے اور وہ خدا کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے۔ صوفی اپنی زندگی میں خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

جب بات صوفیت کی آتی ہے تو ہمارے ذہن میں جن کا نام فوری طور پر یاد آتا ہے وہ ہیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ۔ آپ ہندوستان عطائے رسول بن کر تشریف لائے اور جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے خلائق کا دل جیت لیا۔ آپ کے کردار، آپ کے حسن اخلاق، آپ کی کرامات سے متاثر ہو کر غیر مسلم نہ صرف آپ کے شیدا ہوگئے بلکہ ایمان سے سرفراز بھی ہوئے۔

جب حاسد حکمرانوں نے خواجہ کے استعمال کے لئے پانی بند کردیا تو آپ نے اپنی کرامت کے ذریعہ سارے دریا کے پانی کو ایک کوزے میں بھر دیا۔پھر جب خیال آیا کہ مخلوق خدا کو پانی کی قلت کی وجہ سے پریشانی ہوگی تو آپ نے کوزے کے پانی کو حکم دیا اور آپ کے حکم سے کوزے کا پانی دریا میں چلاگیا اور دریا پھر سے پانی سے لبالب ہوگیا۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کا کردار، ایک صوفی ء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

جب کسی جوگی نے خواجہ کو ہوا میں اڑنے کا چیلینج دیا تو آپ نے اپنی کھڑاؤں کو ہوا میں اڑنے کا حکم دیا اور کھڑاؤں حکم خواجہ کی تعمیل کرتے ہوئے آسمان میں اڑی اور اس نے جوگی کو واپس خواجہ کے قدموں پہ لا کھڑا کیا۔یہ کرامت دیکھ کر جب جوگی ایمان لایا تو خواجہ نے اسے اپنے گلے لگا لیا ، اس کی غلطیوں کو معاف کردیا اور اسے اپنی خانقاہ میں جگہ دی۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کی شان ، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء ایثار۔

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ کام آتی ہیں شمشیریں

جب مفتیء اعظم اڑیسہ کے جد اعلیٰ ، حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے اپنے قرب و جوار میں مخلوق خدا کو پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے عصا کو زمین پر مارا اور صاف و شفاف پانی کا چشمہ ابلوایا جس سے مخلوق خدا کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی میسر آیا ۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کا کردار اور ایک صوفی ء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی ‌نے کیا خوب فرمایا ہے:

بہر تشنہ لب عصا سے کردیا چشمہ رواں
دہر نے یہ فیض دیکھا سید السادات کا

جب حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے یہ محسوس کیا کہ مخلوق خدا کو دھوپ میں آرام کے لیے اور ماحولیات کی بہتری کے لیے ایک وسیع و عریض درخت کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنی مسواک کو زمین میں پیوست کیا اور اچانک اس سے زمین میں ایک وسیع و عریض درخت نمودار ہوگیا جس سے مخلوق خدا کو دھوپ اور کثافت و آلودگی سے راحت ملی۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کی شان اور ایک صوفیء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی نے کیا خوب شعر کہا ہے :

گاڑ دی مسواک دھرتی پر ، شجر وہ بن گئی
خرق عادت ہے یہ کس کا سید السادات کا

میں نے اپنی آنکھوں سے پیر و مرشد حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کو دیکھا ہے ، آپ کے روز و شب کا مشاہدہ کیا ہے، آپ کے انسانیت نما کردار کا ملاحظہ کیا ہے ۔مجاہد ملت کا جب انتقال ہوا اس وقت میں اسکول میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔
مجاہد ملت کے جنازہ / وصال کے دوسرے دن جب میں اسکول گیا تو کلاس میں ایک عجیب و غریب چیز کا میں نے مشاہدہ کیا۔ ہمارے کلاس ٹیچر ایک غیر مسلم دھام نگری تھے۔ وہ خود مجاہد ملت کی داستان سنانے لگے اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ یہ بولنے لگے کہ ان کی پڑھائی کے لیے اخراجات مجاہد ملت برداشت کرتے تھے ۔اور انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صرف ان کی نہیں بلکہ دھامنگر کے کئی غیر مسلم غرباء کی مالی امداد مجاہد ملت کرتے تھے ۔ افسوس کہ اب مجاہد ملت کا انتقال ہوگیا ! “

یہ ہے ایک مومن کا کردار، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

کسی شاعر نے منقبت در شان حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ میں کیا خوب کہا ہے:

پیار یکساں کیا چھوٹا ہو یا بڑا
اس خلوص و محبت پہ لاکھوں سلام

افسوس کا مقام ہے کہ آج صوفیوں کو دہشت گرد سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ صوفیوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جب کہ صوفیوں نے ملک عزیز میں اخوت کے پیڑ اگائے، محبتوں کے چراغ روشن کیے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ نظام الدین اولیاء ، سیدنا شاہ دریا علیہم الرحمہ سے لےکر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ تک سارے صوفیائے کرام کی تاریخ کے ابواب شاہد ہیں کہ آپ کی زندگی کے لمحات خدمت خلق میں گزرے تھے۔

تو پھر کوئی صوفی ازم کو دہشت گردی سے کیسے جوڑ سکتا ہے ؟

جہاں تک غیر مسلم سے مسلم بننے کا معاملہ ہے تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم ، مومنوں کے اخلاق و کردار اور اولیاے کرام کی کرامات کے نور کو دیکھ کر ایمان لائے، نہ کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک کو نکال کر درست تاریخ کا مطالعہ کریں۔اڑیسہ کے سابق گورنر ڈاکٹر بشسمبر ناتھ پانڈے نے اپنی کتابوں ( اسلام اینڈ انڈین کلچر ، اورنگ زیب) میں مدلل ثابت کیا ہے کہ مسلم دور حکومت میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا ۔ ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک ، اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ ء میں ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے کا اسپیچ سنا تھا ۔انھوں نے اپنی لمبی گفتگو میں یہ ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں بھی زبردستی تبدیلیء مذہب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی غیر مسلم پلیس آف ورشپ کو مسمار کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے نے اورنگ زیب عالمگیر کی تعریف میں پل باندھ دیے تھے اور انہوں نے اورنگ زیب کو ایک سچا مسلمان اور ایک صوفی بزرگ سے تعبیر کیا ۔

پھر بھی صوفی ازم کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے ، تعجب ہے۔

٢٠١٦ میں دہلی کے صوفی کانفرنس میں وزیر اعظم ہند
نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں اپنے اسپیچ کے دوران انھوں نے کہا تھا:

“تصوف کراہتی انسانیت کو سکون دے سکتا ہے۔
تصوف کے نزدیک خدا کی خدمت کا مطلب انسانیت کی خدمت ہے۔
بلھے شاہ کی تعلیمات آج کے دور میں زیادہ ضروری ہوگئی ہیں اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔تصوف امن ، بقائے باہم ، ہمدردی اور مساوات کی آواز ہے۔
ہمیں تصوف کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ہوگا جو اسلام کے اصولوں اور اعلی انسانی اقدار کی بات کرتا ہے۔”

پھر بھی آپ کہیں گے کہ صوفی ازم آتنک باد ہے؟

“صوفی ازم آتنک باد ہے ” یہ جملہ کذب پر مبنی ہے۔

صوفی ازم اسلام کی روحانی اصطلاح ہے ۔
صوفی ازم امن پسند اسلام کا آئینہ دار ہے ۔
صوفی ازم اپنے اندرونی خود کو پاکیزہ کرنے کا نام ہے ۔
صوفی ازم ضبط نفس/تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
خالق سے قربت حاصل کرنے کے طریقے کو صوفی ازم کہا جاتا ہے۔
صوفی ازم وہ ہے جس سے سلسلہ قادریہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ وغیرہ جڑے ہویے ہیں ۔
صوفی ازم محبت اور اخوت کا پیغام ہے ۔

دہشت گردی سے تصوف جیسی مقدس طریق کا کوئی واسطہ نہیں ۔

نعت محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کے روضے کی دید پائی ہے

بدلی خوش قسمتی کی چھائی ہے

میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر

“جان عیسیٰ تری دہائی ہے”

فخر کرتے نہیں نبی ، گرچہ

منسلک ان سے ہر بڑائی ہے

لائے تشریف جان امن‌ و اماں

اب کہاں ظلم کی رہائی ہے؟

اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں

کس قدر عام بے حیائی ہے

یا نبی کیجیے کرم کی سحر

رات پھر زندگی میں آئی ہے

ان کی یادوں میں رہتا ہوں مسرور

اک عجب لذت جدائی ہے

یہ ہے دربار شاہ ، اور یہاں

بھید بھاؤ کی کب رسائی ہے؟

نور سے ہوگئی فضا معمور

نعت ” عینی ” نے جب سنائی ہے

از: سید خادم رسول عینی